تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-3 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-07

تاثرات دکن - مولانا عبدالماجد دریابادی - قسط-3


یہ کتاب برصغیر ہند و پاک کے ایک معروف صاحبِ طرز ادیب ، انشا پرداز ، عالم ، فلسفی ، صحافی اور نقاد مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی تحریر کردہ ہے جن کا جنوری 1977ء میں انتقال ہو چکا ہے۔
اس مختصر روئیداد میں "حیدرآباد مرحوم و مغفور" (سابق مملکت اسلامیہ آصفیہ دکن) کی تہذیب و ثقافت کی نظر افروز جھلکیاں ہیں ، قائد ملت بہادر یار جنگ کے علاوہ دکن کے بعض مرحوم مشاہیر اور زندہ علمی و ادبی شخصیتوں کی دلکش تصویریں ہیں اور حیدرآباد کے دینی ، اسلامی ، علمی و ادبی اداروں کا دلچسپ تذکرہ ہے!

اور دکن پہنچتے ہی پ ہلا پروگرام ان مرحوم مخلصوں، محسنوں ، بزرگوں ، عزیزوں رفیقوں کی خاکی آرام گاہوں پر حاضری کا تھا ، اور سب سے پہلا قدم جو اس سلسلے میں اٹھا، وہ بہادر یار جنگ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی طرف، کیا شخصیت تھی اور کیا شخص تھا ۔ اب ناواقفوں کو کیا بتایاجائے ، اور جو واقف ہیں انہیں کسی تعارف کی ضرورت نہیں ۔ دین و ملت کے لئے ساری زندگی وقف کئے ہوئے اور پھر جوش کے ساتھ ہوش کا غیر معمولی و عدیم النظیر اجتماع ! حیدرآباد کی مسلم اور نیم اسلامی سلطنت کا وجود ہی مشیت ربانی کو منظور نہ تھا کہ ایسے کلے ٹھلے کے توانا و تندرست کو یک بیک ایسے سن میں اٹھالیا ، جب کہ کہنا چاہئے کہ وہ جوان ہی تھے ۔ ورنہ اس افرا تفری اور اس ہولناک بربادی کی نوبت ہی کیوں آنے پاتی! بہر حال ایک نیم رہنما کی رہبری میں بڑی مسافت طے کر، اس حظیرہ تک رسائی ہوئی جس کے اندر اس شہید حق پرستی کا جسد خاکی آسودہ ہے ۔ دروازہ مقفل تھا ، اس لئے صرف جالیوں سے اندر کا کچھ نظارہ ہوسکا۔ قلب نے لطافت و حلاوت کے ساتھ ساتھ شاہانہ وقار و ہیبت کی بھی کیفیت محسوس کی ۔ فاتحہ پڑھا ، اور فاتحہ کیا پڑھا، یہ کہئے کہ دردِ دل کی کچھ تھوڑی سی داستان دھرادی ۔ عرض و معروض عالم تخیل میں کچھ اس قسم کی رہی:
’’بہادر سردار! عین ایسے نازک وقت اپنی خستہ قوم و ملت کو بے سہارا چھوڑ کر کہاں چلے گئے ، یہی تو خاص وقت، مخلصانہ، حکیمانہ دلیرانہ، رہنمائی کا تھا ۔ ہمارا حقیقی رہنما تو وہ تھا ، جو ہمیں سبق جنگ بدر اور صلح حدیبیہ دونوں کے دے گیا ۔ تم اس ہادی بے خطا کے نقش قدم پر چلنا، اپنے لئے مایہ افتحار سمجھے ہوئے تھے، اور اسی سراج منیر سے اپنے دئیے کو بھی روشن کئے ہوئے تھے ۔ تم ہوتے تو اپنی مومنانہ فراست سے ادھر حیدرآباد کو سنبھالے رہتے اور ادھر مسلم لیگ کے بھی بہترین مشیر ہونے کی حیثیت سے پاکستان کو بھی ابتری کی راہ پر نہ پڑنے دیتے ، لیکن خدائے بے نیاز سے کس کو مجال گلہ و شکوہ کہ عین وقت پر تمہیں کو اٹھالیا ! اپنی ملت کی پستی و مذلت کو یقینا وہاں بھی نہ بھولے ہوگے، خون کے آنسو اس کے حال زار پربہار رہے ہوگے ۔ اور جنت برزخی کی ساری نعمتوں، راحتوں ، لذتوں کے باوجود یہ کانٹا دل میں برابر کھٹک ہی رہا ہوگا‘‘
مرحوم کی خوش روئی اور خوش خوئی کی تصویر دیر تک نظر کے سامنے رہی ۔
ادائے تعزیت میں مرحوم کی ڈیوڑھی پر بھی حاضری ضروری تھی۔ گیا اور دیوڑھی کی سادہ آرائش کو اسی طرح پایا، جس طرح1938ء میں مرحوم کی زندگی میں ان کے ساتھ کھانا کھانے میں دیکھا تھا ۔ کھانے پینے کی خاطر داریوں میں بیوہ بیگم نے ا پنے مرحوم شوہر کی یاد تازہ کردی ۔ اور گفتگو میں اسی ایمانی صلاحیت کا ثبوت دیا، جس کی توقع ایسے مرد مومن کی رفیق زندگی ہی سے کی جاسکتی تھی۔ مرحوم کے چھوٹے بھائی اندور خان صاحب کہیں باہر گئے ہوئے تھے، عین میری روانگی کے دن آئے ، اور بڑی محبت سے سہ پہر کو اپنی نئی کوٹھی میں چائے، زبردست ناشتہ کے ساتھ پلائی ۔

زیارت قبو رکے سلسلے میں دوسرا نمبر ایک عزیز، مخلص دوست سید احمد محی الدین، بی ، اے(علیگ) کا تھا۔ حیدرآباد میں اردو صحافت میرے زمانے تک ((یعنی سنہ ۱۷۔و سنہ ۱۸ع مین) بالکل پرانے قسم کی تھی۔ دہلی، لاہور، لکھنو وغیرہ کی صحافت کا پرتو بھی وہاں نہیں پڑا تھا ۔ محی الدین حیدرآبادی جب علیگڑھ سے گریجویٹ ہوکر آئے تو انہوں نے ہمت اور ایچ سے کام لے کر ایک بالکل نئی راہ اپنے ملک و ملت کے لئے مملکت آصفی کی سرکاری زبان اردو میں کھول دی۔ رہبر دکن پوری شان سے نکلا کہ چند ہی روز میں اس نے ملک بھر میں دھوم مچادی ۔ شمال اور جنوبی ہندوستان اور دکن کے فرق کو اس نے توڑا ۔ اور اپنی اسلامیت ، انفرادیت اور صحافی ذمہ داری کا نقش دلوں پر بٹھادیا۔ بہادر یار جنگ مرحوم کی طرح ان کا بھی ابھی سن ہی کیا تھا کہ دفعۃً اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ پتہ لگا کر(( اور اسی پتہ لگانے میں کوئی اور ان کے وارثوں سے نہ مل سکی) ان کے قبرستان تک پہنچا ۔ اور حسرت و تاثر کے ساتھ ان کی تربت پر بھی فاتحہ پڑھا۔ آج زندہ ہوتے تو میری آمد سے کس درجہ خوش ہوتے اور کس کس طرح میری خاطر مدارات پر لگ جاتے ۔ صدق و مدیر صدق کی جو بے پناہ محبت اہل حیدرآباد کے دلوں میں سے کون مٹا سکتا ہے کہ اس میں کتنا بڑا ہاتھ مرحوم احمدمحی الدین کی مخلصانہ کوشش کو ہے ۔ ان کے کتبۂ مزار کے ساتھ ان کے بعض عزیزوں، مثلاً ان کے بھائی عارف الدین مرحوم، انجینئر کے کتبوں پر بھی نظر پڑ گئی اور دل سے دعائے خیر ان کے حق میں بھی نکلی۔
ان دو ایک شخصیتوں کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد میرے ذاتی ملاقاتیوں ،عزیزوں، مخلصوں کی تھی ۔ جواب مرحومین میں داخل ہوچکے ہیں ۔ اس طبقہ میں سب سے پہلا نمبر مولوی سید امین الحسن بسمل موہانی مرحوم کا آتا ہے ۔ ستمبر سنہ ۱۷ ع میں جب سب سے پہلی بار میں حیدرآباد آیا ہوں، تو یہاں کے طور طریقوں سے اجنبی محض تھا ۔ اور اپنی ذات سے شرمیلا اور خشک مزاج بھی تھا، تو یہ نواب سالار جنگ مرحوم کی اسٹیٹ کے ناظم تھے ۔ مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ دوچار دن نہیں ہفتوں اپنا مہمان عزیز بنائے رکھا اور میزبانی کے فریضے بڑی اولوالعزمی سے ادا کرتے رہے ۔ اس کے بعد بھی برسوں یہی معمول رہا کہ جب بھی میں حیدرآباد آیا، ان کا گھر مستقل مہمان خانہ بنا رہا ۔ بڑے ذہین بڑے زندہ دل بڑے سخن فہم، بزلہ سنج، نکتہ رس و صاحب علم تھے ۔
اور شاعری میں غالباً داغ کے شاگرد تھے ۔ حسرت موہانی کے ہم وطن ہی نہیں عزیز قریب بھی تھے ۔ بیعت ارادت سلسلہ قادریہ خاندان فرنگی محل اور خانوادہ، رزاقیہ(بانسہ مضافات دریاباد) سے تھی، اس لئے میرا لحاظ زیادہ کرتے تھے ۔ اور مجھے اپنے عزیزوں سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے ۔ شرافت اسلامی و مشرقی کے مجسمہ تھے ۔ آخری بار ملاقات سنہ ۲۸ع میں ہوئی تھی۔ اس وقت بلدہ میں سٹی مجسٹریٹ تھے ۔ ابھی پنشن بھی نہیں لینے پائے تھے کہ بلڈ پریشر کے ایک حملہ سے نذرِ اجل ہوگئے ۔ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کی تربت تلک بھی رسائی ہوگئی ۔ اور دل ان کے اخلاص ووفا پر آنسو بہاکر چلا آیا۔ مرحوم عزیزوں مخلصوں کی تعداد بہت بڑی تھی حاجی محمد یوسف رزاقی قادری دریاآبادی عزیز قریب تھے ان کے علاوہ مولوی علی الدین حسن پنشنر ناظم عدالت، اختر یار جنگ(ناظم محکمہ امور مذہبی) اکبر یار جنگ (جج ہائی کورٹ) مولوی غلام یزدانی(ناظم آثار قدیمہ)نواب عماد الملک، سر امین جنگ، مرزا محمد ہادی لکھنوی مرزا رسوا، زور حیدرآبادی وغیرہم سب کے نام نہ اس وقت یاد پڑے نہ اب فوراً یاد آرہے ہیں ۔ درگاہ حضرت خاموشؒ اور جن جن قبرستانوں تک رسائی ہوسکی، سب کے مزارات پر حاضری دے لی۔ اور اس کار اہم سے فراغت پہلے ہی دن کرلی۔
فاضل گیلانی مولانا مناظر احسن صاحب کا مزار یہاں نہیں ، ان کے وطن موضع گیلان (بہار) میں ہے۔ اور مولانا عبدالباری ندوی تو اللہ انک ی عمر میں بہت برکت دے ، ابھی ماشاء اللہ ہم ناسوتیوں ہی کے درمیا ن لکھنو میں ہیں۔ پھر بھی یہاں آکر ان دونوں یاران قدیم کی یاد تازہ ہوجانا بالکل قدرتی تھا۔ دونوں ایک ہی مکان میں عابد روڈ پر رہتے تھے ۔ اور مجھے ان کی مہمانی کا بھی شرف شروع سنہ۱۹۲۷ء میں حاصل رہ چکا تھا۔ ان کے بغیر شہر کچھ ویران سا نظر آیا ۔ حالانکہ یہ بھی نفس کا دھوکہ ہے ۔ اللہ کی آؓادی کہیں کسی کے اٹھ جانے سے ویران ہوتی ہے۔
ہزاروں اٹھ گئے رونق وہی باقی ہے مجلس کی
ایک جاتا ہے تو دو اس کی جگہ آجاتے ہیں ، نظام تکوینی یوں ہی بھرا پڑا چلا آرہا ہے ۔ اور دنی اپنے رب، جلیل و قدیر کے امرِ عظیم کی تعمیل میں خاموشی کے ساتھ یوں ہی جلاتی مارتی پیدا کرتی، فناکرتی، اٹھاتی، گراتی،پست کو بلند، بلند کو پست کرتی، ہنساتی، رلاتی، بڑھاتی ل، گھٹاتی، جناتی، دفناتی، بناتی، بگاڑتی ، اچھالتی، ٹھکراتی ، چلی آرہی ہے ۔ بہ قول حکیم عارف اکبر الہ آبادی
دنیا یوں ہی ناشادیوں میں شاد رہے گی
برباد کئے جائے گی آباد رہے گی
ہاں لیجئے ایک نام تو رہا ہی جاتا ہے ۔ اس وقت بھی قریب تھا کہ رہ جائے تلاش میں غیر معمولی اصرار گردانی اٹھانا پڑی ۔ یہاں کے ایک بڑے پرانے ملنے والوں میں یعنی سنہ ۱۹۱۷ء کے زمانے کے ہوش بلگرامی تھے ۔ ایڈیٹر’’ذخیرہ‘‘ یہ ماہ نامہ تو کچھ ہی روز بعد عتابِ شاہی میں آکر بند ہوگیا ۔ اور ہوش صاحب کو اکبارگی حیدرآباد چھوڑنا پڑا۔ ہوش اڑ کر بھوپال پہنچے اور شاید کسی اور ریاست میں بھی رہے آخر رام پور جاکر دم لیا ۔ مجھ سے دوستانہ محبتانہ تعلقات ، گردش ایام کے ہردور میں قائم رکھے ۔
سیاسی، دینی، اخلاقی، تصورات میں مجھ سے بہت دور تھے ۔ اور مزاج و طبیعت میں بھی بہت الگ، لی کن اس سب کے باوجود رشتہ انس و مودت مجھ سے قائم ر کھے ہوئے اور آخر کار تو میرے مخلص ہی نہیں، محسن بھی ہوگئے ۔ حیدرآباد جب کئی سال کے بعد دوبارہ آئے اور یہاں ہوش یار جنگ بن کر پورے عروج پر پہنچے تو جہاں تک مادی و مالی نفع پہنچانے کا تعلق ہے ، میرا ہر موقع پر لحاظ رکھنے لگے ، ایسا کہ مجھے شرمندہ ہوہوجانا پڑا اور ایسا ہی رابطہ اخلاص ان کا میں نے اپنے محترم و مخدوم دوست اور بزرگ مولانا سید سلیمان ندویؒ کے ساتھ بھی دیکھا ۔ بلکہ یہی ربط اس سے ہلکے درجے میں ا پنے ایک دوسرے مخدوم و محترم مولانا مناظر احسن گیلانی کے ساتھ بھی پایا۔ حیرت ہوتی رہی لیکن بہر حال واقعیت اپنی جگہ رہی ۔ ان کی شائع شدہ بعض تحریروں سے مجھے تکلیف بھی اچھی خاصی ہوئی، لیکن میری ذات کے ساتھ ان کی وابستگی میں ذرا فرق نہ آیا۔ لکھنو اپنے دور عروج میں دوبار آئے ایک بار کارکٹن ہوٹل میں ٹہرے اور ایک بار نیاز فتحپوری ایڈیٹر نگار کے ہاں۔ دونوں بار مجھ سے ملنے اس طرح آئے جیسے کوئی اپنے عزیز و قریب کے ہاں جاتا ہے ۔ اور دونوں بار میرے نواسوں، نواسیوں سے اس طرح پیش آئے جیسے وہ خود انہیں کی نواسیاں نواسے تھے ۔ بہر حال ان کا قرض مجھ پر واجب تھا۔ بڑی ہی جستجو کے بعد ان کی تربت کا پتہ چلا ۔ قطبی گوڑہ، کے ایک قبرستان میں ملی، جوشیعہ سنیوں کا مشترک ہے۔ وہاں جاکر فاتحہ پڑھا اور عرض معروض کچھ اس طرح پر کی ۔
’’بارالہا آپ کے اس بندے کے اور جو کچھ اعمال و احوال ہوں، وہ تو آپ ہی پر خوب روشن ہیں ۔ میں حال ا پ نے سابقہ کا جانتا ہوں ۔ میرا تو یہ شخص پورا مخلص بلکہ محسن تھا۔ اور آپ کے بعض نیک و مقبول بندوں کے سابقہ میں بھی میں نے اسے سراپا ، اخلاص پایا۔ اس کی شہادت دیتا ہوں ۔ اور التجا کرتا ہوں کہ اپنی کریمی کے صدقہ میں اس کے ساتھ معاملہ تمام تر عفووفضل کا فرمایاجائے ۔ اور اس کے حسنات کو اس کی کمزوریوں کا کفارہ اور شفیع قرار دے دیا جائے ۔ انہ ھو الغفور الرحیم
شنیدم کے در روزِ امید وبیم
بداں را بہ نیکاں ببخشد کریم

Book: Taassurraat-e-Deccan. By: Maulana Abdul Majid Dariyabadi. Ep.:03

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں