سابق وزیراعظم ہند اٹل بہاری واجپائی کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-17

سابق وزیراعظم ہند اٹل بہاری واجپائی کا انتقال

former-india-PM-atal-bihari-vajpayee
ہندوستان کے قد آور سیاسی رہنماؤں میں شمار ہونے والے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کا طویل علالت کے بعد جمعرات 16/اگست کی شام 5 بجے دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) میں انتقال ہو گیا۔ وہ 93 سال کے تھے (پ: 25/دسمبر 1924 ، گوالیار، راجستھان)۔ اسپتال کی بلیٹن کے مطابق گذشتہ 9 ہفتوں کے دوران واجپائی کی حالت مستحکم تھی تاہم گذشتہ 36 گھنٹوں کے دوران ان کی حالت بگڑ گئی تھی اور انہیں مصنوعی آلہ تنفس پر رکھا گیا تھا۔ انہیں گذشتہ 11 جون کو گردہ اور پیشاب کی نالی میں انفیکشن اور سینہ میں دباؤ کے سبب اسپتال میں شریک کرایا گیا تھا۔ وہ ذیابیطس کے مریض تھے اور ان کا صرف ایک گردہ کام کر رہا تھا۔ 2009 میں ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا اور ان کے حواس خمسہ کمزور ہو گئے تھے، بعدازاں وہ بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے۔
واجپائی کے انتقال پر مرکزی حکومت نے سات دن کے سرکاری سوگ کا اعلان کیا ہے اور اس دوران تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم نصف بلندی پر لہرایا جائے گا۔ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند، نائب صدر جمہوریہ ایم وینکیا نائیڈو، وزیر اعظم نریندر مودی، سابق صدر جمہوریہ پرنب مکرجی، سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ ، صدر کانگریس راہول گاندھی اور مختلف شعبہ حیات کی اہم شخصیات نے اٹل بہاری واجپائی کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔

اٹل بہاری واجپائی کے انتقال کے ساتھ ہی ہندوستانی سیاست کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ انہیں بی جے پی کا اعتدال پسند چہرہ سمجھا جاتا تھا۔ واجپائی بی جے پی کے کرشماتی قائدین میں شمار کئے جاتے تھے اور وہ ملک کے پہلے غیر کانگریسی سیاستداں تھے جنہوں نے بحیثیت وزیر اعظم پانچ سالہ میعاد مکمل کی تھی۔ ان کا شمار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بانیان میں ہوتا ہے۔ واجپائی نے دور طالب علمی میں ہی آر ایس ایس کے بانی کیشوراؤ ہیگواڑ کے ساتھ ربط میں آتے ہوئے سیاسی میدان میں قدم رکھا تھا۔ بعدازاں وہ آر ایس ایس کے سوئم سیوک بنے۔ 16 مئی 1996 کو انہوں نے پہلی مرتبہ وزیراعظم کے عہدہ کا حلف لیا تھا، تاہم واجپائی کو صرف 13 دن کے بعد مستعفی ہونا پڑا۔ 27 مئی 1996کو لوک سبھا میں مباحث کے دوران کئے گئے وعدہ کے مطابق واجپائی 19 مارچ 1998 کو دوبارہ اس باوقار عہدہ پر فائز رہے اور مئی 2004 تک برقرار رہے۔ واجپائی ایک ذہین مقرر و شاعر بھی تھے اور بہترین حس مزاح رکھتے تھے۔ واجپائی نے شادی نہیں کی تھی۔ پسماندگان میں ان کی متبنہ دختر نمیتا کول بھٹاچاریہ شامل ہیں۔

صدرجمہوریہ نے ٹویٹر پیام میں کہا کہ اٹل بہاری واجپائی کی قیادت، بصیرت، بالغ النظری اور فصاحت نے انہیں انتہائی خلیق و بامروت (سیاستدانوں) کی خود اپنی بنائی ہوئی لیگ میں شامل کیا تھا۔ ہر شخص ان کی کمی محسوس کرے گا۔
مودی نے ٹویٹر پر اپنے پیام میں کہا کہ اٹل جی کا انتقال میرے لئے شخصی اور ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اٹل جی کی مستقل مزاجی اور جدوجہد کے سبب ہی بی جے پی کی بتدریج تعمیر عمل میں آئی۔ ایک اور علیحدہ اطلاع کے بموجب وزیراعظم نے کہا کہ واجپائی جی کے انتقال سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ انہوں نے ملک کے لئے اپنی زندگی وقف کردی تھی اور کئی دہوں تک مستقل مزاجی کے ساتھ اس کی بے لوث خدمت کی۔ اٹل جی کی بے مثال قیادت میں 21 ویں صدی میں خوشحال و شمولیاتی ہندوستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
راج ناتھ سنگھ نے اپنے پیغام میں کہا کہ واجپائی کے انتقال سے ملک ایک مدبر سے محروم ہو گیا ہے جنہوں نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جہاں تمام شہری مل کر امن و ہم آہنگی سے رہتے ہوں۔
2014 میں جب مودی حکومت کی جانب سے واجپائی کو ملک کا اعلیٰ ترین سیویلین ایوارڈ 'بھارت رتن' دینے کا اعلان کیا گیا تو، بی جے پی کے بانیوں میں شامل ایل کے اڈوانی نے کہا تھا کہ مجھ میں اور واجپائی جی میں ایک بڑا فرق ان کی حس مزاح ہے۔ اس کی وجہ سے مجھے ہمیشہ کمتری کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے سامنے میں ایک روکھا سوکھا آدمی رہا۔
واجپائی کے دیرینہ مددگار اور کابینی رفیق ایم ایم جوشی نے پرنم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ ان کی موت (کا صدمہ) طویل عرصہ تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔

Former India prime minister Atal Bihari Vajpayee dies at 93

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں