اچھے دنوں کی آس - انشائیہ از مبارک علی مبارکی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-07-10

اچھے دنوں کی آس - انشائیہ از مبارک علی مبارکی

achche-din-ki-aas
"اجی سُنتے ہیں !"
بیگم نے بڑے پیار سے کرخت لہجے میں پکارا اور دل سینے سے باہر آتے آتے رہ گیا۔
دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم قوم یعنی قومِ شوہران سے تعلق رکھنے والے افراد اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ "اجی سُنتے ہیں !" کوئی معمولی فقرۂ ندا نہیں بلکہ صورِ اسرافیل کی ہی ایک چھوٹی شکل ہے جو کسی بڑی قیامت کے آنے کا اعلان ہوتی ہے _
رمضان کی آخری جمعرات تھی اور ستائیسواں یا اٹھائیسواں روزہ تھا ۔ دن جمعرات کا تھا یہ تو پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں لیکن روزہ کون سا تھا اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ دراصل محلّے کی دو مسجدوں میں رمضان کے دو الگ الگ چاند دیکھے گئے تھے۔ ایک مسجد میں منگل کی رات کو لیلتہ القدر منائی گئی تھی جبکہ دوسری مسجد والوں نے گزشتہ شب رات بھر لاؤڈ اسپیکر پر اِس مقدّس رات کی عبادت کی تھی۔
بہرحال رمضان کی جو بھی تاریخ رہی ہو لیکن وقت تو بلا شک و شبہ دوپہر کا ہی تھا جب چھوٹے صورِ اسرافیل کی آواز نے کانوں کے پردے پھاڑے۔
"جی فرمایئے ، ہمہ تن گوش ہوں۔" میں نے مہذّب جواب دیا۔
"خرگوش ورگوش بننے کی ضرورت نہیں۔ جو بولتی ہوں کان کھول کر سنو۔" بیگم ماشاءﷲ اردو میں آنرز کر چکی تھیں۔
میں نے کُھلے ہوئے کانوں کو پھر سے کھولا۔ "بولو کیا ہوا ؟"
"ہونا کیا ہے؟ ذرا یہ سِلِپ لے کر جاؤ اور حسینہ سے میرے کپڑے لے آؤ۔"
"حسینہ؟ کون حسینہ ؟" میں نے اپنی خوشی کو چُھپاتے ہوئے پوچھا۔
"دماغ مت کھاؤ۔ حسینہ ٹیلرز کی بات کر رہی ہوں۔" مایوس کن جواب آیا۔

باہر حضرتِ آفتاب نے آگ برسانے میں اپنا پورا زور لگا دیا تھا۔ شاید اُنہیں اِس بات کا غصّہ تھا کہ لوگ اُن کی بھیک کے ٹکڑوں پر پلنے والے چاند کو لیکر آپس میں لڑائیاں کر رہے تھے جبکہ خود اُنہیں کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی تھی۔ لہٰذا وہ اپنی اہمیت منوانے کے لئے زمین کو ہی جہنّم بنانے پر تُلے تھے۔
اس چلچلاتی دھوپ میں گھر سے نکلنے کو جی تو بالکل نہیں چاہتا تھا۔ لیکن حکمِ بیگم مرگِ مفاجات ! حضرتِ آدم تو اِس چکّر میں جنّت تک سے جِلا وطن ہوئے تھے۔ پھر ہم بھلا کون سے بِگ بازار کی مولی ہیں۔ آخر گھر سے نکلنا ہی پڑا۔
ٹیلر کی دکان، بقول بیگم، بغل میں ہی تو تھی۔ بس پینتالیس منٹ میں پیدل ہی پہنچ گیا۔ دکان پر فیشن ایبل برقعوں میں لپٹی بے پردہ مستورات کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔
دُکان کے اندر جاتے ہوئے جھجھک سی ہونے لگی کیونکہ گاہکوں میں میرے علاوہ کوئی مرد نہیں تھا۔ لہٰذا باہر کھڑا ہوکر خوبصورت بھیڑ کم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
سورج گرچہ اب بھی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا لیکن مجھے دھوپ میں بھی چاندنی کا احساس ہو رہا تھا کیونکہ نظر کے سامنے بیشمار حسین چاند جگمگا رہے تھے اور زندگی میں دوسری بار مجھے بیگم پر پیار آنے لگا۔ پہلی بار تب آیا تھا جب دس سال پہلے وہ سچ مچ ایک ہفتے کے لئے مائکے چلی گئی تھیں۔
اچانک ٹیلر ماسٹر کی نظر مجھ پر پڑ گئی اوراُس نے وہیں سے سلام داغ دیا، " ارے سر آپ ! السلام و علیکم "
میں نے غور سے دیکھا۔ ارے یہ تو میرا ہی شاگردِ رشید فرحتﷲ ہے۔
مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ ماشاءﷲ میرے پڑھائے ہوئے بچّے کتنی ترقّی کر رہے ہیں ! خیرو رکشہ چلاتا ہے، رمضو سائیکل کے پنکچر بناتا ہے، رمضانی ویلڈنگ دُکان میں کام کرتا ہے اور فخرو نے تو کمال ہی کر دیا۔ چولیا ہوٹل میں برتن دھوتا تھا لیکن اپنی محنت اور لگن سے صرف دس سال میں ترقّی کر کے آج اُسی ہوٹل میں ہیڈ باورچی کے عہدے پر فائز ہے۔ ماشاءﷲ اردو اسکول میں پڑھنے والے سارے بچّے برسرِ روزگار ہیں۔
لیکن میرا بیٹا، جس نے ہوش سنبھالے بغیر ہی "بابا کالی بھیڑ" اور "جانی جانی جی ابّا، چینی کھا رہا ہے، نئیں ابّا" جیسی نظموں کا انگریزی ترجمہ حفظ کر کے اپنے والدین کا سر فخر سے اونچا کر دیا تھا، اِتنا خوش نصیب ثابت نہیں ہُوا۔
میں نے اس کا داخلہ سینٹ پیٹرس اسکول میں کروا دیا تھا۔ وہاں سے بارہویں پاس کرکے سینٹ زیویرز کالج سے انگریزی میں آنرز بھی کیا۔ لیکن پھر بھی اب تک برسرِ روزگار نہ ہو سکا تھا۔
چار سال پہلے ایک اُمّید بندھی تھی جب ایک چھپّن اِنچ کی چھاتی والے چھوٹے سے چوکیدارنے یہ اعلان کیا کہ اگر اُسے پورے دیش کا چوکیدار بنا دیا جائے تو وہ ہر سال دو کروڑ بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرے گا۔
میں نے بیٹے سے کہا کہ بیٹا ہمیں اِس چھوٹے سے چوکیدار کو دیش کا سب سے بڑا چوکیدار بنانے کے لئے محنت کرنی چاہئے۔
بیٹا چونکہ کچھ لال جِلد والی کتابیں پڑھ چکا تھا اِس لئے تھوڑا نافرمان سا ہو گیا تھا۔ کہنے لگا،"ہرگز نہیں، اُس کی گاڑی کے ٹائر کتّے کے پِلّوں کے خون سے رنگے ہیں۔"
میں نے سمجھایا کہ بیٹا پِلّوں کے نصیب میں تو یہی لکھا ہوتا ہے کہ جو ہڈّی دِکھادے اُدھر
دوڑ لگا دیں اور ایک دن کسی گاڑی کے پہیّوں کے نیچے کچل کر مارے جائیں۔ اور پھر چوکیدار نے تو پِلّوں کے کچلے جانے پر افسوس بھی جتا دیا۔ لیکن بیٹا کہاں ماننے والا تھا؟
آخرکار مجھے کہنا ہی پڑا کہ بیٹا دوسروں سے ہمدردی جتانا بس ایک حد تک اچھا لگتا ہے۔ دنیا دِکھاوے کے لئے پِلّوں کی موت پر آنسو بہانے میں کوئی بُرائی نہیں لیکن انسان کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادن کو پِلّائی مفاد پر ترجیح دینی چاہئے۔ جِس طرح ہمارے قومی و مِلّی رہنما کرتے ہیں۔
ﷲ کا شکر ہے کہ بیٹے کی عقلِ سلیم بیدار ہوئی اور وہ چوکیدار کی حمایت پر آمادہ ہو گیا۔
مجھے پوری امید تھی کہ اب میرے بیٹے کو روزگار مل جائے گا۔ باپ بیٹے دونوں مل کر کمائینگے تو ہمارے بھی اچھے دن آ جائینگے۔
چھوٹے سے چوکیدار کو بڑا سا چوکیدار بنے جب چار سال ہونے کو آئے اور میرے بیٹے نے اُسے اپنا وعدہ یاد دلایا تو چوکیدار نے کہا "جا کر پکوڑے بیچو۔"
اب بیٹا کوئی میرے اردو اسکول کا پڑھا ہوا تو تھا نہیں جو چوکیدار کہنے پر عمل کر لیتا۔ سو اُس نے یہ مشورہ ٹھکرا دیا اور مقابلہ جاتی امتحانات دینے کا کام شروع کردیا۔
ملازمت تو خیر اُسے اب بھی نہیں ملی ہے لیکن وہ آجکل اپنے شاندار مستقبل کے سپنے دیکھ دیکھ کر خوش ضرور رہنے لگا ہے۔
فرحتﷲ سے بیگم کا سوٹ لیکر گھر لَوٹتے ہوئے میں نے اپنے دل میں مصمم ارادہ کرلیا کہ میں بیٹے کو سمجھا بّجھا کر فرحتﷲ کی دکان پر رکھوا دونگا۔ ذہین لڑکا ہے۔ دوچار سال میں اچھا درزی بن جائے گا۔ اپنے ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے ایک ٹیلرنگ شاپ کُھلوا دوں گا۔ خود بھی وہیں بیٹھ جاؤں گا۔ بیٹا برسر روزگار ہوجائے گا اور میرا بُڑھاپا بھی آرام سے کٹ جائے گا۔
اچانک خیال آیا کہ اگر بیگم نے مجھ سے اپنے کپڑے نہ منگوائے ہوتے تو آج یہ گرانقدر آئیڈیا میرے ذہن میں ہرگز نہ آیا ہوتا۔
آج زندگی میں تیسری بار مجھے بیگم پر پیار آ رہا تھا۔

***
"Hayat Rise", 4th Floor, 19, Alimuddin Street, Kolkata-700 016.
ای-میل: mubarak.mubarki[@]gmail.com
موبائل: 08961342505
فیس بک : Mubarak Ali Mubarki
مبارک علی مبارکی

Achche dino ki aas. Humorous Article: Mubarak Ali Mubarki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں