ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:25 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-08

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:25


خلاصہ فصل - 23
حجتہ الاسلام اور ابن الوقت کی ملاقات اور مذہبی گفتگو کی ابتدا بحثِ اسباب

حجتہ الاسلام نے ابن الوقت سے کہا کہ میں نے جس وقت دہلی آنے کا ارادہ کیا اسی وقت طے کرلیا تھا کی تمھاری پاس ہی ٹھیروں گا۔چنانچہ تم کو لکھ بھی بھیجا تھا۔اب تم دوسری کوٹھی میں چلے گئے تو میرا یہاں ٹھیرنا بیکار ہے۔ابن الوقت نے کہا کہ تنگی کے ساتھ رہنے میں اس سے زیادہ بے لطفی ہوگی۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرا یہ بنگلہ رہنے کے لئے نہیں شاید کوئی آفس یا گودام ریا ہوگا۔میں شروع سے چھاؤنی میں رہتا تھا۔وہ بنگلہ اس قدر وسیع تھا کہ کبھی کبھی چار چار صاحب لوگ بھی میرے یہاں مہمان رہے تو معلوم نہ ہوتا کہ کدھر پڑے ہیں۔ اسی بنگلے میں بڑی محنت سے باغ آراستہ کیا تھا۔گرمی کی وجہ سے ہوا میں کچھ آلودگی(Pollution)پھیل گئی تو کمانڈنگ افسر نے ڈر کے مارے فوجی عہدہ داروں کے علاوہ جتنے لوگ چھاؤنی میں تھے، سب کو اٹھا دیا۔
حجتہ الاسلام کا کہنا تھا کہ اسے صرف ایک کمرہ کافی ہے اور وہ اپنے گھر بھی ایسے ہی مختصرطور پر رہتا ہے۔میرے ذاتی استعمال میں صرف ایک دالان اور ایک حجرہ(چھوٹا کمرہ)ہے جو دونوں ملا کر ابن الوقت کے بڑے کمرے کے برابر ہوں گے۔حجرے میں میری چارپائی بچھی رہتی ہے۔جس کے بعد اتنی جگہ ہے کہ آرام سے پانچ چھ اور ذرا تنگی سے سات آٹھ آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔ جو میری ضرورت کے لئے کافی ہیں۔کیا چند روز کے لئے اتنی بڑی زمین میں سے ایک قبر کی جگہ بھی نہیں ملے گی؟
اس پر ابن الوقت نے پوچھا کہ اس طرح کی زندگی میں آپ کی تندرستی کس طرح باقی رہتی ہے؟ تو جواب ملا کہ جس طرح اور لاکھوں کروڑوں کی باقی رہتی ہے اور جس طرح اب سے ڈھائی تین برس پہلے خود تمھاری تندرستی باقی رہتی تھی۔
ابن الوقت نے پھر کہا کہ ابھی دو مہینے بھی پورے نہیں ہوئے کہ سینکڑوں آدمی ہیضہ میں مر چکے ہیں اگر نوکروں چاکروں میں ہیضہ پھیل تو کوئی تعجب نہیں کیونکہ یہ لوگ صفائی کا اہتمام جیسا چاہئیے نہیں رکھتے۔چھاؤنی میں ایک انجینئر کی موت ہوئی تو کمانڈنگ افسر کو فکر ہوئی کہ بارک ماسٹرکے جس بنگلے میں انجینئر مرا وہاں ہیضہ کہاں سے آگیا؟
جب کہ یہ بنگلہ اونچے ٹیلے پر واقع ہے۔اطراف میں کہیں بیماری کا نام نہیں۔آخر پتہ چلا کہ جس کے یہاں سے دودھ آتا ہے وہ دودھ والا بھینسوں کو اس تالاب میں جاکر پانی پلاتا ہے جہاں اس بیماری کا بڑا زور ہے۔
حجتہ الاسلام یہ سن کر بے اختیار ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ واقع میں ڈاکٹر صاحب نے سبب تو خوب نکالا۔اس پر ابن الوقت نے صراحت کی کہ دیہاتیوں کی اور غریبوں کی طرزِ زندگی اس طرح کی ہے کہ کوڑا کرکٹ،گوبر الّا بلّاکی صاف صفائی کچھ نہیں ہوتی۔
ایک ہی تالاب میں عورت مرد نہاتے بھی ہیں اور جانور پانی بھی پیتے ہیں،دھوبی کپڑے بھی دھوتے ہیں لیکن حجتہ الاسلام کی دلیل یہ تھی کہ اس سچائی کے باوجود بیماری اور موت کے واقعات کم ہیں اور تندرستی اور زندگی زیادہ۔اس پر ابن الوقت کہتا ہے کہ بعض لوگوں کے مزاج میں بیماری میں متبلا ہونے کی کمزوری زیادہ ہوتی ہوگی اور بعض میں بیماری کا مقابلہ کرنے کی قوت زیادہ ہوتی ہوگی۔
حجتہ الاسلام اس دلیل کو نہیں مانتا وہ کہتا ہے کہ بعض اوقات یوروپ کے ایسے مقامات میں بھی ہیضہ پھیلا ہے جہاں صاف صفائی کے بڑے اہتمام ہیں۔اصل میں ڈاکٹر اس بیماری کو’’متعدی بیماری‘‘(یعنی پھیلنے والی بیماری)مانتے رہے ہیں۔لیکن آج کل بڑے بڑے ماہر ڈاکٹر اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ’’متعدی بیماری‘‘کچھ نہیں ہوتی۔جیسے جیسے جدید علوم ایجاد ہوتے ہیں فنِّ طبابت(Medical Science)میں بھی بڑی ترقی ہوتی جاتی ہے۔جس طرح سانپ کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں، اسی طرح ہیضہ کا مکمل علاج بھی نہیں ایجاد ہوا(یہ آج سے سو سال ، سوا سو سال پرانے دور کی بات ہے!)۔
اس کے بعدحجتہ الاسلام نے مذہبی نقطہ نظر سے بات شروع کی۔کہا کہ بھائی ہم تو اپنے ایمان کو ڈانوا ڈول نہیں ہونے دیتے۔خدا نے ہر آدمی کی زندگی کی ایک مدت مقرر کر د ی ہے جس کی کسی کو خبر نہیں۔وقت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا۔
اس بات پر ابن الوقت نے پوچھاکہ کیا آپ دنیا کو ’’عالمِ اسباب‘‘(یعنی ہماری یہ دنیا جس میں ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے)نہیں مانتے یا پھر آپ عقل اور تدبیر کے بھی قائل نہیں؟
حجتہ الاسلام نے جواب میں کہا کہ ’’عالمِ اسباب‘‘ کو صرف اس حد تک مانتا ہوں کہ ہر چیز اللہ کے حکم سے ہوتی ہے۔ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہونے کے باوجود نتیجہ انسان کی سمجھ سے باہر ہے۔یہ خدا کی مرضی ہے کہ ہر واقعے کا کوئی نہ کوئی سبب پیدا کرتا ہے اور انسان کے لئے جتنا مناسب سمجھا اس پر ظاہر کیا۔
اس کو حجتہ الاسلام نے قرآن کی ایک آیت سے ثابت کیا۔اس کے باوجود اسباب کے بارے میں لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔اصلی سبب کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوتا تو کوئی بے دلیل سبب پیدا کرلیتے ہیں۔جیسے نجومیوں کا علم جو محض اندازہ ہی ہوتا ہے۔مثال کے طور پر لوہے کی گولی اور روئی کی گولی دونوں کو اونچائی سے گرائیں تو یقیناً لوہے کی گولی پہلے گرے گی۔ اس کا سبب ہے زمین کی کشش ،جس کو سائینس نے دریافت کیا۔
ایک اور مثال یہ ہے کہ کوئی بیمار کسی دوا سے اچھا ہو جائے تو کسی کو تعجب نہیں ہوگا لیکن کوئی شخص دم کردینے یا نظر بھر دیکھ لینے سے اچھا ہو جائے تو کسی کو بھی یقین نہ آئے گااور دیکھنے والے بھی اسے جادو اور نظر کا دھوکہ کہیں گے۔
بعض دہرئیے(یعنی خدا کا انکار کرنے والے)خلاف عقل واقعات کو نہیں مانتے۔مثال کے طور پر ایک شخص نے ایک ڈول پانی سے ایک لشکر کو سیراب کردیا تو اب صرف اس وجہ سے کہ یہ عجیب و غریب ہے ،واقعہ سے انکار کرنا ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے؟غلطی یہ ہے کہ نتیجے کو اسباب کی طرف سے اس طرح منسوب کیا جاتا ہے گویا اسباب ہی سب کچھ ہیں۔پانی غلّہ اگاتا ہے۔کونین بخار کی فائدہ مند گولی ہے۔سنکھیا ایک زہر ہے جو انسان کو جان سے مار دیتا ہے۔اصل میں ایسا نہیں ہے بلکہ خدا نے یہ صفت اس چیز میں رکھی ہے ورنہ اس چیز میں اتنی قدرت نہیں کہ وہ کچھ کر سکے۔
ابن الوقت ابھی تک حجتہ الاسلام کی بات کو پوری طرح تسلیم نہیں کرتا ۔وہ کہتا ہے کہ طب کے فن میں(یعنی میڈیکل سائینس میں)اتنی ترقی ہوئی ہے کہ یوروپ میں انسان کی عمر کا اوسط بڑھا ہوا ہے۔خاص خاص بیماریوں کے ایسے علاج دریافت ہوئے ہیں کہ سارے ملک میں کہیں ان بیماریوں کا نام نہیں۔اب ڈاکٹر دعوے کے ساتھ علاج کرتے ہیں۔غرض واقعات کے نتیجوں سے یہ بات بخوبی ثابت ہوچکی ہے کہ انسان کی تدبیر کو اس کی تندرستی اور زندگی میں بڑا دخل ہے۔
حجتہ الاسلام ان دلیلوں کو تسلیم نہیں کرتا۔وہ کہتا ہے کہ ساری دنیا کی مردم شماری (CENSUS)پر نظر کی جائے تو سو میں ایک آدمی بھی نہ ہوگا جو احکام طب کی پوری پوری پابندی کرتا ہو۔بات یہ ہے کہ اللہ نے ہر انسان کا ڈاکٹر اسی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔وہ کیا ہے؟
انسان کی اپنی طبیعت بلکہ اسی طبیعت میں ہر بیماری کی دوا بھی ہے۔آفت آجائے تو فوراً اس کی طبیعت اس کے مقابلے کے لئے آمادہ ہو جاتی ہے۔اگر زندگی باقی ہوتی ہے تو طبیعت بیماری پر غالب آجاتی ہے ورنہ بیماری کا شکار ہو کر آدمی ہلاک ہو جاتا ہے۔رہ گئی دوا،وہ صرف طبیعت کی طاقت ہے۔بڑے بڑے ڈاکٹروں کو دیکھا کہ ان کے ہاتھوں سے بیمار مرتے بھی ہیں اور شفا بھی پاتے ہیں۔مرے تو کہتے ہیں کہ خدا نے اتنی ہی زندگی لکھی تھی۔حکیم صاحب نے بہت کوشش کی۔زندگی ہی نہ ہو تو کیا کریں؟اور اگر اچھے ہوئے تو نہ خدا ہے اور نہ تقدیر۔حکیم صاحب ہیں یا ان کی تدبیر یا علاج!!
ابن الوقت نے کہا کہ حجتہ الاسلام تو ’’جبریوں‘‘کی باتیں کرتے ہیں(اسلامی فرقے کا نام جن کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان مجبور ہے وہ اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتا بلکہ اللہ کرتا ہے۔اس کے مقابل مسلمانوں کا ایک اور طبقہ تھا’’قدریوں‘‘کا جن کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کو اللہ نے تدبیر اور عقل دی ہے اور اسے کام کرنے پر قدرت بھی دی ہے اور اختیار بھی دیا ہے۔وہ مجبور نہیں ہے۔ مسلمانوں کے یہ طبقے ’’جبریئے‘‘ اور ’’قدریئے ‘‘ کہلاتے تھے۔حضرت علیؓ نے اس بارے میں صحیح رائے قائم کی تھی ان کا قول تھا کہ انسان مجبور بھی ہے اور مختار بھی۔مختار ایسے کہ اللہ تعالےٰ نے اسے ایک ٹانگ پر کھڑے ہونے کا اختیار دیا ہے اور وہ مجبور ان معنوں میں ہے کہ وہ دونوں ٹانگیں اٹھا کر کھڑا نہیں ہوسکتا۔یہاں وہ مجبور ہے )۔
حجتہ الاسلام کی ان باتوں سے ابن الوقت نے یہ اندازہ لگایا کہ تدبیر کا اختیار کرنا بیکار ہے اور یہ کہ انسان کی تندرستی اور زندگی محض تقدیر ہے۔لیکن ابن الوقت نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ حجتہ الاسلام کی شخصی رائے ہو سکتی ہے۔کیونکہ ساری دنیا طب (Medicine)پر اعتقاد اور بھروسہ رکھتی ہے۔طب سے ابن الوقت کی مراد طریقہ علاج نہیں یعنی ہومیو پیتھی یا ایلوپیتھی یا یونانی یا آیورویدیک نہیں بلکہ صحت کی حفاظت یا بیماریوں کو دور کرنے میں تقدیر کا دخل ہے۔ہر طرح کی دوا دارو اس میں داخل ہے۔ابن الوقت کہتا ہے کہ حجتہ الاسلام گھما پھرا کر یا پیچ دار باتیں کرکے اصل مطلب کو گم کردیتے ہیں۔
ابن الوقت کا پہلا دعویٰ یہ ہے کہ زندگی اور تندرستی میں انسان کی تدبیر کو دخل ہے۔اس کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ سارے علاج کے طریقوں میں انگریزی طریقہ علاج اور اس کے متعلقات سب سے بہتر ہیں۔ابن الوقت نے کہا کہ وہ اس دعوے کے ثبوت میں واقعات پیش کر سکتا ہے جن کو مردم شماری کے کاغذات سے حاصل کیا گیا ہے۔
حجتہ الاسلام ،ابن الوقت کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ ہر زمانے میں لوگ صحت کی حفاظت کی تدبیریں عمل میں لاتے رہے ہیں۔لازم نہیں کہ انسان کو اپنی تندرستی میں دخل ہے۔ابن الوقت نے صرف اتنی سی بات ثابت کی کہ لوگوں کواپنی صحت کی حفاظت کی ضرورت ہے اور ہر شخص اس کی کچھ نہ کچھ تدبیر کرتا ہے۔صحیح یا غلط۔ہر زمانے کے لوگ ایسا کرتے آئے ہیں۔نجوم،رمل،فال،شگون،خواب کی تعبیر یا نیک گھڑی یا بری گھڑی یا ہاتھ کی لکیروں کا عمل ساری فضولیات اسی غرض سے ہیں۔اہل یوروپ بھی اس میں متبلا ہیں۔لیکن اس سے یہ نتیجہ کہاں نکلتا ہے کہ انسان کو علم غیب میں دخل ہے۔(علم غیب:آنے والے زمانے میں جو ہونے والا ہے اس کا علم)۔
دنیا میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا اختیار آدمی کو ہے حالانکہ یہ اختیار محدود ہے، مگراسی اختیار کی وجہ سے اس کو ’’خلیفتہ اللہ فی الارض‘‘کہا جاتا ہے(یہ اصطلاح یا ترکیب قرآن سے لی گئی ہے جس کے معنی ہیں زمین پرخدا کا خلیفہ یا نمائندہ)جسمانی توانائی کے اعتبار سے وہ زبردست مخلوق نہیں مگر عقل کے بل پر آسمان تک پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
انسان زمین پر بیٹھا بیٹھا’’اجرام فلکی‘‘(آسمان کے چاند،ستارے،سیارے وغیرہ)کی رفتار سے اپنے اوقات کو مقرر کرتا ہے۔روئے زمین پر انساں نے اپنا ایسا نظام بنا رکھا ہے کہ نہ صرف جمادات(پتھر کی اور معدنی چیزیں)اور نباتات(پھول، پتے، درخت، سبزیاں) پر حکمرانی کرتا ہے بلکہ بڑے سے بڑے طاقتور اور خونخوار جانور انسان سے ڈرتے ہیں اور اس کی خدمت کرتے ہیں۔
اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے حجتہ الاسلام قرآن کے سورہ’’واقعہ‘‘سے چند آیتوں کو بیان کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان آیتوں میں اللہ تعالےٰ نے چار چیزوں کو بیان فرمایا ہے: اولاد،کھیتی،پانی اور آگ اور ان چاروں میں سے ہر ایک میں انسان کو دخل ہے اس کی بھی صراحت کی ہے۔پھر اللہ پوچھتا ہے کہ اولاد کو تم نے پیدا کیا یا ہم نے؟کھیتی کو تم نے اگایا یا ہم نے؟پانی بادل سے تم نے برسایا یا ہم نے؟اور آگ کا ایندھن تم نے بنایا یا ہم نے؟ہم نے تمھاری موت کو مقرر کردیا ہے اور اس میں کسی کی مجال نہیں کہ نکل بھاگے۔غرض اللہ نے انسان کے اختیاراور بے اختیاری ،دونوں کو بیان کردیا ہے۔
ابن الوقت جواب میں کہتا ہے کہ ہمارے آپ کے درمیان لفظی اختلاف ہے۔انسان کا اختیار آپ بھی مانتے ہیں لیکن محدود۔ہم بھی کہتے ہیں کہ انسان کا اختیار ابھی تک محدود رہا ہے۔اب جو نئی نئی چیزیں ایجاد ہوتی چلی جاتی ہیں تو انسان سمجھتا ہے کہ اس کو بڑی قدرت ہے۔اسی طرح علم طب،کیمیا اور طبیعات اسی نسبت سے ترقی کرتے رہے ہیں۔وہ دن دور نہیں کہ انسان اپنی تندرستی پر آپ حاکم ہوگا اور کیا عجب کہ رفتہ رفتہ اپنی زندگی پر بھی۔
حجتہ الاسلام کہتا ہے کہ خدانخواستہ کیا تمھارے برے عقیدے ہیں؟تم تو اس بات کے منتظر ہو کہ انسان کچھ دنوں میں نعو ذباللہ(اللہ کی پناہ)خدا ہونے والا ہے۔
ابن الوقت کہتا ہے کہ دہرئیے(خدا کو نہ ماننے والے )تو کہتے ہیں کہ خدا کو کس نے دیکھا ہے؟اس پر حجتہ الاسلام ابن الوقت سے کہتے ہیں کہ تم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرکے اسلام کو کیوں بدنام کرتے ہو؟تم جیسے ڈھل مل یقین والے چند مسلمان اسلام کے مخالفوں سے اسلام پر چند اعتراض سن لیتے ہو اور تمھیں جواب نہیں سوجھتے تو اسلام کے اصول میں تاویلات کرنے لگتے ہو(تاویلات:اپنے مطلب کے لئے غلط وجوہات بیان کرنا)حقیقت میں اسلام کو کسی مخالف سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا ان کی تاویل کرنے والوں سے پہنچا۔
ان لوگوں نے احادیث کے بارے میں کہا کہ پیغمبر کے دیڑھ سو برس بعد انھیں جمع کرنے کا کام شروع ہوا اور قرآن کی تاویل کرکے مطلب بگاڑ دیا۔اتنے میں کھانے کا بلاوا آیا لیکن حجتہ الاسلام معذرت کرکے اٹھ کھڑے ہوئے۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-25

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں