اردو ناشرین ایڈیٹنگ اور انڈکسنگ کے فن سے نابلد - عارف اقبال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-07-09

اردو ناشرین ایڈیٹنگ اور انڈکسنگ کے فن سے نابلد - عارف اقبال

editing-indexing-art
اردو بک ریویو، اردو دنیا میں شائع ہونے والے تقریباً تمام ہی رسائل سے بالکل جداگانہ ہے۔ آخر محمد عارف اقبال کے ذہن میں اردو کی روایتی ڈگر سے ہٹ کر اس طرح کے منفرد رسالے کا خاکہ کس طرح آیا؟ محمد عارف اقبال کے بقول" یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پبلشنگ انڈسٹری سے منسلک ہوا۔ یہ 1989-90کا زمانہ تھا۔ انگریزی اور دیگر ہندوستان زبانوں کے پبلشرز سے آشنائی ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اردو زبان کے ناشرین اب بھی ایک سو برس پیچھے ہیں ۔ یہاں فکری مواد تو ہے لیکن فنی اور تکنیکی لحاظ سے بڑی پس ماندگی ہے ۔ انگریزی اور دیگر زبانوں کے مقابلے میں اردو بک انڈسٹری کا تصور بھی مفقود ہے ۔ کتابوں اور رسائل کی اشاعت میں مذہبی اور نیم ادبی موضوعات کی کثرت ہے ۔ کتابوں کی اشاعت میں حقیقی عنصر کا شدید فقدان ہے۔ ایڈیٹنگ اور انڈکسنگ کے فن سے بھی اردو کے ناشرین نابلد ہیں۔ ISBNسے بھی بیشتر اردو پبلشر ز ناواقف تھے۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ قانونی طور پر ہر نئی کتاب کا ایک نسخہ نیشنل لائبریری کلکتہ کے ساتھ مہا نگر کی دیگر تین سنٹرل لائبریریز(دہلی، ممبئی، چنئی) کا ارسال کرنا ناگزیر ہے۔ اسی طرح ملک کی یونیورسٹیز میں شعبہ اردو کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے اردو درس و تدریس کے علاوہ تحقیق کے فن کو بھی مجروح کیا جارہا تھا۔ یونیورسٹیز میں پامال موضوعات پر تحقیقی مقالے لکھوائے جارہے تھے ۔ عام طور پر اردو کے قارئین بھی مسلسل گھٹتے جارہے تھے ۔ اس طرح کے حالات میں اردو بک ریویو کا اجرا ہوا۔ یہ رسالہ دراصل اردو بک انڈسٹری کے ساتھ ہر طبقے کے اردو قارئین طلبا اور اساتذہ کے لئے خاص ہے ۔ اس کے قارئین میں سائنس کے طلبا اور اساتذہ کے ساتھ سماج کے ہر طبقے کے باذوق لوگ بھی شامل ہیں ۔ فی الحقیقت اس مجلے کا اجرا اردو زبان و ادب کو دستاویزی جواز فراہم کرانے کے لئے کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود اردو کے اکثر پروفیسرز، شعر اور ادیب اس کے حقیقی نصب العین سے اب بھی ناواقف محسوس ہوتے ہیں ۔ محمد عارف اقبال کی اردو بک ریویو اردو دنیا، سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں ۔ انہوں نے ان امیدوں کے بارے میں بتایا "امیدیں تو لامحدو د ہیں۔ تاہم اردو کے زوال آمادہ دور میں اردو دنیا کے سنجیدہ قارئین کی طرف سے داد و تحسین ملتی رہی ہے ۔ رسالہ خرید کر پڑھنے والوں کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں ہے لیکن ہمیں اطمینان ہے کہ اردو بک ریویو کے قارئین کا ذوق عام قارئین سے اعلیٰ ہے۔ مصدقہ خبر یہ بھی ہے کہ اردو بک، ریویو، جن لائبریریز میں ارسال کیاجاتا ہے وہاں ایک شمارہ سے ہزاروں طلبا و اسکالرز مستفید ہوتے ہیں۔"
اردو کا رسالہ نکالنا اور وہ بھی اس نوعیت کا گھاٹے کا سودا ہے ۔ آج خود کشی کا رجحان عام ہے ۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ محمد عارف اقبال نے ادبی اور صحافتی خود کشی کی ہے ۔ محمد عارف اقبال کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس بھاری پتھر کو ہم نے چوم کر چھوڑ دینے کے لئے نہیں اٹھایا ہے۔ خود کشی در اصل مایوسی(Frustration) کا نتیجہ ہوتی ہے۔ الحمدللہ! اس کام کو ہم لوگوں نے شعوری طور پر اور کسی حد تک منصوبہ کے ساتھ شروع کیا تھا۔ ہم اپنے منصوبے میں چالیس فیصد یقینی طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔ساٹھ فیصد منصوبہ اب بھی ہماری فائل میں دباہوا ہے ۔ جہاں تک گھاٹے کا سوال ہے تو یہ امر افسوس ناک ہے کہ گزشتہ چوبیس برسوں سے نکلنے والے اس رسالے کے پاس اپنا کوئی انفراسٹرکچر بھی نہیں ہے ۔ خالق کائنات مسبب الاسباب ہے۔ لہٰذا وہی اسے چلا رہا ہے ۔ میں اسے گھاٹے کا سودا اس لئے نہیں سمجھتا کہ یہ دستاویزی کام موجودہ اور آئندہ نسل کے لئے تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ اردو دنیا کی علمی و ادبی ضرورتوں کو پورا کرنے والا یہ واحد اور منفرد رسالہ ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ میں کوئی عبث کام نہیں کررہا ہوں ، جس طرح عام طو ر پر اردو کے ادبی و نیم ادبی رسائل نکلتے ہیں ۔"
محمد عارف اقبال نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا:" میرے نزدیک اردو بک ریویو کا ہر شمارہ خصوصی شمارے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تاہم یہ خیال آیا بھی کہ کسی خاص موضوع پر خصوصی شمارہ شائع کیاجائے تو ہمت نہیں ہوئی۔ کیونکہ میرے منصوبے میں یہ بات داخل ہی نہیں ہے کہ ادھر ادھر سے مضامین کو اکٹھا کر کے خصوصی شمارہ بنادیاجائے ۔ اردو دنیا میں خصوصی شمارے کا اعزاز صرف نقوش لاہور کو حاصل رہا ہے ۔ اس کے بعد یہ اعزاز پھر کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ اگر اردو بک ریویو کے خصوصی شمارہ کی بات کریں تو میرے نزدیک گزشتہ چوبیس برسوں میں ایک شمارہ بلا شبہ خصوصی طور پر شائع ہوا ، جس کا موضوع ابن صفی کی ادبی خدمات ہے ۔ کتابی صورت میں ابن صفی، مشن اور ادبی کارنامہ(تقریبا1100صفحات) کے نام سے2013ء میں ادارہ اردو بک ریویو کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا ۔ ہندوستان میں اپنے موضوع پر اسے پہلی تحقیقی و تنقیدی کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ محمد عارف اقبال کے بقول ہمارا باضابطہ کوئی پبلشنگ ہاؤس اس معنی میں نہیں ہے کہ ہم سینکڑوں کتابیں شائع کرکے باضابطہ کتابوں کی تجارت کرتے ہیں ۔ ہم نے ایک ادارہApplied Booksکے نام سے قائم کررکھا ہے جس کے زیر اہتمام مختلف مصنفوں کی کتابیں ISBN کے ساتھ شائع کی جاتی ہیں۔ دراصل کسی حد تک یہی ذریعہ آمدنی ہے جس سے اردو بک ریویو کے ساتھ ہمارا گھر بھی فیض یاب ہوتا ہے ۔ تاہم کام کم ہونے کی صورت میں بعض اوقات شدید تنگی کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے ۔ ہم گزشتہ دس برسوں سے اردو قارئین بالخصوص اردو بک ریو یو کے قارئین کے لئے مختلف ناشروں کی کتابوں کی ترسیل کا کام بھی کررہے ہیں تاکہ ہمارے با ذوق قارئین جو کسی بھی تعلق رکھتے ہیں ۔ اپنے ذوق کی کتاب حاصل کرنے سے محروم نہ رہیں۔"
محمد عارف اقبال کا اردو بک ریویو میں شائع ہونے والے اداریے ، تبصرے، موضوعات فہرست، تحقیقی مقالات ، کتاب زندگی اور وفیات وغیرہ کے موضوعات پر کتابیں مرتب کرنے کا خیال ضرور ہے لیکن مصروفیات کے سبب ان کی اس طرح کے کام میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ تاہم انہوں نے ادریے کے حوالے سے ڈاکٹر غضنفر اقبال(گلبرکہ) کی ایک کتاب اکتوبر2006میں اردو بک ریویو کے اداریے اور تجزیے کے عنوان سے شائع کی ہے۔ یہ کتاب در حقیقت غضنفر اقبال صاحب کے اس مقالہ پر مبنی ہے جس پر انہیں حیدرآباد یونیورسٹی سے اردو میں صحافت کا ڈپلومہ عطا کیا گیا۔ اس میں انہوں نے دسمبر2005تک کے29اداریوں کا انتخاب شامل کرتے ہوئے ان کے تجزیے کئے ہیں ۔ ان دنوں اردو کے اخباروں میں الیکٹرانک میڈیا میں استعمال ہونے والے غلط سلط الفاظ کا چلن بڑھ رہا ہے اس کے علاوہ کئی غلط اصطلاحات اور مثل کا استعمال بھی ہورہا ہے ۔ مثلاً لوطی لفظ بھی عام ہے اور اسے اغلام بازی کے شوقین فعل اور مفعول کے لئے استعمال کیاجارہا ہے ۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اور اس طرح کے کتنے غلط الفاظ ہیں جن کا غلط استعمال ہورہا ہے ۔ انہوں نے جواب دیا" یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ اردو میڈیا میں ہی نہیں علمائے ادب بھی بعض غلط اصطلاحات و محاورات کا بڑی بے باکی سے استعمال کررہے ہیں ۔ اہل علم غوروفکر ہی نہیں کرتے کہ ان کی غلطیاں جو غلط العام ہونے لگی ہیں کہیں ظلم و استحصال کے دائرے میں تو نہیں آتیں۔ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اردو لغات میں بھی ان کا استعمال ہوا ہے جو طلبائے ادب کے ئے نہ کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ادب میں تحقیق کا دروازہ بند ہوگیا ہے ۔ تاہم تحقیق کے نام پر جو کچھ بھی ہورہا ہے ، اسے مکھی پر مکھی مارنا ہی کہہ سکتے ہیں ۔ ہمارے ماہرین لسانیات املا کی بحث میں تو دور کی کوڑی لاتے ہیں ، لیکن وہ الفاظ جو غلط مفہوم میں استعمال ہورہے ہیں ، ان کی اصلاح پر توجہ مبذول نہیں کرتے۔ مثلاً آپ نے ایک لفظ لوطی کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ لغت میں لوطی اور لواطت دونوں الفاظ ملتے ہیں۔ جہیں اغلام بازی(Homeo Sexuality)کے مفہوم میں استعمال کیاجارہا ہے ۔ اس غلطی سے علمائے دین بھی نہیں بچ پائے ہیں۔ حتی کہ پروفیسر عبدالحق (سابق صدر شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی) کے عصری لغت(تازہ ایڈیشن2014) میں بھی اس طرح کی غلطیاں موجود ہیں ۔"
انہوں نے کہا"قرآ ن مجید میں ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت لوط کا کئی مقامات پر ذکر ہے ۔ ان کی قوم بدفعلی کی مرتکب ہوئی تھی جس کی پاداش میں اللہ نے اسے شدید عذاب میں مبتلا کردیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے علمائے ادب ہی نہیں بلکہ علمائے دین نے بھی حضرت لوط کی قوم کے اس غلیظ فعل کو اللہ کے اس پیغمبر کے نام کا حصہ بنادیا۔ جنہوں نے اپنی قوم کو اس گندے کام سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنی نافرمانی کے سبب وہ قوم عذاب کی مستحق ہوئی ۔ اردو لغت میں لواطت اور لوطی کا مفہوم دیکھ کر آپ سر پیٹ لیں گے۔ اس سے بہتر تو انگریزی لفظ "Sodomy(اغلام بازی لڑکے کے ساتھ میں مجامعت) ہے جس کی نسبت فلسطین کے ایک شہر سدوم کی طرف ہے ۔ بائبل کے مطابق اس شہر کے لوگوں کی بد اعمالی کے باعث اسے تباہ کردیا گیا۔ جب کہ اردو میں لواطت کو اسی مفہوم میں استعمال کیاجاتا ہے جو اللہ کے پیغمبر کی شان میں بڑی گستاخی ہے۔ ہم لوطی بولتے وقت بھی کبھی غور نہیں کرتے کہ جس طرح گاندھیائی کو گاندھی جی کا پیرو اور مارکس وادی کو مارکس کا پیرو کہاجاتا ہے ۔ اسی طرح لوطی تو حضرت لوط کا پیرو(Follower) ہوا ۔ اسے نعوذ باللہ مغلم یا اغلام باز کے معنی میں استعمال کرتے ہوئے ہمیں ذرا بھی تردد محسوس نہیں ہوتا اور ہمارے اندر غیرت ایمانی نہیں جاگتی۔ حالانکہ ہم خاتم الانبیاء(ﷺ) کی نسبت سے خود کو محمدی بھی کہتے ہیں۔ " محمد عارف اقبال کے مطابق اسی طرح اردو میں ایک لفظ تانا شاہ بے دریغ استعمال ہورہا ہے ۔ اس کا عا م طورپر مفہوم ہوتا ہے "ہٹلر" یا ظالم و جابر حکمراں ۔ اسی معنی میں استعمال بھی کیاجاتا ہے ۔ جب کہ تانا شاہ دکن کا ایک مظلوم بادشاہ تھا جس کا اصل نام ابوالحسن قطب شاہ تھا ۔ اسے اپنے اسلام کی طرح تعمیر عمارت کا شوق تھا۔ اس نے مکہ مسجد (حیدرآباد) کی تعمیر جاریہ کی تکمیل پر آٹھ لاکھ روپے صرف کیا ۔ نظامی بدایونی نے قاموس المشاہیر میں لکھا ہے کہ وہ دکن زبان کا شاعر تھا ۔ تانا شاہ اس کا تخلص تھا ۔ اسی پر قطب شاہی خاندان کا اختتام ہوگیا۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب نے گولکنڈہ کو سات ماہ کے محاصرے کے بعد12ستمبر1687کو مسخر کیا اور ابوالحسن قطب شاہ یعنی تانا شاہ کو قید کر کے دولت آباد(موجودہ اورنگ آباد، مہاراشٹر) کے قلعے میں عمر بھر کے لئے نظر بند کردیا ۔ اس کے بعد گولکنڈہ مغل دور میں ہندوستان کا ایک صوبہ قرار پایا۔ تانا شاہ کا مقبرہ گولکنڈہ میں ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ محترمہ قرۃ العین حیدر نے بھی اپنے ایک مراسلہ کے ذریعے غالباً روزنامہ قومی آواز دہلی میں لفظ تانا شاہ کے منفی استعمال پر گرفت کی تھی ۔ اسی طرح اردو میں درجنوں الفاظ ہیں جو بظاہر اغلام العام ہیں لیکن ادب کے طلبا کے لئے محتاج اصطلاح ہیں۔ ایک لفظ روح و رواں کا بھی عرصے سے غلط استعمال روح رواں کے طور پر ہورہا ہے ۔ قرۃ العین حیدر نے اس غلطی کی بھی ایک بار نشاندہی کی تھی۔ ادب کے اکثر طلبا و اساتذہ اب بھی دادو وتحسین کو دادِ تحسین لکھ رہے ہیں۔"
محمد عارف اقبال اردو بک ریویو کے سلسلے میں مستقبل کے منصوبے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ "اردو بک ریویو کے سلسلے میں مستقبل کا منصوبہ ہماری فائل میں موجود ہے ۔ جب تک ادارہ مالی اعتبار سے خوف کفیل نہیں ہوگا کسی بھی منصوبے میں رنگ آمیزی کیسے کی جاسکتی ہے؟ " انہوں نے بتایا"اردو بک ریویو اس وقت ملک کے تقریباً تمام صوبوں میں جاتا ہے۔ آسام ، کیرلہ، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، گوا اور انڈومان و نکوبار میں بھی اس کے قارئین موجود ہیں۔ زیادہ قارئین مہاراشٹر، اور بہار میں ہیں ۔ تاہم کرناٹک کے قارئین میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ مغربی بنگال ، تلنگانہ، بالخصوص حیدرآباد ، اتر پردیش، جھار کھنڈ، دہلی، راجستھان، مدھیہ پردیش وغیرہ ریاستوں میں قارئین کی تعداد اوسطاً ہے ۔ ہندوستان سے باہر پاکستان، خلیجی ممالک ، یوکے امریکہ وغیرہ میں منتخب قارئین موجود ہیں ۔ امریکہ کیMITلائبریری (میسا چوسٹس کیمبرج) بھی خریدار ہے ۔"

Urdu publishers are unaware of Editing and Indexing art, Arif Iqbal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں