تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-8 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-26

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-8


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!

دوسرے دینی اداروں سے قطع نظر ایک دینی علمی ادارہ ایسا ہے جس کے لحاظ سے حیدرآباداب تک سارے ہندوستان میں منفرد تھا، اور اب تک ہے ۔ اور ہندوستان کیا معنی، اس کی نظیر اس بڑے پیمانہ پر عالم اسلامی میں بھی کمتر ہی نظر آئے گی۔ اس کا موجود نام دائرۃ المعارف العثمانیہ ہے۔ اس کی بنیاد تو انیسویں صدی کے آخر ہی میں پڑ چکی تھی ۔ غالباً عماد الملک سید حسین بلگرامی کی تحریک پر ۔ باقی پھر مولانا شبلی اور دوسرے علماء کی کوششوں نے اسے چار چاند لگادئیے۔ اور اس کی شہرت مصر، عراق، شام وغیرہ سے گزار کر برطانیہ، ہالینڈ، فرانس، جرمنی وغیرہ تک پہنچا دی۔ اس کا اصل کام مسلمانوں کے قدیم ذخیرہ سے نادر کتابوں کو نکال کر انہیں چھاپنا تھا ۔ چنانچہ حدیثِ رجال، سیرت، فقہ، کلام، لغت، پر بیسیوں بلکہ پچاسوں نادر کتابیں اس نے تصحیح و تہذیب کے پورے لوازم کے ساتھ چھاپ کر شائع کردیں۔ چنانچہ سنن بیہقی، تاریخ الکبیر( بخاری) کنز العمال، المستدرک، الاستیعاب، مشکل الحدیث، مشکل الاثار، جمہرۃ اللغت، تہذیب التہذیب ، تذکرۃ الحفاظ وغیرہ اپنی مطبوعہ شمل میں سب اسی ادارے کا فیض ہے ۔ ابتدائً یہ ادارہ، اصلاً دینی تھا۔ اور ضمناً علمی، رفتہ رفتہ یہ ترتیب کچھ الٹ سی گئی ۔ اور اب یہ دینی سے زیادہ ایک علمی ادارہ ہے ۔ اور اب اس میں فلسفہ، فلکیات وغیرہ کی کتابیں کچھ زیادہ ہی چھپنے لگی ہیں۔ یہاں تک کہ شاید کوئی کتاب جو تش یا نجوم کی بھی، سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہوکر اب چھپ رہی ہے ۔
پہلے یہ ادارہ خود ایک مستقل حیثیت رکھتا تھا ، اور قائم بالذات تھا۔ سنہ 44ء سے جامعہ عثمانیہ کے تحت آگیا۔ اور اب شہر سے چند میل دور اس کی ایک بڑی عالیشان وسیع عمارت یونیورسٹی کے لق و دق حلقہ کے اندر ہے۔ کتابوں کی تصحیح ، مقابلہ و تہذیب یا فن سے واقف عالموں کا ایک پورا گروہ کام میں لگا رہتا ہے ۔ اور کتابوں کو یورپ ہی کے ،معیار پر ایڈیٹ کر کے شائع کرتا رہتا ہے ۔ ادارہ ایک بہت بڑے پریس کا مالک ہے ۔ پریس چھپائی کی جدید ترقیوں سے لیس ہے جنہیں میں عامی پوری طرح سمجھ بھی نہ سکا۔ صرف حیرت سے دیکھتا رہ گیا ۔ پریس میں عربی کا اچھا ٹائپ تو خیر ہوتا ہی، انگریزی چھپائی کا بھی پورا سامان موجود ہے ، چنانچہ پکتھال صاحب مرحوم کے انگریزی ترجمہ القرآن کا ایک ایڈیشن اس کا چھاپا ہوا ہے ۔ اور عربی کتابوں کے تو کئی کئی نسخے بیک وقت مخطوطہ سے مطبوعہ میں تبدیل ہورہے ہیں ۔ ادارے کے ناظم یا ڈائرکٹر ایک فاضل اسلامیات و مغربیات ڈاکٹر عبدالمعید خان، پی ایچ ڈی ہیں، جو نظامت ادارہ کے ہمہ وقتی و نازک کام کے علاوہ بلند پایہ انگریزی سہ ماہی اسلامک کلچر کے ایڈیٹر بھی ہیں، اور شاید یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی ہیں ۔ اور اسلام کے علمی محاذ پر بھی سپاہی کی خدمت انجام دیتے رہتے ہیں ۔ مستشرقین کے مخفی لیکن نہایت گہرے حملوں سے مقابلہ کے لئے ہمارے قدیم حربے سب کند ہوچکے ہیں ۔ اور ان سے عہدہ برا ہونے کے لئے ضرورت ایسوں ہی کی ہے ۔ جو ایک طرف اپنے عقائد و ایمانیات میں پختہ ہوں اور دوسری طرف حریفوں کے بھی ایک ایک وار کے الٹ دینے کا فن جانتے ہوں۔ ہمارے قدیم علما زہد و تقویٰ ریاضت و مجاہدہ میں جو مرتبہ بھی رکھتے ہوں ، وہ اس میدان میں آنے کے بالکل ہی نااہل ہیں ۔ فلپ ہٹی( لبنانی ثم امریکی) جو مستشرقین میں اونچا درجہ رکھتے ہیں۔ اور ایک حد تک بجا طور ر ہمدرد اسلام بھی سمجھے جاتے ہیں ۔ ان حضرت نے اپنی مشہور عالم تاریخ عرب میں ایک ذرا سا شوشہ سلسلہ ولادت میں یہ چھوڑ دیا کہ عرب کے ایک شریف قبیلہ میں ولادت، ایسے بچہ کی ہوئی جس کے نام کی صحت غیر یقینی ہی رہے گی ، بس اس پر ایک دوسرے بزرگ نے عمارت یہ کھڑی کردی کہ محمد کوئی شخصی نام یا علم نہیں ، یہ تو محض ایک توصیفی لقب ہے ، جسے شاعر دربار نبوت حسان بن ثابت نے اپنی ایک نعتیہ نظم میں باندھا ہے ۔ اور اسی سے قرآن نے اپنی آخری مدنی سورتوں میں لے لیا ہے ۔ مسلمات میں شک و شبہ پیدا کردینا، قطعیات میں رخنہ ڈال دینا، یہ وہ کمال تلبیس ہے کہ یہاں تک، جاہلیت کے ابو جہل ،ابولہب کا ذہل بھی نہیں پہنچ سکتا تھا ۔ ایسے دجالی فتنوںکی روک تھام اور ایسے باریک شبہات کا جواب اس مستشرقانہ تکنیک کو استعمال کر کے اور انہیں کے رنگ میں گھس کر عبدالمعید خان کا قلم دے سکتا ہے ۔ بلکہ عجب نہیں کہ دہلی کے تازہ اجلاس مجلس مستشرقین میں دے بھی دیا ہو۔
انہیں ناظم ادارہ نے اپنے ادارہ کے ایک ایک کمرہ کا گشت کرایا۔ ایک ایک چیز دکھائی بتائی اور پھر کھلانے پلانے کی خاطر داریاں رئیسانہ پیمانہ پر رہیں، وہ الگ!
یاروں نے کیا کوئی کسر ادارہ کے بند کرادینے کی اٹھا رکھی تھی، ادارہ مسلمانوں کا مخصوص کام کررہا ہے، فرقہ وارانہ ، ہے، سیکولر حکومت میں اس کا کیا کام؟ اسے فوراً لقط ہونا چاہئے ۔ قریب تھا کہ فرمانِ قضا اسی مضمون کا شائع ہوجائے ، اور حکومت آندھرا پردیش کے حکم سے ادارہ کے دروازوں میں قفل پڑ جائیں۔ لیکن حافظ حقیقی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔وزیر تعلیم سرکار ہند، مولانا ابوالکلام (کہ اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے)نے اپنے منصب عالی کی کرسی سے زبردست احتجاج نامہ بھیجا کہ “بند ہونا کیا معنی ایسے ادارہ کو قائم ہی نہیں اور ترقی دینا چاہئے ۔ بیرون ہند کی پڑھی لکھی دنیا میں تو سر کارِ ہند کی سیکولرازم کا بھرم ہی اس سے قائم ہے ۔ اپنے سرکاری دورہ میں، میں نے کیا جرمنی اور کیا فرانس، کیا برطانیہ اور کیا اٹلی سب کہیں کے اہل علم کو اس کی خیریت دریافت کرتے اور اس کے کارناموں کے راگ گاتے ہوئے پایا ، جب کہیں جاکر ادارہ کی جان بخشی ہوئی !

سنہ 17ء ، سنہ 18ء میں جب کچھ دن جم کر رہنا حیدرآباد میں ہوا تھا تو اپنے شوق و دلچسپی کی ایک خاص چیز کتب خانہ آصفیہ تھا، عابد شاپ سے جو سڑک اسٹیشن کو آتی ہے، اسی کے شروع میں اس کی عمارت واقع تھی ، کئی کئی سڑکیں یہاں ملتی تھیں۔ بڑے موقع کی جگہ تھی ، ناظم کتب خانہ ہمارے ہی جوار کے لوگ تھے ۔ یعنی قصبہ کنتور ضلع بارہ بنکی کے امامیہ خاندان کے لوگ مولوی سید تصدق حسین، سید عباس حسین وغیرہم اکثر یہاں آنا ہوتا رہتا ۔ اور یہ لوگ بڑے اخلاق و محبت سے پیش آتے رہتے۔ حالانکہ میں کم عمر تھا ۔ اور یہ لوگ اچھے خاصے مسن تھے۔ کتابیں اپنی تعداد کے لحاظ سے بھی وافر تھیں، اور بعض ان میں سے نوادر کے حکم میں تھیں۔ یہیں ایک صاحب اور بھی رہتے تھے ، اور اپنے عجیب و غریب کمالات کے لحاظ سے ملنے کے قابل تھے ۔ نام عبداللہ خان راولپنڈی کی طرف کے کہیں کے رہنے والے تھے ۔ بالکل مجرد خوب گراں ذیل سرحد والوں کی طرح ادھیڑ سن کے، اب ہجرت کرکے یہیں کے ہوگئے تھے۔ امی شاید نام تک بھی نہیں لکھ سکتے تھے ۔ لیکن علم کے شوق حافظ کا کمال یہ تھا کہ خدا معلوم کتنی کتابوں کے نام متعلقہ عمارتوں کے ساتھ بہ قید صفحہ و کالم از بر تھیں اور کتابیں محض اردو ہی کی نہیں فارسی اور عربی کی بھی خصوصاً فن تاریخ کی، انہیں دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر اگلے محدثین کی حیرت انگیز قوت حفظ کی جو کرامتیں مشہور ہیںِ وہ عین الیقین کے درجہ میں نظر آنے لگتی تھیں ۔ کتابوں کا کاروبار کرتے تھے ۔ اور اس وقت کے اہل علم مولوی عبدالحق مرحوم وغیرہ سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی ۔ مولانا شبلی سے بھی تعلقات رہ چکے تھے ۔بات کتب خانہ سے رونق کتب خانہ تک پہنچ گئی اب ظاہر ہے کہ کتب خانہ اس ہیئت و صورت کے ساتھ کہاں باقی رہ سکتا تھا ۔ “آصفیہ” کا نام و نشان مٹ کر کتب خانہ “اسٹیٹ لائبریری” میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ اور اس پرانے نام سے دور ایک نئی جگہ نئی شان سے قائم ہے۔عمارت جدید طر زکی اور عالی شان، وسیع احاطہ، نئی وضع ، نیا سامان، عربی ،فارسی، کتابوں کا ذخیرہ اب بھی اچھا خاصہ ہے ۔ اور بعض نوادر کے لحاظ سے قابل دید البتہ یہ مشرقی ذخیرہ اب نیچے کی منزل میں ہے، جہاں دن دہاڑے بھی لکھنے پڑھنے کے کام کے لئے بجلی کی روشنی ناگزیر ہے ۔ ( اور یہ تو اب جدید سرکاری اور نیم سرکاری عمارتوں کے فیشن میں داخل ہوچکا ہے کہ کمروں کے اندر سارا کاروبار بجائے سورج کی روشنی کے بجلی کی مصنوعی روشنی میں کیاجائے) ہندی اور انگریزی کی کتابوں پو پورا زور ہونا ہی تھا۔ مرہٹی وغیرہ کا بھی دور دورہ ہے ، البتہ اردو کے ساتھ سوتیلے پن کا رویہ اس پر دیش میں بھی دکھائی دیا ۔ اردو کی اتنی انجمنوں اور اردو کے اتنے ہمدردوں اور کارکنوں کے باوجود اردو کی نئی کتابوں کی کوئی فہرست باہر آویزاں نہ ملی، بہ خلاف انگریزی اور ہندی کے کہ ان کے تازہ مطبوعات کے نام مع ان کے تعارف کے بورڈ پر چسپاں تھے، اور اس ایک جزئیہ کے لحاظ سے حیدرآباد کی اسٹیٹ لائبریری کی زمین لکھنو کی پبلک لائبریری کے آسمان کے ہم رنگ ہی نکلی!

کتاب کے کیڑے کی اصلی دلچسپی کی جگہ کتاب گھر ہی ہوتے ہیں، اور یہی شوق شہر کے ایک دوسرے مشہور کتب خانہ سالار جنگ لائبریری لے گیا۔ نوادر کے اعتبار سے یہ کتب خانہ مشورہ تر ہے کئی بار پہلے کا دیکھا ہوا تھا ۔ واقع اب بھی اسی جگہ ہے ، یعنی سالار جنگ کی ڈیوڑھی میں لیکن عمارت بالکل نئی اور دو منزلہ بڑی حد تک ، اپ ٹو ڈیٹ ، لائبریری کے کارکن اچھے ملے۔ بڑی خوش اخلاقی سے ایک ایک چیز دکھاتے ، بتاتے رہے، اور یہیں ملاقات تفصیلی(علیحدہ دوسرے موقعوں کے) مولوی نصیر الدین ہاشمی سے رہی پڑھے لکھوں اور تحقیقی کام کرنے والوں میں کون ان سے نا واقف ہوگا، اپنی ذات سے خود ایک زندہ کتب خانہ ہیں، کتنی کتابوں اور کتاب سازوں کے نام پتے، خصوصیات کے حافظ ، اور کتب خانوں کی ترتیب، فہرست سازی وغیرہ کے ماہر، ڈیوڑھی پہنچ کر خود سالار جنگ ثالث نواب یوسف علی خاں مرحوم کی یاد تازہ ہوجانا ایک امر طبعی تھا ۔ ان کا شاہانہ سجاوٹ کا ڈرائنگ روم، قد آدم تصویریں، قد آدم آئینے ، کھانے کی میز رئیسانہ تکلفات سے بھرپور ۔ ان کی دلچسپ گفتگو ان کے وسیع مطالعہ مغربیات کی آئینہ دار اور انک ی اس پردیسی کے ساتھ خصوصی شفقت ، ایک ایک چیز سنیما کے پردوں کی طرح حافظہ کے سامنے آتی جاتی رہی اور دل کو دنیا کی ناپائیداری اور اس سے عبرت کا سبق دیتی گئی:

اونچے اونچے مکاں تھے جن کے بڑے
آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے
اب نہ خود ہیں نہ ہیں مکان باقی
نام کو بھی نہیں نشان باقی

مرحوم دنیا سے لاولد گئے، ان کے زمانے تک یہ کتب خانہ ان کا ذاتی و شخصی تھا، اب پبلک ہوگیا ہے ۔ مرحوم تک مجھے لانے والے، اور ان سے ملانے والے، میرے ایک مخلص بزرگ دوست سید امین الحسن بسمل مرحوم تھے، انہیں کی ریاست کے ششن جج اور ناظم تھے، ان کی کچھری بھی اسی احاطہ کے اندر ایک الگ عمارت میں تھی۔ ان کے اجلاس کے کمرہ کا منظر بھی نظر کے سامنے ہوگیا۔

کتب خانے شہر میں اور بھی متعدد ہیں اور بہت اچھے اچھے ہر ایک تک رسائی اور وہ بھی محدود وقت میں کہاں ممکن تھی۔ عثمانیہ یونیورسٹی، لائبریری اور بعض ذاتی کتب خانوں، مثلاً شہرۂ آفاق ڈاکٹر حمید اللہ حیدرآبادی، ثم فرانسوی کے عزیز قریب ڈاکٹر یوسف الدین کے کتب خانے کے نہ دیکھ سکنے کا افسوس آج تک قائم ہے ۔ لاکھوں کی آبادی والے بڑے شہر وں میں ایک بڑا مرحلہ سواری کا ہوتا ہے ۔ میلوں اور کوسوں دور محلوں تک بہ آسانی پہنچنے کی کوئی سبیل نہیں ، جب تک کہ کوئی ہمہ وقتی تیز رفتار سواری، اپنے قبضہ میں نہ ہو۔یہاںبھی لائبریریوں وغیرہ تک پہنچنے کے لئے یہ سوال برابر سامنے آتا رہا ۔ لیکن بڑی حد تک سعودی امداد و اعانت سے حل بھی ہوجاتا رہا۔ سعودی سے ذہن کہیں شاہ سعود والی نجد و حجاز کی طرف منتقل ہونے نہ لگے ۔ اس لئے اسی لمحہ یہ بھی سن لیجئے کہ یہاں مراد مخلص و محب قدیم پروفیسر ہارون خان شیروانی کے صاحبزادہ سعود سلمہ ہیں، جو ایسی ہر ضرورت کے وقت اپنا موٹر لئے حاضر و کمر بستہ رہتے تھے۔

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:08

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں