میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:16 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-28

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:16


چائے کے بعد جناب صدر نے کہا:
"حضرات! اس ناخوش گوار واقعے کا مجھے افسوس ہے ۔ میں خود کو آپ کے احساسات و جذبات کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے جلسے کی کارروائی کا آغاز کرتا ہوں ۔ اور دعوت دیتا ہوں کہ اس اہم موضوع پر اظہار خیال کریں ۔ آپ کا فیصلہ ریاست کے لئے نہیں بلکہ سارے ملک کے لئے مشعل راہ ہوگا۔"
نواب صاحب بڑے ہی جوش کے ساتھ اپنی کرسی کو پیچھے دھکیل کر اٹھ کھڑے ہوئے ، اٹھتے ہی میز پر ہاتھ رکھا اور اپنے جسم کا سارا بوجھ اپنے ہاتھوں پر ڈالتے ہوئے بولے:
"جناب صدر! آج کے ناخوشگوار واقعے کا مجھے بھی افسوس ہے۔ لیکن آپ نے جس خوبی سے اس کے نفسِ مضمون پر اظہار خیال کیا وہ آپ کے تدبر کی نشان دہی کرتا ہے ۔"
ایک ثائیے کے توقف کے بعد حاضرین پر نظر ڈالتے ہوئے نواب نے کہا:
"میں چاہتا ہوں کہ ہمارے کسی معزز رکن کے دل میں یہ خلش نہ رہے کہ بحث ادھوری رہ گئی ۔ میں اس سلسلے کو جوڑتے ہوئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ گنگا جمنی تہذیب اصل میں اردو تہذیب ہے ۔ میں یہ نہیں چاہوں گا اور میری طرح کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ اردو کے مسئلے کو گلی کوچوں اور سڑکوں پر لے آئے اور بازاروں میں اس کا حل نکالے ۔ ہم اپنی زبان کا احترام کرنا جانتے ہیں ۔ اور کوئی شخص یا گروہ یا طبقہ اردو کو بازار میں لانے کی کوشش کرے تو وہ ہمارا اور ہماری زبان کا دشمن ہے ۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہماری زبان اتنی گئی گزری ہے کہ ہم اسے سڑکوں پر اٹھالائیں ، کیا ہم اپنے بزرگوں کی اور اپنی عزت کو بازار میں نیلام کریں گے ؟ میں آپ سب سے پوچھ رہا ہوں !"
"نہیں۔۔۔ نہیں !!!! "
ایک ساتھ کئی آوازیں آئیں۔
نواب صاحب نے خوش ہوکر کہا:
"عزیزو! آپ نے میرے خیال کی تائید کر کے مجھے ایک نیا حوصلہ عطا کیا ہے ۔ اب میں مطمئن ہوں اور جناب صدر کا شکر گزار کہ انہوں نے آپ سے مخاطب ہونے کا مجھے موقع عطا کیا !!"
اس کے بعد صدر عالی قدر نے فرمایا کہ کبھی کبھی برائی سے بھی بھلائی نکل آتی ہے۔ اس بار جو بھی ہوا اچھا ہوا۔ نواب صاحب او ر آپ سب کے شدید جذبات سے یہ بات تو خود بہ خود طے ہوگئی کہ ہمیں سڑکوں پر جانا نہیں ہے اور نہ کسی فیکٹری کے مزدوروں کی طرح اچھل کود کرنی ہے ۔ ہم جمہوری چوکھٹے میں رہ کر اپنی لڑائی کو جاری رکھیں گے اور تہذیب و شائستگی کے دامن کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے ۔
اس تقریر پر بڑی دیر تک تالیاں بجتی رہیں اور بعض نے میز کو تھپتھپا کر داد دی!
"۔۔۔ لیکن!"
جناب صدر ایک ثانیے کے لئے رک گئے ۔ اور بولے کہ :
"ہم سب کو متحدہ طور پر اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ اردو کو تعلیمی میدان میں اور نظم و نسق میں اس کو اس کا جائز مقام دلائیں۔ لیکن۔۔۔۔ "
"لیکن کیا؟" نواب صاحب نے حیرت سے منہ کھولتے ہوئے پوچھا۔
"لیکن۔۔۔۔۔"
جناب صدر نے آہستہ آہستہ اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ:
"ہم کو اردو عوام تک پہنچنا ہے ۔ اور ان سے کہنا ہے کہ مدرسوں، اسکولوں اور کالجوں میں جہاں جہاں اردو کی سہولتیں حاصل ہیں اس سے استفادہ کریں اور اپنے بچوں کو اردو پڑھوائیں ۔ اور جہاں یہ سہولت نہیں وہاں انتظامیہ سے مل کر مطالبہ کریں کہ ہمارے بچوں کے لئے اردو جماعتیں کھولنے کا انتظام کریں۔ اسکول ہے تو ٹیچر کا تقرر کریں اور کالج ہے تو لکچرر کا۔ یہ ہمارا حق ہے اور یہی بات ہم کو اردو عوام سے کہنی چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ اردو کے بغیر ہم نامکمل ہیں۔ کیوں کہ اردو محض ہماری شناخت نہیں بلکہ ہماری سب کچھ ہے۔"
اس پر پھر تالیاں بجیں۔ وہ حضرات جو دونوں ہاتھوں سے تالی نہیں بجانا چاہتے تھے، انہوں نے صرف ایک ہاتھ کا استعمال کیا ۔ اور میز کی مدد سے آواز پیدا کرنے کی کوشش کی ۔
"لیکن آ پ کی بات پر عوام یقین نہیں کرتے!"
ایک آواز آہستہ سے ابھری۔ اور منی ہال میں گشت لگاتی ہوئی چھت سے لٹکتے ہوئے پنکھے کے ساتھ گھومنے لگی۔ وہ آواز میری تھی!
"لیکن کیوں۔۔۔۔ کیوں؟"
بہت سے معزز ارکان کی چبھتی ہوئی نظریں مجھ پر تھیں۔ بہت ہی اطمینان کے ساتھ میں نے اٹھتے ہوئے کہا:
"وہ اس لئے کہ آپ حضرات کے قول اور فعل میں تضاد ہے اور اس راز کا اردو کے معصوم عوام پر انکشاف ہونے لگا ہے ۔ اس لئے وہ آپ کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔"
صدر عالی قدر نے بڑی حیرانی کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا:
"افسانہ نگار صاحب! آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟"
میں نے کہا:
"جناب والا! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔ اور میں وہی کہہ رہا ہوں جو میرے دل اور دماغ میں ہے۔ میری درخواست ہے کہ آپ سب میرے اس سیدھے سادھے اور واضح ریمارک پر غور فرمائیں۔"
"نہیں! آپ ہم سب پر الزام لگا رہے ہیں ۔ الزام ہی نہیں بلکہ ہم سب کی توہین کر رہے ہیں۔ آخر ہمارے قول اور فعل میں کیا تضاد دیکھا آپ نے؟"
ایک نہیں کئی آوازیں ایک ساتھ اٹھیں!
میں نے کہا:
"آپ سب اردو کی حمایت میں لمبی چوڑی تقریریں کرتے ہیں اور اخبارات میں سنسنی خیز بیانات چھپواتے ہیں۔ لیکن آپ خود ا پنے بچوں کو اردو نہیں پڑھواتے۔
کیوں؟
میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی یہ کیسی وکالت ہے؟ آپ کیسے وکیل ہیں جو خود اپنے موکل کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں؟"


A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-16

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں