کیا صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-21

کیا صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے؟

qurbani
دوست کا سوال ہے کہ قربانی کس پر واجب ہے؟ کیا صاحب نصاب پر واجب ہے؟ جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ قربانی کے وجوب میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ جمہور فقہاء مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور اہل الحدیث کی رائے یہ ہے کہ قربانی واجب نہیں بلکہ سنت موکدہ ہے۔ اس کے برعکس حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قربانی واجب ہے اور اسی رائے کو امام ابن تیمیہ نے بھی اختیار کیا ہے۔

جمہور (majority) کا کہنا یہ ہے کہ قربانی کے سنت ہونے کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور اس کا قربانی کا ارادہ ہو تو وہ اپنے ناخن اور بال نہ کاٹے۔ تو یہاں قربانی کو ارادے سے مشروط کیا ہے جو کہ اس کے سنت ہونے کی دلیل ہے۔ ان فقہاء کی دلیل یہ بھی ہے کہ بعض صحیح آثار کے مطابق حضرت ابوبکر الصدیق اور حضرت عمر فاروق اور بعض دیگر صحابہ استطاعت کے باوجود اس لیے قربانی نہ کرتے تھے کہ لوگ اسے واجب نہ سمجھ لیں۔

مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابو مسعود انصاری سے مروی ہے کہ میں استطاعت کے باوجود اس لیے قربانی نہیں کرتا کہ میرا پڑوسی اسے واجب نہ سمجھ لے۔ اور قربانی کے سنت موکدہ ہونے کی دلیل سنن الترمذی کی وہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی۔

احناف کی دلیل سنن ابن ماجہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس کو قربانی کی استطاعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ ان فقہاء کی دلیل سورۃ الکوثر کی آیت بھی ہے کہ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ دونوں طرف کے فقہاء نے ایک دوسرے کے دلائل کے جوابات بھی دیے ہیں لیکن ہم اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔

طے شدہ بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں صحابہ ہی سے اختلاف چلا آ رہا ہے لہذا جس موقف پر آپ کا دل مطمئن ہے، اس کے مطابق رائے کا اظہار کر دیں اور دوسرے پر طعن نہ کریں۔ میری رائے میں ہمیں بہت سے فقہی مسائل میں وجوب اور سنت موکدہ کی اصطلاحات سے نکل جانا چاہیے کہ یہ ویسے ہی بعد میں وضع ہوئی ہیں اور کتاب وسنت کی نصوص میں موجود حکم کی شدت اور اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے سائل کو غیر فقہی زبان میں رہنمائی کر دینی چاہیے۔

تو اگر مجھ سے کوئی یہ مسئلہ پوچھے تو میں یہ کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو عید گاہ کے قریب آنے سے منع کیا ہے کہ جو استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے۔ اور جہاں تک استطاعت کا تعلق ہے تو وہ صاحب نصاب ہونا نہیں ہے، یہ کہیں حدیث میں بیان نہیں ہوا۔ حدیث میں استطاعت سے مراد یہی ہے کہ جس شخص کے پاس بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد قربانی کے مہینے میں اتنی رقم فالتو موجود ہو کہ جس میں قربانی ہو سکے تو اسے قربانی کر لینی چاہیے۔ اور اس میں آخری بات یہ کہ اگر گھر کا سربراہ قربانی کر لے تو وہ پورے گھر کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے۔

سنن ترمذی کی روایت کے مطابق حضرت ابو ایوب انصاری سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کی کیا صورت حال تھی؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ایک شخص اپنے اور اپنے پورے خاندان کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا اور وہ سب مل کر خود بھی کھاتے اور تقسیم بھی کرتے تھے۔ اور اب یہ زمانہ آ گیا ہے کہ لوگوں نے اس معاملے میں فخر کرنا شروع کر دیا ہے [یعنی ایک گھر میں کئی کئی قربانیاں ہوتی ہیں اور مقصد دکھلاوہ ہے نہ کہ عبادت]۔

***
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

To offer sacrifice is obligatory or a Sunnah? Article: Dr. Hafiz Md. Zubair

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں