نوجوان ناول نگار سلمان عبدالصمد کا ناول - لفظوں کا لہو - ایک تجزیہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-07-24

نوجوان ناول نگار سلمان عبدالصمد کا ناول - لفظوں کا لہو - ایک تجزیہ

LafzoN ka Lahoo novel by Salman Abdus Samad
ہندوستان میں ان دنوں ایک نیا رجحان یوں تشکیل پا رہا ہے کہ اردو ادب میں نئے لکھنے والے نوجوان قلمکاروں نے فکشن کی جانب توجہ مرکوز کی ہے اور اس میں کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہیں۔ ان کے یہاں صرف خیال و تراکیب ہی نہیں ہیں بلکہ ان کو پیش کرنے اور انہیں بہتر انداز میں برتنے کا جدید طور طریقہ بھی ہے۔ اس نوجوان اور ہنر مند کارواں میں عادل فراز ، عمران عاکف خان ، کامران غنی صبا ، نورین علی حق، ابوفہد، شہناز رحمان وغیرہم چند نمایاں نام ہیں۔ یہ قلمکار جس انداز سے اپنے قلم کو حرکت دے رہے ہیں اگر وہ اسی انداز سے لکھتے رہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ سیارہ اردو ادب کے نیر تاباں ثابت ہوں گے ۔

سلمان عبد الصمد اسی قبیلے کے ایک قلمکار ہیں۔ انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت کی سند حاصل کی ہے اور اب جے این یو جیسے معروف ادارہ سے زبان و ادب میں تحقیق کر رہے ہیں ۔ انھوں نے اپنی قلمی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا ، لیکن زیادہ دنوں تک وہ اس دشت کی سیاحی نہیں کر سکے اور بہت جلد اس سے تائب ہو کر اپنی ایک الگ راہ بنانے کی ٹھانی ۔ اردو صحافت میں ان دنوں جس قسم کی کالا بازاری اور بازارِ دلالی سرگرم ہے اس میں کسی بھی جینوین انسان کا رہنا واقعی بہت مشکل ہے ۔ شاید اسی وجہ سے سلمان عبد الصمد سمیت بہتوں نے اس وادی کو خیرباد کہنا شروع کر دیا ہے ۔ ان میں سے بیشتر نے کلیتاً حرف و قلم سے رشتہ توڑ لیا ہے یا اب وہ اس کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے ہیں ۔ لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ سلمان نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا، بلکہ اپنی راہ بدل دی اور بہت کم وقت میں ادبی دنیا میں اپنی شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

اس سلسلہ میں سلمان عبدالصمد مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے قلم کی جوت کو جگائے رکھا ہے اور فکشن کے ذریعے معاشرہ کو جگانے اور بیدار کرنے کی مہم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ان کی کتاب "لفظوں کا لہو "منظر عام پر آئی ہے ۔ یہ ان کا ناول ہے جو تقریباً 221 صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہ ناول صحافت اور اس کے عواقب میں ہونے والی گھٹیا حرکتوں اور صحافت کے نام پر جاری ریشہ دوانیوں کو طشت از بام کرتا ہے ۔ اس ناول کے ذریعہ جاہل ، استحصال پسند اور نام نہاد صحافت کے علمبردار مدیران و مالکان کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بہار اور اس کے گرد ونواح سے تعلق رکھنے والے کرداروں کے ارد گرد کہانی گھومتی ہوئی بہار سے دلی اور پھر دلی سے سعودی عرب ہوتے ہوئے دوبارہ بہار پہنچتی ہے۔ لو سے لو جلاتے ، چراغ سے چراغ روشن کرتے ، حالات کی ستم ظریفیوں اور تھپیڑوں سے لڑتے ، مار کھاتے اور طنز و طعنہ برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ لفظوں کے لہو کو بےضمیری اور زرخریدی کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھانے سے بچاتے ہوئے امید اور حوصلہ کے پھریرے لہرانے میں ناول کامیاب ہوتا ہے ۔

پوری کہانی بہار کے دیہات سے تعلق رکھنے والے محسن اور اس کی دو بیویوں نائلہ اور زنیرا ، نائلہ کی سہیلی نیلا اوراس کے شوہر عبید کے ارد گرد گھومتی ہے۔ یوں تو اکمل ، ڈاکٹر رستوگی ، صوفیہ ، تمیم اور شبنم کے علاوہ ثانیہ ، پنڈت جی اور نورشیہ جیسے ذیلی کردار بھی کہانی کا حصہ ہیں لیکن یہ لوگ ذرا سی جھلک دکھلا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اخیر تک محسن ، اسکی دونوں بیویاں ، نیلا اور عبید ہی باقی رہتے ہیں ۔ سماج کو کچھ دینے، اسے بدلنے اور ایک نئی دنیا متعارف کرانے کا ان پانچوں کو شوق ہے۔ اس کے لئے وہ لوگ صحافت کی وادی کو چنتے ہیں لیکن اولین دنوں میں کامیابی نہیں ملتی۔ محسن دہلی کے ایک اخبار میں کام کرتا ہے ، لیکن مدیران کے استحصالی رویہ اور کم تنخواہ سے عاجز آ کر ایک دن اخبار چھوڑ کر سعودیہ چلا جاتا ہے ۔ اس کی دونوں بیویاں دہلی میں ہی رہتی ہیں ۔ ایک گھر بار دیکھتی ہے جبکہ دوسری ایک اسپتال میں نرس کی ملازمت شروع کر دیتی ہے ۔ وہیں اس کی ملاقات نیلا نامی ایک غیر مسلم لڑکی سے ہوتی ہے جو اس کی سہیلی بن جاتی ہے ، دونوں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں ۔ ایک دن نیلا بھی اسپتال چھوڑ دیتی ہے اور کہیں روپوش ہو جاتی ہے کئی سال کے بعد جب وہ واپس لوٹتی ہے تو صحافت کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہوتی ہے ۔ محسن بھی سعودیہ سے واپس آجاتا ہے اور یوں سب ملکر چراغ سے چراغ جلانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔

ناول کا بیانیہ واجبی اور ٹھیک ٹھاک ہے ۔ زبان و بیان کی بے انتہا اغلاط ہیں جو باذوق قاری کو پریشان کرتی ہیں ۔ شروع کے تقریباً پچیس صفحات کی زبان تو بہت عمدہ ہے ، ایسا لگتا ہے کہ مصنف نے اس کو بہت توجہ اور یکسوئی کے ساتھ لکھا ہے ، لیکن اس کے بعد سے کسی حساس قاری کو اسلوب کے رنگ بدلنے کا جو احساس ہوتا ہے وہ تقریباً اخیر تک جاری رہتا ہے۔ شروع کے پچیس صفحات کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے والے نے اس کو بہت ٹھوک بجا کر نگینے کی طرح بہت خوبصورتی سے سجایا ہے مگر آگے کام کرنے کا غالباً موڈ نہیں بنا اور زبردستی بس خانہ پوری کر دی ہے۔ پروف ریڈنگ کے علاوہ گرائمر اور تراکیب کی بھی بےشمار اغلاط ہیں۔ لگتا ہے مصنف کسی رو میں اسقدر بہتے چلے گئے کہ انھیں اس بات کا خیال ہی نہ رہا کہ انہیں کیا اور کیسا لکھنا چاہیے اور کیا لکھ گئے ہیں؟ لکھنے کے بعد ناول پر شاید مزید کام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ایک بہترین ناول بنتے بنتے رہ گیا ۔ اشاعت میں جلد بازی کا اظہار متعدد مقامات سے عیاں ہوتا ہے، جہاں خیالات کی تکرار کے ساتھ ساتھ کرداروں کی زبانی ہونے والی گفتگو یعنی مکالمہ اور ڈائلاگ بھی ملتے جلتے ہیں ۔

ایک ہی بات کو بار بار گھما پھرا کر کہنے اور ایک جیسے الفاظ کو دوسری جگہ نقل کرنے سے ناول کا فن متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح کتاب میں کثرت سے انگریزی الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے حالانکہ ان کے خوبصورت اردو متبادل موجود ہیں ۔ ذیل میں ایسے ہی کچھ الفاظ ملاحظہ فرمائیں :

جوائن کرنا (ص93): اس کا خوبصورت اردو متبادل منسلک ہونا موجود ہے۔
جرنلسٹ (96) : اس کا اردو متبادل صحافی یا صحیفہ نگار اردو میں مستعمل ہے ۔
کمپرو مائز (ص112): اس کا اردو متبادل سمجھوتہ /صلح صفائی وغیرہ موجود ہے ۔
آئڈیل (112) : اس کامتبادل مثالی ہے ۔
لنچ (167) : دوپہر کا کھانا ۔
ہسٹری (167) : تاریخ ۔
کوشچن (167) : سوال ۔
ڈسکس (167) : بحث و مباحثہ، گفتگو ، مکالمہ۔
انفارمیٹیو (167) : معلوماتی ۔
ڈیتھ (167) : موت ۔
اپ سیٹ (168) : اداس / غمگین ۔
سپوز (169) : فرض کرنا ۔
پرپوز (169) : اظہار محبت کرنا ۔
رفرنس (170) : حوالہ ۔
ریزیلٹ (170) : نتیجہ ۔
فریسٹیڈ (172) : ذہنی الجھن ، خلجان یا پریشانی کا شکار ہونا وغیرہ ۔

یہاں صرف چند الفاظ کی نشاندہی کی گئی ہے ورنہ ناول نگار نے پورے ناول میں کثرت سے ایسے الفاظ کا یوں استعمال کیا ہے گویا یہ کوئی عیب ہی نہیں ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انگریزی الفاظ کا اردو میں استعمال نہ کیا جائے لیکن اردو متبادل کی موجودگی کے باوجود ایسے الفاظ کا استعمال ادب میں بے ادبی کی علامت ہے ۔

کچھ الفاظ نہایت بے ڈھنگے پن سے استعمال ہوئے ہیں جن کی نشاندہی نہ کرنا زیادتی ہوگی ۔ ناول نگار ایک جگہ لکھتے ہیں :
"ایام طفلی کی سرحد میں نے پار کر لی ۔ اب جاکر کچھ خلاصہ ہوا کہ یوں ہوتا ہے خون شیریں "(ص92)۔
یہاں لفظ خلاصہ انکشاف کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے جو سراسر اردو کے ساتھ زیادتی ہے ۔ اس طرح اردو الفاظ کا قابل اعتراض استعمال ہندی داں کرتے ہیں جن کو الفاظ کے مادہ کا پتہ نہیں ہوتا یا پھر وہ اس کے طریقہ کار سے واقف نہیں ہوتے۔ مدرسہ سے پڑھے ہوئے طالب علم سے کم از کم اتنی توقع تو رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اس قسم کی بھونڈی غلطی نہ کریں ۔
ایک جگہ اور لکھتے ہیں :
"شرمیلی روشنی میں دونوں کے چہرے کا رواں رواں جاگ گیا تھا ۔ ملگجی روشنی میں چہرے پر تازگی پھیلی ہوئی تھی ۔" (ص117)
اب قاری تو اسٹوڈیو میں بیٹھا نہیں ہے کہ کارندہ نے سویچ فوراً آن سے آف اور آف سے آن کر دیا ہو کہ جس سے روشنی شرمیلی سے ملگجی ہو گئی۔ فنِ تحریر کی ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیاں بہت زیادہ ہیں ۔
ایک جگہ نائلہ اپنی سہلی نیلا سے بات کر رہی ہے ۔ اسے اپنی داستان سنا رہی ہے ۔ (ص 138 )
اس 21 سطر کی تحریر میں آٹھ جگہ" نیلا "، "نیلا "پکارا گیا ہے ۔ زنیرا اگر کہانی سنا رہی ہے تو ایک ہی جگہ نام لینا کافی تھا ۔ اگر وہ توجہ نہیں دے رہی تھی تو اسے ٹہوکا لگایا جا سکتا تھا۔ لیکن اتنا زیادہ نیلا نیلا کر دیا کہ پورا صفحہ ہی نیلا ہو گیا ۔

ناول میں جگہ جگہ "پتہ نہیں کیوں اس کا جی نہیں لگ رہا تھا "۔
"جانے کیوں آج وہ مغموم تھا" (ص76)
جیسے جملوں کا استعمال کیا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ مصنف کو خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں ۔ ان کے پاس صرف الفاظ کی ہی کمی نہیں ہے بلکہ وہ تشکیک کا شکار ہیں ۔ ہندی الفاظ کا بھی کثرت سے استعمال کیا گیا جس سے گمان ہوتا ہے کہ کہیں اردو کے بجائے ہندی کا ناول تو زیرمطالعہ نہیں؟
گرماہٹ ، بد بداہٹ ، کہیں نہ کہیں ، کھیا جانا ، گرما دیا ، مانو جیسے ، بھومیکا وغیرہ جیسے الفاظ اگر کرداروں کی زبان سے ادا ہوں اور کردار بھی واقعتاً اسی لسانی مزاج کے ہوں تب تو روا رکھا جا سکتا ہے ، لیکن پڑھا لکھا اور بہترین اردو جاننے والا اس طرح کے الفاظ استعمال کرے تو اسے فصیح کہنے میں تامل ہوگا۔ کیونکہ اس ناول کا ہیرو محسن اچھا خاصا پڑھا لکھا اور بہترین اردو جاننے والا بندہ ہے لیکن جب وہ ایسی زبان استعمال کرتا ہے تو طبیعت پر گراں گذرتی ہے۔ کتاب میں کئی جگہ "لعل " کو لال تحریر کیا گیا ہے ۔

ناول میں گفتگو حال سے اچانک ماضی اور ماضی سے اچانک حال میں پہنچ جاتی ہے ، جس سے قاری الجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ ابھی تو بات اِس کی ہو رہی تھی اب اُس کی بات کیسے شروع ہو گئی؟ بات چیت میں تو یہ انداز چلتا ہے لیکن ظاہر ہے ناول میں قطعاً روا نہیں ہوگا۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہےکہ ناول میں صرف غلطیاں ہی غلطیاں یا کمیاں ہی کمیاں ہیں ۔ بلکہ ناول کی جو خصوصیت ہونی چاہئے وہ اس میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ کچھ جملے اور مکالمے اتنے خوبصورت ہیں کہ طبیعت خوش ہو جاتی ہے ، مثلاً ایک جگہ مصنف لکھتا ہے :
"لفظوں کو غلام بنانے والے ، عدالتوں کو اتنے ہی الفاظ دیتے ہیں ، جن سے ان کے افکار و خیالات کی ترجمانی ہو سکے ۔ لفظ کے ذخیرہ اندوز اسکرینوں پر ایسے لفظوں کی پھول کیاریاں لگاتے ہیں ، جو انھیں دلکش مالا اور ہار دے سکیں ۔ صحافت کے سینوں پر ان لفظوں کا ہی خون بہایا جاتا ہے ، جن سے انسانیت لہو لہان ہو جائے، تہذیب زخم خوردہ اور تاریخ کی سرخیوں میں بد نمائی شامل ہو جائے ۔۔۔"۔( ص8)

ناول کے بالکل اختتام پر نائلہ کی زبانی تقریر میں لکھا گیا ہے :
"دنیا میں دو بھوک بڑی خطرناکیوں کے ساتھ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ ایک پیٹ اور دوسری پیٹھ کی بھوک ہے۔ یعنی پیٹ اور جنس کی بھوک! ان دونوں بھوک سے ہی دنیا میں جرائم پنپ رہے ہیں۔ ان دونوں بھوک کی وجہ سے انسان ، انسان کا لہو بہانے پر عار تک محسوس نہیں کرتا۔ ان دونوں بھوک کو مٹانے کے لئے ہی عدالت ہو کہ میڈیا گھرانے، لفظوں کا لہو بہایا جا تاہے ۔ میری نگاہ میں ان دونوں بھوک کے علاوہ ایک اور بھوک ہے۔ وہ ہے رشتوں کی بھوک! آج انسان رشتوں کی بھوک میں مبتلا ہے۔"
(صفحہ223)

یہ اور اس قسم کے کئی دلچسپ اور متاثرکن جملے، استعارے اور خیالات بتاتے ہیں کہ سلمان عبد الصمد میں ایک اچھے فکشن نگار کی خصوصیت موجود ہے ، لیکن اس کے لئے ریاضت شرط ہے ۔ یہ نقش اول ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نقش ثانی اس سے بہتر ہوگا ۔ اس ناول کو دائمی پرواز ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر سوسائٹی ، لکھنئو نے شائع کیا ہے ۔ 800 کی تعداد میں شائع شدہ اس ناول کی قیمت 100 روپے ہے ۔

***
alamislahi[@]gmail.com
موبائل : 09911701772
E-26, AbulFazal, Jamia Nagar, Okhla , New Delhi -110025
--
علم اللہ اصلاحی

LafzoN ka Lahoo, A novel by Salman Abdus Samad. - Reviewer: Mohammad Alamullah

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں