اٹل بہاری واجپائی کو تاریخ میں نومبر1984ء میں راجیو گاندھی کی طرح ہی یاد رکھاجائے گا جنہوں نے رواداری کا درس دیا تھا لیکن بے قصور شہریوں کے قتل عام سے آنکھیں بند کرلی تھیں۔
حالیہ عرصہ میں مسلم دشمنی رکھنے والوں کی جانب سے ایک ہندو مملکت کی حیثیت سے ہندوستان کے گولوالکرساورکر نظریہ کی سب سے زیادہ اہم ترین وضاحت اگر کسی نے کی ہے تو یقینا وہ اٹل بہاری واجپائی ہیں جنہوں نے گوا میں 12اپریل2002کو بی جے پی عاملہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کی تھی ۔ یہ تقریر اس اعتبار سے یاد رکھی جانے کے قابل ہے کہ کس طرح ایک وزیر اعظم نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کو گودھرا کے حوالہ سے حق بجانب قرار دینے کی کوشش کی اور پھر ہندوؤں کے خود ساختہ ’رواداری‘ کو مسلمانوں کی مبینہ عدم رواداری سے تقابل کرتے ہوئے پیش کیا۔
جس طرح گولوالکر کا یہ ماننا تھا کہ صرف ہندو ہی حقیقی ہندوستانی ہیں ، واجپائی نے بھی اپنی تمام تر تقریر میں ہمارا، ہم، اور ہندوستانی جیسے الفاظ بدل بدل کر استعمال کرتے ہوئے ایسا کچھ تاثر دینے کی کوشش کی ۔ انہوں نے تقریر کا آغاز قدیم کمبوڈیا میں ہندو مملکت کے بارے میں ایک تبصرہ سے شروع کیا۔
"کسی بھی رواجہ نے دوسرے راجہ پر حملہ کے وقت کسی مندر کو نہیں ڈھایا یا بھگوانوں کی مورتیوں کو نقصان نہیں پہنچایا۔ یہ ہماری تہذیب ہے ۔ یہ ہمارا نقطہ نظر ہے جس کے تحت تمام عقائد سے یکساں سلوک کیاجاتا ہے۔" انہوں نے مزید کہا"ہندوستان، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے ایک سیکولر سر زمین ہے ۔ جب وہ یہاں آئے تو انہیں عبادت کی آزادی دی گئی۔ کسی نے انہیں جبراً مذہب تبدیل کروانے کے بارے میں نہیں سوچا، کیونکہ یہ ہمارے مذہب کا شیوا نہیں ہے ، اور ہمارے کلچر میں اس کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے ۔"
اس تقریر میں واجپائی نے ہندوؤں اور ہندو ازم کی رواداری کو مسلمانوں اور عیسائیوں کی مبینہ عدم رواداری سے تقابل کرتے ہوئے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مورتیوں کو ڈھانے اور جبراً تبدیلی مذہب کا حوالہ در حقیقت آر ایس ایس کے حربوں کا لاینفک جز ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ تشدد کے بڑے واقعات کی جڑ کو دیکھیں تو بڑھتی ہوئی عدم رواداری ہے۔ چونکہ مذکورہ بالا تشریح سے انہوں نے ہندوؤں کا روادار ہونا ثابت کردیا ہے تو لازمی بات ہے کہ بڑھتی ہوئی عدم رواداری کا پھندامسلمانوں کی گردن میں ہی پڑتا ہے ۔ اس کے فوراً بعد وہ اس وقت کے سلگتے ہوئے مسئلہ پر اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں:
"گجرات میں کیا ہوا؟ اگر سابرمتی ایکسپریس کے معصوم مسافرین کو زندہ جلا دینے کی سازش نہ رچی گئی ہوتی تو مابعد گجرات سانحہ کو ٹالاجاسکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ لوگوں کو زندہ جلادیا گیا ۔ اس کے مجرم کون ہیں؟ حکومت اس کی تحقیقات کررہی ہے ۔ انٹلی جنس ایجنسیاں تمام معلومات اکٹھی کررہی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ گجرات کا سانحہ کیسے شروع ہوا؟ مابعد فسادات یقینا قابل مذمت ہیں لیکن آگ کس نے لگائی؟ یہ آگ کیسے پھیلی؟"
نریند رمودی نے جو بات ترش روی کے ساتھ پیش کی ہم دیکھتے ہیں کہ نیوٹن کے تیسرے اصول کے طور پر واجپائی وہی بات اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں ۔ سینکڑوں بے قصور افراد کی ہلاکتوں پر کوئی یشیمانی نہیں ہے ، شہریوں کے تحفظ میں حکومت کی ناکامی پر کوئی معذرت خواہی نہیں کی گئی ۔ انہوں نے گودھرا حملہ کے مجرمانہ سر غنوں اور گجرات میں مابعد سانحہ کے بے قصور متاثرین کے درمیان فرق کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ان کی نظر میں مسلمان ایک ایسا بے ہنگم گروہ ہے جس نے مجموعی طور سے آگ لگائی۔ مابعد حالات کے لئے ان کی پارٹی کے کارکن نہیں بلکہ خود مسلمان ہی مورد الزام ٹھہرتے ہیں ۔ مخصوص انداز میں تقریر کا آغاز کرنے بعد عمومیت کی طرف آتے ہوئے واجپائی نے بالآخر مسلمانوں پر راست حملہ کیا۔ انہوں نے پرزور انداز مین کہا"ہمارے لئے گوا سے گوہاٹی تک ہندوستان کی سر زمین یکساں ہے ۔اور اس سر زمین پر رہنے والے تمام عوام یکساں ہیں۔ ہم مذہبی انتہا پسندی پر یقین نہیں رکھتے ۔ آج ہمارے ملک کو دہشت گردی سے خطرہ لاحق ہے ۔"
یہ ہم کون ہیں اور حقیقی معنوں میں ہمارے ملک کو خطرہ کہاں سے لاحق ہے ؟ ہندی تحریروں میں اس کا اشارہ ملتا ہے ۔ واجپائی نے جب مذہبی انتہا پسندی، کہا تو دانستہ طور پر اردو کا لفظ مذہبی(ہندی لفظ دھارمک کے بجائے) استعمال کیا۔ ہم مذہبی انتہا پسندی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔ ان کے اصل الفاظ یوں ہیں"ہم مذہبی کٹرتا میں وشواس نہیں کرتے۔" حقیقت یہ ہے کہ مذہبی ایک اردو لفظ ہے جو اتفاقاً استعمال نہیں کیا گیا۔ سنگھ پریوار کے لٹریچر اور پروپیگنڈہ میں جہاں کہیں مذہب کا مثبت حوالہ دیا گیا’دھرم‘ کا لفظ استعمال کیا گیا جو ہندو ازم کی طرف اشارہ کرتا ہے اور جب منفی حوالہ دیا گیا تو لفظ مذہب استعمال کیا گیا۔ دہشت گردی کو بھی یقینا اسلام یا انتہا پسند اسلام سے جوڑ دیا گیا ہے جس کی بنا واجپائی نے اس لفظ کا انتخاب کیا ۔ تاہم انتہا پسند اسلام اور اعتدال پسند اسلام کے درمیان فرق کرتے ہوئے انہوں نے تمام مسلمانوں کے بارے میں عمومی اظہار خیال کیا۔ وہ کہتے ہیں:
"مسلمان جہاں کہیں رہتے ہیں ، وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا پسند نہیں کرتے ، وہ دوسروں کے ساتھ خلط ملط ہونا نہیں چاہتے ، اور اپنے عقیدہ کی پر امن انداز میں تشہیر کرنے کے بجائے دہشت گردی اور دھمکیوں کے ذریعہ ان کے عقیدہ کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ دنیا اس خطرہ سے آگاہ ہوچکی ہے۔"
یہ بیان نفرت انگیز تقریر کی زبردست مثال ہے ، لیکن جب اس پر زبردست تنقیدیں کی گئیں اور تنازعہ پیدا ہوا تو واجپائی نے دعویٰ کیا کہ ان کے ریمارکس کا نشانہ تمام مسلمان نہیں بلکہ صرف انتہا پسند مسلمان ہیں ۔
دفتر وزیرا عظم سے تبدیل شدہ وضاحتی بیان جاری کیا گیا جس میں جہاں کہیں اور مسلمان رہتے ہیں ، کے درمیان لفظ اس طرح کا اضافہ کیا گیا ۔ بیشتر اخبارات نے بعد میں یہی بیان شائع کیا ۔ واجپائی نے یکم مئی2002ء کو ایوان میں یہ غلط دعوی کیا کہ ان کی تقریر کا تبدیل شدہ بیان ہی حقیقی ہے تاہم جب پارلیمنٹ میں تحریک مراعات لائی گئی تب انہیں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ لفظ اس طرح کا دانستہ طور پر غلط اضافہ کیا گیا ۔ تاہم وہ اس بات پر ڈٹے رہے کہ جو بھی ان کی مکمل تقریر پڑھے اور اسلام کی رواداری و محبت کی تعلیمات کو انہوں نے جو خراج پیش کیا ہے اس کا نوٹ لے ، وہ یہ شک و شبہ کرہی نہیں سکتا کہ ان کی تقریر میں صر ف انتہا پسند اسلام کے ماننے والوں کا حوالہ دیا گیا۔
مسلمانوں کے دوسرے کے ساتھ بقائے باہم کے ساتھ نہ رہنے اور دوسری قوم کے ساتھ مل جل کر زندگی نہ گزارنے کا الزام آر ایس ایس کے پروپیگندہ کا ایک ایسا پسندیدہ حربہ ہے جسے واجپائی کے صرف انتہا پسند مسلمانوںکے حوالہ سے پیش کرنے کی وضاحت بہت زیادہ اطمینان بخش دکھائی نہیں دیتی ۔ انہوں نے قبل ازیں تقریر میں انتہا پسند اسلام کو دہشت گردی کے مماثل قرار دیا تھا ، دوسروں کے ساتھ مل جل کر نہ رہنے، کا دہشت گردوں کے خلاف الزام عجیب و غریب ہے۔ بہر حال وزیر اعظم کے لئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو اسلام سے جوڑتے ہوئے بات کرنا کسی بھی اعتبار سے موزوں نہیں ہے بالخصوص جب کہ خود ان کا سنگھ پریوار گجرات میں دہشت گردانہ سر گرمیوں میں شدت سے ملوث ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف یہ الزام تراشی انتہائی درجہ کی بد دیانتی ہے کیونکہ یہ آر ایس ایس کی مسلم طبقہ کو الگ تھلگ کردینے اور محدود بستیوں میں محصور کرنے کی مخصوص پالیسی کا حصہ ہے ۔ جیسا کہ ماہر سماجیات دھیرو بھائی سیٹھ کا کہنا ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کا سنگھ پریوار کے تشدد کا نشانہ بننا محض اتفاق نہیں ہے جب کہ انہوں نے ہندو اکثریتی علاقوں میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ریاست میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں سے ہندو توا وادیوں کی بددیانتی آشکار ہوگئی ہے جو قومی دھارے میں شامل نہ ہونے پر مسلمانوں پع لعن طعن کرتے ہیں حالانکہ جب کبھی وہ قومی دھارے میں ابھرتے ہیں انہیں واپس ان کے محدود حلقوں میں ڈھکیل دیاجاتا ہے ۔
گوا تقریر کے اثرات کو کم کرنے کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے واجپائی نے پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ انتہا پسند ہندو ازم کے بھی اتنے ہی مخالف ہیں جتنے کے انتہا پسند اسلام کے ہیں۔ انہوں نے کہا" میں سوامی وویکانندا کے ہندو توا کو قبول کرتاہوں لیکن دور حاضر میں جس طرز کے ہندو تو اکی تشہیر کی جارہی ہے وہ غلط ہے اور اس سے ہر کسی کو چوکنا رہنا چاہئے۔"تاہم یہ کہتے ہوئے وہ پلٹا کھاتے ہیں اور کہتے ہیں اگرچہ اس طرح کے واقعات سے نمٹنے قانون موجود ہے لیکن انہیں یقین ہے کہ کوئی بھی ہندو تنظیم ملک کے اتحاد کے لئے خطرہ نہیں بنے گی۔ بہ الفاظ دیگر وہ بہ تکرار یہ کہتے رہے کہ صرف مسلم( یا عیسائی یا سکھ) تنظمیں ہی ملک کے اتحاد کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں ۔ وویکانندا کا حوالہ دینے کے بعد جنہوں نے کبھی ہندو توا کی بات نہیں کہی بلکہ ہندو ازم کا فلسفہ پیش کیا، واجپائی سیدھے گولوالکر اور ساورکر کی تعلیمات کے مبلغ بن گئے۔
واجپائی نے اپنی تقریر میں مظلومین سے کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کی اور نہ ہی قاتلوں پر برہمی ظاہر کی ۔ انہوں نے بس اتنا ہی کہا کہ تشدد قوم کی پیشانی پر ایک سیاہ داغ ہے ۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکے کہ مسلمانون پر انتقامی حملوں کی وہی سزا ملے گی جو ٹرین کو جلانے والوں کو مل سکتی ہے۔ چیف اگزیکٹیو کی حیثیت سے ان کے اقتدارو اختیار کو چیلنج کرنے والوں کو وزیر اعظم نے کوئی سخت انتباہ جاری نہیں کیا۔ امریکہ میں صدر جارج بش اور ان کے سینئر رفقا نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گر دحملہ کے بعد مسلمانوں، عربوں اور دیگر تارکین وطن پر حملوں کے خلاف اپنے شہریوں کو راست انتباہ دیا تھا۔9/11کے ایک سال سے بھی کم عرصہ میں ٹیکساس میں ایک شخص کو ایک سکھ تارک وطن کا انتقامی قتل کرنے پر موت کی سزا سنائی گئی لیکن واجپائی کے اقتدار میں ہندوستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے کھلے عام ثبوتوں کے باوجود نہ ہی انہیں کوئی سزا ملی اور نہ سخت نتائج کی حملہ آوروں کو دھمکی دی گئی ۔
واجپائی نے بعد میں پارٹی اور پریوار سے اپنی وفاداری کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ انہیں اپنا عہدہ چھوڑنے میں بھی کوئی عار نہیں۔17اپریل2002ء کو انہوں نے کہا کہ صرف پارلیمنٹ بھی گودھرا کی مذمت کرتی تو مابعد قتل عام نہ ہوتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ قائد ایوان تھے اور اس دن گودھرا کی مذمت اور بحث کا حکم دے سکتے تھے اس کے بجائے مقررہ پروگرام کے مطابق بجٹ پیش کیاگیا ۔
مئی میں واجپائی نے راجیہ سبھا میں ایک اور حیرت انگیز بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ اپریل میں انہوں نے مودی کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن گجرات میں اس کے انتقام کے خوف سے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا "میں گجرات میں حکمراں کو تبدیل کرنے کا ذہن بنا کر گوا گیا تھا لیکن میرا اندازہ تھا کہ اس سے صورتحال اور بھی خطرناک ہوجائے گی۔"اقتدار میں تبدیلی کی اس وقت صرف آر ایس ایس اور وی ایچ پی کی قیادت ہی مخالفت کررہی تھی ۔ مودی کو تبدیل کرنے سے گجرات کے مظلوم مسلمانوں کو عارضی طور پر تسلی مل سکتی تھی یا نہیں ا سکے قطع نظر ایک وزیر اعظم مجرموں اور غنڈوں کی دھمکیوں سے مرعوب ہوجانے کا اعتراف نہایت تعجب کی بات ہے ۔
The real face of Vajpayee. Article: Siddharth Varadarajan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں