بیدر
یہ مدرسہ نہ صرف دکن کی عمارات و آثار قدیمہ بلکہ ہندوستان کی علمی تاریخ میں ہمیشہ عظمت کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔ اس مدرسہ کا بانی محمد شاہ بہمنی کا مشہور علم پرور وزیر خواجہ جہاں محمود گاواں ہے۔ مدرسہ کی عمارت اب تک قائم ہے اور سیاحانِ عالم کے لیے مایۂ عبرت ہے، گو اس کے بعض حصے منہدم و شکستہ ہیں لیکن اس کی شان و شوکت وسعت و استحکام کی پوری ہیئت آج بھی دیکھنے والے کو بہ یک نظر معلوم ہو جاتی ہے۔ یہ مدرسہ فراز کوہ قائم کیا گیا تھا۔ عمارت کا طول شرقاً و غرباً (75) اور عرض شمالاً و جنوباً (55) گز ہے۔ مدرسہ کے سامنے دو بلند مینار تھے۔ جس میں سے ایک مینار ابھی تک موجود ہے۔ اس کی بلندی 100 فیٹ کی ہے۔ صحن مدرسہ میں مسجد تھی اور ہر چہار طرف مسلسل وسیع حجرے طلبہ و علما کی اقامت کے لیے بنے ہوئے تھے۔ جو طلبہ مدرسے میں رہتے تھے ، ان کے مصارف قیام و طعام وقت سے دیے جاتے تھے۔ مدرسہ کے لیے دور سے نلوں کے ذریعے آب رسانی کا سامان کیا گیا تھا۔ الغرض تمام ہندوستان میں اس سے زیادہ عظیم الشان اور وسیع سلسلۂ عمارت درس گاہ کے لیے کبھی اور کسی دور میں نہیں بنا۔
محمود گاواں کے علمی ذوق کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کے مکان سے بہ روایت 'حدیقۃ الاقالیم' مصنفہ میر تقی حسن پینتیس (35) ہزار کتابیں مختلف علوم و فنون کی نکلیں۔ مدرسہ بیدر کی تاریخِ بنا، اس عہد کے ایک شاعر سامعی نے آیت 'ربنا تقبل منا' سے نکالی اور اس کو اس طرح ایک رباعی میں جگہ دی ہے:
اس مدرسۂ رفیع محمود بنا
چوں کعبہ شدہ است قبلۂ اہل صفا
آثار قبول بیں کہ شد تاریخش
از آیت ربنا تقبل منا
گلبرگہ
احمد شاہ بہمنی نے اپنے پیر سید محمود گیسودراز کے لیے گلبرگہ کے مضافات میں کسی مقام پر ایک مدرسہ قائم کیا ، صحیح طور پر مقام کی تعین نہیں ملی۔ نریندرا ناتھ لا نے اپنی کتاب میں اس مدرسہ کا ذکر کیا ہے اور سن بنا 1422 لکھا ہے۔ چونکہ احمد شاہ بہمنی پیر مذکور رحمۃ اللہ علیہ کا مرید تھا اس لیے روایت کا صحیح و درست ہونا ممکن ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ یہ مدرسہ خانقاہی مدرسوں کے انداز پر ہوگا۔
گولکنڈہ
مصنف "آثار خیر" بہ حوالہ 'تاریخ ہند' شمس العلما مولوی ذکا اللہ لکھتا ہے کہ ابراہیم قطب شاہ والئ گولکنڈہ نے اپنے دارالخلافہ میں کئی مدارس قائم کیے۔
چارمینار (حیدرآباد)
محمد قلی قطب شاہ گولکنڈہ نے خاص حیدرآباد میں متعدد مدرسے قائم کیے۔ تاریخ عزیز دکن سے معلوم ہوتا ہے کہ چارمینار کا سالِ بنا 998 ھجری ہے۔ اس میں ایک بہت بڑا مدرسہ تھا۔ تھیوی ناٹ سیاح نے اپنے سفرنامہ میں اس کے حالات لکھے ہیں اور اس کی بڑی تعریف کی ہے۔
قطب شاہ علوم و فنون کا مربی اور اشاعت تعلیم کا بہت بڑا حامی تھا۔ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے حدود مملکت میں بہ کثرت مدارس قائم کیے۔ ایک یورپین مصنف شائرل اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ:
"اس نے جنوبی ہند میں ابتدائی مدارس بہ کثرت قائم کیے، لڑکے ان مدارس میں بنچوں پر بیٹھتے ہیں اور نرکل سے چینی کاغذ پر لکھتے ہیں جو بہت چکنے مگر صفائی میں یورپین کاغذ سے کم رتبہ ہوتے ہیں۔"
ماخوذ از:
ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں (مصنف: مولانا ابوالحسنات ندوی)
ناشر : دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ۔ (صفحہ 56 تا 58)
ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں (مصنف: مولانا ابوالحسنات ندوی)
ناشر : دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ۔ (صفحہ 56 تا 58)
the madrasas of deccan.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں