مزاح میں گہرائی طنز کے بغیر نہیں آسکتی، اور طنز کی پہلی شرط غصہ نہیں بلکہ فکر ہے ۔ یہ سمجھنا کہ طنز نگار کا میلان مفکرانہ نہیں ہوتا، طنز نگاری اور کالم نگاری کو خلط ملط کرنا ہے ۔ مفکرانہ میلان سے میری مراد یہ نہیں کہ طنز نگار کسی فلسفے کی تلقین کرتا ہے یا وہ افلاطون اور ارسطو کی کتابیں پڑھ کر ان کے خیالات کو بیان کرتا ہے ۔ مفکرانہ میلان سے مراد یہ ہے کہ طنز نگار خو د کو دنیا اور اہل دنیا کی کمزدوریوں اور مجبوریوں سے اوپر سمجھتا ہے لیکن وہ ان کمزوریوں اور مجبوریوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ وہ خود بھی ان برائیوں کا شکار ہوسکتا ہے ۔ اس میں کھلنڈرا پن نہیں ہوتا لیکن ایک طرح کیIrreverenceاس میں ضرور ہوتی ہے جیسا کیہS.J.Perelmanنے کہا ہے ، لوگوں کے کولہوں میں کبھی کبھی سوئی چبھوتے رہنا چاہئے ۔ لیکن یہIrreverenceسرکس کے مسخرے والی حرکت نہیں ہوتی، جو ہیروئن کو چپت لگا کر خود چاروں شانے چت گرجاتا ہے ۔ ہمارے زمانے کے اکثر ظریفانہ ادیبوں نے خود کو میر کے شیخ کے مصداقبنالیا۔
شہرہ رکھے ہیں تیری خریت جہاں میں شیخ
مجلس ہو یا کہ دشت اچھل کود ہر جگہ
بہت دن پہلے جب میں نے مجتبیٰ حسین کی تحریریں پڑھی تھیں تو ان کی نثر کی چستی اور بھونڈے اچھل کود والے لطیفوں اور فقروں سے ان کے اجتناب کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا تھا کہ اعلیٰ مزاحیہ تحریروں کا گھر جو ایک عرصہ سے اردو میں بند پڑا تھا آہستہ آہستہ کھل رہا ہے ۔ میں نے اس وقت بھی ان کا خیر مقدم کیا تھا جب وہ حیدرآباد کے ایک بالکل نو آمدہ لیکن چلبلے اور کسی طائر نو پر کی طرح نئی نئی اڑانیں بھرنے کے شائق مزاح نگار کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے تھے۔ پچھلے بیس برسوں میں میں نے بہت سے نئے ادیبوں سے توقعات وابستہ کیں، اور ان میں سے اکثر نے بعد میں مایوس کیا ۔ یہ بھی ہمارے زمانے کا المیہ ہے کہ لوگوں کے شعلے بہت جلد بجھ جاتے ہیں یا شاید اب کے لوگ کاروبار ادب میں روحانی اور داخلی منفعت کے بجائے شہرت اور مالی منفعت زیادہ تلاش کرتے ہیں۔ بات جو بھی ہو میری کتابوں کی الماریاں ایسے مجموعوں سے بھری پڑی ہیں جن میں شامل تحریروں کے لکھنے والے آج یا تو خاموش ہیں یا پہلے سے بہت خراب لکھ رہے ہیں۔ مجتبیٰ حسین کے بارے میں مجھے یہ خوف کئی سال تک رہا کہ یہ چمک دمک یہ آن بان کہیں چار دن کی چاندنی نہ ہو ۔ میں نے ان کی ہر تحریرکو اور بعد میں جب ان سے ملاقات ہوئی اور ملاقاتیں ہونے لگیں تو خود ان کو اسی غور اور شوق اور تشویش سے دیکھا ، جس غور اور شوق اور تشویش سے کوئی ماہر نباتات کسی ایسے پودے کو دیکھتا ہو جس کا دنیا میں صرف ایک نمونہ ہو اور جس پر اس پودے کی تمام نسل کے قیام و استقلال کا دارومدار ہو ۔ وہ جس طرح ہر ہر پتی، ڈالی کی ہر نوک اور پھنگی کو توجہ سے دیکھتا ہے کہ کہیں مرجھا تو نہیں رہی ہے ، کمزور تو نہیں پڑ رہی ہے ، اسی طرح مجتبیٰ حسین اور ان کی تحریروں کو دیکھتا تھا کیوں کہ مجھے یقین ہی نہ آتا تھا کہ ایسا طرحدار مزاح نگار دس پانچ برس کے بعد بھی ترقی کرتا رہے گا۔ کیا معلوم ہمارے بزرگ مزاح و طنز نگاروں کا بھونڈا پن، ان کا مسخرا پن، ان کی تلملاتی ہوئی جھنجھلاہٹ اس پر کب اثر انداز ہوجائے ۔ لیکن مجبتیٰ حسین نے میں ہی کیا مجھ سے بہتر لوگوں کو بھی حیرت میں مبتلا رکھا۔ اور اب جب کہ ہم ان کے سفر نامہ جاپان کا خیر مقدم کرنے یہاں جمع ہوئے ہیں تو اس اطمینان اور یقین کے ساتھ کہ ابھی اس کنویں میں کئی ڈول پانی ہے ۔
معاصر ظریفانہ ادیبوں میں دو ہی چار ایسے ہیں جنہوں نے طنزومزاح کی ادبی حیثیت کو دوبارہ مستحکم کیا ہے ۔ ایسے لوگوں میں مجبتیٰ حسین کا نام بہت نمایاں ہے ۔ مشتاق احمد یوسفی ظاہر ہے ، اس گروہ کے سردار ہیں ۔ کوئی اور اصطلاح میسر نہ ہو پر میں ان لوگوں کو ادبی مزاح و طنز نگار کہتا ہوں ۔ اس وجہ سے نہیں کہ مشتاق احمد یوسفی کی طرح مجتبیٰ حسین کے یہاں بھی اردو کے ادب عالیہ کی روایت اور اس کے کارناموں سے گہری واقفیت کا اظہار ہوا ہے ۔ بلکہ اس وہج سے کہ ان لوگوں نے طنزومزاح کی اس روایت کو زندہ کیا ہے جس کا سلسلہ سودا اور میر سے لے کر پطرف بخاری تک پھیلا ہوا ہے ۔ مجتبیٰ حسین ابھی ’’ہم‘‘ کے جال سے اور لطیفہ گوئی کے گورکھ دھندے سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ شاید وہ وقت نزدیک ہی ہے جب وہ ان بیساکھیوں کو بالکل ترک کردیں گے لیکن جو چیز ان کی سب سے بڑی قوت ہے ۔ وہ یہ کہ انہیں زبان کو مزاحیہ طریقے سے برتنے کا سلیقہ آتا ہے جیمس تھر برJames ThurberنےNew Yorkerکے ایڈیٹر ہرالڈراسHarold Rosesکے بارے میں لکھا ہے کہ وہ جس مزاح نگار کو کم تر درجے کا قرار دیتا تھا اس کے بارے میں وہ کہتا تھا کہHe is not funny he does not know Englishیعنی اس کی ظرافت مزے دار نہیں ہے اس کو زبان نہیں آتی۔ تھربر کہتا ہے کہ جب راس سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی اور تھربھر نے اس کو اپنی لیاقتوں کی فہرست کی فہرست بنائی تو راس نے پوچھا۔’’ وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن تم کو انگریزی آتی ہے کہ نہیں؟‘‘ تھربر نے جواب دیاکہ’’ کیوں نہیں ، آتی؟‘‘ تو راس نے کہا’’خدا غارت کرے ، انگریزی کسی کو نہیں آتی۔‘‘ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مزاح نگار کو زبا ن کی قوت کا اندازہ ہونا کس قدر ضروری ہے۔ ہنسی پیدا کرنے والے واقعات تو ہما شما سب نکال لیتے ہیں لیکن زبان کو اس طرح برتنا کہ تضاد، تناسب، توازن کے ذریعہ، ہنسی والی بات بن جائے ہر ایک کا کام نہیں ۔ مجتبیٰ حسین ان تینوں طریقوں کو بہت خوبی سے برتتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے کی خرابی یہ ہے کہ جب بھی زمین پر کوئی آفت آتی ہے تو آسمان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں ۔ کپڑے بنانے والی کمپنیاں ہمیشہ اپنے کیلینڈروں پر ایسی حسیناؤں کی قد آدم تصویر چھاپتی ہیں جن کے بدن پر گھڑی اور انگوٹھی کے سوائے کوئی لباس نہیں ہوتا ۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اس شہر میں ہمیں اپنے سوا کوئی سستی چیز نظر نہیں آتی۔‘‘ کمرہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں کسی خواب کے داخل ہونے کی گنجائش نہیں ہے ۔ ان جملوں میں وہ باریکیاں ہیں جو تخلیقی زبان میں ہوتی ہیں۔
پھر یہ بھی ہے کہ مجتبیٰ حسین کو غیر متوقعConnectionsملانا خوب آتا ہے ۔ یہ صفت بھی زبان کے خلاقانہ استعمال سے پیدا ہوتی ہے ۔ قدرت اللہ مجھ سے ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ وہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ درست بھی تھا کیوں کہ ایک بار میں نے خود اپنی آنکھوں سے انہیں سوکھی روٹی کا ٹکڑا چٹنی کی مدد سے کھاتے اور بعد میں پانی پیتے دیکھاتھا۔‘‘ ایک زمانے میں انگریزی تعلیم کے زیر اثر لوگوں کا خیال تھا کہIncongruityمزاح کا جوہر ہے ۔ بات صحیح ہے لیکنIncongruityکا مطلب بے تکاپن نہیں، بلکہ غیر متوقع چیزوں کو یک جا کرنا ہے۔ مجتبیٰ حسین اس کے ذریعہ طنز کا بھی کام لیتے ہیں۔ ان کی شگفتگی کو دیکھ کر بعض لوگ اس بات کا اندازہ کر جاتے ہیں کہ وہ معاصر دنیا سے خاصے ناراض بھی ہیں اور ان کا مزاح ان کے طنز سے الگ نہیں ہے۔ جاپان چلو جاپان چلو، میں ان کی ناراضگی ذرا کم جھلکتی ہے ۔ ویسے یہ ٹھیک بھی ہے، کیونکہ میں انہیں سفر نامہ نگار یا نامہ نگار نہیں سمجھتا بلکہ میں انہیں پطرس بخاری کی کرسی کی طرف بڑھتا ہوا دیکھنا پسند کرتا ہوں۔
ماخوذ: مجلہ 'چہار سو' ، راولپنڈی، پاکستان۔
"مجتبیٰ حسین نمبر" ، جلد:24 ، شمارہ: جنوری/فروری 2015
"مجتبیٰ حسین نمبر" ، جلد:24 ، شمارہ: جنوری/فروری 2015
Mujtaba Hussain and his satirical Humour. Article: Shamsur Rahman Farooqi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں