اسلام کی تبلیغ میں تفریحی ادب کا استعمال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-29

اسلام کی تبلیغ میں تفریحی ادب کا استعمال

urdu-pop-fiction
تفریحی ادب سے مراد افسانہ، ناول، ڈائجسٹ، ڈرامہ، شارٹ اسٹوری، فلم، ڈاکومنٹری، اینیمیشن، کارٹون اور ویڈیو گیمزوغیرہ ہیں۔ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور نشر واشاعت میں تفریحی ادب کے استعمال کے بارے میں اہل علم کی تین آراء ہیں:-
ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ جائز ہے بلکہ مستحسن یعنی اچھا ہے بلکہ کسی حد تک ضروری ہے کہ آج دنیا میں نظریات اور افکار کی تبلیغ اور نشر وشاعت کا سب سے بڑا اور موثر ہتھیار یہی ہے یعنی تفریحی ادب۔ ہالی وڈ محض انٹرٹینمنٹ کا ادارہ نہیں ہے بلکہ مغربی افکار اور کلچر کے فروغ اور ان کی دعوت وتبلیغ کا سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے جیسا کہ بالی وڈ نے بھی انڈین کلچر کو دنیا میں پھیلانے میں بڑا موثر کردار ادا کیا ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ اسلام کی تبلیغ کے لیے نہیں بلکہ دین کے دفاع کے لیے تفریحی ادب کا استعمال جائز ہے یعنی دین اسلام پر جو طعن وتشنیع کی گئی ہے، جو کیچڑ اچھالا گیا ہے، اس کے لیے تفریحی ادب ہی کو ٹول بنایا گیا ہے لہذا اس کا جواب بھی اسی ہتھیار کے استعمال سے ہی دیا جا سکتا ہے، کسی اور طرح سے دیا گیا ریسپانس نہ تو کارگر ہو گا اور نہ ہی موثر۔ اور تیسری رائے یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ عام طور روایتی فکر یہی ہے اور میرے خیال میں یہ تیسری رائے بہر صورت غلط ہے۔
تزئین حسن ہاورڈ یونیورسٹی میں صحافت کے شبعہ میں زیر تعلیم ہیں، "دلیل" ویب سائیٹ کی مستقل لکھاری ہیں۔ کل ہی "دلیل" کی ورق گردانی کے دوران ان کے دو کالم سامنے آئے۔ جو لوگ اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں تو ان تحریروں کا ضرور مطالعہ کریں۔
الف:
کیا تفریحی ادب چھچھورا ہوتا ہے؟
ب :
تاریخی فکشن: ادب کی صنف یا دشمن کو بدنام کرنے کا ہتھیار۔

ان تحریروں کے مطالعہ سے اس موضوع پر کام کرنے کی اہمیت کا احساس اجاگر ہو گا۔ اور جو مذہبی ذہن رکھنے والے دوست ماس کمیونیکیشن یا صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اس شعبے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ تو ضرور ان کو پڑھیں۔
کافی عرصے سے خواہش تھی کہ تحریک اسلامی "فلم میکنگ" کا کوئی عالمی ادارہ قائم کر لے اور اس بارے میڈیا سے وابستہ کچھ دوستوں کو مشورے بھی دیتا رہتا تھا لیکن تحریک اسلامی کی مذہبی پوزیشن ایسی ہے کہ اس پر خود سے کچھ کام کرنے کی ہمت کرنا شاید اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ لیکن اب اس موضوع پر یہ دو کالم پڑھے تو احساس ہوا کہ امت میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں، اور ہر شبعے میں ہیں۔ اور شاید کبھی تحریک اسلامی ایسے لوگوں سے فائدہ اٹھالے۔
اور جب تک ایسا سوچنے والے امت میں موجود ہیں تو اس امت کو غزو فکری میں شکست سے دوچار کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ امت میں ایسی سوچ موجود ہے اور اس پر دوبارہ شکر ہے کہ مذہبی ذہن اور فکر رکھنے والوں میں ہے۔

***
اسسٹنٹ پروفیسر، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور
mzubair[@]ciitlahore.edu.pk
فیس بک : Hm Zubair
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

Taking help of popular literature in propogation of Islam. Article: Dr. Hafiz Md. Zubair

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں