کچھ دنوں بعد کسی کام سے دہلی پہنچا۔ این سی ای آر ٹی کے گیسٹ ہاؤس میں ناصر کا مہمان ہوا ۔ میزبان مجتبیٰ ہوئے۔ میں حیدرآباد یوں کا پہلے ہی سے اسیر تھا۔ مجتبیٰ کے خلوص نے ایک گرہ اور بڑھا دی۔ دہلی میں دھیرے دھیرے یہ بات بھی کھلی کہ مجتبیٰ بھی نارنگ صاحب کے قریب ہیں۔ یہ قربت بڑھتے بڑھتے قرابت کی صورت اختیار کر گئی ۔ اب میرے اور مجتبیٰ کے بیچ سے ناصر غائب ہوگئے یعنی اب ہمارا عشق ننھے پیامبر کا محتاج نہ رہا۔ میرے احباب کا حلقہ بہت محدود ہے ۔ دہلی میں دو ڈھائی آدمی میرے لئے سب کچھ تھے اور ہیں۔ ان سے ملنے کے بعد میں خود مجتبیٰ کے حوالے کردیتا ہوں اور وہ ہر سفر میں کم سے کم تین نئے آدمیوں سے ملواتے ان سے میری خاطر کرواتے اور ان کو میرے شعر بھی سنواتے ہیں ۔ ان ملنے والوں میں ادیب شاذونادر ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے ان سے میرے تعارف میں پہلے’’ گمن‘‘ اور پھر’’امراؤ جان‘‘ کی غزلوں کی طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں۔
مزاح نگاری کی وجہ سے ان کے مزاج میں مبالغہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔( یا یوں کہئے کہ مزاج کے مبالغے نے مزاح نگاری کی طرف انہیں لگایا ہے) اس لئے وہ دوستوں کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ یہ پتا نہیں چلتا کہ تعریف کہاں ختم ہوئیا ور کھنچائی کہاں شروع ہوئی ۔ کچھ لوگوں کی تعریف میں البتہ احتیاط برتتے ہیں۔ میں ان میں سے ایک ہوں۔ اس کے باوجود ان کی صحبت میں ہر آن چوکنا رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اردو کا شاید ہی کوئی ادیب ایسا ہو جو دہلی آئے اور مجتبیٰ سے بغیر ملے واپس چلا جائے ۔ یعنی انہوں نے ادیبوں کی پولیس چوکی کھول رکھی ہے ، جہاں آمد اور روانگی دونوں درج ہوتی ہیں۔ مجھے اب عادت سی پڑ گئی ہے۔ پہنچتے ہی اور اب ٹیلی فون کی آسانی کی وجہ سے پہنچنے سے پہلے ان کو اطلاع کردیتا ہوں اور واپسی سے پہلے اجازت لے لیتا ہوں، میں کس سے ملوں گا، کیا کھاؤں گا ، کیا پیؤں گا، کب تک رہوں گا ۔ یہ سب کچھ مجتبیٰ طے کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے خود پر غصہ آنے لگتا ہے ۔ وہ شخص جو آج تک زن مرید نہیں ہوا مجتبیٰ مرید کیونکر ہوگیا۔
موصوف صرف باتیں نہیں کرتے کام بھی کرتے ہیں۔ یعنی بڑے کام کے آدمی ہیں۔ دہلی بلکہ ہندوستان میں کوئی جائز کام اور ضرورت پر ناجائز کام بھی آپ کو کرانا ہو تو مجتبیٰ سے رجوع کیجئے ۔ شرط یہ ہے کہ وہ آپ کو اپنا دوست سمجھتے ہوں۔ وہ اور ان کا اسکوٹر اس وقت تک دم نہیں لیتے جب تک کام مکمل نہ ہوجائے۔ ان کے معمولات کا اندازہ ان کے اس قول سے کیاجاسکتا ہے کہ دن اور رات کہیں بھی گزارو صبح کو اپنے بستر سے اٹھو۔ ان کی بیوی یعنی میری بھابھی ان کی اسی ادا پر جان دیتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ انہوں نے یہ بات شادی کی پہلی رات کو مجھ سے کہی تھی۔ زبان کے بڑے پکے ہیں آج تک اس بات پر قائم ہیں۔ این سی ای آر ٹی کی کتابوں کو چھپوانے اور ٹھکانے لگانے کے علاوہ ان کا کام دوسروں کے لئے روزی ڈھونڈنا، مکان تلاش کرنا، دوستیاں کرانا، ضرورت مندوں کو منسٹروں سے ملوانا، الیکشن کے ٹکٹ دلوانا، اخباروں میں لوگوں کے فوٹو اور ان کے کارناموں کی خبریں چھپوانا، کتابوں کی رسم اجرا پر ادیبوں کے خاکے ہی نہیں لکھنا بلکہ پیسوں کی فراہمی کا انتظام کرنا، پاسپورٹ اور ویزا بنوانا ، شوہر اور بیوی کے خراب تعلقات کو درست کرنا اور تعلقات کی خرابی کے قانونی اور کبھی کبھی طبی نکات پر روشنی ڈالنا، میں کہاں تک گنواؤں موصوف کا دائرہ عمل۔ بس یوں سمجھ لیجئے اردو میں یہ پہلے اور آخری سپر مین ہیں، خود ان کا کہنا ہے کہToo Muchتک سب جاسکتے ہیں مگر ہمThree Muchہیں اور مرتے دم تک اس پر قائم رہیں گے۔
کبھی کبھی ہم دبی زبان سے بچوں اور بیوی کے حقوق کا ذکر کرتے ہیں لیکن بہت جلد کسی دوسرے اہم حق اور فرض کو یاد کرکے اپنے اوپر گھڑوں پانی ڈال لیتے ہیں۔ ہندوستان کی سیاحت سے تھک جاتے ہیں تو بیرون ملک نکل جاتے ہیں ۔ کبھی مشرق کی طرف تو کبھی مغرب کی طرف۔ میں جب فرانس اور انگلستان کے سفر پر جارہا تھا تو انہوں نے ا پنے آشناؤں کے اتنے ڈھیر سارے فون نمبر دئیے تھے کہ مجھے ہینڈ بیگ کے سامان کو سوٹ کیس میں منتقل کرنا پڑا ۔ پردیس میں ان میں سے کئی پتے اور ٹیلیفون نمبر میں نے استعمال کئے اور مجبتیٰ کا قائل ہوا ۔ پتا نہیں وہ کون سا خلوص ہے جو مجتبیٰ استعمال کرتے ہیں کہ آدمی ان کا اسیر ہو جاتا ہے ، میں نے کئی بار ان کا برانڈ جاننا چاہا لیکن انہوں نے کبھی بتاکر نہیں دیا۔
علی گڑھ میں جب سے ہاشم علی صاحب وائس چانسلر ہوکر آئے ہیں،مجتبیٰ کی آمد و رفت بڑھ گئی ہے ۔ وہ عام طور پر کسی کی سفارش لے کر آتے ہیں۔ ہاشم علی صاحب کے کہنے کے باوجود وہ ٹھہرتے میرے ہی یہاں ہیں۔ علی گڑھ کے کئی لوگ بغیر مجھے بتائے ہوئے، میرے حوالے سے ان سے مل چکے ہیں اور ان سے اپنا کام کراچکے ہیں۔ عابد علی خان ان کی سب سے بڑی کمزوری ہیں ۔ وہ جب دہلی آتے ہیں تو مجتبیٰ کا پروگرا مان کے پروگرام کے تابع ہوجاتا ہے ۔ جب تک ہوائی جہاز ایئر پورٹ سے اڑ نہیں جاتا مجتبیٰ اپنے میں واپس نہیں آتے۔ زندہ دلان حیدرآباد کے تمام اراکین پر وہ جان چھڑکتے ہیں۔ اقبال سمینار کے دوران میں ان لوگوں سے اجتماعی طور پر ملا ۔ فرداً فرداً تو پہلے بھی مل چکا تھا۔ واقعی زندہ دل لوگ ہیں۔
حیدرآباد کو اپنے پورے جمال میں مجتبیٰ کے ساتھ ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ میرا کئی بار کا تجربہ ہے۔ حیدرآباد کا کوئی قابل ذکر شخص ایسا نہیں ہے جو مجتبیٰ کو نہ جانتاہو۔ دہلی میں حیدرآباد کی سفارت کا کام مجتبیٰ کرتے ہیں۔ آندھرا پردیش گیسٹ ہاؤس کا ایک چکر ان کے روز مرہ کے معمول میں ہے ۔ حسینی صاحب اور مجتبیٰ جب مخصوص حیدرآبادی لہجے میں حیدرآباد سے آنے اور حیدرآباد کو جانے والے اشخاص کا ذکر کرتے ہیں تو بڑاا چھالگتا ہے ۔
مجتبیٰ میں اختراعی قوت بے پناہ ہے ۔ جو اس قوت کی زد میں آیا رسوا ہوا ۔ وہ ذرا سی بلکہ معمولی سی بات میں ایسی نمک مرچ لگاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ان دنوں ان کو ایک غم بہت ستا رہا ہے۔ میں ان کے غم کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہوں لیکن یہ مرض بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ میں کھاؤں کہاں کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ کے مصداق عجیب مخمصے میں ہوں۔
مجتبیٰ اردو کے ادیبوں اور شاعروں کی رگ رگ سے واقف ہیں ۔ ان کی فطری کمزوریوں کو وہ خوب خوب ہوا دیتے ہیں اور پھر اپنے قلم سے ان کو زندہ جاوید کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کے بعض کمزور خاکوں کی طرف جب میں نے اشارہ کیا تو ان کا برجستہ جواب یہ تھا کہ جس ادیب کی کوئی شخصیت نہ ہو، میں اس کا چھا خاکہ کیوں کر لکھ سکتا ہوں ۔ فرمائشی کام تو ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ میں اور مجتبیٰ کئی بار مرتب زندگی گزارنے کا میلان بنا چکے ہیں۔ لیکن جس طرح ہندوستان کا کوئی پنج سالہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا، ہمارا منصوبہ بھی ناکام رہا ہے۔ شاید ہم لوگوں کی بنیادوں میں کچھ کجی ہے۔ مجتبیٰ میں کئی کمزوریاں ہیں جو ان کی شخصیت کی دلنوازی کی وجہ سے کسی کو نظر نہیں آتیں یہ لوگوں کا کہنا ہے ۔ مجھ میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ میں کسی دوست کی کمزوری کو دیکھ نہیں سکتا۔ بلکہ کمزوری کو اس کی طاقت تصور کرتا ہوں اور اس بات پر لڑ جاتا ہوں ۔ مجتبیٰ سے ایسی لڑائیاں کئی بار ہوچکی ہیں ۔
چند سالوں پہلے مجتبیٰ کے تعارف میں ان کے بڑے بھائی ابراہیم جلیس کا ذکر ضرور شامل ہوتا تھا لیکن دھیرے دھیرے مجتبیٰ نے ادبی میدان میں ایک ایسا مقام بنالیا ہے کہ خود مکتفی ہوگئے ہیں۔ یہ ایک بڑی بات ہے ۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ مجتبیٰ میرے بہت قریبی دوست ہیں۔ خدا ان کو اور بھی بلندیوں تک لے جائے۔ سلور جبلی کے بعد ان کی گولڈن جبلی ہو۔
ماخوذ: مجلہ 'چہار سو' ، راولپنڈی، پاکستان۔
"مجتبیٰ حسین نمبر" ، جلد:24 ، شمارہ: جنوری/فروری 2015
"مجتبیٰ حسین نمبر" ، جلد:24 ، شمارہ: جنوری/فروری 2015
Mujtaba Hussain, the superman of Urdu literature. Article: Dr. Shahryar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں