خواتین پر فرضیت احتساب کے متعلق خاص نصوص - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-31

خواتین پر فرضیت احتساب کے متعلق خاص نصوص

order-good-forbid-evil-women-responsibility
خواتین پر نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی ذمہ داری کے متعلق کتاب و سنت میں متعدد نصوص موجود ہیں۔ انہی میں سے بتوفیق الہی تین ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:

1) ارشاد رب العالمین
سورہ الاحزاب، آیت 32 : اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والی ہو، پس تم [غیر مردوں سے] دبی زبان سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں [گناہ کی] بیماری ہے وہ لالچ کرنے لگے، اور کھری کھری صاف بات کیا کرو۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد گرامی [وقلن قولاً معروفاً ، اور کھری کھری صاف بات کیا کرو] کی تفسیر میں ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے بیان کیا ہے:
اللہ تعالیٰ نے انہیں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا حکم دیا ہے۔
(منقول از تفسیر القرطبی 14/178)
کوئی یہ گمان نہ کرے کہ [امر بالمعروف اور نہی عن المنکر] کا فریضہ ادا کرنے کا حکم صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لیے ہے، کیونکہ اگرچہ آیت کریمہ میں خطاب ان کے لیے ہے، مگر اس فریضہ کی ادائیگی کا مطالبہ تمام مسلمان عورتوں سے ہے۔ اسی سلسلے میں امام ابوبکر جصاصؒ نے تحریر کیا ہے:
اللہ تعالیٰ نے ان باتوں [امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اس سے پہلے دیگر ذکرکردہ احکام] کا ادب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی حفاظت کی غرض سے ان کو سکھلایا ، لیکن اہل ایمان کی عورتیں بھی ان احکام کی تعمیل کی پابند ہیں۔
(منقول از احکام القرآن ، 3/360)

2) ارشاد رب رحیم
سورہ التوبہ، آیات 71-72 : اور ایمان والے مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں، انہی لوگوں پر اللہ رحم کرے گا۔ بےشک اللہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے۔ اللہ نے ایمان والے مردوں اور عورتوں کے ساتھ جنتوں کا وعدہ کیا ہے کہ اس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جنات عدن میں عمدہ رہائش گاہوں کا وعدہ کیا ہے اور اللہ کی خوش نودی سب سے بڑھ کر ہوگی۔ یہی ہے عظیم کامیابی۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں پانچ صفات کا ذکر فرمایا ہے اور ان میں سے دوسری صفت [امر بالمعروف اور نہی عن المنکر] ہے، علاوہ ازیں یہ بھی بیان فرمایا کہ ان صفات والوں کے لیے دنیا و آخرت میں بہترین جزا کا وعدہ ہے۔ اللہ نے یہ بات بھی واضح فرما دی کہ جس طرح ایمان والے مردوں میں یہ صفات موجود ہوتی ہیں اسی طرح ایمان والی عورتیں بھی ان پانچ صفات سے آراستہ و پیراستہ ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ ابن نحاس دمشقی رقم طراز ہیں:
میں کہتا ہوں کہ اللہ کا [والمومنات ، ایمان والی عورتیں] فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ بحالت استطاعت عورتوں پر مردوں کی مانند [امر بالمعروف اور نہی عن المنکر] واجب ہے۔
(منقول از تنبیہ الغافلین عن اعمال الجاہلین ، ص:20)

3) حدیثِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم:
والمراۃ راعیۃ علی اھل بی زوجھا (اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے)

امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت نقل کی ہے کہ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خبردار تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے، اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، پس امام جو کہ لوگوں پر نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا، اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے، اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ آگاہ ہو جاؤ پس تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پرسش ہوگی۔
(بخاری - کتاب الاحکام ، مسلم - کتاب الامارۃ)

امام خطابیؒ نے تحریر کیا ہے:
[الراعی] کا یہاں معنی یہ ہے کہ جن لوگوں کا وہ سرپرست بنا ہے، ان کی حفاظت کرے، ان کے معاملے میں امانت دار ہو، انہیں اپنے سپرد عورت کے [راعیۃ ، نگہبان] ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ جن کی نگہداشت کی ذمہ داری اس کو سونپی گئی ہے، وہ انہیں بھلائی کا کام چھوڑنے پر اس کے کرنے کا حکم دے اور برائی کا ارتکاب کرنے پر اس سے منع کرے۔ تمام کاموں کو خیرخواہی اور اخلاص سے سرانجام دینے کا حکم دے ، ان میں خیانت کرنے اور انہیں ضائع کرنے سے ڈرائے۔
(منقول از معالم السنن 3/2)

اسی طرح شرح نووی میں لکھا ہے:
علما نے بیان کیا ہے کہ [الراعی] اپنی سرپرستی میں شامل لوگوں کی حفاظت کرنے والا، ان کے بارے میں امانت دار اور ان کی خیر خواہی کا پابند ہوتا ہے۔ لفظ 'الراعی' کے معنی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اپنے زیرسرپرستی لوگوں میں عدل کرے اور ان کے دینی و دنیوی مصالح کی نگہداشت کرے۔
(منقول از شرح النووی 12/213)

دیگر نگہبانوں کی طرح عورت سے بھی اس بارے میں روزِ قیامت بازپرس ہوگی جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
وھی مسؤولۃ عنھم (اس عورت سے ان [اپنے زیر سرپرستی افراد] کے متعلق پوچھا جائے گا)
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) کی روایت کردہ حدیث میں ہے:
یقیناً اللہ ہر راعی سے پوچھے گا کہ اس نے اپنی رعیت کی حفاظت کی یا اس کو ضائع کر دیا؟
(منقول از فتح الباری 13/113 ، حافظ ابن حجر نے اس سے متعلق لکھا ہے کہ ابن عدی نے صحیح سند کے ساتھ انس سے روایت کیا ہے)

اور ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) کی حدیث میں ہے :
ہر ایک راعی سے روزِ قیامت سوال کیا جائے گا کہ اس نے اللہ کے حکم کو قائم کیا یا اس کو ضائع کر دیا؟
(منقول از فتح الباری 13/113 ، حافظ ابن حجر نے اس کے متعلق تحریر کیا ہے کہ اس کو طبرانی نے ابوھریرہ کے حوالے سے روایت کیا ہے)

پس مسلمان خاتون کو چاہیے کہ وہ دیگر نگہبانوں کی طرح اس دن کے سوال کے جواب کی دنیا ہی میں خوب اچھی طرح تیاری کر لے ، کہ تب حسرت و ندامت سے کچھ فائدہ نہ ہوگا اور سوال کے جواب کی تیاری میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اپنے زیر سرپرستی افراد کو نیکی کے کاموں کا حکم دیتی رہے اور انہیں برے کاموں سے تاحد استطاعت روکتی رہے۔

ماخوذ از کتاب:
نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری
مصنف : پروفیسر ڈاکٹر فضل الہی

Women responsibility to order good & forbid evil. Article: Prof. Dr. Fazl Ilahi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں