ڈرامہ ختم ہواورحاضرین کمر سیدھی کرنے کھڑے ہوگئے۔ کچھ اٹھ کر باہر سگریٹ پینے چلے گئے۔
" اب آپ مرزا ببن بیگ سے ایک غزل سنیں گے" اسٹیج کے پیچھے سے اعلان کیا گیا۔
پردہ پھر اٹھ گیا۔ اسٹیج پر ایک لمبے بالوں منحنی سا نوجوان جس نے چوڑی دار پاجامہ اور کرتے پر واسکٹ پہنی ہوئی تھی ہارمونیم لئے بیٹھا تھا۔ اس کے عقب میں پان چباتا ہوا ایک طبلچی ، طبلہ " گرم " کررہا تھا۔
ڈیڑھ نمبر کورنگی میں تازہ تازہ کمیونٹی سینٹر بنا تھا اور علاقے کے نوجوان جو زیادہ تر اسکول اور کالج کے طلبہ تھے آج یہاں ایک ' فنکشن' کا انعقاد کررہے تھے۔ جسے میں نے پردہ کہا وہ دراصل میرے گھر کی بستر کی دو سفید چادریں تھیں جنہیں ایک ازاربند نما رسی پر لٹکا کر دونوں جانب سے دو لڑکوں نے تھاما ہواتھا۔ ایک تماشہ ختم ہونے پر وہ چادر کو کھینچ کر درمیان میں لے آتے اور پردہ " گر جاتا"
لمبے بالوں والا نوجوان گلوکار کم شاعر زیادہ لگ رہا تھا۔ اس نے غزل چھیڑی " گلوں میں رنگ بھرے بادلوں بہار چلے"
کم ازکم مجھے تو یہی سنائی دے رہا تھا۔ میں حال ہی میں چھٹی جماعت میں داخل ہوا تھا۔ " رب کا شکر ادا کر بھائی۔۔۔جس نے ہماری گائے بنائی اور گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی۔۔۔دل کو لگتی ہے بات بکری کی۔ یعنی مولوی اسماعیل میرٹھی، صوفی تبسم اور غلام رسول مہر سے میں آگے جا چکا تھا اور اب ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا ، اور پہاڑ اور گلہری یعنی اقبال اور مولانا حالی وغیرہ کے دور میں داخل ہوگیا تھا۔ کہانیاں اور بچوں کے ناول پڑھنے کا بے حد شوق تھا لیکن شاعری وغیرہ نہ تب سمجھ آتی تھی نہ اب سمجھ آتی ہے۔
مجھے لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری،۔ وہ شمع اجالا جس نے کیا ، وغیرہ، جو اسکول شروع ہونے پر ہم " دعا" میں پڑھتے بلکہ گاتے تھے، کے علاوہ دو شعر اور یاد تھے۔ ایک تھا " مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے"۔ اور " رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد۔۔۔سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد۔۔۔
شعروشاعری میں یہ میرے کل ہتھیار، کل سرمایہ تھے۔ جب کبھی کلاس میں بیت بازی ہوتی میں " م" اور "ر "کے اشعار پر کان لگائے رکھتا اور موقع ملتے ہی یہ شعر دے مارتا۔
رات کافی ہوگئی تھی، ڈرامے کے بعد سامعین کچھ تھکے ہوئے سے تھے۔ غزل کی دھن عجیب نشہ آور سی تھی۔ لوگ باگ اونگھ رہے تھے یا بیزاری سے جماہیاں لے رہے تھے۔ ببّن بیگ ان سب سے بے نیاز تان لگا رہا تھا
" مقامیییے فییییض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں ".
جیسے تیسے پروگرام ختم ہوا اور ہم نے گھر کی راہ لی یعنی پیدل۔ اس زمانے میں چھوٹے موٹے فاصلوں کے لئے بس کی سفر کی عیاشی بھی خواب وخیال تھی۔
اور کچھ دنوں بعد جب میں حکیم کے آگے سرنگوں تھا۔۔۔جی یہ وہی حکیم جو ہمارے محلے کا حجام تھا اور جس کی دکان پر دوچار بزرجمہرہروقت بنچ پر بیٹھے حالات حاضرہ ، تاریخ، سیاست، مذہب اور محلے کے حالات کے بارے میں میرے علم میں اضافہ کرتے رہتے۔ وہ یا تو اخبار پڑھ رہے ہوتے یا پھر چائے یا بیڑی پی رہے ہوتے لیکن ان کا " ٹاک شو" مستقل جاری رہتا۔
حکیم کے پڑوس میں عثمان کے ہوٹل پر ریڈیو اونچی آواز میں لگا ہوا تھا اور اس پر وہی غزل آرہی تھی" جو ہم پہ گذری سو گذری مگر شب ہجراں"
میرے سخت بالوں کو نرم کرنے کے لئے بہت سارا پانی لگا کر حکیم میرے سر میں " چمپی " کررہا تھا۔ آواز کی لہروں پر آتی مہدی حسن کی پرسوز آواز اور اس غزل کی خواب آور دھن۔۔۔میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔
"بڑاجی دار ساعر ہے" غزل کے اختتام پر ایک بزرجمہر کی آواز آئی۔
" کیوں ۔ کیا کیا اس نے؟" دوسرے نے پوچھا۔
" ابے اسے اندر کردیا تھا چار سال کے لئے..پر جوان کا بچہ ساعری کرتا رہا" یہ بزرگ باقاعدگی سے اخبار پڑھا کرتے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ " ساعری" کرنے پر اندر کرنے کی کیا تک ہے۔ خیر ویسے بھی بہت سی باتیں نہ تب سمجھ آتی تھیں نہ اب سمجھ آتی ہیں۔
پھر میں تھوڑا اور بڑا ہوگیا۔ گھر والوں نے مجھے میری دادی کے پاس بھیج دیا کہ وہ اکیلی تھیں ۔ وہ اکیلی تو نہیں تھیں چھوٹے چچا ساتھ رہتے تھے لیکن وہ دن میں اپنے کام پر جاتے اور شام کو پڑھائی کرتے۔ میں اسکول سے آنے کے بعد دادی کے پاس رہتا۔
ہم کوئی بہت زیادہ کھاتے پیتے لوگ نہیں تھے لیکن ایک چیز اپنی انتہائی غربت کے دنوں میں بھی گھر میں دیکھی، وہ تھی کتابیں۔ میرے والد صاحب اور دونوں چچا ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ گھر میں ضرور لاتے، چاہے وہ ادبی ہو۔ مذہبی ہو یا فلمی ہو۔ میری چار جماعت پاس ماں بھی بانو، زیب النِسا ،حور، شمع اور بیسویں صدی پڑھتی رہتیں۔
چھوٹے چچا اکثر کوئی نہ کوئی کتاب لاتے، یوسفی صاحب کی چراغ تلے، شفیق الرحمان کی حماقتیں، پرواز، اشفاق احمد کی ایک محبت سو افسانے کے علاوہ، سیپ، افکار، فنون جیسے رسالے بھی گھر میں یہاں وہاں نظر آتے۔
ایک دن ایک کتاب پر نظر پڑی جس کے سرورق پر لکھا تھا " زنداں نامہ" ۔ کھول کر دیکھا تو نظمیں اور غزلیں وغیرہ تھیں۔ میں بے زاری سے اسے ایک طرف ڈالنے ہی والا تھا کہ اسی غزل پر نظر پڑی " گلوں میں رنگ بھرے۔۔۔۔لیکن یہاں بادلوں کی جگہ " بادِ نو بہار" لکھا ہوا تھا۔
کتاب میں اس " ساعر " کے بارے میں بھی لکھا ہوا تھا۔ اور مجھے بھی پتہ چل گیا کہ اس "ساعر" کا نام فیض احمد فیض ہے۔
ریڈیو سے بھی اکثر، تم آئے ہو نہ شب انتظار گذری ہے،،، رنگ پیراہن کا خوشبو۔۔۔یا پھر " مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ" سنوانے کے بعد فیض کا نام سنائی دیتا۔ اتنا تو اندازہ ہوا کہ یہ " جی دار" شاعر کوئی بڑا شاعر ہے۔
پھر ٹی وی پر " خدا کی بستی" شروع ہوا جس کے ٹائٹل میں لکھا ہوتا " ڈرامائی تشکیل۔۔فیض احمد فیض"
میں بھی اب سکنڈری کلاسوں میں آگیا تھا۔ نویں جماعت میں میر، غالب، سودا، درد اور دسویں میں جوش ، جگر، حسرت اور یگانہ وغیرہ سے تعارف ہوا۔ فیض کا اس میں کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس کے بعد گیارہویں اور بارہویں میں بھی اردو پڑھی لیکن فیض نام کے کسی شاعر کا کلام وہاں نہیں تھا۔
اب مجھے بھی کچھ کچھ اردو ادب کا شوق ہونے لگا۔ شاعری کا کم، نثر کا زیادہ۔ انہی دنوں میرے بڑے چچا بحرین سے آئے۔ ایک دن وہ اور ان کے بچپن کے دوست حمید (جو کہ خود بھی شاعری کرتے تھےاور نہایت خوبرو تھے، اور جن کے بھائی اسماعیل پٹیل وزارت خارجہ کے بڑے افسر تھے) ، بیٹھے ٹی وی پر ضیاء محی الدین شو دیکھ رہے تھے اور ضیاء " لگائیے ٹھیکا" کے بعد پڑھ رہے تھے" تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم ۔۔۔دار کی نیم خشک ٹہنی پہ وارے گئے"
"یہ فیض کی ہے۔" ۔۔میں نے اپنی قابلیت جتانے کے لئے بتایا۔
" اچھا تم فیض کو پڑھتے ہو؟"حمید انکل نے ستائشی انداز میں پوچھا۔
" جی کبھی کبھی" میں نے یوں بتایا کہ میں واقعی فیض کو پڑھتا ہوں۔
" اچھا یہ بتاؤ، دارورسن' کے کیا معنی ہیں۔ " چچا نے پوچھا تو میں بری طرح گڑبڑا گیا۔
" وہ جی ۔۔۔ دار یعنی تختہ دار اور رسن یعنی رسی یعنی پھانسی کا پھندا" ۔۔چچا کچھ مطمئن نظر آئے۔
اب مجھے سمجھ میں آئی کہ حکیم کی دکان پر اس بزرجمہر نے فیض کو 'جی دار ' کیوں کہا تھا۔ یعنی یہ جوان کا بچہ دارورسن کی باتیں کرتا ہے۔
فیض کو جاننے کے ابھی دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے تھے کہ ایک عجیب سی تقسیم نے فیض سے دور کردیا۔
ملک میں انتخابات کا شور اٹھا ہوا تھا۔ بھٹو صاحب ایوب سے الگ ہوکر اپنی نئی جماعت بنا چکے تھے۔ اب انہیں کوئی نئی بات کرنی تھی۔ انہوں نے نعرہ دیا " اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت"
اسلام کا تو خیر ہر ایک کو ہی پتہ تھا۔ جمہوریت بھی مجھے معلوم تھی کیونکہ اس سے پہلے ہر جگہ " بنیادی جمہوریت " کا شور رہتا تھا۔۔لیکن یہ سوشلزم کیا چیز ہے۔
ہمارے گھر والے سیدھے سادے اللہ والے لوگ تھے۔ ابا اور چچا جماعت اسلامی کے حامی تھے، گھر میں "جسارت " اخبار اور "زندگی" " چٹان" اور " اردو ڈائجسٹ " جیسے رسالے اور جرائد زیادہ آتے تھے۔ کالج میں اسلامی جمیعت طلباء نے گھیر رکھا تھا۔
اب جو بھٹو نے سوشلزم کی بات کی تو ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا۔ سارے اخبار اور رسالے سوشلزم ، کمیونزم، سرمایہ داری، بے دینی، دینداری اور دائیں اور بائیں کی بحث میں الجھ گئے۔ یہ بات تو یقینی تھی کہ دائیں بازو والے یعنی ہم تو راہ راست پر اور حق پر ہیں، بائیں بازو والے گمراہ اور گناہگار لوگ ہیں۔
جسارت اور زندگی دائیں بازو والے
مساوات اور لیل ونہار بائیں بازو والے
جماعت اسلامی اور مسلم لیگ اور عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی اچھے لوگ
پیپلز پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی، بھاشانی وغیرہ برے لوگ۔
جوش ملیح آبادی، فیض وغیرہ کو نہیں پڑھنا چاہئیے
ماہر القادری، حفیظ جالندھری کی شاعری پاکباز لوگوں کے لئے ہے
اشفاق احمد ، شورش کا شمیری وغیرہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن شوکت صدیقی، منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر کو ہرگز نہ پڑھنا۔
لیکن یہاں یہ پابندی عائد نہیں ہوسکی ۔ منٹو اور عصمت کو با کراہت ہی پڑھا لیکن مزا اسی میں آتا تھا۔ شاعری چونکہ نہ تب سمجھ آتی تھی نہ اب سمجھ آتی ہے اس لئے اس پر زیادہ سر نہیں کھپایا۔ بس یہ ہوا کہ جب فیض کو پڑھنا چاہئیے تھے ہم فیض سے دور ہوگئے۔
کالج کے بعد تلاش معاش میں ادب وغیرہ کا کسے ہوش تھا۔ پھر میں بحرین آگیا۔ یہاں چچا پاک وہند سے آئے ہوئے شاعروں ، ادیبوں اور فنکاروں کی میزبانی کرتے۔ آہستہ آہستہ پڑھنے لکھنے کا شوق واپس آنے لگا۔
ایک دن گھر سے پرانے کاٹھ کباڑ کی صفائی کرتے ہوئے چچا نے مجھے بہت سارے ریکارڈ اور ایل پی تھما دئے کہ تمہیں چاہے تو رکھ لو یا کسی کو دے دو۔ اس میں جس قسم کے گیت اور غزلیں وغیرہ تھیں میرے دوست تو کم ازکم انہیں سننے والے نہیں تھے۔ میں وہ سارے ریکارڈ گھر لے آیا۔ ایک چھوٹا سا ریکارڈ پلئیر بھی رعایتی سیل میں مل گیا۔
ایک دن بیٹھا ریکارڈ سن رہا تھا۔ یونہی ایک ریکارڈ لگایا۔ لیکن نجانے اس میں کیا بات تھی، دوبارہ سنا۔
تاج ملتانی گا رہے تھے" ترے غم کو جاں کی تلاش تھی، ترے جاں نثار چلے گئے"
ان اشعار کی نہ تب سمجھ تھی، نہ اب ہے لیکن اب فیض نے آہستہ آہستہ اپنا رنگ جمانا شروع کیا۔
پھر ایک طویل وقفہ آیا۔ بحرین سے سعودی عرب، سعودی عرب سے دبئی، دیس بدیس کی ہجرتوں اور دال روٹی کی فکروں میں پڑھنے پڑھانے کا شوق کہیں دور رہ گیا۔
اقبال کو تو پاسباں مل گئے تھے صنم خانے سے۔۔۔ مجھے پارساؤں نے صنم خانے کی راہ دکھائی۔
یہاں کچھ لوگوں کے ہاں ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے دروس سنا کرتا تھا۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب نے شعر پڑھا
دنیا نے تری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
اور جس پس منظر میں یہ شعر پڑھا اس کی معنی آفرینی دل میں اترتی گئی۔
اور انہی دروس کے سلسلے میں ایک صاحب نے یہ نظم پڑھی
پھر اگلی رت کی فکر کرو
جب پھر اک بار اجڑنا ہے
اک فصل پکی تو بھر پایا
جب تک یہی کچھ کرنا ہے
اشعار شاید مجھے غلط یاد ہوں۔ لیکن یہاں سے میں نے پہلی بار فیض کو ' سنجیدگی' سے لیا۔ جس شاعر کو اس کے مخالف نظریات والے بھی پڑھیں اور حوالہ دیں یقیناً اس میں کچھ بات تو ہوگی۔
اور سچ تو یہ ہے کہ فیض کو پڑھا کم اور سنا زیادہ اور شاید اسی وجہ سے فیض دل میں بستا چلآگیا۔ فیض کے اشعار تو اب روزمرہ اور محاورے بن گئے ہیں۔ پھر جب کبھی موقع ملا فیض کو پڑھتے رہے۔ فیض کی تصویریں، اس کی تحریر، اس کی آواز اس کی فلمیں ، آڈیو، ویڈیو سب اپنی جانب کھینچتے رہے۔ اور جس فیض کو ہمیشہ لادین اور بادہ خوار جانتے رہے اس کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کی ایک بڑی خواہش قرآن حفظ کرنا تھی۔ مولانا ثنااللہ امرتسری جیسے عالم بے بدل سے مناسبت، تین چار پارے حفظ کئے تھے کہ آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے چھوڑنا پڑا۔
عربی میں اعلٰی سند لی اور شاید یہی وجہ ہے کہ زبان وبیان کے معاملے میں فیض اپنے بہت سے ہم عصروں سے کئی آگے ہیں۔
اور میں کیا اور میری اوقات کیا کہ فیض کی شاعری یا شخصیت پر بات کرسکوں۔ اور مجھے کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں فیض اپنا تعارف آپ ہیں ۔ میں تو صرف اس سحر کی بات کروں گا جس میں فیض نے اک زمانے کو جکڑا ہوا ہے۔اور جو مجھے اس کا دیوانہ بنائے دیتا ہے حالانکہ مجھے شاعری کی سمجھ اب بھی نہیں ۔
مجھے نہیں پتہ کہ فیض کے ہاں غم دوراں کو غم جاناں پر فوقیت ہے ۔ غم زمانہ اس کی رومانیت پر بھاری ہے یا رومانیت ہی ہے جو غم زمانہ بیان کرنے پر اکساتی ہے۔ لیکن جو کچھ فیض کے ہاں ہے، کمال کا ہے۔ اسکی باتیں دل میں اترتی جاتی ہیں۔ آپ کو فیض کو یاد نہیں کرنا پڑتا۔ فیض خود بخود یاد آتا چلا جاتا ہے۔
دست تہہ سنگ ہاتھ آئی۔۔ذرا یہ شعر سنئیے۔۔کون ہے جو کہے کے ہم نےنہیں سنے۔
آج بازار میں پا بجولاں چلو
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
یہ جائے غم کا چارہ، وہ نجات دل کا عالم
ترا حسن دست عیسی تری یاد روئے مریم
ہم خستہ تنوں سے اے محتسبو کیا مال ومنال کا پوچھتےہو
جو عمر سے ہم نی بھرپویس سب سامنے لائے دیتے ہیں۔
نہ گنواؤ ناول نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لوتن داغ ڈال لٹا دیا
زنداں نامہ کی شاعری بھی عجیب ہے۔ قید و بند کی صعوبتیں تو انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہیں لیکن مجھے فیض کی شاعری میں زنداں نامہ کا کلام سب سے زیادہ پسند ہے۔ غالبا بنے بھائی ( سجاد ظہیر) نے کہیں لکھا تھا کہ فیض کی جیل کی شاعری کے دو دور ہیں۔ پہلا اس تجربے کے انکشاف اور حیرت کا اور دوسرا اکتاہٹ اور تھکن کا۔ لیکن یہ اکتاہٹ اس سماج، اس نظام سے ہے ورنہ فیض تو ساری زندگی جدوجہد، امید اور عمل پیہم ہی کی شاعری کرتے رہے۔
زنداں نامہ کی بات ہو اور راولپنڈی سازش کیس کی بات نہ ہو۔۔اور یہ ہی مقدمہ تھا جس کے لئے فیض نے لگ بھال چار سال قید کاٹی اور جس کا حوالہ حکیم کی دکان پر بیٹھے بزرجمہر نے دیا تھا۔
اور لطف کی بات یہ ہے کہ فیض کی جس قدر قدیم شاعری یا نوعمری کی شاعری ہے وہ آج بھی ویسی ہی جوان اور تروتازہ اور معنی آفریں ہے۔ نقش فریادی فیض کا پہلا مجموعہ کلام تھا ۔۔ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔۔لگتا ہے کل ہی کی بات ہے۔ پھر اسی نقش فریادی میں،
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
آج کی رات ساز درد نہ چھیڑ
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے
آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
اور ایسی بے شمار نظمیں جو کہ فیض نے سن تیس چالیس کے عشرے میں کہیں تھیں آج بھی تروتازہ لگتی ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ اس شاعر کا ابتدائی دور تھا۔
اب نجانے فیض کے ذہن میں جو راہ متعین تھی وہ انہیں ترقی پسند تحریک اور کمیونسٹ پارٹی تک لے گئی یا ترقی پسند تحریک نے ان کی فکر کو مہمیز کیا۔ لیکن بحرحال ہر دو کے ملاپ سے اردو کی ایک عظیم انقلابی شاعر کا جنم ہوا۔
اور پھر ذرا اس بڑے آدمی کی انکساری ملاحظہ جسے دنیائے ادب میر وغالب اور اقبال کے ساتھ اردو کے سب سے بڑے شعرا میں شمار کرتی ہے، بڑی عاجزی سے کہتا ہے کہ میں بہت کوشش کرلوں تو شاید غالب یا اقبال جیسا کوئی شعر کہہ لوں لیکن بلہے شاہ ، میاں محمد اور وارث شاہ جیسی پنجابی شاعری کی گہرائی اور گیر آئی تک نہیں پہنچ سکتا۔
لیکن فیض بہرحال انسان ہی ہے۔ ہمیں امید دلانے کے لئے کہتا ہے کہ
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط ایک گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے۔
یا
حلقہ کئے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
وہی شاعر جب اپنے بھائیوں کی بے اعتنائی سے دل گرفتہ ہوجاتا ہے اور بے اختیار کہہ اٹھتا ہے
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
فیض جس پر کتابیں لکھی جاتی ہیں میں ان چند جملوں میں اس کی کیا بات کرسکتا ہوں۔ فیض جس کو پڑھ کر، سنا کر اور گاکر لوگ مشہور ہوگئے۔
فیض کی کئی نظمیں، غزلیں، گیت کتنے فنکاروں کا سرمایہ فن ہیں۔ جنہیں وہ فخر سے سناتے ہیں۔
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مِانگ۔۔۔نورجہاں
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے۔۔۔مہدی حسن
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے۔۔۔فریدہ خانم
دشت تنہائی میں۔۔/ ہم دیکھیں گے۔۔۔اقبال بانو
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی۔۔۔تاج ملتانی
آج بازار میں پا بجولاں چلو/ ہم کہ ٹھہرے اجنبی/ یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک۔۔۔نیرہ نور
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔۔۔ٹیناثانی
اس کے علاوہ عابدہ پروین، شوکت علی، غلام علی اور جگجیت اور کتنے ہی فنکار ہیں جن کے لئے فیض کا گایا کلام سرمایہ افتخار ہے۔
اور وہ فیض جس سے میں اتنا عرصہ دور رہا۔ فیض شناسی میرا مقام نہیں لیکن فیض کا قدر دان ہونے کی میری عمر دس بارہ سال کی ہی ہے، جسے مجھے بہت پہلے جاننا چاہئیے تھا۔ جس نے اپنی جانب پھینکے گئے پتھروں اور چلائے گئے تیروں کا کبھی جواب نہیں دیا دھیمی طبیعت والا فیض یہ سب کچھ خاموشی سے جھیلتا رہا ۔حالانکہ
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت
شاید بڑے لوگ ایسی چھوٹی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے، تبھی تو اتنے بڑے ہوتے ہیں۔ اور یہ صفت تو پیغمبروں اور ولی اولیاؤں میں پائی جاتی ہے۔
اسی پیغمبرانہ صفت والی ایک اور ہستی کی باتیں بشرط زندگی آئندہ کبھی۔
شکور پٹھان |
Faiz Ahmad Faiz, a Memoir by Shakoor Pathan.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں