کتبہ - افسانہ از عوض سعید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-30

کتبہ - افسانہ از عوض سعید

kutba
عوض سعید (پ: 3/مارچ 1934 ، م: 2/جولائی 1995) حیدرآباد (انڈیا) کے ایک منفرد افسانہ نگار اور خاکہ نویس تھے۔ وہ ان چند افسانہ نگاروں میں سے تھے جنہوں نے اردو میں مختصر کہانی کی سطح کو بلند کیا۔ اردو شعر و ادب کی چند عظیم شخصیات کے خاکوں پر مبنی ان کی ایک کتاب "خاکے" پی۔ڈی۔ایف شکل میں عوض سعید کی ویب سائٹ پر یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔ اور یہی کتاب اردو یونیکوڈ تحریری صورت میں بزم اردو لائبریری پر یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اکتوبر-2017 میں نامور مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے روزنامہ 'سیاست' کے اپنے مخصوص کالم کے تحت "عوض سعید" پر ایک دلچسپ خاکہ تحریر کیا تھا، جو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
ذیل مین معروف (مرحوم) رسالہ "شب خون" کے شمارہ دسمبر-1968 میں شائع شدہ عوض سعید کا افسانہ "کتبہ" پیش خدمت ہے۔
بات صرف اتنی تھی کہ ایک بہت بڑے شاعر کی قبر کتبہ سے محروم تھی ۔ اس سلسلہ میں ایک کمیٹی بنائی گئی اور جب کتبہ کی تجویز منظور ہو گئی تو کنوینر نے خالی خالی نگاہوں سے مجمع کی طرف دیکھا ۔ لوگ آہستہ آہستہ کھسک رہے تھے۔
"کتبہ کے لئے پیسہ چاہئے۔"
"بالکل چاہیے صاحب۔ بھلا بغیر پیسے کے کہیں کتبہ بھی تیار ہوا ہے؟"
"لیکن سوال صلیب بدوش ہونے کا ہے ۔"
"بھلے مانس سیدھی زبان میں کیوں بات نہیں کرتے؟"
"ہاں بھائی ہماری زبان جب تک ادق رہے گی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔"
"بیل چڑھانے کے لئے پانی بھی تو چاہئے۔"
"پانی کی ہمارے دیس میں کیا کمی ہے ۔"
"آپ کا مطلب سیلاب سے ہے نا؟"
"ساتھیو، جس مقصد کے لئے ہم جمع ہوئے ہیں۔ وہ پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔"
"یقیناً پورا ہوگا جی۔ آپ کام تو شروع کرا دیں۔"
"لیکن سوال تو پیسوں کا ہے ۔ افسوس کہ ایک ایسے دور میں جب کہ قبریں مٹ رہی ہیں۔۔۔"
"تو مٹا کریں۔"
"کیا بک رہے ہو۔"
"تمہیں یہاں کس نے بلوایا ہے؟"
"میں بہ نفس نفیس آنے کا عادی ہوں ۔ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں ۔ اتنے برس کے بعد کتبہ کا خیال اچانک کیوں آیا۔ پھر ایسی صورت میں جب کہ شاعر نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کی قبر پر کسی قسم کا کتبہ نہ ہو۔"
"شاعر مرتا کب ہے، وہ تو مر مر کر جیتا ہے ۔"
"کتبہ یقینی لگے گا؟"
"بالکل بجا۔"
"شاعر کی قبر کہاں ہے؟"
"قبرستان میں۔"
"عجیب بہروپیوں سے سابقہ پڑا ہے ۔"
"قبر تو ظاہر ہے قبرستان ہی میں ہوگی۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ قبر کس محلہ کے قبرستان میں واقع ہے ۔"
"بھئی یہ سوال بھی کچھ کم اہم نہیں۔"
"حیف کیا زمانہ آ گیا کہ لوگ مشہور شاعر کے مدفن سے واقف نہیں۔"
"اسی لئے تو کتبہ کی ضرورت ہے ۔"
"اتنی دیر سے بحث ہو رہی ہے، کیا شام کی چائے نہیں ملے گی؟"
"ضرور ملے گی صاحب۔"
"کیا تم نے چاند دیکھا ہے؟"
"ہاں بھئی دیکھا۔ بالکل الٹا ہو کر رہ گیا ہے ۔"
"یہ شگون اچھا نہیں ہے ۔"
"ذرا یہاں سے کھسک جاؤ۔ یہ بڑے وہمی لوگ ہیں۔"
"کیا روزی سے ملاقات ہوئی تھی؟"
"ہوئی تو تھی۔"
"تو پھر کیا کہا اس نے؟"
" کورٹ شپ کو ابھی لانگ ہونا چاہئے۔"
"ساتھیو، کتبہ کی بات تو ادھوری رہ گئی۔"
"وہ بات جو طے ہو چکی ہے وہ ادھوری کس طرح رہ سکتی ہے ۔"
"تو کل سے کام شروع کروا دیں۔"
"بالکل۔۔۔ یقیناً۔۔"
"ذرا ٹھہرئیے، قبر کی شناخت کون کرے گا۔"
"ہاں بھئی یہ کتبہ سے زیادہ اہم سوال ہے۔"
"کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی غیر ادیب کی قبر پر ہمارے شاعر کا کتبہ چڑھا دیا جائے۔"
"ساتھیو یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ، ہماری محفل میں علامہ برکت بھی تو ہیں ، وہ ان کے جنم جنم کے ساتھی تھے۔"
"یار خالی پیٹ میں چائے زہر کی طرح چبھ رہی ہے۔"
"گھر سے کھا کر کیوں نہیں آئے۔"
"جی نہیں چاہا۔"
"اب یہاں سے کہاں چلیں گے؟"
"فردوس۔"
"وہاں کیا کام ہے ۔"
"مجھے ایک عزیز سے ملنا ہے ۔"
"کیا میں بھی تمہارے ساتھ چل سکتا ہوں۔"
" اگر اس طرح ایک کے پیچھے ایک سب ہی باہر نکل جائیں تو یہاں کون رہے گا؟"
"تم اس کی فکر نہ کرو یہاں کافی لوگ ہیں ۔ ہر آدمی ہماری طرح تھوڑا ہی ہوتا ہے ۔"
"آدمی بہرحال آدمی ہوتا ہے ۔"
"چلو، اچھا ہوا ہم انسان ہونے سے بال بال بچ گئے۔"
"یہ لو گ تو صرف چائے ہی پر ٹرخا رہے ہیں۔"
" کیا کھانا بھی تناول فرمانے کا ارادہ ہے؟"
"وہ برآمدے میں کون صاحب کھڑے ہیں؟"
’ ’کوئی بھی ہوگا یار، میری چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔"
"تمہیں چائے کی پڑی ہے ، مجھے گھر جلد لوٹنا ہے۔ محلہ کی فضا خراب ہے ۔"
"موسم بھی تو خراب ہے ۔"
ساتھیو میں نے آپ کا بہت وقت لیا ۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ مسئلہ بخیر و خوبی حل ہو گیا۔"

دوسرے دن لوگوں نے دیکھا۔
برسوں بعد شاعر کی قبر پھولوں سے لدی ہوئی تھی ۔ اطراف میں لوہے کی رنگین جالی لگوا دی گئی تھی اور سنگ مرمر کا صاف و شفاف کتبہ سر اونچا کئے کھڑا تھا۔ لیکن سب سے عجیب بات یہ تھی کہ شاعر مرحوم کے پہلو میں دفنائے ہوئے ایک آدمی کی قبر سے کتبہ غائب تھا !!

ماخوذ: شب خون ، شمارہ:31 (دسمبر 1968)

Kutba, Urdu short story. By: Awaz Sayeed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں