تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-12 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-16

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-12


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!

داستان کا یہ ٹکڑا تمام تر ناقص رہے گا کہ اگر ذکر کسی قدر تفصیلی سے ایک حیدرآبادی شخصیت ڈاکٹر عبداللطیف کا نہ آئے ۔ اب تو ریٹائر ہوچکے ہیں، لی کن استادوں کے استاد رہ چکے ہیں ۔ یعنی ان کے پڑھائے ہوئے، ان کے سکھائے ہوئے درجہ فضیلت پاس کر کے خو داپنے فن کے یونیورسٹی میں استاد بھی بنے ۔ اور اب وہ بھی ریٹائر ہوچکے ہیں ۔ آنکھوں کے مریض، اور اب دنیا کے ہنگاموں سے کچھ الگ تھلگ سے رہتے ہیں ۔ پھر بھی بڑی گہری نظردنیا کے حالات پر رکھتے ہیں ۔ یونیورسٹی میں استادتو شاید انگریزی ادب کے تھے ۔ لیکن اب تو ان کی ماہرانہ نظر سیاسیات عالم پر رہتی ہے۔سرسری نیاز ان کی خدمت میں پہلے سے تھا۔ لیکن خوب ہوا کہ اب کی ملاقاتیں بار بار اور خوب کھل کررہیں ۔ بدگمانی ان کی طر ف سے دل میں یہ جمی ہوئی تھی کہ یہ تجدد مآب ہیں (1)۔ مل کر معلوم ہوا کہ ، نہیں ان کے دل میں بڑی اسلامیت ہے۔ مڈل ایسٹ (مشرق وسطیٰ) کے کسی انسٹیٹیوٹ کے سرکاری طور پر ناظم ہیں۔ اور مسلم ملکوں کے حالات و انقلابات سے خوب باخبر ہیں ۔ ان ملکوں کی تجدد مآبی اور فرنگیت کا ذکر بڑی درد مندی سے کرتے رہے، اور دنیا کے بعض بہترین مبصرین( مثلا شہرہ آفاق پروفیسر ٹائن بی) سے ان کے گہرے تعلقات ہیں اس نے انہیں خود ایک بڑا مبصر بنادیا۔ میں نے متعدد معاملات میں ان کے وسیع معلومات اور جنچے تلے تبصروں سے استفادہ کیا ۔ ایک روز انہوں نے بڑے وسیع پیمانہ پر جو ایٹ ہوم(عصرانہ) دیا، اس میں کہنا چاہئے کہ پورے شہر کا عطر کھنچ کر آگیا تھا ۔ کتنوں سے ملاقات گھنٹہ سوا گھنٹہ کے اندر ہوگئی ۔ اور مولانا بادشاہ حسینی سے ملاقات یہیں ہوئی ۔ مگر افسوس ہے کہ موقع زیادہ بات چیت کا نہ مل سکا۔ ڈاکٹر محمد مسعود حسین خان(شعبہ اردو) بھی یہیں دکھائی دئیے ۔ علاوہ ان سے ذاتی تعلقات کے بزرگوں سے بھی دیرینہ اور مخلصانہ تعلقات ہیں ۔ لیکن ان سے ملاقات کی توقع تشنہ ہی رہی ۔ عزیز مرزا مرحوم کے دو صاحبزادوں احمد مرزا اور ابو سعید مرزا سے بھی ملاقاتیں یہیں ہوئیں اور احمد مرزا اتنے فاصلے پر تھے کہ ان سے بات چیت کی حسرت ہی رہ گئی ۔ عزیز مرزا مرحوم اپنے دور کے مشاہیر ملت میں سے تھے ۔ علیگڑھ کے بڑے ممتازاولڈ بوائے ، حیدرآباد کے ہوم سکریٹری، اور یہاں سے ہٹنے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے سکریٹری ۔ ابھی ادھیڑ ہی سن کے تھے کہ سنہ ۱۹۱۰ ء یا سنہ ۱۹۱۱ٗ میں لکھنو میں پیام اجل آگیا۔ یہ لڑکے سب کم سن ہی تھے ۔ میں بی اے کا طالب علم تھا ، ان بے چاروں کی تازہ یتیمی اور مرحوم کی کوٹھی کے ماتم کدہ میں تبدیل ہوجانے کا منظر سب آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔
ڈاکٹر عبداللطیف کے تعلقات مولانا ابوالکلام آزاد سے خصوصی تھے ۔ ان کی ایک تو وہ کتاب کو انگریزی کے قالب میں لائے ہیں ان کے زمانہ علالت وفات می یہ وہیں انہیں کی کوٹھی پر مقیم تھے ۔ انہیں کے بیان سے معلوم ہوا کہ مرحوم جب سے غش کھاکر گرے، پھر ہوش نہ آیا ، اور نہ کچھ بول ہی سکے ۔ صرف ایک بار وقتِ وفات سے چند گھنٹے قبل ذرا سے آثار ہوش آنے کے معلوم ہوئے ۔ ڈاکٹری تدبیروں سے سخت کرب و اذیت میں تھے ۔ ہونٹ ہلے اور آواز صرف اتنی سنائی دی کہ
چھوڑ دو، بس خدا پر چھوڑ دو۔
اور بس پھر کوئی آواز اس عالم آب و گل میں نہ نکل سکی ،مبارک اور خوش قسمت ہے وہ مسلمان جس کی زبان کا آخری کلمہ خدا کا نام ہو، مضطرب کی آخری پکار چارہ سازحقیقی کے نام کی۔

مشہور میر تعمیر(ARCHITECT)فیاض الدین صاحب کا نام عرصہ سے کانوں میں پڑا ہوا تھا۔ مگر خیال میں یہ بسا ہوا تھا کہ یہ دہلی یانئی دہلی کے ہیں، وہیں کی عمارتوں کے سلسلے میں ان کا نام ذہن میں تھا ۔ اب پتہ چلا کہ یہیں کے ہیں، ایک سے زائد ملاقاتیں رہیں۔ فنی شہرت ملک گیر حاصل کئے ہوئے ہیں۔۔۔ خواجہ حسن نظامی مرحوم نے انہیں کو تو بہزادِ دکن کا لقب دیا تھا ۔۔۔ اس سے قطع نظر یہ معلوم ہوا کہ قوم و ملت کے معاملات میں بھی دل دردمند رکھتے ہیں۔ تعمیر ملت والوں کے اجتماع میں خاصے پیش پیش تھے ۔ اور بعض اور متفرق حضرات کی ملاقات کے نقش حافظہ پر رہ گئے ۔ انہیں سے ایک شہر کے مشہور معالج ڈاکٹر عبدالمنان ہیں ۔ ان کی حذاقت کے قصے اپنے عزیزوں کی زبانی سنے ۔ اور انجمن ترقی اردو کے عصرانوں میں ان سے ملنے کی بھی مسرت حاصل رہی ۔ ایک اور ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر محمد عثمان خان سے پروفیسر مظہر احسن گیلانی کے ہاں نیاز حاصل ہوا ۔ یونیورسٹی کے سر شتہ ترجمہ میں ڈاکٹری کتابوں کے اردو مترجم تھے۔ اور رسالہ ہمدرد صحت ویرہ میں اب بھی طبی مضمون برابر لکھتے رہتے ہیں۔ایک اتفاقی حادثہ پیش آجانے سے چلنے پھرنے سے گویا معذور ہوگئے ہیں۔ اپنے فنی کمال کے ساتھ ماشاء اللہ ، ایسے زبردست صاحب ایمان ہیں کہ ان سے بات چیت کر کے دوسرے کا ایمان تازہ ہوجائے ۔ اور ایک اور صاحب ملے یونس سلیم صاحب، ممتاز ایڈوکیٹ ہیں، اور ایک عرصہ تک صحافت کے کوچہ کی بھی ہوا کھاتے رہے ہیں، روزنامہ پیام والے قاضی عبدالغفار (اللہ انہیں بخشے) کے رفیقوں، جلیسوں میں تھے ۔ خود بھی محبت کے نظر آئے ۔ ایسے ہی ایک نعت گو شاعر، مرزا شکور بیگ سے بھی مل کر خوش ہوا ۔ پیشہ کے لحاظ سے شاید یہ بھی ایڈوکیٹ ہیں ۔ اور پہلے مزاحیہ رنگ کی شاعری کرتے تھے۔برجستگی آمد، اور بذلہ سنجی میں شوکت تھانوی مرحوم کی ہم طرح ۔ اب شاید صرف نعت کہتے ہیں ۔ اور تاثر میں ڈوب کر کہتے ہیں۔ اپنے دو محبوں، عثمانیہ یونیورسٹی کے استادوں ، مولانا مناظر احسن گیلانی علیہ الرحمۃ اور مولانا عبدالباری صاحب ندوی حفظہ اللہ کے متعدد شاگردوں سے ملاقاتیں رہیں۔ سب اچھے حال میں ہیں ۔ اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان دونوں کا ذکر خیر ان کے شاگردوں کی زبانوں پر برابر جاری ہے ۔ ایسا بھی اب کم ہی ہوتا ہے ملنے والوں اور خاطر مدارات کرنے والوں کی فہرست مختصر و منتخب بھی ناتمام رہے گی۔ اگر نام نواب بہادر یار جنگ علیہ الرحمۃ کے چھوٹے بھائی نواب ماندور خان کا نہ لیاجائے ۔ ملازمت پر کہیں باہر متعین ہیں۔ قیام کے بالکل اخیر زمانہ میں آئے۔ لیکن خلوص کی شدت اور وقت کی قلت کی تلافی کے لئے بالکل کافی ہوگئی ۔
سرکاری حلقوں میں رسائی کے موقع پر قدرۃً کم ہی نکلے۔ پھر بھی ڈاکٹر لطیف کے عصرانہ میں ایک وزیر میر احمد علی خان، وزیر اوقاف سے تو نیاز حاصل ہی ہوگیا۔ ان کا ذکر خیر زبانی بھی بہت سن چکا تھا ۔ اور ان کی جرات کے کارنامے اخباروں میں پڑھ چکا تھا ۔ ہندوستان بھر کے ان گنتی کے دو تین منسٹروں میں ہیں، جو اپنے اسلام پر شرمندہ نہیں، اور سیکولرزم کے تقاضوں کے ساتھ اپنے ایمان کے مطالبات وواجبات کو ہم آہنگ رکھنے کی کوشش میں برابر لگے رہتے ہیں ۔ ملاقات ظاہر ہے رسمی ہی رہ سکتی تھی ، تاہم جتنی دیر بھی رہی، ان کے چہرے، بشرے، انداز گفتگو سب سے اثر اچھا ہی قائم رہا ۔ اور سادگی و تواضع و انکساری تو نمایاں تھی۔ ایک اور عہدیدار محکمہ فنانس کے سکریٹری محامد اللہ صاحب عباسی کا کوروی سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ آدمی پڑھے لکھے ہی نظر آئے اور ساتھ ہی دین و ملت کے پورے درد مند۔ اپنے محکمہ میں نیک نامی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے بھی کام آنے والے، لادینیت اور دینداری دونوں کے مزاج اور تقاضے الگ الگ بلکہ اکثر ایک دوسرے کے متضاد اور دونوں کے تقاضوں کو بڑی حد تک نباہ لے جانا پل صراط پر چلنے سے کم نہیں۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ خوشگوارنظریں خوشگوار امتزاج کی اس دور میں بھی مل ہی گئی ہیں۔ ریاست مدراس میں افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق مرحوم(صدر پبلک سروس کمیشن) اور ہماری اپنی اسٹیٹ میں سید صدیق حسن مرحوم( سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو) کی خوشگوار مثالیں بہت کم تعداد میں سہی، بہر حال جہاں کہیں مل جاتی ہیں پژمردہ امیدیں نئے سرے سے شاداب ہوجاتی ہیں۔
یہاں ایک بڑا طبقہ مشائخ کے لقب سے موسوم ہے ۔ سلوک اگر صحیح معنی میں ہو، جو ابوبکرؓ ،وعلیؓ کا تھا تو ظاہر ہے کہ اس کا کہنا ہی کیا! وہ تو ہر مسلمان کا عین ایمان اور بلند ترین نصب العین ہے ۔ لی کن اس لفظ سلوک و تصوف کے پردہ میں جو ایک بڑا ماخذ اوہام ورسوم کا تیار ہوگیا ہے ۔ اب اس پر کیا کہاجائے اور یہ اس کے کہنے کا محل کچھ ہے بھی نہیں ۔ خوشی اس کی ہے کہ ملاقات اس طبقہ مشائخ کے ایک ایسے فرد سے رہی۔جس کا وجود اپنے طبقہ کے لئے باعث فخر ہے ۔ مولوی شاہ قطب الدین الحسینی شہر کی مرجع عام درگاہ شاہ خاموش ؒ کے صاحب سجاد ہ ہیں۔ صاحب علم ہیں۔ دینیات میں علامہ گیلانی کے شاگرد رہے ہیں۔اور سارے لوازم سجادگی کے باوجود عثمانیہ یونیورسٹی کے ایم اے ہیں، حالانکہ وضع و قطع ایسی بنارکھی ہے کہ انگریزی کے حرف شناس ہونے کا بھی گمان نہیں گزرتا ۔ انگریزی زبان پر اتنے قادر کہ بے تکلف اس میں لکھ لکھا بھی لیتے ہیں ۔ چنانچہ کچھ ہی روز ہوئے کہ اسلامی تعدد ازدواج کی حمایت میں ایک رسالہ انگریزی میں شائع کرچکے ہیں اور صدق میں اس کا ذکر خیر بھی آچکا ہے ۔ سلسلہ چشتیہ صابریہ ہے۔ اگر ان کے سے پڑھے لکھے اور خدمت دین کا ولولہ رکھنے والے ان کے طبقہ میں اور پیدا ہونے لگیں تو کہنا چاہئے کہ امت کے ایک خاصے بڑے حصہ کا بیڑا پار ہوجائے ۔

شہر کے بزرگوں میں خصوصی مرجعیت مقبولیت کے تاجدار حضرت عبداللہ شاہ نظر آئے ۔ جس سے بھی ملئے ان کی عقیدت کا کلمہ پڑھتے ہوئے پائیے ۔ میں ان کی اس حیثیت مشیخت سے تو کچھ زیادہ واقف نہ تھا۔ البتہ انہیں علوم دینی کا سر گرم خادم مدت سے جانتا تھا۔ محدث بغوی کی کتاب المصابیح کو سامنے رکھ کر حدیث نبوی کا جو ایک بڑا اچھا مجموعہ مشکوۃ المصابیح کے نام سے تبریزی نے تیار کردیا ہے، اسے امت میں قبول عام حاصل ہوا۔
اور وہ صدیوں سے محدثین و فقہاء دونوں کے ہاں مستند و معتبر چلی آتی ہے، مگر اس کے مولف شافعی ہیں ۔ اپنے مذہب کی رعایت انتخاب احادیث میں کرجانا ان کے لئے بالکل قدرتی تھا، حنفیہ اس باب میں پچھڑے ہوئے تھے ۔ مولاناکو صدیوں کے بعد اس طرف توجہ ہوئی۔ اور ایک نیا مجموعہ اسی انداز کا حنفیہ کے نقطہ نظر کو ملحوظ رکھ کر زجاجۃ المصابیح کے نام سے کئی جلدوں میں شائع کردیا۔ یہ کارنامہ بجائے خود اس قابل تھا ۔ کہ ان کی خدمت میں حاضری ضروردی جاتی اور ان سے اپنے حق میں دعائے خیرلی جاتی ۔ اللہ انہیں عمرنوح عطا فرمائے ، سن وسال اندازہ سے زیادہ نکلا ۔ قیام مسجد میں رہتا ہے ۔ ضعف نے بہت ہی نڈھال کررکھا ہے ۔ خوب ہوا کہ حاضری ہوگئی ، چہرہ پر نورہی نور تھا۔بات چیت زیادہ کیا ہوتی، یہی بہت ہے کہ جو مقصود تھا ، یعنی دعائے خیر لینا۔ وہ حاصل ہوگیا۔ ہاتھ پکڑ کر جب اپنے ہاتھ میں لیا ہے ، تو قلب کو وہ سرور اور وہ ٹھنڈک محسوس ہوئی کہ جی یہی کہتا رہا،بس اب یہ ہاتھ اسی ہاتھ میں رہے اور اس کی گرفت کبھی نہ ڈھیلی ہونے پائے۔دستگریری جس اہل دل جس اہل اللہ کو بھی نصیب ہوجائے ، ایک بے سہارے کے لئے بڑا سہارا ہے !!

طبقہ علماء کی کافی بلکہ بھر پور نمائندگی کے لئے صرف ایک ہی ذات کافی ہوگئی ، مولانا فضل اللہ سابق صدر شعبہ دینیات کے علم و فضل کے شہر سے عرصہ سے سننے میں آرہے تھے۔ مراسلت بھی ہوچکی تھی ، دیدار کی نوبت اب آئی ۔ امام بخاری کی الادب المفرد کو بڑے اہتمام سے شرح و حاشیہ کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ اور مستشرقین کی دیدہ ریزی کے ساتھ اسے’’ایڈٹ‘‘ کیا ہے۔ حدیث ہی کی خدمت مشغلہ زندگی ہے ۔ صاحب حدیث کے انوار کردار و اخلاق کو کہاں تک متاثر نہ کرتے ، صاف شان نائب رسول کی نظر آئی۔علم و متانت ، تواضع و انکسار کا ایک سر چشمہ اس پر علاوہ حدیث کے دوسرے علوم و فنون سے متعلق وافر معلومات کا ذخیرہ مستزاد۔افسوس ہے کہ مولانا کو اس وقت شمالی ہند میں کام تھا اس لئے ملاقات کا موقع کم ہی ملا ۔ پھر بھی جتنا ملا، دل و دماغ دونوں کی آسودگی ہی کا سامان فراہم کرتا رہا ۔ شہر کے مشہور فاضل اور خادم دین، مولانا ابوالوفا افغانی اور ان کے مشہور تر ادارہ معارف النعمانیہ کے نام اور کام سے ہندوبیرون ہند کے علمی دینی طبقہ میں کون ناواقف ہے؟ حنفیہ کے قدیم علمی ذخیرہ کو اپنی بیش بہا خدمات سے گراں بار کررہا ہے ۔ اور ایسے انہماک اور یکسوئی کے ساتھ اس میں لگے ہوئے ہیں کہ جیسے دنیا کے اور کسی مشغلہ سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ۔ خوب ہی ملے اور ایک کم علم و کم سواد مسافر کی خوب ہی قدر افزائی کی۔ مولانا باوجود اس کے کہ اردو پر عبور ایک ہندوستانی کی طرح رکھتے ہیں۔ ہندی نہیں افغانی ہیں اور اس سن و سال پر بھی اپنے وطن سے بالکل بے تعلق نہیں ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی اب بھی آنا جانا رہتا ہے ۔ اور اپنی جوانی تک تو بارہا آئے گئے ۔ امیر امان اللہ خان کے زمانہ میں ایک بار وہیں تھے، جب امیر کی بعض جدتوں اور رنگ تجدد سے ملک کی مذہبی طبقی میں شورش پیدا ہوئی،باتیں کچھ ایسی زیادہ متجددانہ تھیں، پھر بھی وقت کے ماحول کے لحاظ وہاں کے علماء حق کے لئے ناقابل برداشت ثابت ہوئیں۔ امیر کے حکم سے ملکہ ثریا کی سردربار بے نقابی نے تیل پر دیا سلائی کاکام دیا۔ ایک مشہور و مقبول شیخ طریقت اور قاضی عدالت شیخ عبدالرحمن نے خفیہ تبلیغ جہاد شروع کی۔ سرکاری پولیس دونوں کو گرفتار کر لائی ۔ خیر شیخ طریقت کی جان تو کسی طرح بچ گئی ، قاضی عبدالرحمن کو سزائے موت ملی ۔ اور حکم ہوا کہ فوجی طریقہ پر انہیں گولی مار کر ہلاک کردیاجائے ۔ تاریخ موعود آئی ، تو قاضی صاحب نے کہا کہ وقت آخر کے لئے صرف دو باتوں کی اجازت چاہتا ہوں ۔ ایک یہی کہ پہلے وضوکر کے دو رکعت نفل پڑھوں گا اور اس کے بعد اذان دوں گا ۔ حالت اذان میں جس وقت اشارہ کروں عین اسی لمحہ گولی ماردی جائے ۔ درخواست منظور ہوئی ۔ اور شہادت کا آرزو مند اور جنت کا حریص قاضی حالت اذان میں جس وقت شہادت توحید کے بعد شہادت رسالت پر پہنچا ، عین اسی لمحہ اشارہ کرکے فرشتہ موت کو لبیک کہا۔ فوجی دستہ نے باڑھ ماری اور قاضی اپنی مراد کو پہنچ گیا۔ خوش نصیب قاضی کی قابل رشک موت! بڑے سے بڑے متقی و زاہد کی بھی تمنا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے ، کہ مولانا جس گھڑی بندہ کو حاضری سے سرفراز کرنا چاہے تو بندہ کی زبان پر یہی نغمہ جانفزا ہو ، جو ہر تلخ کو شیریں اور ہر مشکل کو آسان بنادینے والا ہے! ساری عبادتوں کا حاصل، ساری ریاضتوں کا نچوڑ دو بندھے ہوئے اور مختصر سے فقروں میں!

رودارِسفر ختم پر آگئی ۔ نہیں نہیں پر بھی خدا معلوم کتنوں کے نام زبان قلم پر آگئے ۔ اکثر کے تعظیم کے ساتھ ، بعض کے عقیدت کے ساتھ اور محبت کے ساتھ تو کہنا چاہئے کہ سب ہی کے، پھر بھی چار نام ایسے بھی ہیں جو باقی رہ گئے۔اور باقی ہی رہیں گے ، سہواً وہ چھوٹ نہیں گئے ۔ قصداً وہ چھوڑ دئیے گئے ، بن صاحب اس میں خاص بلدہ کے ہیں اور ایک صاحب باہر کے اضلاع میں سے مخصوصین کا طبقہ بھی رفیع ہوتا ہے ، لیکن کچھ مخصوصین یہ بھی اخص و ارفع کے مرتبہ پر ہوتے ہیں۔ یہ وہ اہل اخلاص ہیں جن کی کوئی بھی دنیوی مادی غرض مجھ سے وابستہ نہ تھی ، انہیں مجھ سے کوئی بھی خدمت لینا نہ تھی،نہ انہیں اپنے کسی ادارہ یا انجمن میں مجھے لے جانا تھا ، نہ مجھ سے اپنی کتاب معائنہ پر کسی قسم کی داد حاصل کرنا تھی۔نہ اپنا تعارف صدق کے ذریعہ سے کرانا تھا ، انہوں نے خالص اللہ کے واسطے مجھ سے اپنا رشتہ محبت قائم رکا۔ یہ مجھے دیکھ کر مسرور اور میں ہر مرتبہ ان کے سامنے فرط ندامت سے گویا زمین پر گڑ کر رہا۔ کل انکشاف حقائق کے وقت میں تباہ کار تو ان کے کیا کام آؤںگا، الٹے وہی انشاء اللہ میرے لئے ایک سہارا ثابت ہوں گے ۔ ان کا عمل لا نرید منکم جزاء و لا شکورا۔ پرتھا ۔ اور ان کے پیش نظر یہ کلام ربانی تھا۔ وما لاحد عندہ من نعمۃ تجزی الابتغاء وجہ ربہ الاعلیٰ۔صفحہ کاغذ پر ان کا ذکر لانا ان کے اخلاص کا مل کی ناقدری کرنا ہے ان کا نام لوح قلب پر محفوظ رہے گا ، اس عالم میں اور انشاء اللہ اس کے بعد بھی۔ اخلاص و محبت کامل کا، کاروبار، دنیا کے ہر کاروبار سے جدا ہے، اور یہاں کا دستور ہر دستور سے الگ۔ الفاظ لاکھ لائیے ۔ حروف عبارت کی بھرمار ہزار کیجئے ، کیفیتِ قلب کا نقش کیونکر کھنچ سکتا ہے ۔ اور عبارت آرائی حقیقت وجدانی کی مصوری کہاں سے کرسکتی ہے ؟
گرچہ تفسیر زبان روشن گرست لیکن عشق بے زباں روشن ترست
لفظ و زبان سے شرح و تفسیر لاکھ روشن ہو پھر بھی عشق بے زبان اس سے کہیں بلیغ تر ہوتا ہے ۔
عشق کے معنی و مفہوم پر تحقیقی مقالہ تیار کردینا اور ہے اور خود عاشق ہونا چیز ہی اور
گرچہ گویم عشق را شرح و بیان
چون بہ عشق آیم خجل باشم ازآن
عشق کی تشریح و تفسیر میں دفتر کے دفتر لکھڈالے لیکن جب خود عاشق ہوکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اتنا کاغذ سیاہ کر ڈالنے پر بھی کچھ نہ لکھ پائے

حوالہ:
(1) ڈاکٹر سید عبداللطیف ، پی۔ایچ۔ڈی (لندن) انگریزی زبان کے ماہر غالب کے نقاد، برصغیر ہند کو ثقافتی وحدتوں (cultural zones) میں تقسیم کرنے کے محرک۔ پاکستان ایشو (Pakistan issue) اور دیگر کئی کتابوں کے مصنف۔ آخری عمر میں قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ کچھ عرصہ قبل داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
(مرتب)

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:12

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں