عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں - اہل شام کیلئے ایک نئی صبح - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-16

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں - اہل شام کیلئے ایک نئی صبح

a-new-dawn-for-syrians
زندہ قوموں کی ہمیشہ یہ عادت رہی ہے کہ انہوں نے علم کو تمام تر آسائشوں پر فوقیت اورترجیح دی ہے۔طاؤس و رباب ان کے نزدیک ہمیشہ آخری درجہ کی چیز رہی جبکہ تعلیم و تعلم کو انہوں نے حرز جاں بنایا۔ ملک شام جو ایک طویل عرصہ سے خونریزی ، سفاکی اور بربریت کا مظہر بنا ہوا ہے۔ لاکھوں افراد لقمہ أجل بن گئے ہیں ، لا تعداد معصوم بچے جنہوں نے اب تک زندگی کی رمق دمق بھی نہ دیکھی تھی، پناہ گزینی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ۔ مہذب دنیا کے مہذب افراد نے انسانیت کے لبادہ میں حیوانیت کی جو مثال پیش کی ہے اس سے جنگل کے درندے بھی شرمسار ہیں اور فرشتے بھی خدا سے یہی سوال کرتے ہونگے کہ کیا اسی کو مسجود ملائک بنایا تھا ؟ اسی کو افضل الخلائق بتایا تھا؟ کسم پرسی ، خانہ جنگی، پئے در پئے مصائب و آلام کے ان حالات میں بھی بعض افراد امید کی کرن بنے ہوئے ہیں جو اتنے اعلیٰ ظرف ہیں کہ دنیا سے اپنی کم مائیگی ، قلت اسباب کی شکایت نہیں کرتے بلکہ کل متاع قوم و ملت کی بہتری و بہبودی کیلئے استعمال کرتے ہیں ، انکی تمام تر کوششوں کا محور و مرکز صرف اور صرف قوم و ملت ہوتی ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال شام کا زھراوی خاندان ہے۔ جس نے لبنان میں شامی پناہ گزیں کیمپ کے افسردہ اور غمزدہ بچوں کو گویا دوبارہ زندگی عطا کردی۔ ڈاکٹر ناصر الظہر اوی کے علاقہ میں جب شامی درندوں نے بمباری شروع کی ، آپ کے ارد گرد آہ و فغاں کا سماں بندھنے لگا ، اطراف سے چیخ و پکار بلند ہونے لگی ، تب ڈاکٹر ناصر الزھراوی نے اپنے اس علاقہ سے کوچ کرنے ہی میں عافیت سمجھی ، لیکن جاتے جاتے آپ کی نظر کسی مال و دولت ، دینار و درہم پر نہیں رکی ، آپ جس چیز کی طرف لپکے اور جسے اپنی بیش بہا متاع سمجھ کر اپنے سینہ سے لگایا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے وہ آپ کی تعلیمی اسناد تھیں ، آپ کی ڈگریاں تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی زندگی کا ماحصل ، ان کی شب و روز کی جانفشانی کا نتیجہ ان کی یہ ڈگریاں ہی ہیں ۔ آپ نے ڈگریاں لیں اور اہل خانہ کے ساتھ کوچ کرگئے۔ علم و فن کے اس شیدائی قافلہ کا قصہ یہیں ختم نہیں ہوا، اسی رات ان کا بیٹا اپنے والد کو اطلاع کئے بغیر اپنے گھر لوٹتا ہے جسے شامی فوجیوں نے اپنی ’’بہادری اور جوانمردی ‘‘کا ثبوت پیش کرتے ہوئے سپرد آگ کردیا تھا۔ عمر کے اس پرشوخ مرحلہ میں اسے کس چیز نے یہاں کھینچ لایاتھا ؟ نہ مال و دولت کی حرص و طمع تھی اور نہ ہی شوخ جوانی کی ہوس پرستی ؟ بلکہ و ہ آیا تھا صرف اور صرف اپنے یونیورسٹی شناختی کارڈ کیلئے ، اپنی زندگی کی فکر نہ کرتے ہوئے وہ جنگ زدہ علاقہ میں آیا اور اپنا شناختی کارڈ واپس لے گیا ۔ قربان جائے اس خانوادہ پر جس نے علم کو اپنی زندگی میں مرکزی مقام عطا کیا اور جب کوئی فرد تعلیم و تعلم کو اپنی زندگی میں مرکزی مقام عطا کرتا ہے تو و ہ خود پرستی یا مفاد پرستی سے آگے بڑھ کر قوم و ملت کیلئے وقف ہوجاتا ہے۔ یہی حال اس خانوادہ کا بھی ہے کہ انہوں نے شمالی لبنان میں شامی پناہ گزین کیمپ میں علم کی شمع جلائی رکھی ہے، ڈاکٹر ناصر الزھراوی اپنے جواں عمر فرزند سلیمان الزھراوی کے ساتھ اس کیمپ میں نوخیز نسلوں کو علم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ دنیا کی چند خود ساختہ مہذ ب اور طاقتور ملکوں نے شام جیسے خوبصورت علاقے کو ویران اور کھنڈر بنادیا ۔ لاکھوں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ، بے شمار معصوم بچے جنہوں نے ابھی تک زندگی کا حقیق لطف بھی نہیں اٹھایا تھا انہیں موت کی نیند سلادیا ،متعدد خاندان خس و خاشاک کی طرح ہوا میں بکھیر دئے گئے ، ان کے خون آلود سسکتے بلکتے معصوم چہرے بس ایک ہی سوال کر رہے ہیں ،
مقدر نے بھلا ہم سے مذاق آخر کیا کیا ہے
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے
ان تمام مصائب ونا مساعد حالات میں جو چیز ان پناہ گزینوں کیلئے زندگی کی امید اور علامت بن کر ابھری ہے وہ زھراوی خاندان کا مشن تعلیم ہے۔ جن معصوم بچوں نے جینے کی تمنا چھوڑدی تھی ، جنہوں نے زندگی پر موت کو ترجیح دی تھی ، آج زھراوی کے تعلیمی مشن سے جڑ کر تابنا ک و درخشاں مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجارہے ہیں ، کوئی معلم بننا چاہتا ہے تو کوئی فرانسیسی زبان کا ماہراور کوئی تو بس علم کے سمندر میں غوطہ زنی کرنا چاہتا ہے۔ زھراوی خاندان کو شام سے کوچ کرے تین سال ہوگئے ہیں اور گذشتہ تین سالوں سے وہ کیمپ میں بچوں کو علم سے آراستہ کر رہے ہیں، ڈاکٹر ناصر الزھراوی نے اپنی اولاد میں قوم و ملت کیلئے زندگی گذارنے کا جذبہ پیدا کیا، یہی وجہ ہے کہ اپنے ایک جواب بیٹے اور بھائی کی موت پر بھی یہ باپ بیٹے علم سے جڑے ہوئے ہیں اور دنیائے انسانیت کے ستم رسیدہ معصوم بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ گویا وہ بزبان حال و قال کہہ رہے ہیں
مری زندگی کا مقصد کہ ہر اک کو فیض پہنچے
میں چراغ رہ گذر ہوں مجھے شوق سے جلاؤ

***
ڈاکٹر خلیل احمد ندوی
اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ عربی
کوہ نور کالج ،خلدآباد
Email: chishtikhalil[@]gmail.com
Mob: 9975133662
ڈاکٹر خلیل احمد ندوی

A new dawn for Syrians. Article: Dr. Khalil Ahmed Nadvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں