افسانہ - تپش - جاوید نہال حشمی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-07-19

افسانہ - تپش - جاوید نہال حشمی

Tapish-Short-Story-by-Jawed-Nehal-Hashami
ریشماں تیزی سے پلٹی۔
تڑاخ!
ایک زوردار آواز گونجی، اور اچانک ہال میں سنّاٹا چھا گیا۔ ایک گہری خاموشی، جیسے وہاں کوئی موجود نہ ہو۔حالانکہ اس وقت وسیع و عریض کینٹن ہال میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور ابھی چند ہی لمحے پہلے ان کی بات چیت ،ہنسی مذاق اور قہقہوں سے ساراہال گونج رہاتھا۔سب اپنی جگہ مبہوت کھڑے ہال کے وسط میں دیکھ رہے تھے جہاں ریشماں شعلہ بار نگاہوں سے اپنے سامنے کھڑے فراز کو گھور رہی تھی جو اپنے بائیں رخسار پر ہاتھ رکھے خاموش کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں اور وہ ریشماں کی ہی جانب دیکھ رہاتھا۔حیرت ، بے عزّتی اور طیش کے ملے جُلے جذبات سے اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ اس کے ہم جماعت اور دوسرے طلباا ور طالبات کی حیرت زدہ نگاہیں اسی پر مرکوز تھیں۔ چند ساعتیں یوں ہی گذر گئیں اور پھر انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ فراز نے یقیناً ریشماں سے چھیڑ خانی کی ہوگی۔ پیچھے سے یاتو سیٹی بجائی ہوگی یا پھر کوئی فقرہ کسا ہوگا۔ لیکن فراز؟ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ فراز سے ایسی حرکت سرزد ہوسکتی ہے۔ وہ سب دم بخود اس کی بدلتی ہوئی کیفیت کو دیکھ رہے تھے۔
فراز نے بڑی آہستگی سے دائیں ہاتھ میں دبی فائل بائیں ہاتھ میں منتقل کی اور دوسرے ہی لمحے ریشماں کے خوبصورت ، سرخ و سفید گالوں پر تڑاخ! تڑاخ! دو طمانچے پڑے اور وہ لڑکھڑا گئی۔ شاید اس کے خواب و خیال میں بھی ایسے ردّعمل کی امید نہیں تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے اُبل پڑے۔ فرازکے اس غیر متوقع ردّ عمل سے سب کی آنکھیں حیرت سے اُبل پڑیں اور پھر ایک نوجوان طالب علم فرازکی طرف بڑھ ہی رہاتھاکہ اس کے ساتھی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔ شاید وہ نوجوا ن ریشماں کے لئے اپنے دل میں کچھ زیادہ ہی نرم گوشہ رکھتاتھا اور اس کی تذلیل اسے سخت ناگوار گزری تھی۔
"میں اتنا گھٹیا کردار کا نہیں ہوں ، مِس ریشماں۔" خاموشی توڑتے ہوئے فراز نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر بڑی تلخی سے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ لڑکے اور لڑکیوں نے دائیں بائیں ہٹ کر اسے راستہ دیا اور وہ تیزی سے کینٹین کے دروازے سے باہر نکل گیا۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس واقعہ کی خبر پورے کالج میں پھیل گئی۔ ہر جگہ لڑکے اور لڑکیاں اسی واقعہ کے متعلق گفتگوکرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ یہ واقعہ تھاہی ایسا حیرت انگیز، اس لئے نہیں کہ ایک نوجوان طالب علم نے ایک نوجوان طالبہ پر ہاتھ اُٹھایاتھا، بلکہ اس لئے کہ دونوں اسٹوڈنٹس پورے کالج میں اپنے اعلیٰ کردار کے لئے منفرد مانے جاتے تھے۔ویسے بہت سے طلباءکا خیال تھاکہ اگر فرازکی جگہ کوئی اور ہوتاتو دوسرے طلباءاب تک اس کا حلیہ بگاڑ چکے ہوتے۔لیکن وہ فراز تھا ، جس کے بلند کردار اور کالج میں اس کی پوزیشن کے پیشِ نظر اس پر ہاتھ اُٹھانے سے پہلے انہیں سوچنا پڑا تھا۔ محسن کالج کے ٹیچنگ اسٹاف اوراسٹوڈنٹس دونوں ہی کے لئے شاید یہ اپنی قسم کا پہلاواقعہ تھا۔ لہٰذا چاروں طرف مختلف قسم کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں۔ اس واقعہ کا نفسیاتی نقطۂ نظر سے تجزیہ کرنے والوں کا خیال تھاکہ چھیڑ خانی کے جواب میں تھپّڑ کھانے کے بعدفطری طور پر کسی بھی لڑکے میں اتنی ہمّت نہیں ہوتی کہ وہ دوبارہ فوراً اس لڑکی پر ہاتھ اُٹھانے کی جرأت کرسکے۔ لہٰذا فراز کے ردّعمل کو اس کی بے قصوری کاثبوت بھی مانا جاسکتاتھا۔
فراز کیمسٹری کا تھرڈ ائیر کا طالب علم تھا اور پچھلے دونوں ہی امتحانات میں اس نے پورے کالج میں سب سے زیادہ مارکس لاکر ٹاپ پوزیشن حاصل کررکھی تھی۔ لہٰذا اس کا عزّت و احترام کی نگاہ سے دیکھاجانافطری تھا۔ اساتذہ میں تو وہ عزیز تھاہی، اسٹوڈنٹس میں بھی وہ بے حد مقبول تھا کیوں کہ عام فرسٹ بوائز کی کی طرح نہ توا س کی آنکھو ں پر موٹے شیشوں والی عینک تھی اور نہ وہ سادہ قسم کے کپڑوں میں ملبوس رہتاتھا۔وہ اسمارٹ اور خوبرو ہونے کے علاوہ خوش پوش اور خوش مزاج بھی تھا۔ بات بات پر مزاح پیداکرکے وہ دوسروں کوقہقہہ لگانے پر مجبور کردیتاتھا۔اس قسم کے برجستہ مذاق کرتا کہ دوسرے ہمیشہ اس کے سامنے سنبھل کر گفتگوکیاکرتے تھے۔لیکن وہ لڑکیوں کے تعلق سے بہت محتاط رہتاتھا۔ ہنسی مذاق تو دور ، خود پہل کرکے کبھی ان سے گفتگو بھی نہیں کرتاتھا۔ اگر کوئی لڑکی اس سے کچھ پوچھتی تو مختصراً کام کی بات بتاکر فوراً الگ ہوجاتا۔ لہٰذا اسے رجھانے میں ناکام لڑکیاں اکثر دبی زبان سے مغرور کہہ دیاکرتی تھیں۔اس کی اس طبیعت کی وجہ سے اس کے بے تکلف دوست بھی اس کی موجودگی میں لڑکیوں کے متعلق گفتگو کرنے سے احتراز کرتے تھے۔
ریشماں بھی کچھ اسی قسم کی لڑکی تھی۔ لڑکوں کے معاملے میں بالکل الگ تھلگ رہنے والی ۔ اسے فلرٹ قسم کی لڑکیوں سے شدید نفرت تھی۔لڑکوں سے زیادہ گفتگو کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔بس پڑھائی سے متعلق ان سے کبھی کبھار اور وہ بھی بہت مختصر گفتگو کرتی تھی۔اس کے مزاج سے واقفیت کی بنا پر دل پھینک قسم کے لڑکے بھی اس سے فلرٹ کرنے سے ڈرتے تھے۔ اس کی چند گنی چُنی مخصوص سہیلیاں تھیں جن کے ساتھ اکثر اپنے فرصت کے اوقات گزارتی تھی۔
فراز کے کردار کو مدّنظر رکھتے ہوئے بہتوں کو یقین تھاکہ ریشماں سے چھیڑ خانی کسی اور نے کی ہوگی اور غلط فہمی کی وجہ سے فراز کو تھپّڑ کھانا پڑاتھا۔
فراز ہاسٹل کے کمرہ نمبر 22 میں اپنے بیڈ پر دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے لیٹا ہوا تھا۔ دوسرے بیڈ پر اس کا روم میٹ اجمل خاں آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔دونوں میں بڑی دیر سے گفتگو ہو رہی تھی جس کا موضوع آج کا کینٹین والا واقعہ تھا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔
"کم اِن ۔" فراز نے لیٹے ہی لیٹے کہا۔
دروازہ کھلا اور طاہر کمرے میں داخل ہوا۔ وہ بھی فراز کے بے تکلف دوستوں میں سے تھا اور کمرہ نمبر 42میں رہتاتھا۔
"آؤ، آؤ۔" فراز نے اپنے پھیلے ہوئے پیر ایک طرف کر لئے۔ "شاید تم بھی مجھے آج والے واقعہ کے بارے میں بور کرنے کے لئے آئے ہو۔"
طاہر نے بیڈ پر بیٹھنے کی بجائے ایک کرسی کھینچ لی اور اس کی پشت سامنے کرکے بیٹھ گیا۔
"تو تمہیں اب بھی پچھتاوا نہیں؟"طاہر نے کرسی کی پشت سے ٹھوڑی ٹکاتے ہوئے پوچھا۔
"پچھتاوا؟ کیسا پچھتاوا؟"
"ہائیں ؟ ابے تو مرد ہے یا اخروٹ؟ ایک لڑکی پر ہاتھ اُٹھاتے ہوئے تجھے شرم نہیں آئی؟"
"اچھا بے، تو ایک تھپّڑ کھانے کے بعد میں اپنادوسراگال بھی پیش کردیتا، کیوں؟ گاندھی جی سمجھ رکھاہے مجھے؟"
"میں کہتاہوں، تیری مردانگی کہاں جاسوئی تھی؟ عورت ذات پر ہاتھ اُٹھاناتیرے ضمیر نے گوارہ کیسے کر لیا؟" طاہر اسے غصّہ دلانے پر تُلاہواتھا۔
"اب میراضمیر اتنامُردہ بھی نہیں کہ بھری محفل میں میرے دوستوں کے درمیان کوئی لڑکی مجھے ذلیل کرے اور میں خاموش رہوں۔"
"لیکن تو نے ایک کے بدلے دو تھپّڑ مارے۔وہ ابھی تک اپنے کمرے میں بیٹھی سسک رہی ہے۔"
"پہلاتھپّڑ کھانے والے کی زیادہ بے عزّتی ہوتی ہے۔"
"لہٰذا تو نے اسے دوطمانچے رسید کرکے بیلنس کر لیا، کیوں؟"
فراز خاموش رہا۔
"میں مانتاہوں کہ تیراکوئی قصور نہیں تھا۔ لیکن یار، تو سمجھتا کیوں نہیں کہ عورت پر ہاتھ اُٹھانا مرد کی شان کے خلاف ہے۔ اور کم ازکم تم جیسوں کو تو بالکل زیب نہیں دیتا۔ میں تو سمجھتاہوں کہ اس طرح تو نے خوداپنی توہین کی ہے۔"
"دیکھ یار، میرانظریہ ہے کہ صرف وہی مرد ، عورتوں پر ہاتھ اُٹھانا اپنی توہین سمجھتے ہیں جو عورتوں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اور میں نے کبھی عورت کو مرد سے کمتر نہیں سمجھا۔"
"خوب!ایک لڑکی کے ہاتھوں طمانچہ کھانے کے بعد اب فلسفہ بھی بکنے لگاہے۔" طاہر مسکرایا۔
"تُو تو فلاسفی میں آنرز کر رہا ہے ، اور امتحانات بھی قریب ہیں۔اگر تو کہے تو تجھے صبح و شام دونوں وقت روزانہ گرلس ہاسٹل کے کمپاؤنڈ میں چھوڑ آیاکروں۔"
"نہیں یار، مجھے تمہاری طرح ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہیں ۔" طاہر بولا۔ پھر کچھ دیر تک دوسرے موضوعات پر گفتگو کرنے کے بعد وہ چلاگیا۔
دوسرے دن کالج میں اجمل نے فراز کی خاموشی کو بڑی شدّت سے محسوس کیا۔
"یار، میں صبح سے ہی تجھے اداس اور کھویاہواسادیکھ رہاہوں، بات کیا ہے؟" وہ آخر پوچھ ہی بیٹھا۔فراز تھوڑی دیر خاموش رہا پھر بھرّائی ہوئی آواز میں بولا:
"کل جو کچھ بھی کینٹین میں ہوا،وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔"
"کیامطلب؟"
"مجھے بے حد افسوس ہورہاہے ، مجھے ریشماں پر ہاتھ نہیں اُٹھاناچاہئے تھا۔"
"صبح کا بھولاشام کو گھر آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔"اجمل نے زیرِ لب مُسکراکرکہا۔
"مذاق چھوڑ یار، میں سچ کہہ رہاہوں اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ تو خود سوچ، اس پر کیا بیت رہی ہوگی۔ ایک تو کسی نے اس سے چھیڑ خانی کی ۔ اس پر سے اسے دو طمانچے بھی کھانے پڑے۔ اور اس نے کیاکیا؟ صرف ایک تھپّڑ مارا۔ اور وہ بھی اسے نہیں جسے وہ مارناچاہتی تھی۔" فراز نے اجمل کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی افسردگی سے کہا۔
"ہاں، بات تو بالکل درست ہے ۔" اجمل بھی مسکراتے ہوئے ایک دم سے سنجیدہ ہوگیا۔"تو پھر ایک معذرت نامہ لکھ ڈال اسے۔"
"ہاں ، میں بھی یہی سوچ رہاہوں ۔"فراز نے سرہلایا۔
شام کو اس نے ریشماں کے نام ایک معذرت نامہ لکھااور اسے اجمل کو دیا کہ وہ اسے ریشماں کو دے آئے۔تقریباً دس پندرہ منٹ کے بعد اجمل نے واپس آکر اس کے ہاتھوں میں ایک لفافہ تھمادیا۔
"کیوں؟ کیااس نے لینے سے انکار کردیا؟"فرازاُٹھ بیٹھا۔
"جی نہیں، یہ ریشماں کا خط ہے آپ کے نام۔جب میں تمہارا معذرت نامہ لے کر گرلس ہاسٹل کے گیٹ کے قریب پہنچاتو ریشماں کی اجمل خانم۔۔۔مم ۔۔۔میرامطلب ہے اس کی روم میٹ سیما باہر نکل رہی تھی۔ اسی کے ساتھ خطوں کا تبادلہ ہوا۔"اجمل نے بتایا۔
فراز نے لفافے سے پرزہ نکالا۔ لکھاتھا:
فراز صاحب!
کل کینٹین میں ،میں نے آپ کے ساتھ جوسلوک کیا، اس پر مجھے نہایت افسوس ہے۔یقین مانئے ،جب سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہواہے مجھے انتہائی شرمندگی محسوس ہورہی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ میں کس طرح آپ سے معافی مانگوں۔میں نے بھری محفل میں آپ کے دوستوں کے درمیان آپ کی بے عزّتی کی۔ آپ کا ردّعمل فطری تھااور میں یقیناً اس کی مستحق تھی۔سچ پوچھئے تو پورے کالج میں اگر میں کسی لڑکے کی خلوص دل سے قدر کرتی ہوں تو وہ آپ ہیں۔ میں آپ کو بتانہیں سکتی کہ شروع سے ہی میری نگاہوں میں آپ کا کتنا احترام رہا ہے۔ کیامیں امید کروں کہ آ پ مجھے معاف کردیں گے؟
ریشماں علوی
خط ختم کرکے فراز نے اجمل کی طرف دیکھااور اس نے مُسکراکر آنکھ ماری۔ فراز بھی جواباً مُسکرادیا۔اب اس کے چہرے پر تناؤ اور فکرمندی کی جگہ بشاشت لوٹ آئی تھی۔
پھر ریشماں سے فراز کی اگلی ملاقات تین روز بعد کالج کے کیمپس میں ہی ہوئی جب وہ اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ گفتگومیں منہمک تھی۔ فراز نے اس کی سہیلی سیما کو ہاتھ سے اشارہ کیا۔ وہ فوراً اس کے پاس چلی آئی۔
"فرمائیے۔" سیما نے بڑی شوخی سے کہا۔
"دیکھئے ، میں مِس ریشماں سے ملناچاہتاہوں۔
کیاآپ ان تک میراپیغام پہنچا دیں گی، پلیز؟"
"اوہ! شیور ، شیور،وہائی ناٹ۔"سیما معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے بولی اور پھر واپس جاکر ریشماں سے کچھ کہنے لگی۔ ریشماں نے اس کی طرف دیکھااور پھر سیما سے کچھ کہا، جس کے جواب میں سیما نے ہاتھ کے اشارے سے فراز کوآنے کو کہا۔
فراز جب ان کے قریب پہنچاتو سیمابولی۔"اچھا ریشو، میں ذرالائبریری میں ایک کتاب جمع کرکے آتی ہوں،اوکے؟"
"ارے آپ کہاں جارہی ہیں؟ ٹھہرئیے نا۔" فراز نے اسے روکناچاہا۔
لیکن سیما نے ریشماں کو آنکھ مارتے ہوئے دوسری سہیلی کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹ لیااور آگے بڑھ گئی۔ریشماں بھی شاید انہیں روکناچاہتی تھی لیکن وہ کچھ بول نہ سکی۔ ان کے جاتے ہی ریشماں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فراز نے دھیرے سے کہا:
"امید ہے میرامعذرت نامہ آپ کو مل چکاہوگا۔میں زبانی طور پرایک بار پھر آپ سے اپنی گستاخی کے لئے معافی چاہوں گا۔"
"دیکھئے آپ مجھے شرمند ہ کر رہے ہیں۔ غلطی آپ کی نہیں میری تھی۔" ریشماں نے نگاہیں اُٹھائے بغیر جواب دیا۔
"لیکن آپ کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ اس کا مجھے شدّت سے احساس ہے۔"
"ہاں، مجھے دلی خوشی ہوتی اگر میراطمانچہ اسے لگاہوتا جس نے میرے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ۔۔۔"
"بس!" فراز نے ہاتھ اٹھاکر اسے روک دیا۔"میرا خیال ہے اب ان رسمیات کی کوئی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی ہم دونوں ہی اپنے رخسار پر ایک دوسرے کے فنگر پرنٹس وصول کرچکے ہیں۔"
ریشماں کے خوبصورت لبوں پر بے ساختہ مُسکراہٹ اُبھر آئی۔
"میں ایک عرصے سے آپ کی دوستی کا خواہشمند تھالیکن ہمّت نہیں پڑتی تھی کہ آپ کے سامنے اس کا اظہارکروں۔اب جب کہ ہم ایک دوسرے سے اچھی طرح متعارف ہوچکے ہیں تو کیا میں اس کی پیش کش کرسکتاہوں؟"
"یہ میری خوش نصیبی ہوگی اگر مجھے آپ جیسے طالب علم کی دوستی کا شرف حاصل ہوا۔"
"مجھے بھی اپنی قسمت پر بڑاناز ہوگا اگر میں آپ کی دوستی کے قابل ہوا۔" فراز نے کہا "تو کیامیں دوستی کو پکّا سمجھوں؟"
"بے شک !لیکن میری ایک شرط ہوگی ۔ " ریشماں نے پہلی بار نگاہیں اٹھائیں۔
"شرط ؟ ہاں ،ہاں کہئے۔"
"ہمارے درمیان صرف دوستی کا رشتہ ہوگا، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔"
"اوہ! ضرور ،ضرور۔" فراز نے اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے کہا۔"میرے لئے تو آپ کی دوستی ہی کافی ہے۔ اچھا، اب اجازت دیجئے، پھر ملیں گے۔"
فراز نے سیما کو دور کھڑے مسکراتے ہوئے دیکھ لیاتھا، اس لئے اب اس نے رخصت ہو جاناہی مناسب سمجھا۔
دن ہفتوں میں، اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ فراز اور ریشماں کی دوستی بھی مستحکم ہوتی گئی۔دونوں ہی نے محسوس کیاکہ پہلی بار انہیں ایک آئیڈیل دوست ملا ہے جس کا انہیں برسوں سے انتظار تھا۔
وقت پنکھ لگاکر اُڑ گیا۔ فائنل امتحان سر پر آپہنچا۔ دونوں نے خوب محنت کی۔ امتحان کا آخری پرچہ دےنے کے بعد انہوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی، کیوں کہ دونوں ہی کے تمام پیپرس اچھے ہوئے تھے۔اب صرف پریکٹیکل امتحان باقی تھا۔اس کے لئے انہیں کسی خاص تیاری کی ضرورت نہ تھی۔ اس بار توقع تھی کہ ان کا کالج پریکٹیکل امتحان کاہوم سینٹرہوگا۔
ابھی امتحان میں تقریباً تین ہفتے باقی تھے۔ لہٰذا ریشماں ایک ڈیڑھ ہفتے کے لئے اپنے گھر چلی گئی اور پہلی بار فراز کو احساس ہوا کہ ان کے درمیان دوستی کے علاوہ ایک دوسرارشتہ بھی قائم ہو چکا ہے،وہ رشتہ جس کا احساس بچھڑنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ رشتہ تو اس نے خود قائم کرلیاتھا۔ ریشماں کو تو اس رشتے کا علم بھی نہ رہاہوگا۔ تو کیااس نے ریشماں کی شرط کو ٹھکرادیا؟اس سے کیاہوا وعدہ خو دتوڑ لیا؟ وہ اتنا کمزور تو نہ تھا۔پھر یہ سب کیا ہوگیا، کیسے ہوگیا؟وہ ہار گیا،ریشماں جیت گئی۔ شکست کے احساس سے اس کی اناکو سخت ٹھیس پہنچی۔ اس نے اپنے ہی اصولوں کی قید میں اپنی شخصیت کو ریزہ ریزہ بکھرتا ہوا محسوس کیا۔ وہ عشق و محبت کا مضحکہ اُڑایاکرتاتھا۔پیارکرنے والوں کو دماغی خلل میں مبتلا کہا کرتا تھا۔ محبّت کی لازوال اورلافانی داستانوں کو خرافات کا پلندہ بتایا کرتا تھا۔ لیکن اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ تقدیر ایک دن اسے بھی اس کی بلندی سے کھینچ کر محبت کے قدموں میں لاپٹخے گی۔اس کا اَنا پسند ذہن شکست خوردگی کے زخم سے چور تھا۔ اسے احساس تھاکہ اس سے انکار خود فریبی کے سواکچھ نہیں۔ اس کی خود ساختہ دنیا جو اس نے فطرت کے خلاف اپنی سخت ترین قوت ارادی کے بل بوتے پر تخلیق کی تھی،مسمار ہوچکی تھی۔
پورے دس دن کے بعد جب ریشماں ہاسٹل لوٹی تو فراز اپنے آپ کو روک نہ سکا اور شکست خوردہ سا ہوکر خط لکھنے بیٹھ گیا۔ وہ اسے سب کچھ بتادیناچاہتاتھا، اپنی شکست کا اقرار کرلینا چاہتاتھا۔ حالانکہ وہ جانتاتھاکہ اِس سے ریشماں کے اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچے گی، اس کابھرم ٹوٹ جائے گااورشاید وہ ہمیشہ کے لئے اس سے دور ہوجائے گی لیکن آخر وہ کب تک اپنی ٹوٹی ہوئی دنیا کے ملبوں میں گھسٹتارہتا، کہاں کہاں بھٹکتاپھرتا؟
خط لکھنے کے دوسرے ہی دن جواب آگیا۔ خط سیما لائی تھی۔ فراز نے اسے پہلی بار اداس دیکھا۔ یہ اداسی اس کے شوخ چہرے پر بڑی غیر فطری لگ رہی تھی۔ آنکھوں میں بھی اجنبی پن تھا۔ فراز نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ لفافہ کھولا اور خط نکال کر پڑھنا شروع کیا:
فراز صاحب !
آخر آپ بھی عام مردوں کی سطح پر آگئے۔مجھے آپ سے ایسی امید نہ تھی۔ میں تو آپ کوبہت ہی اعلیٰ اور بلند کردار شخص سمجھتی تھی۔ مجھے یہ جان کر سخت مایوسی ہوئی کہ میں نے آپ کی جن خوبیوں کی وجہ سے آپ کی دوستی کو اپنے لئے قابل فخر سمجھا، وہ سب ایک فریب تھیں۔ میں ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔میں توآپ سے صرف دوستی کی خواہش مند تھی اور آپ میں مجھے ایک آئیڈیل دوست نظر آیاتھا۔ مجھے نہیں معلوم تھاکہ دوستی کی اتنی منزلیں طے کرنے کے بعد آپ اس جذبے کو یوں رُسواکریں گے۔کاش، آپ نے اس جذبے کی قدرکی ہوتی۔ دراصل آپ کو دیکھ کر میں تھوڑی دیر کے لئے اس حقیقت کو بھول بیٹھی تھی کہ تمام مرد ایک جیسے ہوتے ہیں اور لڑکی سے دوستی کو دوستی کی حد تک رکھناان کے بس کی بات نہیں۔
مجھے خوشی ہے کہ یہ طلسم بہت جلد ٹوٹ گیا۔ اس مختصر سے عرصے میں ہی ہم دونوں نے دوستی کی کئی منزلیں طے کرلی تھیں، جس کے دوران آپ نے مجھے اپنے متعلق بہت کچھ بتایااور میں نے بھی اپنے بارے میں سب کچھ آپ کو بتایا۔لیکن میں نے ایک بات آپ سے چھپائے رکھی۔اس مختصر سے سفر کے اختتام پر میں اپنایہ راز آپ کو بتادینا چاہتی ہوں جو شاید مجھے پہلے ہی بتادیناچاہئے تھا۔ اگر آپ کو اس کا علم ہوتا تو آپ کبھی ایساکوئی خط نہ لکھتے۔
آپ نے خط میں میرے لئے اپنے جن جذبات کا اظہار کیا ہے میں بہت پہلے سے کسی کے لئے اپنے دل میں ایسے جذبات رکھتی ہوں، اور اس حد تک کہ اس کے سوا اور کسی کو وہ مرتبہ نہیں دے سکتی۔ دوستی کا رشتہ ختم کرنے سے پہلے میں بڑی خوشی سے آپ کو اس کی تصویر دکھانا پسند کروں گی جو میں خط کے ساتھ بھیج رہی ہوں۔ آپ نے بھی تو کئی خواہش مند لڑکیوں کی محبت کا خون کیاہے، ا س سے قطع نظر کہ ایسے جذبات کا ٹھکرایاجانا کتنااذیّت ناک ہوتاہے۔
ریشماں علوی
فراز کے ذہن میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ اس نے سیما کی طرف دیکھا جو اب تک خاموش کھڑی تھی۔سیما نے اپنے ہاتھ میں دبی کوئی چیز فراز کی طرف بڑھادی جس پر اخبار لپٹا ہوا تھا۔
فراز نے اخبار ہٹایااور اس کے ذہن میں چلتی ہوئی آندھی جیسے کسی لطیف اور خوش گوار ہوا میں بدل گئی۔
بڑا خوبصورت آئینہ تھا۔
فراز نے سیما کی طرف دیکھا، لیکن وہ دور جا چکی تھی۔

***
jawednh[@]gmail.com
موبائل : 09830474661
B-5, Govt. R.H.E., Hastings, 3, St. Georges Gate Road, Kolkata-22
جاوید نہال حشمی

Tapish - Short Story: Jawed Nehal Hashami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں