اداکار شیام - ہندوستانی فلمی سینما کا ایک بھولا بسرا نام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-07-11

اداکار شیام - ہندوستانی فلمی سینما کا ایک بھولا بسرا نام

Actor Shyam
فلمی اداکار بھی انسان ہوتے ہیں، خواہ کتنا ہی بڑا اداکار کیوں نہ ہو ایک دن اس پر بھی زوال اور بڑھاپا آتا ہے یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے ۔ بس اس کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں ۔ رفتہ رفتہ وہ بھی دھندلا جاتی ہیں اور پھر حافظے سے بھی رخصت ہو جاتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی پرانے دن یاد دلانے کے لئے آ جاتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے کہ آپ نے کوئی خواب دیکھا ہو۔
ایسا ہی خواب پچھلے دنوں ہم نے بھی دیکھا۔ کسی نے یاد دلایا تو یاد آیا۔ اداکار شیام کو آج کوئی نہیں جانتا۔ آج کی نسل سے پہلی والی نسل بھی اداکار شیام سے شاید واقف نہ ہو ۔ شیام ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران میں گھوڑے سے گر کر ہلاک ہو گیا تھا ۔ فلمی پرچوں میں شیام کے اس حادثے کی تاریخ 26/اپریل 1951ء ہے۔

آئیے پہلے آپ کا شیام سے تعارف تو کرائیں ۔ دراصل اشتیاق احمد صاحب کو اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ اور دنیا میں ملکوں ملکوں گھومے ہیں ۔ انہوں نے اسٹاک ہوم یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور لاہور میں LUMS جیسی درسگاہ میں لیکچر بھی دیتے ہیں ۔ اشتیاق صاحب کے بارے میں یہ تفصیل بتانا اس لئے ضروری ہے کہ انہیں فلموں کا بہت شوق ہے۔ انڈین فلموں کے بارے میں وہ اتنا کچھ جانتے ہیں کہ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ۔ پاکستانی فلموں، فلم سازوں اور اداکاروں سے بھی انہیں بہت دلچسپی ہے ۔ وہ ہر وقت انڈین اور پاکستانی فلموں کے فنکاروں کی کھوج میں رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں وہ لاہور میں تھے تو ایک نہایت عزیز دوست کے توسط سے ان سے ملاقات ہوئی ۔ وہ پاکستانی اداکار ایم اسماعیل کے بیٹے کا پتا معلوم کرنا چاہتے تھے اور اس بارے میں ہر ایک سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ کچھ اور پرانے پاکستانی فنکاروں کے بارے میں بھی وہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ ان کا شوق بھی ہے اور ہابی بھی۔
انہوں نے باتوں باتوں میں شیام کا تذکرہ چھیڑ دیا ۔ ہم نے شیام کی ایک دو فلمیں ہی دیکھی ہین ۔ دراصل اس زمانے میں ہماری عمر کے لڑکوں کو فلمیں دیکھنے کی اجازت نہیں تھی ۔ اپنے کسی عزیز کے ساتھ کبھی کبھار کوئی فلم دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ شیام کا ان دنوں فلمی پرچوں میں بہت چرچا تھا۔ وہ اپنے رومانز اور اسکینڈلز کے حوالے سے بہت مشور تھے ۔ دراز قد، کھلتا ہوا رنگ، متناسب جسم، شوخ آنکھیں اور بات بات پر مسکرانا اور قہقہہ لگانا ان کی عادت تھی۔ مختلف فلمی ہیروئنوں کے ساتھ ان کی دوستیوں کے چرچے ہوتے رہتے تھے ۔ ان کی کئی فلمیں بہت کامیاب ہوئی تھیں اپنی دلکش شخصیت اور خوش مزاجی کی وجہ سے وہ فلمی دنیا میں بہت مقبول تھے ۔ اس زمانے میں اخبارات میں فلمی دنیا کی خبریں شائع نہیں ہوتی تھیں ۔ اس مقصد کے لئے بہت اچھے اور خوبصورت فلمی میگزین نکلا کرتے تھے جن سے فلمی دنیا اور فلمی لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی رہتی تھیں۔
ایک دن معلوم ہوا کہ شیام گھوڑے سے گر کر ہلاک ہو گئے ۔ یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کیونکہ شیام بہت اچھے گھڑ سوار تھے ۔ بعد میں تفصیل معلوم ہوئی کہ شیام ایک فلم "شبستان" کی شوٹنگ کے لئے گھڑ سواری کر رہے تھے۔ اچانک گھوڑا بدک گیا اور شیام گھوڑے سے نیچے گر گئے۔ گرنے سے زیادہ چوٹ نہیں آئی لیکن المیہ یہ ہوا کہ ان کا پیر رکاب میں پھنس گیا تھا ۔ گھوڑا مسلسل بھاگتا رہا یہاں تک کہ لوگوں نے اسکو پکڑ کر شیام کا پیر رکاب سے نکالا۔ مگر کافی دور تک زمین پر گھسیٹنے اور سر کے زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے شدید چوٹیں آئی تھیں۔ انہیں فوراً اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکے۔ اس طرح ایک ہنستا کھیلتا خوش باش اداکار چند لمحے میں زندگی سے رشتہ توڑ گیا۔
شیام جس وقت دنیا سے رخصت ہوئے اس وقت وہ شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ تھے۔ شیام رنگین مزاج اور دل پھینک تو تھے ہی۔ اس زمانے میں ایک سوشیل گرل ممتاز قریشی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات پسندیدگی اور پھر پیار میں تبدیل ہو گئی ۔ قیام پاکستان کے بعد جب شیام نے بمبئی میں رہائش اختیار کی تو ان کی شادی شدہ زندگی بہت خوشگوار تھی۔ شیام دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن دو بچے اور ایک بیوی چھوڑ گئے ۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی ۔ شیام کی ہلاکت کے بعد تاجی اپنے بچوں کو لے کر بمبئی سے لاہور آ گئی ۔ ان کا ایک بیٹا شاکر اور ایک بیٹی ساحرہ ساتھ تھی ، ممتاز بیگم عرف تاجی نے روالپنڈی کے ایک بڑے عہدے دار سے شادی کرلی جس نے تاجی اور شیام کے بچوں کو اپنے حقیقی بچوں کی طرح پالا پوسا، اعلی تعلیم دلوائی اور انہیں ہر وہ سہولت فراہم کی جو ایک باپ اپنے بچوں کو دے سکتا ہے ۔ ساحرہ نے ٹی وی میں اداکارہ اور بعد میں ہدایت کار کی حیثیت سے قابل تعریف کام کیا اور ان کا شمار ٹی وی کی بہترین فن کاراؤں میں ہونے لگا۔ اسی دوران ان کی ملاقات راحت کاظمی سے ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے ۔ اور چند ٹی وی ڈراموں میں ایک ساتھ کام کیا۔ اس رومانی جوڑی کو بہت پسند کیا گیا ۔ ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان دونون مین باہمی ہم آہنگی پیدا ہوگئی بالآخر ان دونون کی شادی ہو گئی ۔ اور دونوں ہنسی خوشی رہتے ہیں ۔ ساحرہ نے بعد میں ٹی وی پروڈیوسر کی حیثیت سے بہت اچھے موسیقی کے پروگرام پیش کیے۔ ساحرہ کاظمی کے بھائی شاکر امریکا میں رہتے ہیں۔ وہ ذہنی امراض کے ڈاکٹر ہیں لیکن جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کبھی پاکستان نہیں آئے ۔اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ بھی ان کا زیادہ میل ملاپ نہیں۔
اشتیاق احمد صاحب نے پاکستان میں ساحرہ کاظمی اور راحت کاظمی سے ملاقات کی۔ وہ شیام کے خاندان اور پس منظر جاننا چاہتے تھے مگر ساحرہ کاظمی اس بارے میں بالکل لا علم ہیں کیونکہ بچپن میں پاکستان آنے کے بعد ان کا شیام کے رشتے داروں سے کوئی تعلق یا رابطہ نہیں ہے ۔
انٹرنیٹ کی بدولت اشتیاق صاحب کا رابطہ شیام کے رشتے داروں سے ہو گیا۔ ان کے رشتے دار ہندوستان میں پونا(مہاراشٹر) اور دہلی میں رہتے ہیں ۔ شیام کے بھتیجے بمل چڈھا سے ای میل کے ذریعے ان کی دوستی ہو گئی ۔ بمل چڈھا صحافی ہیں اور بمبئی مین رہتے ہیں۔ جب ای میل کے ذریعے تعلقات گہرے ہوگئے تو طے پایا کہ چڈھا اشتیاق صاحب کو ہلو کہے گا اور وہ اسے چنٹوں کے نام سے مخاطب کریں گے ۔ بمل شیام کو شیام چاچا کہتا ہے۔ بمل چڈھا نے بتایا کہ اس نے کئی بار پاکستان آنے کی کوشش کی مگر یہ پروگرام پورا نہ ہو سکا۔ اشتیاق صاحب نے اسے بتایا کہ وہ اکثر انڈیا جاتے رہتے ہیں اس بار گئے تو بمل چڈھا سے ضرور ملیں گے ۔ بمل چڈھا شیام کے چھوٹے بھائی ہربنس چڈھا کا چھوٹا بیٹا ہے ۔
شیام کے بارے میں جو معلومات حاصل ہو سکیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

شیام کا اصل نام شیام سندر چڈھا تھا۔ اس کے گھرانے کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ چڈھا پنجابی ہندو کتھری ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شیام کی پرورش راولپنڈی میں ہوئی تھی ۔ اس نے پنڈی کے مشہور گورڈن کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد شیام نے فلمی صنعت میں کام کرنے کا ارادہ کیا ۔ شیام نے اداکاری کا آغاز ایک پنجابی فلم" گوانڈی" سے کیا۔ یہ فلم 1942ء میں بنائی گئی تھی۔ اس کے بعد وہ بمبئی چلا گیا جہاں اداکار کی حیثیت سے اس کو بہت کامیابیاں حاصل ہوئیں اور وہ ایک مقبول ہیرو بن گیا۔

اشتیاق صاحب جب انڈیا گئے تو انہوں نے شیام کے چڈھا خاندان سے نئی دہلی میں ملاقات کی ۔ بمل نے سب سے پہلے ان کی ملاقات ہربنس سے کرائی جو شیام کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ ان کی عمر اس وقت 90 سال تھی۔ وہ تندرست اور چلتے پھرتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ طویل عمر کی مجبوریوں نے انہیں بھی جکڑ لیا تھا۔ وہ کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے، ہربنس چڈھا کہیں آتے جاتے نہیں تھے ۔ ان کا تمام وقت اپنے گھر ہی میں گزرتا تھا۔ جو رشتے دار ان سے ملنا چاہتا تھا وہ ان ہی کے گھر آ کر ملاقات کر لیتا تھا۔ اشتیاق صاحب کے ساتھ ہربنس چڈھا بہت دیر تک باتیں کرتے رہے اور دونوں باہمی طویل گفتگو کے باعث ایک دوسرے کو اچھی طرح جان گئے اور گھل مل گئے جیسے طویل عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور شیام ایک دوسرے سے بہت قریب تھے اور دونوں میں بہت پیار تھا۔ ان کی والدہ دونوں کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔ والد نے دوسری شادی کر لی تھی مگر ان کی سوتیلی ماں بہت اچھی تھی اور ان دونوں سے سگے بیٹوں کی طرح محبت کرتی تھی ۔ سوتیلی ماں سے یہ دونوں بھی بہت پیار کرتے تھے کیوں کہ اس نے انہیں کبھی احساس تک نہیں ہونے دیاتھا کہ وہ اس کے سگے بیٹے نہیں ۔
اشتیاق صاحب کا کہنا ہے کہ شکل و صورت اور ڈیل ڈول کے اعتبار سے شیام اور ان کے بھائی ہربنس چڈھا میں بہت زیادہ مشابہت تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ شیام کا قد ہربنس چڈھا سے لمبا تھا۔
ہربنس چڈھا نے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ شیام کی تاریخ وفات دراصل 15/اپریل 1952 تھی، یہی تاریخ اتفاق سے ہر بنس چڈھا کی سالگرہ کی بھی تھی۔ اشتیاق صاحب نے امریکا میں رہنے والے شیام کے بیٹے شاکر سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش مگر یوں لگا جیسے وہ جان بوجھ کر ان سے ملنا نہیں چاہتا۔
ساحرہ اور شاکر کی بمبئی اور پونا میں بہت بڑی جائیداد ہے جو کہ درحقیقت شیام کی جائداد تھی ۔ انڈیا میں ان دونوں کے رشتے داروں نے بہت کوشش کی کہ وہ ہندوستان جاکر اپنی جائیداد حاصل کریں لیکن دونوں بہن بھائی میں سے کسی نے بھی اس جائیداد کو حاصل کرنے کی خواہش اور کوشش نہیں کی۔ اس کا سبب کوئی نہیں جانتا کہ وہ وارث کی حیثیت سے اپنے باپ کی اتنی بڑی جائیداد کیوں نہیں حاصل کرنا چاہتے؟
یہ شیام کی مختصر کہانی ہے ، اس سے زیادہ شیام کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔
شیام کی موت کے فوراً بعد جب اشتیاق صاحب پاکستان آئے اور لاہور کے پاک ٹی ہاؤس اور کافی ہاؤس میں جانا ہوا تو ان کی ملاقات ایسے کئی لوگوں سے ہوئی جو شیام کو جانتے تھے اور اس کے ساتھ پڑھتے رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خوش مزاج اور ہر وقت ہنستے رہنے والا طالب علم تھا۔ لڑکیوں مین وہ بہت مقبول تھا۔ اور بیک وقت کئی لڑکیوں سے اس کی دوستی تھی ۔ وہ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے حلقوں میں بہت مقبول تھا ۔ وہ طلباء کی سیاست اور آپس کے جھگڑوں سے دور رہتا تھا۔ اس طرح شیام سندر چڈھا عرف شیام جو لاہور میں پلا بڑھا تھا بمبئی میں زندگی کی بازی ہار گیا۔

ماخوذ از:
ماہنامہ 'سرگزشت' (پاکستان)، مارچ 2014 ، قسط:225

Shyam, a forgotten name of Indian cinema. Article: Ali Sufyaan Afaqi
Actor Shyam (1920-1951) who died very young

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں