زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لئے
دنیائے فانی میں کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جنہیں تاریخ بناتی ہے اور کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جو خود تاریخ بناتے ہیں جنہیں تاریخ ساز کہاجاتا ہے بے شک مولانا آزاد ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔
میری پہلی ملاقات ان سے تب ہوئی جب میں ایک وفد کے ساتھ ان کے دولت کدے پر گیا ۔ جب وفد بات چیت کرکے ان سے رخصت ہونے لگا تو مولانا نے مجھے روک لیا۔ سب لوگ چلے گئے تو مجھے ا پنے ڈرائنگ روم میں لے گئے خادم کو آواز اور مجھے اپنے نزدیک کرسی پر بیٹھنے کے لئے کہا۔ میں از راہ ادب و احترام ذرا ہٹ کر بیٹھنا چاہتاتھا لیکن ان کے اصرار پر ان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں خادم نے چائے سامنے لاکر رکھ دی۔ میں چائے سے نفرت کرتا ہوں اور شاید یہ بات مبالغہ نظر آئے لیکن میں نے اپنی ساری زندگی میں چار پانچ دفعہ چائے چکھی ہوگی ۔ اب میرے لئے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی سی کیفیت ہوگئی اور مولانا کی عظمت کا اثر تھا کہ میں نے چپکے سے چائے کی پیالی لے لی اور ایک دو گھونٹ احتراماً پی بھی لئے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ مولانا چائے کے رسیا ہیں اور خود چائے تیار کرنے میں بھی ماہر ہیں۔ اسی دوران میں مولانا مجھ سے پھر مخاطب ہوئے اور فرمانے لگے کہ بیدی صاحب گو میں آپ سے پہلے مل نہیں پایا لیکن آپ کے بارے میں لوگوں کی زبانی بہت کچھ سن چکا ہوں میں نے گزارش کی کہ خدا کرے کہ آپ کو تصویر کا ایک ہی رخ نہ دکھایا گیا ہو اس پر مسکرانے لگے اور فرمایا کہ مجھے آپ کی تصویر کے سب رخ معلوم ہیں اوروہاں کوئی کالا داغ نہیں ہے ۔ مولانا کے منہ سے یہ الفاظ سن کر مجھے بے حد مسرت ہوئی ، مالان سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش رہتے تھے اور ان کی اس فطرت سے سب واقف تھے ۔ جب خادم نے چائے بڑھادی تو فرمانے لگے کہ ہمارے ملک میں سب کچھ ہے ، ہم آزاد بھی ہوگئے لیکن اس آزادی کو بر قرار رکھنے کے لئے اب محنت ایثار رواداری اور امن و آشتی کی ضرورت ہے آزادی ملی ہے تو آزادی کی کچھ ذمہ داریاں بھی ساتھ لائی ہے جن سے اگر ہم عہدہ برآ نہ ہوسکے تو غلامی سے بدتر حالات رونما ہوجائیں گے پھر فرمانے لگے کہ اس وقت ہمیں ایسے کارکنوں کی اشد ضرورت ہے جو فرقہ وارانہ اور متعصب عناصر کو پنپنے نہ دیں آپ کے بارے میں لوگ اچھی رائے رکھتے ہیں اور میں خوش ہوں کہ آپ آج مجھ سے ملے ۔ میں نے موانا کا شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ اپنی بساط کے مطابق ملک کی خدمت کرنے کی سعی کروں گا۔
یہ مولانا سے میری پہلی ملاقات تھی ۔ وقت گزرتا گیا حالات بھی بدلتے گئے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہندو مسلم تفرقات کی وجہ سے ملک کی فضا مکدر ہوگئی ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ تقسیم وطن کے دوران میں اور فوراً ہی بعد جو قتل عام ادھر اور اُدھر اس سے اتنے گہرے زخم لگے تھے کہ ان کے مندمل ہونے کے لئے کافی وقت درکار تھا ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حکومت چونکہ اپنے ہاتھوں میں آگئی تھی سبھی فرقے اور گروہ چاہتے تھے کہ سارا اقتدار اور اختیار انہیں ہی حاصل ہواورپھر خود غرض لیڈر اور سیاستداں ایسے جذبات کو دیدہ و دانستہ ابھار رہے تھے ۔ ان حالات میں اس رو میں بہہ جانا تو آسان تھا لیکن اس سے ملک کا مستقبل اور بھی تاریک ہوجاتا ۔ اس وقت جو چند ہستیاں مشعل راہ بنیں اور جنہوں نے چٹان کی طرح ہر طوفان کا منہ موڑ دیا مولانا آزاد ان میں سے ایک تھے ۔ گاندھی جی، نہرو ، سردار پٹیل اور دوسرے رہبران قوم نے ہی اس آڑے وقت میں قوم اور ملک کی رہنمائی کی۔
مجھے مولانا سے ملنے کے ان گنت مواقع ملے ۔ میں نے کبھی بھی ان کو غصے میں نہیں دیکھا۔ بڑے متحمل مزاج تھے اور ہر مسئلے کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد کچھ فرماتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی اور نہرو جی ان کی رائے کی قدر کرتے تھے۔
تقسیم کے فوراً بعد ہی رفیوجیوں کو بسانے کا مسئلہ سامنے آیا۔ جو مکان مسلمان خالی کر گئے تھے ان پر رفیوجیوں نے قبضہ کرلیا تھا اور کچھ لوکل لوگوں نے قفل لگا رکھے تھے جن میں سے بعض نے رفیوجیوں سے پگڑی لے کر ایسے کچھ مکان ان کے حوالے کردیے۔ ادھر حکومت کا تقاضہ تھا کہ ایسے سب مکان خالی کرائے جائیں۔ چنانچہ میری اور چند اور حضرات کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ یہ مکان خالی کرائے جائیں اور وہ مسجدیں بھی جن پر رفیوجیوں نے قبضہ کررکھا تھا ہم لوگوں نے کافی محنت اور منت سماجت سے بہت سے مکان اور مسجدیں خالی کروالیں لیکن کچھ لوگوں نے مولانا سے شکایت کی کہ کام کی رفتار سست ہے۔ چنانچہ مولانا کے سامنے میری پیشی ہوئی ۔ جب مولانا کے سامنے سارے واقعات رکھے گئے تو انہوں نے شکایت کرنے والوں کو سمجھایا کہ کام ٹھیک ڈھنگ سے ہورہا ہے اور اس میں جلد بازی کی گئی تو اس کا اثر الٹا ہوگابالآخر جب خدا خدا کرکے یہ کام تمام ہوا تو مولانا نے مجھے یاد فرمایا اور میری پیٹھ ٹھونکی اور گاندھی جی کو یہ تمام رپورٹ دی۔
وقت گزرتا گیا ، میں دہلی سے تبدیل ہوکر سونی پت روہتک ہوتا ہوا گوڑ گانوں ڈپٹی کمشنر لگ گیا ۔ وہاں بھی میووں کو از سر نو آباد کرانے کا مسئلہ تھا لیکن وہ بھی بخوبی حل ہوگیا۔ مولانا کو مجھ پر اعتماد تھا اور میرے لئے یہ بات باعث فخر تھی کچھ عرصہ بعد لوک سبھا کا چناؤ تھا ۔ مولانا نے مجھے یاد فرمایا اور باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ ان کو کئی اضلاع سے چناؤ لڑنے کی پیش کش کی گئی ہے لیکن ان کا ارادہ گوڑ گانوں سے لڑنے کا ہے چنانچہ وہ گوڑ گانوں ہی سے لڑے الیکشن کے دوران میں مخالف سیاسی جماعتوں نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ مولانا ڈنڈے کے زور سے ووٹ لینا چاہتے ہیں ۔ ورنہ ان کو چاہئے تھا کہ وہ لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے آتے ۔ اجمل خان نے مجھ سے دریافت کیا کہ میری کیا رائے ہے۔ میں نے کہا کہ جہاں تک میں عوام کی نبض دیکھ سکا ہوں وہ مولانا کے حق میں ہیں اور اگر مولانا کو آنا ہی ہے تو الیکشن کے بعد عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لئے آئیں۔ چنانچہ الیکشن ہوا۔ مخالف پارٹیوں نے لاکھ کوشش کی لیکن مولانا کو شاندار کامیابی نصیب ہوئی۔ الیکشن کے ایک ہفتہ بعد مولانا نے گوڑ گانوں ضلع کا دورہ کیا اور پل ول فرید آباد گوڑگانوں وغیرہ میں بڑے بڑے جلسوں کو خطاب کیا اور شکریہ ادا کیا لوگ عام طور پر الیکشن کے بعد بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے الیکشن کے دوران میں کیا کیا وعدے لوگوں کے ساتھ کیے ہیں۔ لیکن مولانا نے گوڑ گانوں کے لوگوں کا پورا پوار خیال رکھا اور ہر متناسب موقع پر امداد بھی فرمائی۔
میں نے مولانا کے الہلال کے کئی شمارے پڑ ھ رکھے تھے اور غبار خاطر بھی نظر سے گزر چکی تھی ۔ نثر لکھنے میں وہ یقینا صاحب طرز تھے ، مرصع مگر صاف زبان میں بڑے موثر انداز سے سب بات کہہ جاتے تھے۔ تقریر بھی ان کی انہیں خوبیوں کی حامل تھی۔ فارسی کے اشعار ان کو ہزاروں یاد تھے اور اپنی تحریروں میں انہیں بکثرت استعمال بھی فرماتے تھے ۔ مولاناکے حافظے کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ کسی کو ایک بار دیکھ لیتے تو وہ ان کے ذہن پر اس طرح نقش ہوجاتا تھا جیسے کیمرے میں تصویر۔
ایک روز میں اور جوش صاحب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے، جوش صاحب کو کچھ کام تھا لیکن میں یوں ہی ساتھ ہولیا ۔ مولانا ملاقاتیوں میں گھرے ہوئے تھے ، جب کچھ دیر رکنے کے بعد بھی ہماری باریابی نہ ہوسکی تو جوش صاحب کہنے لگے بھئی ہم تو اب چلتے ہیں ۔ میں نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ مولانا نے تو آپ کو نہیں وقت دیا آپ خود ہی تشریف لائے ہیں ، ذرا اور انتظار کیجئے۔جوش صاحب ان معاملات میں ضرورت سے زیادہ حساس تھے چنانچہ انہوں نے فوراً ہی یہ شعر لکھ کر چپڑاسی کے حوالے کیا اور چل پڑے:
نامناسب ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا
ابھی ہم دس بیس قدم ہی گئے ہوں گے کہ اجمل خاں ہانپتے ہانپتے ہمارے پاس آئے اور کہا کہ مولانا کو تو آپ کے آنے کا علم ہی اب ہوا ہے آپ آئیے مولانا یاد فرمارہے ہیں ، چنانچہ ہم لوٹ آئے اور مولانا نے ہمیں بلالیا اور معذرت کی کہ ہمیں انتظار کرنا پڑا ۔ فرمانے لگے کہ تمام وقت سیاسی لوگوں کی صحبت میں گزر جاتا ہے جی بہت چاہتا ہے کہ کبھی کبھار علمی صحبت بھی میسر ہوتی رہے کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دو چار دس دن میں کبھی تشریف لے آیا کریں تو کچھ راحت ملے ۔ جوش صاحب نے وعدہ فرمالیا ، میں تو چونکہ جوش صاحب کے ساتھ تھا مولانا نے مجھے بھی یہ دعوت دی حالانکہ ان دونوں حضرت کے سامنے میری حیثیت ایک طفل مکتب کی بھی نہیں تھی۔
اسی سلسلے میں ہم ایک شام آٹھ بجے کے قریب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اجمل خاں آئے اور کہنے لگے کہ مولانا پنڈت جواہر لال نہرو جی کا فون آیا ہے وہ کسی ضروری مشورے کے لئے آپ کے پاس آرہے ہیں ۔ یہ سن کر مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو فون کردو کہ میں ابھی فارغ نہیں ہوں ۔ میں نے اور جوش صاحب نے لاکھ کہا کہ ہمارا تو کوئی خاص کام تھا ہی نہیں یوں ہی چلے آئے تھے آپ ہماری وجہ سے پنڈت جی کو نہ روکیں لیکن مولانا نہیں مانے ، اتنے میں پھر اجمل خاں آگئے اور کہنے لگے کہ پنڈت تو گھر سے چل پڑے ہیں اور دوچار منٹ میں آتے ہی ہوں گے۔ ہم نے پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن مولانا نہیں مانے ، اتنے میں پنڈت جی آگئے تو مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دو۔اس کے بعد بھی مولانا نے پانچ سات منٹ ہم لوگوں کے ساتھ گزارے لیکن جب انہیں احساس ہوگیا کہ ہمیں سخت کو فت ہورہی ہے تو فرمانے لگے آپ ابھی جائیے نہیں میں پنڈت جی سے بات کر کے آتا ہوں ۔ چنانچہ دس بیس منٹ کے بعد مولانا تشریف لائے اور آدھ پون گھنٹہ ہمارے ساتھ باتیں کرتے رہے ، اس واقعے کا ذکر کرنے سے مولانا کی عظمت ، خودداری، مہمان نوازی اور وقار کا صحیح اندازہ ہوسکتا ہے ورنہ کتنے آدمی ایسے ہوں گے جو پنڈت جی کو آنے سے روک دیتے جوش صاحب اردو شاعری کے بادشاہ تھے۔جتنا ذخیرہ الفاظ ان کے پاس تھا شاید کسی اور کو نصیب نہ ہو اہو لیکن صرف دو ایسی ہستیاں تھیں جن کے سامنے جوش صاحب خاموش رہنا زیادہ مناسب سمجھتے اور وہ مولانا آزاد اور مولانا عبدالسلام نیازی۔ ایک رو ز میں نے جوش صاحب سے پوچھا کہ جب کبھی آپ مولانا آزاد یا مولانا عبدالسلام نیازی سے ملتے ہیں تو اکثر خاموش ہی رہتے ہیں کیا وجہ ہے تو جوش صاحب کہنے لگے کہ یہ دونوں حضرات اسی قدر پڑھے لکھے اور عالم ہیں کہ ان کے سامنے منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت ہوتی ہے ۔
مولانا کا سگریٹ نوشی کا بھی عجب انداز تھا۔ انگوٹھے اور پہلی انگلی کے درمیان سگریٹ کو لے کر آہستہ آہستہ گھماتے بھی رہتے تھے اور کشی بھی لگاتے تھے جس سے انہیں سگریٹ کی ایش گرانے کے لئے جھٹکا دینے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
اتنے میں دہلی سے ذرا دور سنگرورضلع میں ڈپٹی کمشنر ہوکر وہاں چلا یاگیا۔ وہاں سے بھی ہفتہ عشرہ میں ایک آدھ بار دہلی آنا ہوجاتا تھا۔ ایک بار میں اس دوران میں ان سے ملنے گیا تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ کا کیا ارادہ ہے میں نے گزارش کی کہ حالانکہ پینشن کا زمانہ قریب آگیا ہے لیکن میں نے کبھی اس معاملہ پر غور نہیں کیا۔ فرمانے لگے کہ آپ کو سیاست میں آنا چاہئے اور یہ بھی فرمایا کہ جب آپ ریٹائرڈ ہوں گے تو میں آپ کو راجیہ سبھا میں نامزد کراؤں گا یا اگر آپ چاہیں تو کانگریس سے ٹکٹ دلوادوں گا کچھ عرصہ بعد مولانا پر فالج کا حملہ ہوا۔ میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے سنگرور سے فون پر ان کی خیریت دریافت کرتا تھا۔ اجمل خاں سے بات ہوتی تھی اور وہ فرماتے تھے کہ اب دوا کی نہیں دعا کی ضرورت ہے۔ چنانچہ میں نے کہا لاکھوں، کروڑوںلوگوں نے دعائیں مانگی ہوں گی لیکن وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے ۔ دو دن کے بعد مولانا اپنے معبود حقیقی سے جاملے جو اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک روز جانا بھی ہے لیکن مولانا کی وفات سے ملک کی سیاست میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا جو اب تک بھی نہیں پر ہوسکا۔
مرحبا اے ابوالکلام آزاد، تا قیامت رہے گی تیری یاد
قید خانوں میں خود رہا برسوں، ملک کو قید سے کیا آزاد
نوٹ :
بشکریہ: "ایوان اردو" دہلی۔ (اردو اکادمی دہلی کا ماہنامہ رسالہ۔ اشاعت ثانی۔ جلد:2 ، شمارہ:8۔ ادارۂ تحریر: سید شریف الحسن نقوی، مخمور سعیدی۔
یہ مضمون ماہنامہ "ایوان اردو" کے شمارے دسمبر-1988 سے ماخوذ ہے۔
مضمون نگار: کنور مہندر سنگھ بیدی سحر۔
Few meetings with Maulana Azad by Kunwar Mohinder Singh Bedi Sahar
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں