"ہاں ہاں موسموں کی گھٹن کا تلخیاں میں کئی جگہ ذکر ہے ۔"
"آج کل مارکیٹ میں جاپانی گھڑی ، سیکو، بہت سستی مل رہی ہے ۔"
" جی ہاں، تلخیاں میں اسمگلنگ پر کافی گہرے طنز مل جائیں گے۔"
"آزادی کے بعد اردو کتابوں کی مارکیٹ بہت کم ہوگئی ہے ۔"
"نہیں صاحب، تلخیاں کے اکتیس سے زائد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔"
"اشیاء کی قیمتیں دن بدن آسمان کو چھو رہی ہیں۔"
"صحیح ہے ، لیکن جب تلخیاں کا پہلا ایڈیشن لاہور میں چھپا تھا، اس وقت حالات ایسے نہیں تھے ۔"
تلخیاں۔۔۔۔۔۔۔تلخیاں۔۔۔تلخیاں۔۔۔۔ساحر لدھیانوی سے بات چیت کرنے کے لئے، ہیمنگ دے کے بوڑھے مچھیرے جیسےPatienceکی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اتفاق سے آپ ان کے فلیٹ میں ہی بیٹھے ہوں تو یہ ضرورت مجبوری کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ یوں بھی ساحر کے ملنے جُلنے والے عام طور سے وہی لوگ ہوتے ہیں جو ساحر سے کم، ساحر کے بینک بیلنس، فلیٹس اور ساحر کی شراب سے زیادہ ملاقات کرتے ہیں، لیکن ایک بار ایک ایسے صاحب بھی ساحر سے ملنے چلے آئے ، جو شاید بمبئی میں نئے نئے آئے تھے اور صرف ساحر سے ہی ملنا چاہتے تھے ۔ یہ بھلا کیسے ممکن تھا ۔ ابھی وہ مشکل سے چند منٹ ہی بیٹھے ہوں گے کہ وہسکی کے تین پیگ چڑھائے ہوئے ساحر کی اجازت کے بغیر، ساحر کے بینک بیلنس نے انہیں دھکے دے کرباہر نکال دیا ۔ بے چارے نئے نئے تھے ، اگر جانکار ہوتے تو دوسروں کی طرح وہ بھی فلمی شہرت اور ادبی مقبولیت میں امتیاز کرنے کی بھول نہیں کرتے ۔
ساحر کی تلخیاں کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ لیکن ساحر پیدائش سے اب تک ایک ہی ایڈیشن میں چل رہے ہیں ۔ ساحر دراصل اپنے آپ کو نہ بانٹ سکنے کی کشمکش کے شکار ہیں۔ وہ پیر کے انگوٹھے سے سر کے بالوں تک ، ابھی تک پورے جڑے ہوئے ہیں، اگر جڑا ہوا آدمی ٹھیک وقت پر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنا شروع نہ ہو تو شخصیت میں نئی نئی گتھیاں پڑ جاتی ہیں۔ ساحر کا سب سے بڑا المیہ ان کی یہ ہی سالمیت ہے جس نے ان کے اندر نرگسیت کی ٹیڑھ ابھار دی ہے۔ ساحر کی عمر بھلے ہی کچھ ہو لیکن ذہنی طور پر وہ ابھی تک پندرہ سولہ سال والے کھلنڈر پن میں ہی سانس لے رہے ہیں۔ ساحر کی گفتگو کا پسندیدہ موضوع ساحر لدھیانوی ہی ہے۔ اس موضوع کی خشکی کو وہ طرح طرح کے اچھے برے لطیفوں سے کم بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ساحر کو اپنی اس کمزوری کا علم نہ ہو ۔ لیکن رات دن محفلوں اور صحبتوں میں گھومنے والا ساحر ا پنے اکیلے پن کے شدید احساس کے شکنجوں میں اس بری طرح پھنسا ہوا ہے کہ اب باوجود شعوری کوشش کے بھی وہ اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ ساحر قدرت کی ظرافت کا انتقام اپنے ارد گرد کے ماحول سے لینا چاہتے ہیں لیکن تگ و دو کی عملی دنیا میں جب وہ پچپن کروڑ کی بھیڑ میں اپنے آپ کو ایک اکائی کی حیثیت میں پاتے ہیں ۔ تو سوائے بے معنی جھلاہٹوں کے ان کے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا، ساحر کی جھلاہٹیں ساحر کا مرض ہیں ۔ ساحر کے یار دوست ان کمزوریوں کے ساتھ انہیں گوارا بھی نہیں کرتے ہیں ۔ ہوش میں تو وہ تجارتی مصلحتیں نبھا بھی لیتے ہیں ۔ لیکن جیسے ہی دو تین پیگ اندر اترتے ہیں، خود ساحر کے لئے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ ساحر کو فلموں میں کافی تگ و دو کرنی پڑی ہے ۔ کرشن چندر کے ورانڈے میں بستر بچھا کر سونا پڑا ہے ۔ فلمسازوں کے آگے پیچھے پھرنا پڑا ہے ۔ میوزک ڈائریکٹروں کے گھروں کے برسوں طواف کرنے پڑے ہیں تب کہیں جاکے رئیسانہ ٹھاٹ کے دن دیکھنے کو ملے ہیں ۔
ماضی کی تلخ یادوں نے انہیں کسی حد تک SADIST بھی بنادیا ہے ، دوسروں کے منہ پر برا بھلا کہہ کر، اور ضرورت مندوں کو باربار اپنے گھر کے بے مقصد چکر کٹوا کر انہیں اب سکون بھی ملتا ہے ۔ ساحر کے پاس جو بھی کسی کام کے لئے جاتا ہے ۔ کبھی مایوس نہیں لوٹتا، مگر جھوٹے وعدے کرنا ،اور مہینوں دوسروں کو ان میں الجھائے رکھنا ان کی مخصوص ہوبی بھی ہے۔ ان بے مقصد چکر کاٹنے والوں کی مجبوریوں سے وہ نئے نئے لطیفے تراش کر اپنی شام کی محفلوں کو رنگین بھی بناتے ہیں ۔ ساحر کو اپنے ہاتھ سے پیسہ دینے میں مزہ آتا ہے ۔ لیکن اگر کہیں کسی کا روزگار لگ رہا ہو تو اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لطف کو بھی وہ کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ لیکن ان تمام کجرویوں کے باوجود ساحر اس الٹے سیدھے سماج میں زندگی گزارنے کے فن سے واقف ہیں ۔ وہ نئی نئیControversiesمیں الجھ کر دوسروں کو ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کئے رہتے ہیں۔
کسی سے بار بار ملئے اور بھول جائیے اور پھر اچانک کبھی یونہی اس کے بارے میں سوچنے لگئے، نہ جانے کہاں کہاں ذہن لے جاتے ہیں ۔
ٹوٹی ہوئی زنگ لگی تلوار ، بچوں کے گول گول انگوٹھے، سرکنڈوں کے سوکھے کھیت ، کچی ململ کے ہلکے گہرے دو پٹے، پتیل کی ترازو اور دور دور تک پھیلا ہوا اندھیرا ۔۔۔۔۔عجیب عجیب رنگ پھیلتے ہیں ، نئی نئی تصویریں ابھرکر آتی ہیں ۔ ہر تصویر اپنے طورپر مکمل ، مگر دوسری تصویر سے مختلف ۔ اور پھر سب رنگ اور تصویریں گھل مل کر ایک ، بالکل نئی تصویر کا روپ دھار لیتی ہیں ۔ مسکراتی ہوئی ایک بڑی سی تصویر۔۔۔۔۔۔
ساحر سے ملنے سے پہلے بھی تلخیاں کے سر ورق پر پھیلی ہوئی چوڑی پیشانی ، چیچک کے داغ ، گمبھیر آنکھوں اور ضرورت سے زیادہ لمبی ناک کو ہی ساحر سمجھ رہا تھا ۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔کیمرہ کی آنکھ بھی کتنی دھوکہ باز ہوتی ہے ۔
"ساحر صاحب، آپ تک پہنچنا بہت کٹھن ہوتا ہے ۔ مجھے چار پانچ روز پریشان ہونا پڑا تب کہیں جاکر آپ سے ملاقات ہوئی ہے اور اسے بھی اتفاق کہیئے۔ کمال اسٹوڈیو سے میں نے یونہی نمبر لگا دیا تھا۔ شاید آپ نے اسٹوڈیو کا نام سن کر اپنے ہونے کا اعلان کردیا ہو۔ ویسے عام طور سے تو آپ باتھ روم سے باہر ہی نہیں نکلتے ۔"
"اجی نہیں ، ایسی بات نہیں ہے ۔ میں پچھلے ہفتے سے عجیب عجیب پریشانیوں میں مبتلا ہوں ۔ گھر میں بہت کم رہا ہوں ۔ پہلے کرشن چندر اچانک بیمار ہوئے اور پھر میرے ایک ہم جماعت علیل ہوئے ۔ انہیں امریکہ علاج کے لئے روانہ کرنا تھا ۔ زیادہ وقت پیسہ جٹانے کی دوڑ دھوپ میں ضائع ہوا۔ جو کچھ کمایا تھا وہ مکان کی تعمیر میں لگادیا تھا ۔ اب تو معاف کیجئے ۔۔۔"ساحر اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ٹیلی فون ٹیبل کی طرف اٹھ کر چل دئیے۔
"ہلّو۔۔۔۔ جی میں ساحر بول رہا ہوں ۔ کون؟ اچھا۔۔۔کہئے کیسے ہیں۔ جی جی۔۔۔۔۔ارے کب ۔۔۔۔؟ اسپتال میں داخل کردیا ہے ۔ آپ کی بیوی۔۔۔۔۔۔!!سو روپئے۔۔۔بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیچے کھڑے ہیں، اچھا میں ابھی دئیے دیتاہوں۔ فون روکے رکھئے۔"
ریسیور نیچے رکھ کر ساحر اندر کمرے میں گئے اور دو تین منٹ کے بعد واپس آکر جیسے ہی ریسیور اٹھایا ان کا چہرہ جو کچھ لمحے پہلے نہایت سنجیدہ اور فکر مند تھا اچانک مسکرا اٹھا۔
"لیجئے ندا صاحب، موصوف فرما رہے ہیں ، ساحر کو بے وقوف بنادیا۔ کیا خوب، تھوڑی دیر بعد اس کا اظہار کرتے تو کیا بگڑ جاتا ۔ شاید کسی ساتھ والے سے بات کررہے ہیں۔ مگر فون پر آواز صاف سنائی دے رہی ہے۔"
ساحر کافی دنوں تک فلموں کے کامیاب گیت گار رہے ہیں ۔ فلموں میں گیت لکھنا تو کوئی زیادہ کٹھن نہیں ، ہاں گیت لکھنے کے مواقع حاصل کرنا نہایت مشکل ہے ۔ طرح طرح سے اپنا ڈھنڈورا پیٹنا پڑتا ہے ۔ تب کہیں جاکر فلم سازوں کو گیت کارکی صلاحیتوں کی اطلاع ملتی ہے ۔ ساحر اس راز سے واقف ہیں ۔ ان کا ذہن ایسی کہانیں گڑھنے میں زیادہ خلاق ہے جس کے ہیرو ووہ خود ہی ہوتے ہیں،
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
"ہاں صاحب، اب فرمائیے۔ "
ساحر قہقہہ لگاتے ہوئے سگریٹ سلگا رہے تھے ۔ وہ کہاں سے بات چھوڑ کے گئے تھے۔ اب انہیں یاد نہیں تھا ۔ کبھی کبھی ادھوری بات بھی کتنی مکمل ہوجاتی ہے ۔
ساحر کا مکان کافی کشادہ ہے۔ بمبئی میں جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔ وہ پانچ چھ فلیٹوں کی جگہ کو ایک فلیٹ کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ اور پھر ساحر کی تو پرچھائیاں کے نام سے پوری بلڈنگ ہی ہے ۔ پچھلے دنوں سجاد ظہیر نے جب مہندر ناتھ سے ترقی پسند تحریک کو از سر نو زندہ کرنے کو کہا تو مہندر ناتھ نے نہایت سنجیدگی سے کہا تھا۔" بنے بھائی جو لوگ ترقی پسند ہیں ان کا سوشلزم تو کبھی کاآچکا۔۔۔۔۔۔ آپ کے ذہن میں جو سوشلزم کا تصور ہے وہ تو ان کے لئے اب نقصاندہ ثابت ہوگا ۔ اب بھلا اس تحریک سے کیا فائدہ؟"
ساحر کے مجموعہ کلام تلخیاں کے پہلے ایڈیشن میں پیش لفظ کے طورپر کچھ شعر درج تھے، جو بعد کی اشاعتوں میں ترمیم و اضافہ کا شکار ہوگئے
انہیں میں یہ شعر بھی شامل تھا
رجعت پسند ہوں نہ ترقی پسند ہوں
اس بحث کو فضول و عبث جانتا ہوں میں
ساحر بنیادی طور پر ہلکے پھلکے رومانوی ذہن کے شاعر ہیں ۔ ان کا لہجہ ، جو فیض کا تقلیدی رنگ لئے ہوئے ہے، نیم پختہ ذہنوں کے لئے خاص دلکشی رکھتا ہے ۔ان کے یہاں نوجوانی کے کھلنڈر ے پن کا سیدھا سادا اور وضاحتی اظہار کالج کے لڑکے لڑکیوں میں ایک زمانہ میں کافی مقبول رہا ہے ۔ محنت و سرمایہ کی فارمولائی کشمکش کے راست بیان اور محبت کے غیر تجرباتی ارشادات نے ان کے اشعار میں QUOTABILITYکا سن تو ابھار دیا ہے ، مگر یہ صرف مشاعروں کے سامعین اور آزادی سے پہلے کے کم عمر لڑکے لڑکیوں کے رومانی خطوط تک ہی محدود ہے ۔ ساحر کی پوری شاعری انفرادی تازگی کے بجائے تعمیمی فرسودگی لئے ہوئے ہے۔ جس مین ہر جگہ اپنے عہد کے فیشن کی چھاپ نمایاں ہے ۔ مجا ز اپنی موت سے کئی سال پہلے ، آوارہ، میں جس ذہنی پختگی تک پہنچ گئے، ساحر ہنوز اس سے بھی کوسوں دور ہیں۔ اور یہ ہی ان کی فلمی و ادبی مقبولیت کا راز بھی ہے ۔
"ساحر صاحب ، ترقی پسند ایک تنقیدی اصطلاح کے طور پر پچھلے تیس ، پینتیس سال سے استعمال کی جارہی ہے ۔ وہ تمام شاعر جو اس دور میں ابھر کر سامنے آئے ہیں ان کو اسی علامت سے پہچانا جانے لگا، حالانکہ ان شاعروں میں سوائے ہمعصریت کے شاید ہی کوئی فنکارانہ مماثلت ہو۔ ان شاعروں کو اپنے انداز، اسلوب اور شخصی رجحانات کے لحاظ سے کئی خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے ۔
۱۔فیض اور مخدوم ۲۔ سردار جعفری، نیاز حیدر اور کیفی اعظمی ۳۔ مجاز، جذبی اور جاں نثار ۴۔سلام مچھلی شہری، ساحر لدھیانوی اور قتیل شفائی۔۔۔۔ان میں سے کس گروپ پر ترقی پسندی کا زیادہ اطلاق ہوتا ہے ، یہ تو آپ ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ لیکن کیا آپ اس تنقیدی میکانکیت سے متفق ہیں، جس میں اچھی اور بری شاعری کے فرق کو نمایاں کرنے کے بجائے شعری تخلیقات کو صرف نظریاتی اور موضوعاتی رخ سے پہچانا جاتا ہو، آپ مزاجاً ان میں سے کس گروپ سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں؟"
"جہاں تک میرا تعلق ہے، میں اپنے آپ کو فیض اور مجاز سے زیادہ قریب پاتا ہوں ۔ سلام مچھلی شہری کے ہاں جدت ہے۔ موضوعات کا پھیلاؤ بھی ہے ۔ اس نے ہیئت اور موضوع میں تجربے بھی کئے ہیں۔ اچھی شاعری بھلے ہی کسی مخصوص نظریہ پر پوری نہ اترتی ہو لیکن اس سے اس کی عظمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ ڈاکٹر اقبال سے شدید ترین نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کی شاعرانہ عظمت کا معترف ہوں۔ لکھتے وقت ہر ادیب کو اپنی شخصیت کے ساتھ سچا رہنا چاہئے ۔ جو کچھ بھی کہا جائے اس میں ضمیر کی شرکت ضروری ہے ۔ یعنی اندر سے بھی کچھ ایسا لگتا ہو۔ نہیں تو ان کہی بات اندر ہی اندر کولاژ بن جائے گی جو کشٹ دے گی ۔ شعر کہنے کے بعد ا س پر کون سا لیبل چسپاں کیا جائے گا۔ یہ ادیب کی نہیں لیبل فروشوں کے سوچنے کی بات ہے ۔ ادب در حقیقت شخصیت کے اظہار کا نام ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی عمل ہے۔ اگر وہ اپنے مزاج کے خلاف کسی لیبل کے لئے لکھتا ہے تو اندر سے کوئی تسکین نہیں ہوگی۔ آزادی سے ساڑھے تین سال پہلے ایک چھوکرے شاعر کا مجموعہ "تلخیاں" شائع ہوا تھا اس میں ایک نظم خود کشی سے پہلے ، بھی شامل ہے ۔ اس مجموعہ کے بعد میں کئی اصلی اور جعلی ایڈیشن چھپ کربک چکے ہیں۔"
ساحر بولتے وقت ہاتھ کے اشاروں اور چہرے کی کیفیتوں سے بھی کام لیتے ہیں ۔ جب یہ کام دیتے نظر نہیں آئیں گے تو کھڑے ہوکر ذرا آواز اونچی کر کے بولیں گے ۔ اگر سامنے والا پھر بھی بھی مطمئن نہ ہو تو آخری حربہ کے طور پر ایک خاص قسم کے پنجابی قہقہے کا استعمال کریں گے ، اب آپ کی مرضی ہے جو اب بھی قائل نہ ہوں ، وہ تو اپنی بات مکمل کرچکے ۔ اب آپ ہی کوئی دوسری بات چھیڑیں تو وہ بولیں ۔ نہیں تو۔۔۔۔ آدھی سے زیادہ سگریٹ بجھانے میں مشغول ہوجائیں گے ۔ یا سگریٹ کا پیکٹ آپ کی طرف بڑھادیں گے ۔ لیکن سگریٹ پیش کرتے وقت اپنا کوئی شعر پڑھتے ہوئے اپنی عظمت کی چمک آپ کی آنکھوں میں ضرور دیکھنا چاہیں گے۔
"ساحر صاحب'تلخیاں' کی بیشتر نظمیں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے ، آپ اپنے معاصرین میں فیض سے زیادہ متاثر ہیں۔ موضوع اور اسلوب دونوں میں یہ تاثرات نمایاں ہیں۔ لیکن ان اثرات کی رو فیض کی ابتدائی رومانی نظموں تک ہی محدود ہے ۔"
"پرچھائیاں، (ساحر کی طویل نظم)سے پہلے کی نظموں کی کینوس بھی فیض کی ان نظموں کی طرح چھوٹی ہے ۔ وہی ایک نو عمر عاشق ، ایک حسین محبوبہ اور درمیان میں کھڑا ہوا کوئی سرمایہ دار جو دولت سے محبوبہ کا مول تول کر کے بے چارے عاشق کو خود کشی کرنے کے لئے چھوڑ جاتا ہے ۔ انہیں تین کرداروں کو بار بار رومانوی انداز میں دہرایا جاتا ہے ۔ کہیں غربت کے کارن محبت ٹوٹتی ہے ، کہیں جہاد پر جانے کی وجہ سے ناطہ ٹوٹتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود آپ کا لہجہ ایک خاص عمر میں بہت مانوس اور پر کشش لگتا ہے۔ لہجہ میں اس قسم کی رومانوی کشش الفاظ کو موضوع کے متعارف چہروں تک ہی محدود رکھنے سے پیدا ہوتی ہے ۔ اچھی شاعری کے لہجہ میں موضوع ہوتا ہے ۔ جب کہ آپ کے یہاں یہ عمل دو متضاد رخوں کو یکجا کرنے کی شعوری کوشش سے پیدا ہوتا ہے ۔ لہجہ شاعر کی شخصیت کی مانند کہیں گہرا ، کہیں تہہ دار اور کہیں یک سمتی ہوتا ہے ۔ اس میں لفظی تزئین سے نہیں، اس شخصیت کی تزئین سے کام چلتا ہے ، جو از خود الفاظ کے مخصوص انتخاب اور وزن و بحر کے برتاؤ میں شامل ہوجاتی ہے ۔ آپ کی نظمیں شہکار، تاج محل، نور جہاں اور پرچھائیاں، آپ ہی کی دیگر نظموں سے الگ لگتی ہیں ۔ ان میں فیض کی ابتدائی نظموں کے اثرات بھی کم کم نظر آتے ہیں ۔ ان نظموں کو پسند کرنے والوں میں شاید عمر کی بھی کوئی قید نہیں ۔ لیکن یہ نظمیں بھی روایتی انداز لئے ہوئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے موضوع کو الفاظ کی چھوٹی چھوٹی کیلوں سے ایک خاص ترتیب سے جڑ دیا گیا ہے ۔ کوئی لفظہ بھی دائیں بائیں نہیں جھانکتا۔"
"میں عمر کے لحاظ سے صرف کیفی کو چھوڑ کر اپنے معاصرین میں سب سے چھوٹا ہوں۔ فیض، سردار، نیاز سب مجھ سے سینئر ہیں ۔ مجاز کا آہنگ جب شائع ہوا تھا اس وقت میں میٹرک کا طالب علم تھا اور فیض کے مجموعے کی اشاعت کے وقت میں بی۔ اے میں پڑھ رہا تھا ۔ میری کچھ نظموں میں فیض کے اثرات ضرور ہں۔ مجاز کے ہاں کلاسکی رچاؤ ہے، وہ مجھے پسند ہے ۔ شاید چکلے میں اس کا اثر ہو ۔ ہر شاعر اپنے سینئر شاعروں سے متاثر ہوتا ہے ۔ لیکن سرقہ اور اثرات میں فرق ہے۔ میری کئی نظموں کے موضوع تاج محل ،چکلے ،گریز ، خوبصورت موڑ، وغیرہ مختلف ہیں۔ سو فیصدی اوریجنل تو کوئی نہیں ہوتا۔"
"فیض کے ہاں تشبیہات زیادہ ہوتی ہیں۔ میری نظموں میں صفاتAdjectivesسے فضا پیدا ہوتی ہے ۔ شاعر کی خود کی شخصیت اس کے فن اور اسلوب پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ایک اپنا حلقہ ہوتا ہے ۔ اسی کے مطابق موضوع اور اسلوب کوئی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ میں مزاجاًمتوسط طبقے کا فرد ہوں۔ شاید میں اب تک ڈی کلاس(DE-CLASS) نہیں ہو پایا۔برسوں پہلے میری نظمیں مزدوروں میں خاموشی سے سن لی جاتی تھیں۔ لیکن تالیاں کیفی کو زیادہ ملتی تھیں ۔ بعض لوگوں کی رائے ہے۔ساحر کالج کے لڑکے لڑکیوں میں زیادہ پسند کیاجاتا ہے ۔ یہ نیم پختہ ذہن کی شاعری ہے ۔ لیکن مجھے ایسا سوچنے والوں کے ذہن کی پختگی پر شک ضرور ہوتا ہے ۔ میں اسی ماحول سے نکلا ہوں۔ اس سے متاثر ہونا، فطری ہے ۔ لیکن شاعر کی عمر کے ساتھ شاعری کے موضوعات اور ان کا برتاؤ(TREATMENT)بھی بدلتا ہے ، ہمارے زمانے میں حفیظ اور عدم بزرگ شاعروں میں بہت پاپولر تھے۔ ہم بھی مشاعروں میں شریک ہوتے تھے۔ انہیں کے ساتھ پڑھتے تھے ارو زیادہ پسند کئے جاتے تھے ۔ آج بھی فراق کہتے ہیں ، مشاعروں کے ٹکٹ تو ساحر کے نام پر ہی بکتے ہیں۔"
"لیکن ساحر صاحب ، مشاعرہ کی خاموشی یا تالیاں تو اچھی بری شاعری کی کسوٹی نہیں بنائی جاسکتی ۔ غالب پسند نہ کئے جانے والے شاعر رہے ہیں ۔ فانی، حسرت، یگانہ کے مقابلے میں نوح ناروی چھتیں پھاڑ دیتے تھے ۔ ہندی کے اچھے شاعر اگتے سے لے کر دھرم ویر بھارتی اور سرویشور دیال تک، نیرج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ ٹی ۔ ایس۔ ایلیٹ۔ ملارمے، سیت پرس۔ اور بودلیر وغیرہ کو ان کے عہد میں ہی بنا تشریحات کے کہاں سمجھا گیا ۔ فرانس اور یورپ کے دوسرے علاقوں میں تو مشاعرہ نام کی چڑیا ہی عنقا ہے۔ تو کیا وہاں اچھی شاعری پیدا ہونے کا امکان نہیں۔ پچھلے دنوں بمبئی کے ایک مشاعرہ میں شاعر کو سننا پسند کیا ۔ کبیر، نانک اور تکارام کے سامعین اور مشاعرہ سننے والوں میں فرق ہے۔ صوفی شعراء اور مذہبی پیشوا کے ارد گرد بیٹھنے والے مخصوص عقائد کی سطح پر ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں ۔ مشترک اقدار کا وجود ترسیل کے لئے بہت ضروری ہے ۔ اور پھر ان کے کلام کی مقبولیت عقیدتمندانہ ہے ۔ ان کے عقیدت مندوں میں ان کے کلام کو سمجھنے والے کتنے ہیں، یہ ہنوز ایک مسئلہ ہے ۔ کبیر کی الٹ باسیان آج بھی اچھے اچھے سیکولرس کے لئے معمہ بنی ہوئی ہیں۔ نانک اور تکارام کے ارشادات کو بنا دیدانتی سوجھ بوجھ اور اس کی علامتی اظہاریت کے سمجھنا محال ہے۔ آج کے عہد میں جب کہ ہر فرد اپنے وجود کی سطح پر سانس لے رہا ہے ۔ ماحول میں اپنے ڈھنگ سے اپنی تلاش کررہا ہے۔ شعر سنتے ہی قاری اسے کسی گولی کی طرح گٹک لے شاید اب ممکن نہیں ۔ اچھا شعر دھیمے دھیمے کھلنے والی کلی کی مانند ہوتا ہے ۔ یہ سننے اور پڑھنے والے سے معیاری سوجھ بوجھ کا تقاضا کرتا ہے ۔"
" یہ صحیح ہے ، مشاعرہ میں شعر کی مقبولیت کوئی معیار نہیں۔ لیکن اچھے شعر کی تعریف یہ بھی نہیں کہ وہ نامقبول ہو۔ آرٹ فن کار کے تجربات کا اظہار ہے ۔ ہر ادیب اپنی نظر سے اپنے ماحول کو دیکھتا ہے ۔اور اس میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتا ہے ۔ اسےCONVEYکرنا چاہئے ۔ ایسا کہنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے ۔ اس کے لئے شوق ، محنت و لگن کی ضرورت ہے ۔ مشاعرہ کی کامیابی میں شعر کے علاوہ کچھ اور عوامل (FACTORS) بھی کام کرتے ہیں ۔ کسی خاص وقت کا موڈ اس کے اعتبار سے موضوع کا انتخاب وغیرہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کمتر درجہ کی نظم صرف اس لئے کامیاب ہوجاتی ہے کہ اس میں کسی سلگتے مسئلہ کو سیدھے سادھے طریقہ سے بیان کر دیا گیا ہوتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ مشاعرہ کو معیار نہیں بنایا جاسکتا ۔ لیکن بقول اہر نسبرگ ، وقتی ادب کی بھی ایک خاص عہد میں بہت اہمیت ہوتی ہے ۔
اہرنس برگ کا یہ قول کئی سال پہلے، آخر شب میں کیفی کیAgitationشاعری کے ڈیفنس میں درج کیا گیا تھا۔ اہرنس برگ نے اس ایک جملہ کے علاوہ بھی کچھ کہا ہے ، یا نہیں ، یہ تو اہرنس برگ کے مطالعہ سے ہی معلوم ہوسکتا ہے ۔ لیکن ضرورت سے زیادہ مادی مصروفیتوں میں اتنی فرصت کہاں کہ اپنی تخلیقات کے علاوہ کسی دوسرے کی کتابوں کو پڑھاجائے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ لکشمی اور سرسوتی کی برسوں پرانی رقابت کو ساحر نے جس خوبصورتی سے دوستی میں تبدیل کیا ہے وہ صرف اردو ہی نہیں عالمی ادب میں بھی اپنی مثال آپ ہے ۔ خو د ساحر کے ہی لفظوں میں برناڈ شا کوتو ایک لفظ کا صرف ایک پاؤنڈ ہی ملتا تھا ، میں نے تو ایک ایک گیت کے پانچ ہزار سے دس ہزار لئے ہیں۔
ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مزاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
ماخوذ از کتاب:
ملاقاتیں (تالیف: ندا فاضلی)
ملاقاتیں (تالیف: ندا فاضلی)
A meeting with Sahir Ludhianvi. Article: Nida Fazli
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں