ڈھائی ہزار روپے خرچ کرنے کا یا بیٹے کو قتل کرنے کا؟
ظاہر ہے کہ بیٹے کے آگے ڈھائی ہزار روپے خرچ کرنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا لیکن جس کو بیٹا قتل کرنے کا حکم ملا اس نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ اس میں میرا کیا نقصان ہے اور کیا فائدہ؟ اور جس کو قتل کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے اس نے بھی پلٹ کر نہیں پوچھا کہ مجھے کیوں قتل کیا جا رہا ہے ؟
لیکن جس سے کہا جاتا ہے کہ ڈھائی ہزار روپے خرچ کر دو وہ کہتا ہے کہ مجھے مالی طور پر کیا فائدہ ہوگا؟ یہ تو قربانی کی روح کے خلاف ہے ۔ جو آدمی یہ سوال کرتا ہے وہ قربانی کی حقیقت ہی نہیں جانتا۔ اس قربانی کے ذریعے درحقیقت جذبہ یہی پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کام کرنے کا حکم آ جائے تو انسان اپنی عقل کو طاق میں رکھ کر اللہ کے حکم کی پیروی کرے۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے :(سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 36)
"کسی مومن مرد اور عورت کو کوئی حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم آ جائے تو ان کے پاس اختیار ہو کہ وہ کرے یا نہ کرے۔"
یہ جو تم عقل کے گھوڑے دوڑا کر اللہ کی حکم کو پامال کر رہے ہو، یہی جذبہ ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کرتا ہے۔ اور جب انسان نافرمانی پر آمادہ ہوتا ہے تو اس میں یہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے کہ اس میں میرا کیا فائدہ ہے اور کیا نقصان؟ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا جرائم اور بدعنوانیوں سے بھر گئی ہے۔ رشوت خور، کرپشن کرنے والے اور بدعنوانیاں کرنے والے ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ نے اس کو حرام کر رکھا ہے اور ارشاد ہے کہ رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنم میں ہوں گے ۔ لیکن اللہ کے احکام کی پرواہ نہ ہونے کی وجہ سے اس میں منہمک ہیں اور پرواہ نہ ہونے کی وجہ مادہ پرستی کی ذہنیت ہے ۔ تو جب پیسہ ہی مقصود حیات بن گیا تو پھر یہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ حلال طریقے سے آ رہا ہے یا حرام طریقے سے؟ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہی کہ انسان کو انسان بنانے والی چیز یعنی تقوی اور فکر آخرت کو کچل ڈالا گیا ہے ۔
تمام صحابہ کرام کی حیات طیبہ اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام ؓ کو نبی اکرم ﷺ کے طفیل ہدایت سے نوازا۔ ان کی پوری حیات طیبہ میں کم ازکم مجھے تو یہ یاد نہیں ہے کہ کسی صحابیؓ نے کبھی بھی "کیوں" کا سوال کیا ہو۔ درحقیقت سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ حکم کیا ہے؟ اسی ذہنیت کو بیدار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قربانی کا حکم فرمایا ہے۔ قربانی کا عمل بظاہر دیوانگی نظر آتا ہے لیکن یہ دیوانگی ہی دراصل ہوشمندی ہے ۔
اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد
اوست فرزانہ کہ فرزانہ نہ شد
اللہ تعالیٰ کو انسان کے اس عمل میں اس کی دیوانگی ہی پسند ہے جیسا کہ اقبال مرحوم نے کہا ہے ۔
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش عقل
عشق ہے مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
اگر اللہ تعالیٰ اسی دیوانگی کو پیدا فرما دیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پیروی کرنی ہے تو دراصل اسلام میں یہی مطلوب ہے۔
اسلام سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے
یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ الصفت میں یہ واقعہ بیان کیا تو فرمایا کہ
"جب باپ اور بیٹے دونوں نے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور با پ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا تو۔۔"
(سورۃ الصفت آیت نمبر 103)
ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیم! آج تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے۔ یہ عمل جو باپ بیٹے نے کیا اس کو اللہ تعالیٰ نے 'فلما اسلما' سے تعبیر کیا جس کا ترجمہ چاہے آپ یوں کریں کہ جب انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور اگر چاہیں تو یوں کرلیں کہ جب انہوں نے اسلام کا مظاہرہ کیا۔ تو معلوم ہوا کہ اسلام نام ہے ایسے طرز عمل کا جو ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ علیھما السلام نے پیش کر کے دکھایا۔
قربانی کے بعد گوشت بھی تمہارا
پھر فرمایا ہم نے آج کے دن قربانی کو ایسا بنایا ہے کہ تمہارا کام گلے پر چھری پھیر دینا ہے اس کے بعد اس کا گوشت بھی تمہارا ہے ۔ خود کھاؤ اور دوسروں کو کھلاؤ۔ گزشتہ اقوام کے لئے قربانی کا گوشت خود ان کے لئے حلال نہیں تھا لیکن امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کے لئے حلال ہے ۔ ہمارے حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ اس کی نظیر ایسی ہے کہ پہلے زمانے کے بادشاہوں کے یہاں یہ دستور ہوتا تھا کہ اگر کوئی شخص بادشاہ کے پاس کوئی تحفہ لے جائے تو وہ خواہ کتنا ہی قیمتی ہو لیکن بادشاہ اس پر صرف اپنا ہاتھ رکھتا تھا جس کے معنی ہیں قبول ہو گیا۔ پھر وہ تحفہ اسی کو واپس کر دیا جاتا تھا۔ ایسے ہی قربانی کے جانور کے گلے پر اللہ کا نام لے کر چھری پھیر دی تو گویا اللہ تعالیٰ نے اس پر ہاتھ رکھ دیا کہ یہ ہمارے یہاں قبول ہے اب تم اسے واپس لے جاؤ۔ اس کا گوشت،کھال اور تمام اعضاء تمہارے ہو گئے ۔ اسی لئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
(سورۃ الحج آیت نمبر 37)
"اللہ تعالیٰ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون (یعنی ہمیں نہ اس کا گوشت چاہئے نہ اس کا خون) بلکہ تمہارے دلوں کا تقوی مطلوب ہے اور تقوی یہ ہے کہ جو ہم نے کہا وہ کرو۔"
تو قربانی محض ایک رسم نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہے ۔ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک ذہنیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ذہنیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام عبادتوں کو انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے ساتھ ہی وہ حقیقی سبق کہ اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دو ۔
اپنی زندگیوں میں یہ سبق اجاگر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
ماخوذ از کتاب : فلسفۂ حج و قربانی (عشرہ ذی الحجہ کے احکام اور قربانی کا صحیح مفہوم)
تالیف: جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی
تالیف: جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی
An explanation to the philosophy of sacrifice (slaughter of an animal)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں