قیام اللیل اور قرآن مجید کے اثرات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-15

قیام اللیل اور قرآن مجید کے اثرات

effects-of-quran
اس سال مرکز البیت العتیق، لاہور میں تراویح کے ساتھ خلاصہ قرآن مجید بیان کرنے کی توفیق ملی۔ روزانہ کا معمول یہ تھا کہ 9 بجے جماعت کھڑی ہو جاتی، اس کے بعد قاری صاحب چار رکعتوں میں نصف پارہ کی تلاوت ترتیل کے ساتھ کرتے۔ پھر درمیان میں آدھے گھنٹے کا وقفہ ہوتا کہ جس میں راقم اسی پارے کا خلاصہ قرآن مجید بیان کرتا کہ جس میں سامعین کے سامنے سلائیڈز پر متعلقہ آیات اور ان کا ترجمہ موجود ہوتا۔ خلاصہ کے بعد ایک اور قاری صاحب ترتیل کے ساتھ آدھے گھنٹے میں بقیہ نصف پارے کی تکمیل فرماتے اور 11 بجے یہ پروگرام اختتام کو پہنچتا۔

اہم بات یہ ہے کہ دونوں قراء حضرات بہت ہی خوبصورت حجاری لہجے میں قرآن مجید کی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرماتے کہ جو لمبے قیام کے ساتھ نفس میں ایک کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ مزید برآں رمضان کی بیسویں رات سے تراویح کے ساتھ قیام اللیل بھی شروع ہو گیا جو 12 بجے شروع ہوتا اور عموما 2 بجے تک جاری رہتا اور بعض اوقات اس میں مزید تاخیر بھی ہو جاتی۔ قیام اللیل میں تین قاری صاحبان تشریف لاتے اور نصف نصف پارہ کی تلاوت فرماتے۔ اس مرتبہ مرکز ہذا میں ایک قرآن مجید تراویح میں 27 کی شب میں مکمل ہوا اور دوسرے کی تکمیل اللہ کے فضل سے قیام اللیل میں کل رات 29 کی شب میں ہوئی۔

میرا کافی عرصہ معمول رہا ہے کہ میں نے تراویح کے ساتھ دورہ ترجمہ قرآن مجید کا پروگرام کروایا کہ جو روزانہ تقریبا چار گھنٹے کا پروگرام بن جاتا ہے یعنی ایک پارہ تراویح میں تلاوت اور پھر اس مکمل پارے کا ترجمہ اور اس کی مختصر تشریح۔ دورہ ترجمہ قرآن مجید کے پروگرام میں آپ رمضان کی راتوں میں زیادہ وقت قیام اللیل میں نہیں بلکہ قرآن مجید کے تعلیم وتعلم میں گزارتے ہیں اور اس کی اپنی افادیت اور اثرات ہیں۔ لیکن اس دفعہ مرکز البیت العتیق کے پروگرام کا خاصہ یہ تھا کہ لوگوں نے رمضان کی راتوں میں لمبا قیام قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ کیا کہ جس کی افادیت اور اثرات مجھے ذاتی طور دورہ ترجمہ قرآن مجید کے پروگرام سے زیادہ معلوم ہوئے کہ بہر حال ترجمہ، ترجمہ ہی ہے اور قرآن، قرآن ہے۔ اور خود قرآن کا جو اثر ہے، وہ ترجمے میں کہاں آ سکتا ہے۔

اور اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کا ایک جم غفیر طاق اور جفت راتوں میں قرآن مجید کے ساتھ کھڑا رہا جن میں بچے بھی تھے، عورتیں بھی، جوان بھی اور بوڑھے بھی۔ رات قرآن مجید کی تکمیل کے بعد ایک نمازی میرے پاس تشریف لائے اور کہا کہ میں نے 36 رمضان گزارے ہیں، اس مسجد میں پہلا تھا، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ شاید زندگی میں یہ پہلا رمضان تھا۔ ایک بزرگ نے کہا کہ جسم لمبے قیام اللیل کی وجہ سے چور ہو جاتا ہے لیکن کھڑے ہونے سے رہا نہیں جاتا۔ ایک رات ایک بیس برس کے نوجوان کو اپنے ساتھ کھڑے دیکھا جو پورے قیام میں گریہ کی کیفیت میں رہا۔

ایک پندرہ پارے حفظ کیے ہوئے تیرہ سال کا بچہ میرے پاس آیا کہ آپ نے درس میں یہ کہا کہ تنہائی میں بھی قرآن مجید پڑھو تو میں نے مغرب کے بعد تنہائی میں دو رکعات نفل نماز میں ایک پارہ مکمل کیا لیکن مجھے پریشانی یہ ہے کہ کچھ نماز میرے لمبے قیام کو دیکھ کر بعد میں میرے بارے تبصرہ کر رہے تھے کہ یہ دیکھو، ننھا مجاہد۔ میری نیکی کہیں ضائع تو نہیں ہو گئی؟ سب سے اہم بات یہ تھی کہ لوگ بہت دور دور سے قیام اللیل کے لیے تشریف لا رہے تھے اور ایسے لوگ سینکڑوں میں تھے کہ جو رات بھر لمحہ بھر کے لیے بھی نہ سوتے تھے اور قیام کرنے والوں کی مجموعی تعداد ہزار سے بھی تجاوز کر جاتی تھی۔ اور یہ رمضان کی طاق اور جفت راتوں میں برابر تھا بلکہ مسجد کے ماحول سے یہ معلوم ہی نہ ہو پڑتا تھا کہ یہ طاق رات ہے یا جفت، ما شاء اللہ سے مسجد آخری عشرے کی ہر رات میں خوب آباد ہوتی تھی۔

کچھ قراء کی تلاوت تو ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے قلب پر اس کا نزول ہو رہا ہو جیسا کہ قاری داود منشاوی صاحب کی تلاوت۔ قیام اللیل کا آغاز بیسویں کی رات کو ہوا۔ مجھے انیسویں کی رات کچھ مصروفیت کی وجہ سے لمحہ بھر سونے کو نہ ملا، اگلا دن بھی یونیورسٹی کی مصروفیت میں ایسا ہی گزر گیا۔ بیسویں کی رات کو قیام اللیل کے لیے مسجد میں ہی آ گیا لیکن گیارہ بجے ہی تراویح کے بعد اتنی تھکاوٹ ہو چکی تھی کہ اب مزید جاگنے کی ہمت نہ تھی کہ تقریبا پچھلے چوبیس گھنٹوں سے نہ سو پایا تھا۔ ایک طالب علم کو کہا کہ صبح سحری میں جگا دینا اور مدرسہ کے ایک کونے میں سو گیا۔ بارہ بجے قیام اللیل شروع ہوا تو دس پندرہ منٹ بعد میں قاری داود صاحب کی آواز سے آنکھ کھل گئی۔ پھر پانچ دس منٹ بڑا سونے کی کوشش کی کہ نیند پوری نہیں ہے لیکن نیند نہ آئی، ایسے لگتا تھا کہ جیسے قاری صاحب کی تلاوت نے بستر سے اٹھایا، وضو کروایا اور مسجد میں لا کھڑا کر دیا۔

رمضان کی راتوں میں تلاوت قرآن مجید کے ساتھ لمبا اور تھکا دینے والا قیام اپنی نوعیت کا ایک منفرد تجربہ رہا کہ جس سے بہتوں کو بہت سی ایمانی کیفیات حاصل ہوئیں۔ لہذا یہ ذہن میں آیا کہ اسے ایک تحریک بنا کر لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنا چاہیے کہ عموما ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ ساری رات قرآن مجید کے ساتھ قیام کیسے ممکن ہے؟ لیکن یہ ایسا ممکن ہوا ہے کہ بچوں اور بوڑھوں نے کیا ہے اور اس کا کریڈٹ مدیر المرکز ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی صاحب کو جاتا ہے کہ جو پچھلے پانچ سات برسوں سے اس کے لیے محنت کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں فی الحال تو یہ پروگرام بنایا ہے کہ اگلے سال اپریل کے مہینے میں ایک تو ایک ہفتے کی ورکشاپ مرکز البیت العتیق، لاہور میں یا کسی اور مقام پر منعقد کروائیں گے کہ جس کا مقصد ایسے مدرسین تیار کرنا ہو گا جو رمضان میں ایسے انداز میں قرآن مجید کا خلاصہ بیان کر سکیں کہ قرآن کو سوسائٹی اور اس کے ایشوز سے ریلیٹ کر کے دیکھا دیں۔

اور دوسرا یہ کہ مرکز البیت العتیق کے کلیہ القرآن سے خوبصورت تلاوت کرنے والے قراء حضرات مختلف شہروں میں اہل حدیث مساجد میں مہیا کیے جائیں تا کہ وہاں بھی قیام اللیل کا ماحول پیدا ہو۔ یعنی مرکز سے خلاصہ قرآن مجید کے لیے مدرس بھی اور تراویح اور قیام اللیل کے لیے قاری صاحب بھی فراہم کیے جائیں۔ مدررس تو خود مسجد کے لوگ مہیا کریں کہ جس کو مرکز البیت العتیق ایک ہفتے میں خلاصہ قرآن مجید کی ٹریننگ اور ایسا مواد دے کہ وہ اپنے شہر میں اپنی مسجد میں پروجیکٹر وغیرہ پر خلاصہ قرآن مجید کو ایک انٹرایکٹو سیشن بنا سکیں اور لوگوں کو قیام اللیل کے لیے موٹیویٹ کرنے کا ذریعہ بن سکیں۔ اور دوسرا قاری صاحب مرکز البیت العتیق کے کلیہ قرآن کی طرف سے مختلف مساجد میں مبعوث کیے جائیں اور اس مقصد سے کلیہ قرآن میں اچھے طلباء کو سال بھر میں تیاری کروائی جائے۔

***
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

Qayam-ul-lail and the effects of the Qur'an. Article: Dr. Hafiz Md. Zubair

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں