ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:29 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-25

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:29


خلاصہ فصل - 27
حجتہ الاسلام اورابن الوقت کی دوسری ملاقات اور پھر مذہبی بحث

اگلے دن تو صبح ہی سے ابن الوقت کو حجتہ الاسلام کا انتظار تھا، مگر یہ گھر سے کھاناوغیرہ کھا پی کر چلے اور کوٹھی پہنچتے پہنچتے ساڑھے دس بج گئے۔دور سے دیکھتے ہی ابن الوقت نے کہا آپ حقیقت میں بڑے خوش قسمت ہیں کہ شہر میں جاتے ہی اس رات پانی برسا اور خوب برسا۔لُو تو اب بدل گئی۔ حجتہ الاسلامنے کہا’’الحمدللہ، ثمّ الحمدللہ!‘‘ابن الوقت نے پوچھا ’’الحمدللہ، ثمّ الحمدللہ کیسا؟‘‘ حجتہ الاسلام نے جواب دیا کہ میں نے پہلا الحمدللہ اپنی خوش قسمتی پر کہا اور دوسرااس بات پر کہ تم نے تقدیر کو مانا!
ابن الوقت: یہ لفظ تو بے خیالی میں عادت کے مطابق میرے منھ سے نکل گیا ورنہ میں تقدیر کا بالکل قائل نہیں۔اس طرح کے عقیدوں نے مسلمانوں کو کاہل اور نالائق بنا کر اس درجے پر پہنچا دیا ہے کہ روئے زمین پر اس سے زیادہ مفلس اور تباہ حال قوم نہیں۔
حجتہ الاسلام : تم کیوں اس قدر مسلمانوں کے پیچھے پڑے ہو۔کیا رفارمر بننے کے لئے اس کی بھی ضرورت ہے کہ زبردستی کوئی الزام کسی کے پلّے باندھ کر سرخ رو بنو۔جو شخص خدا کو مانتا ہے چاہے کسی مذہب کا ہو وہ ضرور خدا کا بھی قائل ہوگا۔پہلے سمجھو تو سہی کہ تقدیر ہے کیا چیز؟
تقدیر کے معنیٰ ہیں اندازہ ٹھیرانا۔دنیا میں کوئی چیز نہیں جس کا اندازہ نہ ہو۔مثلاً تم جانور یا درخت نہیں بنائے گئے بلکہ آدمی ، یہ تقدیر ہے۔مرد بنائے گئے،عورت نہیں،یہ تقدیر ہے۔ہندوستان میں پیدا ہوئے،یوروپ،افریقہ یا امریکہ میں نہیں،یہ تقدیر ہے۔مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے، ہندو،عیسائی یا کسی دوسری قوم میں نہیں،یہ تقدیر ہے۔نواب معشوق محل بیگم کی سرکار میں مختار ہوئے،یہ تقدیر ہے۔غدر کے وقت نوبل صاحب کو باغیوں نے پکڑا،تم جا پہنچے اور اپنے گھر لے گئے۔ مرہم پٹی کی۔اچھے ہوئے،تمھارے گھر ان کا رہنا کسی طرح ظاہر نہ ہوا، یہ سب تقدیر ہے۔تم کو دفعتاً ’’بھرا بھتولا‘‘گھر چھوڑ کر شہر سے نکل جانا پڑا۔اتنے میں نوبل صاحب نے تم کو عزت و آبرو سے لے جا کر گھر بسایا۔جاگیر اور نوکری دلائی۔یہ سب تقدیر ہے۔اس اثنأمیں تم کو انگریز بننے کے خبط نے آگھیرا۔انگریز نے کچھ تو نوبل صاحب کی مروت میں اور کچھ تمھاری منصبی کے لحاظ سے تم سے ملنے لگے۔تم نے سمجھا انگریزوں نے مجھ کو اپنی سوسائٹی میں لیا۔یہ سب تقدیر ہے۔خدا نے ایک دم پانچ سو روپے ماہوار کی نوکری دلادی۔ہندوستانی آدمی بن کر رہتے تو امیر بنے رہتے اور کچھ نہیں تو دس بارہ ہزار روپیہ تمھارے پلّے ہوتا۔تم نے ایک خبط کے پیچھے ساری آمدنی پر پانی پھیر دیا۔دس بارہ ہزار الٹا قرض کیا۔بزرگوں کی جائداد بیچنے کی نوبت آپہنچی۔یہ سب تقدیر ہے۔نوبل صاحب کو ولایت جانا پڑا۔دریا گنج کے نکڑ پر صاحب کلکٹڑ مل گئے۔وہ پیدل تم سوار۔تم نے اچھا کیا یا برا۔انھوں نے تم سے گستاخی کا جواب طلب کیا۔تمام چھین کر کہہ دیا کہ کچہری میں بیٹھے مکھیاں مارا کرو۔یہ سب تقدیر ہے۔میرے ہاں کے صاحب کلکٹر وکٹر،تمھارے صاحب کلکٹڑ شارپ کے رشتے کے بہنوئی نکلے۔خدا نے تمھاری اور شارپ کی صفائی کروا دی۔یہ سب تقدیر ہے۔ ہے یا نہیں؟
ابن الوقت: یہ تقدیر ہے یا شیطان کی انتڑی۔کہیں پھر میری زبان نہ پکڑئیے گا۔ شیطان کو بھی میں نہیں مانتا۔
حجتہ الاسلام نے جواب دیا کہ تمھارے ماننے نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے۔جو واقعات حقیقی ہیں اگر ساری دنیا بھی انکار کرے تو جھٹلا نہیں سکتا۔ابن الوقت نے پوچھا کیا آپ کے نزدیک شیطان بھی کوئی چیز ہے؟یعنی اس کا وجود ہے؟ حجتہ الاسلام نے ہاں کہا۔ابن الوقت نے پھر یوں پوچھا کہ دوسری چیزوں کی طرح ہم کو کیوں نظر نہیں آتا۔
حجتہ الاسلام : جس طرح ہوا اور پانی میں بے شمار جراثیم ہیں اور خوردبین کی مدد کے بغیر ہم دیکھ نہیں سکتے، اسی طرح یہ چیزیں تو موجود ہیں مگر ہم کو نظر نہیں آتیں۔اگر کوئی شخص شیطان سے انکار کرے صرف اس وجہ سے کہ وہ دیکھ نہیں سکتا تو اس انکار کی کوئی اہمیت نہیں۔شیطان کے ہونے کا یقین کرنا تو خدا اور رسول کے ارشاد کا سہارا لینا پڑے گا۔جن کی آنکھ ایمان کے نور سے منّور ہے اس کو کسی ظاہری ثبوت کی ضرورت نہیں۔ابن الوقت کی اس بات پر کہ شیطان موجود ہے تو خدا کو ظالم اور انسان کو مجبور ماننا پڑے گا کہ یہ کیا انصاف ہے کہ اس نے آدمی پر ایک دشمن مقرر کردیا دراصل تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل بنا دیا ۔ حجتہ الاسلام نے اس طرح جواب دیا: یہ خیال بالکل غلط ہے کہ تقدیر کے عقیدے نے مسلمانوں کو کاہل بنا دیا،دنیا میں مسلمانوں نے کیا نہیں کیا؟ملکوں کو فتح کیا،خشکی و تری کے سفر کئے، ہندو،عیسائی،یہودی کون ہیں جو تقدیر کے قائل نہیں؟ بلکہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ تقدیر پر بھروسہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں نے ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ کوششیں کیں اور کامیاب ہوئے۔
ابن الوقت: آپ تو فرماتے ہیں کہ تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں؟پھر جو لوگ تقدیر پر بھروسہ کرکے کسی کام کی ہمت کربیٹھتے ہیں ان کو کہاں سے خبر ہوجاتی ہے کہ تقدیر موافق ہے؟
حجتہ الاسلام : یہ بھروسہ کرنے والوں سے پوچھا۔ایک زمین دار کچھ زمین ہار گیا تھا۔سنا کہ بارہ برس تک اسی دھن میں پھرتا رہا۔کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔اسے خدا اور تقدیر پر بھروسہ تھا۔صبر کیا اور دل میں یہ یقین کرلیا کہ میرا حق کبھی نہ کبھی ضرور ملے گا۔پھر سنا کہ جج کو جنگل میں اکیلا پاکر سارا حال بیان کیا اور ان کو اپنی سچائی سے مطمئن کردیا۔جج نے کوئی تدبیر کرکے اس کی زمین دوبارہ دلا دی۔وہ تقدیر کے بھروسے خوش دلی سے حالات کو برداشت کرتا رہا۔ناکامی بھی ہو تو تقدیر کا ماننے والا اپنے دل کو تسلّی کرلیتا ہے کہ اس میں کوئی حکمت چھپی ہوگی۔
پھر حجتہ الاسلام ،ابن الوقت کو ایک تدبیر بتاتا ہے کہ جس وقت تمھاری طبیعت دنیا کی فکروں سے آزاد ہو جائے تو تنہائی میں خصوصاًرات کے وقت سوچا کرو کہ دنیا ہے کیا چیز؟
دنیا کا ایک بہت بڑا کارخانہ ہے،کسی نے اس کی انتہا نہ پائی۔بڑی سے بڑی دوربین ایجاد ہوئی مگر ہم نے اجرام فلکی (آسمانی ستارے اور سیارے وغیرہ)کا کیا دیکھا؟خدا جانے کتنے کالے کوسوں کی مسافت ہے کہ ستارے ہم کو نقطہ دکھائی دیتے ہیں۔دوربین کی مدد سے ان کے حالات آخر کس قدر معلوم ہوئے عقلِ انسانی یہاں گم ہے!
غرض کل کائنات کا ہم کیا اندازہ کرسکتے ہیں؟میں نے کہیں پڑھا تھا کہ زمانۂ حال کا کوئی فلسفی پانی کی ایک بوند خوردبین سے دیکھ رہا تھا۔سو سے زیادہ جاندار اس ایک بوند میں بمشکل شمار کرسکا۔آخر تھک ہار کر بیٹھ رہا۔ایک بوند میں اتنی مخلوقات ہوں تو تمام سمندروں میں جو تین چوتھائی زمین کو ڈھانکے ہوئے ہیں، کتنی مخلوقات ہونگیں؟اس کی خدا ہی کو خبر ہے۔یعنی قدرت کے کارخانے کی عظمت،انسانی عقل کے دائرے میں سما نہیں سکتی۔
اگر کوئی آدمی متواتر مدتوں تک اس پر غور کرتا رہے تو ضرور اس کے دل میں اپنی بے بسی اور کم فہمی کا احساس پیدا ہوگا ، جو دینداری کی بنیاد یا ابتدأہے۔اس کے بعد ذہن کو اس طرف متوجہ کرنا چاہئیے کہ اتنا بڑا کارخانہ کیسی عمدگی سے چل رہا ہے کہ عقل دنگ ہے۔
اجرام فلکی اور زمین سب چکر میں ہیں۔خدا جانے کب سے ہیں،کیوں ہیں اور کب تک رہیں گے؟نہ آپس میں ٹکراتے ہیں نہ بال برابر اپنی رفتار بدلتے ہیں۔اس کے بعد روئے زمین پر ایک دانے،ایک پھل،ایک پنکھڑی،چھوٹی سی چھوٹی چیز کو بھی غور سے دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کا کچھ نہ کچھ مقصد ہے۔صرف ایک مثال ریگستانی اونٹ کی لے لو۔اس کے پاؤں کے تلوے چوڑے اول نرم ہوتے ہیں کہ ریت میں نہ دھنسیں۔گردن بہت لمبی ہے تاکہ اونچے درختوں کے پتّے چر سکے۔اس کی پیٹھ کے کوہان میں کئی کئی ہفتوں کا پانی محفوظ رہتا اور پھر مدتوں تک غذا نہ ملے تو کوہان کی چربی کام آتی ہے۔
اسی طرح پھل پھول کی حفاظت کے واسطے کانٹے ہیں۔سرد ملکوں کے جانوروں کی اون گھنی ہوتی ہے کہ جاڑا نہ کھائیں۔ایک ایک مچھلی لاکھ لاکھ انڈے دیتی ہے تاکہ پانی میں اس کی نسل ختم نہ ہا جائے۔
انسان اگر اپنی ہی بناوٹ میں غور کرے تواس میں اسے قدرت کا کمال نظر آئے گا۔اس کے جسم میں ایک چھوٹا پرزہ ہاتھ ہے کہ ہزار قسم کے کام اس سے نکلتے ہیں۔ترکیب دیکھو کتنی سادہ ہے۔ایک ہتھیلی اور تین جوڑ کی پانچ انگلیاں۔انسان کی آنکھ پر غور کرو۔اس کی بناوٹ میں جو حکمتیں ہیں۔اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
غرض عجائب قدرت کا یہ حال ہے کہ صرف ایک چھوٹے سے مچھر کے منہ کے آگے ایک پتلی سونڈ ہوتی ہے جس میں تین اوزارایک سوئی ہے جس کو وہ انسان کے جسم میں داخل کرکے خون چوستا ہے،جب کہ مچھر کی زندگی صرف تین دن کی ہوتی ہے۔
اس طرح کی باتوں کو اگر انسان سرسری طور پر نہ سنے جیسی کہ اس کی عادت ہے تو ہر ذرّ ہ اس بات کی گواہی دے گا کہ اس کو کسی بڑے قدرت والے نے کسی مصلحت سے جان بوجھ کر بنایا ہے۔ممکن نہیں کہ انسان غور و خوص کرے اور اس کا دل اندر سے نہ بولنے لگے کہ اتنا بڑا کارخانہ اتفاقیہ طور پر نہیں ہو گیا۔
جس چیز کی طرف میں تم کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وقت کیا چیز ہے؟جس کی نہ ابتدأ ہے نہ انتہا۔اگر چہ وقت کی وسعت کا اندازہ انسانی ذہن کو نہیں ہو سکتا۔پھر بھی مثال کے طور پر یوں تصور کرو کہ وقت ایک بڑا لمبا خط ہے اس کو ہماری ہستی سے کیا نسبت ہوگی؟
شاید زمین کے مقابلے میں ایک انچ یا اس سے بھی کم۔اس پر خدا سے انکار اور اپنی عقل پر بے جا ناز۔عقل جو انسان کو اس لئے دی گئی ہے کہ وہ مخلوقات سے خالق کو پہچانے(خالق یعنی پیدا کرنے والا)ورنہ دنیا کی چند روزہ زندگی تو جانور بھی بسر کرلیتے ہیں۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہی عقل انسان کو ایسا گمراہ کرکے خدا کا قائل نہ ہونے دے۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی آدمی کس طرح کہہ سکتا ہے کہ خدا نہیں ہے۔ایسے ایسے بے شمار بندے ہوئے ہیں جنھوں نے حکومتیں کیں اپنے زمانے میں ’’نام ور‘‘ ہوئے پھر ایسے مٹے کہ گویا پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
نہ ان کا نام ہے نہ نشان۔تم بتاؤ کہ تم کوئی انوکھے آدمی ہو؟ تم بھی اپنے ارادے سے پیدا نہیں ہوئے اور اپنے ارادے سے مروگے بھی نہیں۔
ابن الوقت: آپ توناحق ڈپٹی کلکٹری کی۔آپ کو تو وعظوں کا سلطان ہونا چاہئیے تھا۔آپ کی تمام تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے لاعلمی کا نام’’خدا‘‘رکھ چھوڑا ہے۔سبب نہ معلوم ہوا تو خدا ماننے لگے۔
آدمی پانی نہیں برسا سکتا تو کہتے ہیں خدا برساتا ہے۔کسی وقت پانی کو ہم اپنے بس میں کرلیں اور جب چاہیں برسا لیں تو کیا ہوگا؟کیا تعجب ہے کہ کسی نہ کسی دن ہم کو پانی برسانے پر قدرت ہو جائے!جب سے یوروپ میں علم جدید شائع ہونے شروع ہوئے ، ثابت ہوگیا کہ انسان کی طاقت محدود نہیں۔
حجتہ الاسلام : میں تو واقعات پیش کرتا ہوں اور تم مفروضات کا حوالہ دیتے ہو۔یہ سچ ہے کہ اس زمانے میں انسان نے اپنی قوت کو بڑھا لیا ہے لیکن معلوم ہے کہ انسان کہاں تک ترقی کرسکتا ہے؟
مثلاً ریل میں سوائے اس کے اور کیا دھرا ہے کہ خدا نے بھاپ کی طاقت کی طرف اس کا ذہن منتقل کردیا اور وہ اس طاقت سا کام لینے کی تدبیر کرنے لگا۔رفتہ رفتہ ریل ایجاد ہو گئی۔انسان نے سب کچھ تو کیا لیکن پانی،آگ،بھاپ۔لوہا،لکڑی جو جو چیز ریل میں کام آتی ہے ان میں سے کوئی چیز پیدا بھی کی ہے؟
دریافت کرنے اور پیدا کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔نہ خدا سے انکار ہو سکتا ہے نہ خود خدائی کا دعویٰ کرسکتا ہے۔جب عقل و دانش کے باوجود آدمی خدا نہ ہوسکا تو سورج وغیرہ کسی میں بھی خدا ہونے کی صلاحیت نہیں کیونکہ ان میں تو عقل و ارادے کی بھی کمی ہے۔
ابن الوقت: بات یہ ہے کہ دنیا کی پہیلی کا کسی نے اتا پتا تو پایا نہیں جو جس کی سمجھ میں آتا ہے کہتا ہے۔بہتر ہے کہ ناحق کیوں سر کھپایا جائے۔جس طرح دنیا چل رہی ہے اس کو چلنے دیا جائے۔
حجتہ الاسلام : میں سمجھتا ہوں کہ بعض ایسے راز ہیں جن کو خدا نے آدمی سے پوشیدہ رکھنا چاہا ہے۔جیسا کہ تم نے ابھی تھوڑی دیر ہوئی کہا کہ اگر دنیا میں اونچ نیچ،خوشی وغم،تقدیر سے ہیں تو تمھاری نظر میں خدا کو انصاف کرنے والا اور رحمدل ماننا مشکل ہے۔جب کہ ایسا نہیں ہے۔جیسے کوئی انسان دنیا کی پیدائش کے بارے میں جاننا چاہے یا ہر واقعہ کے بارے میں پوچھنے لگے کہ کیوں ہوا؟
یا معلوم کرنا چاہے کہ روح کیا چیز ہے اور جسم سے کس طرح تعلق رکھتی ہے؟اس قسم کی ہزاروں باتیں ایسی ہیں کہ انسان پر ظاہر ہونے والی نہیں ہیں۔ان چیزوں کی جستجو انسان کو کرنا ضروری نہیں۔کسی بات کو سمجھ نہ سکے تو اعتراض نہ کرے بلکہ انسانی عقل کا قصور سمجھے! لیکن یہ بھی ہے کہ ایک دن پوچھ ہونی ہے کہ آنکھیں تھیں کیوں نہیں دیکھا؟کان تھے،کس لئے نہیں سنا؟عقل تھی، کس واسطے نہیں سمجھا؟
ابن الوقت: ابھی ایک بحث طے نہیں ہوئی کہ آپ نے قیامت اور اس کے حساب کتاب کی بات کی!
حجتہ الاسلام : بحث مت کہو، میں تو مذہب کے بارے میں مباحثے کا سخت مخالف ہوں۔دین حجّت اور تکرار سے حاصل ہونے والی چیز نہیں۔دین دوا ہے بیماری کی،تسلی ہے بے قرار کی،متاع ہے خریدار کی،نجات ہے گنہ گار کی،یعنی عنایت ہے پروردگار کی۔میں نے ایک تدبیر بتائی کہ دل میں سچّے دل سے نیّت کے ساتھ غور کرو تو عجب نہیں کہ پریشانی باقی نہ رہے۔رہی قیامت اور اس کے حساب کتاب کی بات تو دراصل یہ زندگی چند روزہ ہے۔بھلی گذرے یا بری گذرے۔لمبی زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوگی۔
ابن الوقت: خدا کے ہونے پر تو بھلا آپ نے ایک دلیل قائم کی۔اگرچہ میرے دل کو اس سے تسلی نہ ہوئی۔لوگ اسباب کے قائل ہو رہے ہیں۔جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہیں سبب ہی سبب نظر آرہے ہیں۔اسی وجہ سے انھوں نے ذہن میں بٹھا لیا ہے کہ ہر واقعہ کے لئے سبب کا ہونا ضروری ہے۔سبب نہیں پاتے تو جھٹ سے خدا کے قائل ہوجاتے ہیں۔مگر یہ کہئے کہ قیامت اور حساب کتاب کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟
حجتہ الاسلام : میں نہیں جانتا کہ خدا کے یقین کے لئے تم کیسا ثبوت چاہتے ہو؟اگر دیدار مراد ہے تو کوئی بھی خدا کے دیدار کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔یقین صرف دیکھنے یا چھونے پر ہی منحصر نہیں۔ہر شخص اپنے’’وجدان‘‘(جاننے کی قوت)کا یقین کرتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر تمھاری میز پر ایک پنسل جگہ سے بے جگہ ہو جائے تو تم کو ضرور یقین ہوگا کہ کسی نے میری میز پر سے ہٹایا ہوگا۔اس سے معلوم ہوا کہ جو اور لوگ کرتے ہیں وہی دن میں سینکڑوں بار کرتے ہو۔تمھارے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ کوئی ٹھوس چیز اپنی ارادے سے حرکت نہیں کرسکتی تا وقتکہ کو نہ ہلائے یا ہٹائے۔اسی طرح تم کو یقین ہے کہ جو پیدا ہوا ہے وہ ایک نہ ایک دن ضرور مرے گا لیکن تم نے اپنی آنکھوں سے کتنے آدمیوں کو دیکھا یا سنا ؟
کیا تمھارے اعتراض کا مطلب یہ تو نہیں کہ ذہن میں کچھ بٹھالینا ہی غلطی ہے؟قیامت اور حساب کتاب کا ثبوت پوچھو تو پہلے دنیا کے حالات میں غور کرنے کی عادت ڈالو تو سب سے پہلے دل میں انکسار کی کیفیت پیدا ہوگی یعنی تم پر ثابت ہو جائے گا کہ میں اس عظیم الشان کارخانے میں ایک نا چیز ذرّہ ہوں یا میری ہستی خواب و خیال سے بھی زیادہ نا پائدار ہے۔
تمھارے شکوک خود بہ خود دور ہوجائیں گے۔اور بے دلیل،بلا ثبوت تمھارا دل گواہی دینے لگے گا کہ سب کا خالق خدا ہے۔ہم تو بھائی سیدھے مسلمان ہیں۔خدا کو مانتے ہیں اور اس کو شرطِ انسانیت سمجھتے ہیں۔دنیا کے حالات پر نظر کرتے ہیں تو عاقبت(یعنی آخرت)کا ہونا ایک امر ضروری معلوم ہوتا ہے۔دل ہی کچھ اس طرح کا بنایا ہے کہ نیکی اور بدی میں امتیاز کرتا ہے، کسی طرح یہ بات ذہن سے نہیں نکلتی کہ اس دنیا میں نہیں تو مرے بعد اس کا نتیجہ نکلے گا۔
ابن الوقت: ہمارے دل میں تو ایک لمحہ کو بھی ایسے خیالات نہیں آتے۔
حجتہ الاسلام : آتے نہیں یا آنے نہیں دیتے؟اور آتے کیوں نہ ہوں گے۔یوں کہو تم ایسے خیالات کو دل میں ٹھیرنے نہیں دیتے۔میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ دین و مذہب کا اصل اصول طبیعت میں انکسار پیدا کرتا ہے۔
ہم کو دین کی ویسی ہی قدر ہونی چاہئیے جیسے کہ ایک بیمار کو تندرستی کی ہوتی ہے۔جو شخص بیماری سے واقف ہے کبھی اپنا علاج خود کرتا ہے مگر اکثر طبیب(حکیم یا ڈاکٹر)کی طرف رجوع ہوتا ہے۔خدا کو منظور ہوتا ہے تو مریض(یعنی بیمار)دوا و پرہیز سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔
دین کے اعتبار سے ہم تم دونوں بیمار ہیں۔فرق اتنا ہے کہ تم اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھتے میں بیماری کو سمجھتا ہوں مگر افسوس کہ طبیب نہیں۔اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تم کو طبیعت میں انکسار پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ ساز و سامان، یہ امیری، یہ حکومت،سب سخت درجے کی بد پرہیزیاں ہیں جن کے رہتے طبیعت میں انکسارکا پیدا ہونا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
وہ غور کرنے کی بات جو میں نے بتائی عمدہ دوا ہے۔طبیب سے میری مراد’’پیر طریقت‘‘ہے۔(دین و مذہب میں رہنمائی کرنے والے بزرگ)یہ لوگ اپنے مریدوں کو دینی رحجان پیدا کرنے کے لئے کئی تدبیریں اختیار کرواتے ہیں یعنی غور و فکر، مراقبہ(گردن جھکا کر خدا کا دھیان کرنا)بعض اوقات طبیعت کو قابو میں کرنے مصیبت بھی کام میں آتی ہے۔تاکہ مصیبت زدہ لوگوں کا احساس دل میں پیدا ہو۔
ابن الوقت: آپ تو مجھ کوراہب(دنیا ترک کردینے والا)بنانا چاہتے ہیں۔آپ کی یہ تعلیم مذہب اسلام کے بالکل خلاف ہے۔مرنا برحق ہے مگر ہم اسی مختصر زندگی میں خوش بھی رہ سکتے ہیں ، خوشی کے بہت سے سامان ہیں۔ہم کو خوشی اور غم دونوں کا احساس بھی ہے۔جہاں تک ممکن ہو ہم کو یہ زندگی خوشی میں بسر کرنی چاہئیے۔اگر ہم موت کے خوف سے جوگیوں کی طرح بھوکے اور ننگے رہ کر مرجائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا لغو اور لاحاصل ہے۔
حجتہ الاسلام : میں تم کو دیکھتا ہوں تم دنیا میں اتنے منہمک ہو کہ تم کو دین سے کچھ لگاؤ ہی نہیں۔دنیا کی فانی،عارضی چند روزہ خوشیوں کو خوشی سمجھنا غلطی ہے۔
جیسے ایک جواری، جوا کھیلنے سے ،ایک افیونی، افیون کے عمل سے یا ایک نادان بیمار بد پرہیزی سے خوش ہوتا ہے۔اصلی اور ابدی خوشی تو وہ تھی جس کے لئے پیغمبر اسلام اپنے آپ پر اتنی زحمت اٹھاتے کہ راتوں کو نماز میں کھڑے کھڑے پاؤں سوج جاتے۔ساری عمر چھنے جَو کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی۔بھوک کی شدت کو کم کرنے ہمیشہ پیٹ پر پتھر باندھے رہتے۔پیغمبر اسلام کے گھر والوں پر اکثر راتیں ایسی گذرتیں کہ چراغ تک نہیں جلتاتھا۔کھجور کی چھال کے بورئیے پر لیٹنے سے پیٹھ پر نشان پڑ جاتے۔
ابن الوقت: یہ تو آپ وہی عاقبت(آخرت)کی خوشیوں کو لے دوڑے۔میرا اعتراض تو یہ ہے کہ دین کے خیالات دنیا کی خوشی کو خراب کردیتے ہیں۔
حجتہ الاسلام : تمھارا یہ خیال بالکل غلط ہے۔دنیا کی خوشی اور دنیا کا غم،انسان کے اپنے خیال پر منحصر ہے۔جس قدر دنیاوی تعلقات کی تم قدر و منزلت کروگے اسی قدر دنیاوی خوشی و غم سے متاثر ہوگے۔دین کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے تعلقات سب ہیچ ہیں۔
جوشخص غصّے کو پی جائے،انتقام نہ لے،جھوٹ نہ بولے،غیبت نہ کرے،غرور نہ کرے،کسی سے لڑے نہ جھگڑے،نہ کسی کو دیکھ کر جلے،عافیت میں شکر گذار اور مصیبت میں صبر کرے،ثواب کا امیدوار یعنی خلاصہ یہ کہ دین دار ہو۔میں نہیں سمجھتا کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر کسی اور کو خوشی ہو سکتی ہے۔ایسا شخص خود بھی خوش اور اس سے رشتہ دار اور دوست احباب بھی خوش۔اگرچہ و ہ ہفت اِقلیم(سات ملک)کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔
دنیا دار آدمی تب ہی خوش رہ سکتا ہے کہ جس چیز کو اس کا دل چاہے فوری میسّر ہو جائے۔مگر کسی کو ابتدائے دنیا سے آج تک یہ بات نصیب نہ ہوئی۔دوسرا طریقہ خوشی حاصل کرنے کا یہ ہے کہ خواہشوں کو دبایا جائے،حاجتوں کو کم کیا جائے اور یہی ہے دین کی تعلیم۔
ابن الوقت: پتہ نہیں وہ لوگ کون ہوں گے جن کی دنیا دین داری کی وجہ سے آرام کے ساتھ گذرتی ہو گی۔مجھے تو دین مصیبت کا ایک پہاڑ دکھائی دیتا ہے۔
دنیا میں سینکڑوں مذہب ہیں اور ہر مذہب ایک سے ایک خدا پرست، ایک سے ایک نیک اور ایک سے ایک حق پسند ہے، اس کے باوجود خود ہی کو برحق سمجھتا ہے۔ایک مسلمان اس واسطے مسلمان ہے کہ وہ اتفاق سے مسلمان گھر پیدا ہوا ہے۔
حجتہ الاسلام : دین کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم سب کی بڑی تباہ حالت ہے۔ایسا کون ہے جو گناہ میں متبلا نہیں۔ہماری ہمت ایسی واقع ہوئی ہے کہ ہم اس دام میں پھنسے بغیر نہیں رہ سکتے۔ہماری مجال نہیں کہ دنیا کی حکومتوں کے آگے ذرا بھی سر اٹھائیں مگر خدائے برحق قادراِ مطلق کی حکومت کو حقارت سے دیکھنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔
مجھ کو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام آپس کی ضد،بے جا تعصب(دشمنی)کی وجہ سے ہے۔مجھے چاہئیے کہ خود اپنے آپ کا جائزہ لوں۔دوسروں پر حملہ کرنے کی مصیبت سے یہ سوچ کر بچے کہ اپنی کرنی اپنی بھرنی۔وہ جانیں ان کا کام جانیں۔مجھ کو کیا پڑی کہ دوسروں کے معاملات میں دخل دیتا پھروں۔میرے عقیدے میرے دل کی تسلی کے لئے کافی ہیں۔دوسروں کو ان سے تسلی ہو کہ نہ ہو۔میں نے تم کو دین میں غور و فکر کرنے کو بتایا۔جب انسان اس بات کو مان لے کہ میں فنا ہونے والی بے حقیقت مخلوق ہوں اور پتہ نہیں بعد موت کیا پیش آئے۔میں نہیں سمجھتا کہ ایسا آدمی ان جھگڑوں کی طرف متوجہ ہوگا۔جن دلیلوں سے مجھ کو اس بات یقین ہے کہ خدا ہے۔ان ہی دلیلووں سے اس بات کا بھی یقین ہے کہ کوئی اس کا شریک نہیں۔ہم کو تو اسلام کے سوا اس کا ٹھکاناکہیں نظر نہیں آتا۔جس بات نے مجھ کو مذہبِ اسلام کا گرویدہ کیا یہ ہے کہ اسلام میں بناوٹ نہیں۔پیغمبر اسلام نے آدمیت سے بڑھ کر اپنے لئے کسی حق کا دعویٰ نہیں کیا۔ایک خیال یہ ہے کہ پیغمبر کو معجزات دکھانا ضروری ہے تاکہ لوگ ان کا پیغمبر ہونا تسلیم کریں۔دیکھا جائے تو معجزات کی کوئی اہمیت نہیں پیغمبر ہونا ہی آپ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔یعنی ’’آفتابِ آمد دلیلِ آفتاب‘‘(یعنی سورج کا نکلنا ہی سورج ہونے کی دلیل ہے۔ روشنی کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں!)
اسلام کی ساری باتیں آسانی سے سمجھ میں آتی ہیں کہ دل خودبخود ان کو قبول کرلیتا ہے۔مثلاً توبہ۔ ظاہر بات ہے کہاگر ہم سے کوئی قصور سرزد ہوجائے ،سوائے افسوس اور شرمندگی کے ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے۔
یہود اور عیسائیوں کے احکام عشرہ(Ten Commondments)کے مقابلے میں اسلام کی تعلیمات زیادہ فطری ہیں۔اب تم اپنے دل میں انصاف کرلو کہ کو ن سا طریقہ قابل عمل ہے۔مباحثہ مجھ کو پسند نہیں۔یوں اپنے طور پرمیں نے مذہب کے بارے میں برسوں غور کیاجن وجوہات سے میں نے اسلام کو حق سمجھااور جن دلیلوں سے میرے دل کو تسلی ہوئی ان کو میں نے ایک کتاب میں جمع کررکھا ہے۔اگر تم(یعنی ابن الوقت)دیکھنا چاہو تو میں بہت خوشی سے تم کو دوں گا۔یہ مباحثے دو چار،دس پندرہ ملاقاتوں میں طے ہونے کے نہیں۔یہ دعویٰ نہیں کہ تمھاری تشفی ہوگی۔تشفی بغیر خدا کی مرضی کے ہو ہی نہیں سکتی۔تم کو یا دین سمجھنے والے کونہ کسی کتاب کے دیکھنے کی ضرورت ہے نہ کسی سے پوچھنے کی حاجت،اگر تمھارا ضمیر دین کی کسی بات سے مطمئن ہوجائے۔دنیا میں کسی مذہب کا ایک آدمی بھی نہ ہوگا جس کو مرنے کا یقین نہ ہو۔مگر کتنے ہیں جن کے برتاؤ سے اس یقین کا ثبوت ملتا ہو۔پکّی حویلیاں بن رہی ہیں۔معاملات میں طویل عمر کے وعدے کئے جارہے ہیں۔جب کہ جینے کا کوئی بھروسہ نہیں۔زبان سے تو برابر کہتے ہیں ؂
کیا بھروسہ ہے زندگانی کا آدمی بلبلہ ہے پانی کا
ایسے یقین سے کیا فائدہ؟زبان سے اقرار لیکن عمل سے انکار۔ہم کو دنیا میں ریل کے مسافر کی طرح رہنا چاہئیے، جس کو معلوم ہے کہ اس کو ایک مقام پر اترنا ہے۔وہ اپنا سامان زیادہ کھولتا پھیلاتا نہیں۔ٹکٹ معلوم ہے مگر احتیاط کی خاطر سنبھال کر جیب میں رکھ لیتا ہے کہ وقت پر ڈھونڈنا نہ پڑے۔ابھی ریل کی رفتار مدھم نہیں ہوئی کہ سامان ہاتھ میں لئے کود پھاند کر دروازے سے آلگتا ہے، لیکن موت کا سفر تو دوسری ہی طرح کا سفر ہے۔جس کے لئے ہم میں سے کوئی بھی تیار نہیں۔
ابن الوقت: بس وہی ’’رہبانیت‘‘(ترکِ دنیا)آپ کے کلام کی خاصیت ہے!
حجتہ الاسلام : میں ڈپٹی کلکٹر سمجھ کر تم سے ملنے نہیں آیا،نہ ڈپٹی کلکٹر سمجھ کر تم سے باتیں کررہا ہوں۔ساتھ کھیلا ہوں ، ساتھ پڑھا ہوں،عمر میں تم سے رشتے میں بڑا ہوں،برا نہ ماننا،میں نے ایک بات بھی ایسی نہ کہی جس کا حوالہ قرآن سے نہ دیا ہو۔اگر قرآن کی تعلیم کا نتیجہ’’ رہبانیت‘‘ہوتا تو پیغمبر اسلام اور صحابہ کرام اس قدر تھوڑے عرصے میں اسلام کی اتنی بڑی اور زبردست سلطنت قائم نہ کرسکتے اور اس وقت کے اہل اسلام اپنے زمانے کے سارے ہنرمندوں پر سبقت لے گئے تھے۔اگر اسلام کی تعلیم’’رہبانیت‘‘ ہوتی تو بزرگانِ دین، اس دنیا کو اس خوبی اور عمدگی کے ساتھ سنبھال نہ سکتے!
ابن الوقت: میری سمجھ میں آپ کی دو رخی بات بالکل نہیں آتی۔ایک طرف تو آپ دنیا سے نفرت دلاتے ہیں ۔دوسری طرف رہبانیت کے نام سے بھنّا جاتے ہیں۔(یعنی چڑ جاتے ہیں)البتہ بزرگان دین کے دنیاوی عروج کی نسبت آپ سچ کہتے ان کی فتوحات،ان کے انتظام،ان کی شجاعت مشہور ہے۔مگر جس طرح کی دینداری کی تعلیم آپ کرتے ہیں تا وقتیکہ ظاہر حالات میں جب تک ان کا ثبوت موجود نہ ہو،دوسرا آدمی کیوں ماننے لگا۔
اس پر حجتہ الاسلام جواب دیتے ہیں کہ اس طرح کی دینداری کے ثبوت ظاہر حالات ہی میں موجود ہیں۔ایک تو خود پیغمبر اسلام کی مثال موجود ہے،قریب قریب یہی حال اکثر اصحاب کا رہا ہے۔اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ پیغمبر کے ساتھ ان کے ساتھیوں نے وطن چھوڑا،گھر بار چھوڑا، مال و اسباب چھوڑا اور پردیس جاکر غیر مستقل آمدنی پر گذر بسر کی جو ہر وقت پیغمبر کے ساتھ جان دینے کو موجود۔
پیغمبر نے جب جنگ کے سامان کی ضرورت ظاہر کی ،کسی نے سارا کسی نے آدھا مال بلا جھجھک لا کر حاضر کیا۔ان سے بڑھ کر کوئی کیا قربانی کرے گا، جنھوں نے اپنی ضرورتوں پر دوسروں کی ضرورتوں کواہم سمجھا۔خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلایا۔ابن الوقت نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کوئی مذہب اختیار کرنے کے قابل ہے تووہ اسلام ہے۔اب تو آپ خوش ہوئے۔اس کے بعد ابن الوقت نے کلکٹر صاحب کے بارے میں پوچھا کہ حجتہ الاسلام ان تک کس طرح پہنچے۔
حجتہ الاسلام نے اس گفتگو کو بعد میں دوسری ملاقات پر ٹال دیا کہ اسی ہفتے کے اندر جب بھی موقع ملے بات کروں گا۔پھر ابن الوقت نے کلکٹر صاحب سے خود ملنے کے بارے میں رائے مانگی۔ حجتہ الاسلام نے روک دیا اور صلاح دی کہ پہلے تم اپنی انگریزی وضع بدلو جو تمھیں ساز گار نہیں یا اگرا ور بھگتنا ہے تو تمھیں اختیار ہے۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-29

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں