لینن گراڈ یونیورسٹی - جگن ناتھ آزاد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-29

لینن گراڈ یونیورسٹی - جگن ناتھ آزاد

Pushkin_Leningrad_State_University
صبح کو جاگا تو بھی بارش ہو رہی تھی، الیگزینڈر کو فون کیا۔ پتا چلا یونیورسٹی میں پروگرام گیارہ بجے ہے۔ تیار ہو کے ساڑھے دس بجے نیچے اترے اور گیارہ بجے تک یونیورسٹی جا پہنچے۔ یہاں ہماری منزل مقصود انڈین فائلالوجی کا شعبہ تھا ۔ سب سے پہلے سنسکرت کے لیکچرر روی ارمین سے ملاقات ہوئی ۔ بنگالی بھی یہی پڑھاتے ہیں، ان کی کلاس میں تین طالبات تھیں جو بنگالی پڑھ رہی تھیں ۔ دیواروں پر گاندھی ، ٹیگور اور پریم چند کی تصویریں آویزاں تھیں ۔ ہندوستان کا ایک نقشہ بھی تھا جو ہندی میں تھا۔
وہاں سے اسی شعبے کے ایک اور کمرے میں آئے جہاں میرا لیکچر ہونا تھا۔ یہاں پروفیسر ٹی۔ ای۔ کیٹیننیا نے السلام علیکم کہہ کر میرا استقبال کیا ۔ میں نے جواب میں وعلیکم السلام کہا۔
میرا خیال تھاکہ عربی پڑھاتی ہوں گی لیکن پتا چلا کہ اردو، ہندی، سنسکرت اور مراٹھی پڑھاتی ہیں۔ میں نے یہاں انہی کی صدارت میں
Ghalib As A Precise writer (غالب بحیثیت نثر نگار)
کے عنوان سے اپنا مقالہ پڑھا۔ مقالے کے خاتمے پر کیٹیننیا نے حاضرین کو بتایا کہ یہ بالکل ہی پشکن کا سا معاملہ ہے ۔ پشکن کی بھی نثر پر اس کی شاعری حاوی ہو گئی ہے اور بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پشکن ایک اعلی پائے کا نثر نگار بھی تھا۔
مقالے کے بعد کلام کی فرمائش ہوئی میں نے اپنی تازہ ترین نظم، 'لیٹوویا میں ایک دن' جو ایک رات قبل کہی تھی، پڑھی۔ نظم پڑھنے کے بعد میں نے اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا ۔
تین بجے اورنٹییل فیکلٹی کی اکیڈیمی آف سائنسز میں جانے کا پروگرام تھا ۔ اورینٹیل فیکلٹی کے ماسکو میں بھی، ریگا میں بھی اور یہاں بھی، دو حصے ہیں۔ وہ شعبہ جس میں طلبہ کو ان زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے، اکیڈیمی آف آرٹس کہلاتا ہے اور جس شعبے میں تحقیق ، ترجمے اور ترتیب متن کا کام انجام پاتا ہے اکیڈیمی آف سائنسز کہلاتا ہے۔ غالباً روس کی ہر یونیورسٹی میں ایسا ہی ہوگا۔ مجھے یہ بات پسند آئی کہ تحقیق، ترجمے اور ترتیب متن کے کام کو درس و تدریس سے علاحدہ رکھا گیا ہے ۔
یہاں پروفیسر زوگراف سے ملاقات ہوئی جو اردو، فارسی، عربی، سنسکرت ، انگریزی اور ڈوگری بخوبی جانتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ غیر ملکی زبانوں میں سے "اردو" ان کی محبوب ترین زبان ہے۔ انہوں نے اردو میں پی ایچ ڈی بھی کی ہے اور ان کے تھیسس کا عنوان تھا "انیسویں صدی کے شروع میں اردو نثر"۔ میرامن کی"باغ و بہار" کا انہوں نے روسی میں ترجمہ کیا ہے جس کے دو ایڈیشن چھپ چکے ہیں ۔ ایک 1957ء میں چھپا اور دوسرا 1962ء میں۔ امراؤ جان ادا کا بھی آپ نے روسی ترجمہ کیا ہے ۔ زوگراف نے بتایا کہ خوشونت سنگھ کا انگریزی ترجمہ امراؤ جان ادا کا بہت بعد میں چھپا۔

"اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی کے ابتدائی دور کی ہندوستانی" ان کی روسی میں ایک تصنیف ہے، ایک اور کتاب کا نام ہے:
REFERENCE BOOK ON THE LANGUAGES OF INDIA, PAKISTAN, CEYLONE AND NEPAL
پانچ برس کی لگاتار محنت سے انہوں نے ہندی روسی ڈکشنری مرتب کی جو دو ضخیم جلدوں میں 1972ء میں چھپی۔ ان کی جدید ترین کتاب
A COMPARATIVE STUDY OF INDO-ARYAN LANGUAGES
ہے جو 1976ء میں چھپی اور جس میں انہوں نے ان زبانوں کی آپس میں مماثلت اور عدم مماثلت پر روشنی ڈالی ہے ۔
زو گراف نے بتایا کہ کرشن چندر کی کہانیوں کے چار مجموعوں کا اور ایک ناول "شکست" کا روسی میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔
دراصل اپنے کاموں کے بارے میں پروفیسر زوگراف نے بہت بعد میں بتایا، جب میں نے اصرار کیا ۔ پہلے تو وہ اکیڈیمی آف سائنسنز کے کاموں اور اپنے رفقائے کار کے متعلق بتاتے رہے ۔ اکیڈیمی کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اکیڈیمی کا کام زیادہ تر ہندوستان کے قرون وسطی اور زمانہ قدیم کی تہذیب سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس وقت جو سب سے اہم کام اکیڈیمی کے ہاتھ میں ہے وہ مہابھارت کا روسی ترجمہ ہے جس کی ابتداء دوسری جنگ عظیم سے پہلے ہوئی اور جس کی اس وقت تک پہلی، دوسری، چوتھی اور پانچویں جلد چھپ چکی ہے ۔ تیسری جلد چھپ رہی ہے۔

ڈاکٹر ویسلکوو ہندوستانی رزمیہ کی تاریخ اور شعریات پر تحقیقی کام کر رہے ہیں ۔ قدیم ہندوستانی دیومالا ان کا موضوع ہے۔ ان کے تھیسس کا موضوع تھا "مہابھارت اور رزمیہ کی سینہ بہ سینہ روایت"
رامائن اور بھاگوت پُران پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اسی ضمن میں ڈاکٹر زوگراف نے 576 صفحات پر مشتمل بڑی تقطیع کی ایک کتاب دکھائی جو ان تین ابواب پر مشتمل تھی: رام کی کہانی ، کرشن کی کہانی اور بھاگوت پُران۔ کتاب پر تعداد اشاعت نوے ہزار لکھی تھی۔

کتابیں روس میں جس تعداد میں چھپتی ہیں وہ ہمارے لئے انتہائی حیرت و استعجاب کا باعث ہے ۔ ابھی چند روز قبل جب میں تالستائی کی ایک سو پچاسویں سالگرہ کے سلسلے میں یاسنا پالیانا میں تھا تو پتا چلا کہ تالستائی کی تمام تصانیف بائیس مجموعوں کی صورت میں ایک ایک کروڑ کی تعداد میں چھپ رہی ہیں۔ ابھی یہ مجموعے مطبعے سے باہر نہیں آئے لیکن تمام جلدیں ۔۔ بائیس کروڑ کی تعداد میں ۔۔۔ فروخت ہو چکی ہیں۔ مجھے وہاں اکثر ملنے والوں نے بتایا کہ وہ یہ کتابیں خریدنا چاہتے ہیں لیکن کتابیں بازار میں آہی نہیں سکیں گی۔ خریدیں کیسے؟

پروفیسر زوگراف نے ڈاکٹر روڈوئی سے ملوایا جو بدھ فلسفے پر کام کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر روڈوئی بھی پروفیسر زوگراف کی طرح اردو بہت اچھی جانتے ہیں۔ آپ اس وقت بدھ دھرم کی کتاب "ادی دھرم کوش" پر کام کر رہے ہیں۔"ادی دھرم کوش" کا تبتی اور چینی ترجمہ موجود تھا۔ اصل کتاب نایاب ہو گئی تھی ۔ لیکن اب جیسوال بدھسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پٹنہ کی کوششوں سے دست یاب ہو گئی ہے ۔ اسی نسخے کی ایک نقل ڈاکٹر روڈوئی کے پاس ہے ۔
ڈاکٹر اندرے پری بک پالی زبان پر کام کر رہی ہیں ۔ اور پالی کی مشہور فلسفے کی کتاب"ملند پنہا" کا روسی میں ترجمہ کر رہی ہیں۔
"مہا بھارت" کے بارے میں ایک بات میں بتانا بھول گیا کہ ڈاکٹر نیوی لینا نے بھی مہابھارت پر مبنی دو کتابیں لکھی ہیں۔ ایک کا نام ہے "قدیم ہندوستانی رزمیوں میں دیو مالائی تصورات" اور دوسری کا نام ہے "مہابھارت میں تشبیہیں اور استعارے"۔
اس اثنا میں سامنے کی میز سے ایک لڑکی اٹھی اور ا س نے چائے بنا کے چار پیالیاں ہمارے سامنے رکھ دیں۔ الیگزینڈر بھی ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ ایک اور روسی ادیب بھی جو اردو بہت اچھی بول رہے تھے ۔ بدقسمتی سے ان کا نام میں بھول گیا ہوں۔ یہ پاکستان میں دو برس رہ چکے ہیں ۔ اور وہاں انٹرپریٹر کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ اس لڑکی کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر زوگراف نے بتایا کہ یہ ڈاکٹر غفوردوا ہیں اور کبیر کی شاعری پر کام کر رہی ہیں ۔ انہوں نے کبیر کے ان دوہوں پر جو ادی گرو گرنتھ صاحب میں ہیں، کتاب لکھی ہے۔ اور اس وقت یہ کبیر کے متعلق ان حوالوں پر کام کر رہی ہیں جو دادو پنتھی میں آئے ہیں۔
غفورودا کے نام پر میں چونکا اور کہا کہ قریب قریب اسی نام کے ایک روسی ادیب کو میں جانتا ہوں ۔ بلکہ وہ میرے دوست تھے۔ مرحوم بابا جان غفوروف، ہر نوروز پر وہ مجھے نئے سال کا کارڈ بھیجتے تھے۔ دہلی میں ان سے میری ملاقات بھی ہو چکی ہے ۔
زوگراف بولے: یہ انہی کی بیٹی ہیں۔
میں دوبارہ کھڑا ہوا اور پہلے سے کہیں زیادہ احترام کے ساتھ ان سے ملا۔ میں نے کہا کہ ہندوستان میں شاید ہی کوئی مصنف یا اہل قلم ایسا ہو جو بابا جان غفوروف کے نام سے آشنا نہ ہو۔ بڑے ادیبوں کی اولاد سے مل کر بھی ایک ناقابل بیان مسرت ہوتی ہے۔ اس ملاقات کے ساتھ ہی مجھے لاہور میں جاوید اور منیرہ سے ملاقات یاد آ گئی اور بالخصوص جب اولاد خود اونچے پائے کی اہل قلم ہو تو کیا ہی کہنا ۔ جاوید اقبال اور غفورروا اسی بلند پایہ اہل قلم اولاد کے ذیل میں آتے ہیں۔
ایک اور اہل قلم جو اسی ادارے میں کام کر رہے ہیں ڈاکٹر کزنیٹسوو ہیں جو مراٹھی کے عالم ہیں اور روسی میں مراٹھی اسماء پر ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔ ان کی دوسری کتاب "مراٹھی ادب کی تاریخ" ہے۔ اس وقت مراٹھی مصنف گیان دیو کی کتاب "گیانیشوری" کا ترجمہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر زوگراف نے بتایا کہ یہ کتاب بھگوت گیتا کا مراٹھی روپ ہے ۔

مس چزی کووا بنگالی زبان اور ادب پر کام کر رہی ہیں۔ بنگالی زبان پر کتابیات کے متعلق روسی میں ایک کتاب شائع ہو چکی ہے ۔ ایک کتاب ان کی بنگالی گرامر کے متعلق بھی شائع ہو چکی ہے ۔
رام، کرشن، اور بھاگوت پُران کے متعلق ایک کتاب کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں ۔ یہ کتاب ڈاکٹر چامکن اور پروفیسر ارمین کی مشترکہ تالیف ہے ۔ ڈاکٹر چامکن ایک کتاب ہندوستانی دیومالا پر لکھ چکے ہیں۔ اس کا عنوان ہے "قدیم ہندوستانی دیو مالا"۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ یونیورسٹی کی اردو کی استانی تاسیانا، جن کے ساتھ ایک دن قبل سوویٹ رائٹرز یونین کے دفتر میں میری ملاقات ہوچکی تھی، اردو کے ایک طالب علم اور ایک طالبہ کو لے کر وہاں آ پہنچیں۔ طالب علم نے اپنا نام دمیتری بتایا اور طالبہ نے ایرینا۔ دمیتری اردو صحافت پر کام کر رہا تھا۔ اس کے مقالے کا موضوع تھا "انگریزی صحافت کا اثر اردو صحافت پر" اور ایرینا کا موضوع تھا : "اقبال : زندگی اور شاعری"۔ میری "کتاب اقبال اور اس کا عہد" تاسیانا تک پہنچ چکی تھی ۔ میں نے ایرینا سے کہا، اقبال پر میری کتابوں میں سے ایک کا عنوان ہے "اقبال: زندگی، شخصیت اور شاعری" ، میں یہ کتاب تمہیں بھیجوں گا۔ شاید یہ تمہارے کام کی ہو۔

اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔ میں نے پروفیسر زوگراف اور دوسرے تمام حضرات کا شکریہ ادا کیا اور اجازت طلب ہوا۔
تاسیانا، ایرینا اور دیمیتری مجھے باہر گاڑی تک پہنچانے آئے، میں گاڑی میں بیٹھا تو انہوں نے ہندوستانی طریقے سے مجھے نمستے کہہ کر الوداع کہی۔
ہوٹل پہنچ کے میں نے سامان سمیٹا کیوں کہ رات کی گاڑی سے واپس ماسکو روانہ ہونا تھا۔

ماخوذ از کتاب:
پشکن کے دیس میں (سفرنامہ روس)
مصنف : جگن ناتھ آزاد

Pushkin Leningrad State University. Article: Jagan Nath Azad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں