تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو - دوسرا موقف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-03

تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو - دوسرا موقف

tareekh-ahlehadith-south-india-book
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک نوجوان قلمکار و عالم دین کاشف شکیل کی مرتب کردہ ایک اہم کتاب (تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو) کی ترتیب اور اس سے متعلق تنازعہ و استحصال کا معاملہ گردش میں رہا۔ اس ضمن میں مزید ہنگامہ آرائی اور بےجا بحث و مباحثہ سے گریز کی خاطر کاشف شکیل نے ایک طویل وضاحتی بیان بروز پیر 26/مارچ/2018 کو جاری کیا تھا۔

چونکہ "تعمیر نیوز" نے متذکرہ مضمون کی اشاعت کے ساتھ وضاحت کی تھی کہ اگر کبھی فریق مخالف یا ان کے مداحین کی جانب سے اس بیان کے رد میں کوئی سنجیدہ مضمون سامنے آئے تو اسے بھی "تعمیر نیوز" پر شائع کیا جائے گا۔
اس مقدمہ کے فریق مخالف جناب عبدالوہاب عبدالعزیز جامعی کا خود کا تحریر کردہ وضاحتی بیان فیس بک پر ان کے آفیشل پیج پر شئر کیا گیا ہے۔ وہی مضمون یہاں بھی پیش خدمت ہے۔

از قلم: مدیر اعزازی 'تعمیر نیوز' - مکرم نیاز (حیدرآباد)۔

مشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطّار گوید
ازقلم: عبدالوہاب عبدالعزیز جامعی

عزیزم مولوی کاشف شکیل صاحب عالیاوی کا مضمون "تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو’ کیا حقیقت کیا فسانہ؟"
میری نظر سے گزرا۔موصوف نے "یرویدون ان یحمدوا بمالم یفعلوا" کے مصداق یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ مذکورہ کتاب ان کی مرتب کردہ ہے۔مضمون میں انہوں نے پہلے تو یہ رونا رویا ہے کہ کچھ احباب نے ان پر سوالات کے ایسے نشتر مارے کہ روح چھلنی ہوگئی اور ایسے تازیانے برسائے جو ان کے جسم کے ساتھ روح پر بھی برسے اور ابھی تک برس رہے ہیں۔افسانچے کے ذریعے اشعار والفاظ کے تیرو نشتر چلاکر،تضحیک،تحقیر اور تذلیل کا سلسلہ تو آں محترم نے کتاب چھپنے کے بعد سے شروع کیا تھا۔"چاہ کن راچاہ درپیش" ۔جب وہ اتنے حساس ہیں تو خیال ہونا چاہیے کہ د وسرے بھی ان ہی کی طرح دل رکھتے ہیں۔وہ کوئی پتھر کے بنے ہوے نہیں ہیں۔
کاشف صاحب کے بقول:" وہ 5؍فروری2017ء کو میرے ادارے سے منسلک ہوے، اور 16؍اگست کو ادارہ چھوڑ دیا۔اس حساب سے ان کی مدت ملازمت چھے ماہ نو دن ہوتی ہے۔وہ تحریر فرماتے ہیں:" صبح وشام ـــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبح آٹھ بجے تا نمازِ عشاء بلاناغہ فری ڈے اور سنڈے کسی بھی دن کی تعطیل کے بغیر کتاب کی ترتیب میں مشغول رہا تو،یہ سلسلہ بلا انقطاع جاری رہا ـــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"۔
پھر آپ رقم طراز ہیں:"مختلف مقامات کی خاک چھانی۔ایسے ایسے علاقوں کی دھول چاٹی، جہاں کی تہذیب وثقافت،زبان وادب بالکل مختلف تھی"۔ایک اور جگہ لکھتے ہیں:" دورانِ ملازمت کلیہ فاطمۃ الزہراء ہرپن ہلی کی لائبریری دو مرتبہ کھنگال ڈالی"۔
راقم کا سوال یہ ہے کہ چھے ماہ نو دن میںآپ نے جنوبی ہند کے کن کن مقامات کی خاک چھانی؟ اور کس کس شہر کی دھول چاٹی؟ اور کتنے ایام لائبریری میں گزارے؟ اور کتاب کی ترتیب میں کتنے دن لگائے؟
اس سے پہلے میں نے وضاحت کی تھی کہ ماہِ رمضان میں میرے خلیجی ممالک کے سفر کے دوران ڈیرھ ماہ تک موصوف مکمل آرام فرماتے رہے۔ جب میں نے انہیں ماہ رمضان میں گھر جانے کی اجازت دی تو کہا تھا کہ" ابھی گھر سے آئے صرف تین ماہ ہوئے ہیں،اس لیے عید الاضحی کے موقع پر گھر جانے کا پروگرام ہے"۔
آپ کے مختلف مقامات کی خاک چھاننے اور دھول چاٹنے کی بات تو سراسر جھوٹ ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ آپ نے میرے ساتھ حیدرآباد کا سفر بذریعہ ٹرین اے سی ٹوٹائیر میںکیا تھا، اورحیدرآباد میں آپ کا قیام اس مکان میں تھا جس میں خلیجی ممالک کے بڑے بڑے شیوخ قیام کرتے ہیں۔اس موقع پر، اور اس کے علاوہ بھی دو ایک اسفار میں آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ" شیخ! زندگی میں پہلی مرتبہ میں نےA۔Cمیں سفر کیا ہے"۔ اور یہ بھی کہ " اتنے عالیشان مکان میں، جو فائیو اسٹار ہوٹل لگتا ہے، پہلی مرتبہ میں نے قیام کیا ہے"۔ اور یہ بھی کہا تھاکہ "شیخ !اتنے اچھے ،چنندہ دستر خوان پر مجھے پہلی مرتبہ بیٹھنے کا اتفاق ہوا"۔ ان باتوں کو نقل کرنے سے میرا مقصد ان کی تضحیک کرنا نہیں ہے،بلکہ حقیتِ حال کی طرف اشارہ کرنامقصود ہے۔ اللہ کا احسان ہے کہ جن بزرگوں سے مجھے سیکھنے کا موقع ملا ،وہ ایسے انسانیت نواز تھے کہ انھوں نے مجھے اپنے بچوں کی طرح سمجھا ،اور میرے حوصلے بلند کیے۔الحمد للہ! اپنے اساتذہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوے علماء کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی کی ایسی ہی کوشش میںکرتارہتا ہوں۔اس کی گواہی ہر وہ شخص دے گا جس نے مجھ سے ملاقات کی ہو۔
جو لوگ قریب رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مولوی کاشف شکیل سلمہ کے ساتھ بھی میں نے ایسا ہی حسن سلوک کیا۔اور اپنے اسٹاف میں سب سے زیادہ آپ کو اہمیت دی کہ کئی علماء رشک کرنے لگے تھے۔حیدرآباد میں مولانا عبد الرحمن صاحب فاروقی وغیرہ سے آپ کی ملاقات میرے ہی توسط سے ہوئی۔میں نے آپ کو جماعتی اجتماعات اور جلسوں میں ساتھ رکھا۔یہی آپ کے اسفار تھے، جس کو آپ نے خاک چھاننے اور دھول چاٹنے سے تشبیہ دی ہے۔پھر آپ نے کلیہ فاطمۃ الزہراء کی لائبریری کھنگالنے کی بات کہی ہے، جب کہ تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند پر یہاں مواد نہیں ہے۔یہ طالبات اور معلمین و معلمات کی لائبریری ہے، جس میں ان کے کام کی والی کتابیں زیادہ ہیں۔
میری کتاب" تاریخ اہلِ حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو" سے متعلق چند اہم اورضروری نکات یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتاہوں:
٭ تاریخِ اہلِ حدیث میری دلچسپی کا موضوع ہے۔اس سے میری دلچسپی استاذی مولانا سید اسماعیل رائیدرگیؒ کی صحبت سے پیدا ہوئی۔مولانا ے محترم مدرسۂ سلفیہ غزنویہ امرتسر کے فیض یافتہ،مولانا عبد الاول غزنویؒ کے شاگرد،مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ اورمولانا اسماعیل سلفی گجرانوالہؒ کے مصاحب، اور جنوب میں تاریخ اہل حدیث پر مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔میں نے اپنے طالب علمی کے زمانے(1972ء) میں" تراجم علمائے اہل حدیث ہند " از:امام ابویحییٰ امام خان نوشہروی، " سیرتِ سید أحمد شہید" اور "تحریک شہیدین"وغیرہ جیسی قیمتی کتابیں پڑھ لی تھیں۔
جنوبی ہند کے علماے کرام عموماً اور ریاست کرناٹک کے اہلِ علم خصوصًا اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ میرے خطابات اورمیری نجی گفتگو کا محور اکثر تاریخ اہل حدیث ہوتا ہے۔اس دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ1986ء میں میرا ایک مضمون بعنوان" اضلاع کرناٹک میں سلفی دعوت" پندرہ روزہ ترجمان دہلی میں شائع ہوا تھا۔ پھر مزید معلومات کے ساتھ1988ء میں تاریخ اہل حدیث کرناٹک پر پندرہ روزہ ترجمان میں ایک اور تفصیلی مضمون شائع ہوا۔ان کے علاوہ پندرہ روزہ ترجمان ،مجلہ اہل حدیث شکراوہ، ماہنامہ صوت الحق مالیگاؤں،ماہ نامہ نوائے اسلام دہلی وغیرہ میں میرے کئی ایک مضامین تاریخ اہل حدیث منگلور،تاریخ اہل حدیث چترادرگہ،مختلف اجلاس کی رپورٹوں پر مشتمل شائع ہوتے رہے،جن کا ذکر راقم سے مولانا دکتور عبد الرحمن فریوائی، مولانا دکتور عبد الباری فتح اللہ صاحب اور مولانا صلاح الدین مقبول صاحب حفظہم اللہ نے عند الملاقات کیا تھا۔
1993ء میں بنگلور سے متصل مشہور شہر "ہسور" میں جمعیت اہلِ حدیث کا ایک تاریخی اجتماع منعقد ہوا تھا۔ اس موقع پر میں نے ایک کتابچہ مرتب کیا تھا، جس کا عنوان ہے: "کرناٹک میں اہل حدیث کی سرگرمیاں"۔
یہ سارے کام تاریخِ اہلِ حدیث سے میری دل چسپی کے گواہ ہیں۔ان سب گرمیوں نے میرے دل میں کرناٹک کی مکمل تاریخِ اہل حدیث مرتب کرنے کے شوق کو مزید جِلا بخشا۔چنانچہ میں نے خود اس فریضے کی ادائی کا تہیہ کرلیا اور اس کا منصوبہ1997ء میں بنایا۔اس سلسلے میں مختلف جامعات کو خطوط روانہ کیے، جن کے جواب میں درجِ ذیل خطوط موصول ہوے۔(خطوط کی فوٹو کاپیاں ترتیب وار مضمون کے اختتام پر فیس بک پر ڈال دی گئی ہیں)

1) مولانا خلیل الرحمن صاحب اعظمی عمریؒ (ناظم جامعہ دار السلام عمر آباد) کا مکتوب بتاریخ26/05/1997 کوموصول ہوا، جس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"محترم ومکرم! مولانا عبد الوہاب صاحب جامعیؔ زیدکم مجدکم العالی
آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا۔اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ لوگ ‘تاریخ جماعت اہل حدیث کرناٹک’ شائع کرنے جارہے ہیں"۔

2)استاذ الاساتذہ مولانا ابو البیان حماد صاحب عمری حفظہ اللہ کا خط مورخہ28/5/1997 کو ملا۔آپ تحریر فرماتے ہیں:
"عزیز گرامی قدر جناب مولانا عبد الوہاب صاحب جامعیؔ حفظہ اللہ۔۔۔۔ مجھے یہ معلوم کرکے مسرت ہوئی کہ جمعیت اہل حدیث کرناٹک کی جانب سے" تاریخِ جمعیت اہل حدیث کرناٹک "مرتب کر کے شائع کی جارہی ہے"۔

3) مولانا عبد الغنی صاحب سیفیؔ ،شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ رائیدرگ کا خط3؍ جون 1997ء کو موصول ہوا۔آپ تحریر فرماتے ہیں:
" عزیز گرامی مولوی عبد الوہاب جامعیؔ سلمہ۔۔۔۔۔ عزیزم! یہ معلوم کرکے بڑی مسرت اور خوشی ہوئی کہ جمعیت اہل حدیث کرناٹک آپ کی قیادت میں علمائے اہل حدیث کرناٹک کے حالات پر مشتمل ایک کتاب شائع کررہی ہے۔مبارک ‘صد مبارک،زہے نصیب۔
علاوہ ازیں میںنے ریاست کے مختلف علمائے کرام اور اخوانِ جماعت کو اس سلسلے میں خطوط روانہ کئے، اور انہیں بالمشافہ ترغیب دلائی، نیز مزید معلومات جمع کرنی شروع کردی۔ 2000ء میں ، جب کہ میں جمعیت اہلِ حدیث کرناٹک کا امیر تھا، اس موقع پر پورے کرناٹک کا دورہ کرکے کرناٹک کی تمام اہلِ حدیث مساجد، مدارس اور دینی سینٹرز کے سلسلے میں معلومات اکٹھی کی تھیں، اوران سب کو ایک ڈائرکٹری کی شکل میں مرتب کرکے اردو اورکنڑا زبان میں شائع کروایاتھا۔ 
پھر اس کے بعد نہیں معلوم اللہ تعالیٰ کو کیا منظور تھا کہ میں نے2001ء سے تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف توجہ دی اور میری تمام تر توجہ2011ء تک صرف تعلیمی مراکز کے قیام اور ان کی تعمیرات پر مرکوز رہی۔اس درمیان میری ملاقات مولانا شیر خان جمیل أحمد صاحب حفظہ اللہ نائب ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ سے ہوئی۔ آپ نے میرے پاس موجود تاریخ اہل حدیث سے متعلق اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرلیں۔مورخ اہل حدیث ڈاکٹر بہاء الدین صاحب نے اس کو2008ء میں تاریخ اہل حدیث جلد سوم میں شائع کیا۔
2011ء کی بات ہے کہ جامعہ محمدیہ رائیدرگ کے ایک اجلاس میں استاذی مولانا عبد الغنی صاحب سیفیؔ عمریؔ ،شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ رائیدرگ کی سوانح پر مشتمل کتاب" نقوشِ حیات"(مرتب مولانا انور سلفی) کا اجراء عمل میں آیا۔اس موقع پر جامعی برادران نے مجھ پر بہت زور ڈالا کہ میں اپنے مربی و استاذ مولانا سید اسماعیل صاحب کی حیات وخدمات پر کتاب مرتب کروں۔چوں کہ یہ کام عین میری دل چسپی کا تھا، اور میری دلی خواہش بھی تھی، اس لیے میں نے اسی اجلاس میں حامی بھرلی اور2013ء میں الحمد للہ یہ کتاب مرتب ہوکر شائع بھی ہوئی۔
کتاب" تابندہ نقوس" کی ترتیب کے دوران میں نے "تاریخ اہل حدیث کرناٹک" کاکام بھی شروع کردیا۔اس دوران اندازہ ہوا کہ موجودہ کرناٹک کی تاریخِ اہل حدیث کو الگ کرنا مشکل ہے۔ اس لیے کہ ریاستِ کرناٹک میں سابقہ مدراس اسٹیٹ، ممبئی اسٹیٹ، نظام اسٹیٹ حیدرآباد اور میسور اسٹیٹ شامل تھے۔ اس کے علاوہ دو صدی قبل جنوب میں اہل حدیثوں کے دو اہم مراکز تھے۔ایک حیدرآباد،دوسرا مدراس، جہاں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒکے خلفاء مولانا سید محمد علی رامپوری اور مولانا ولایت علی عظیم آبادی کی دعوتی کوششوں سے مسلکِ اہل حدیث کو فروغ حاصل ہوا تھا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ اب اسی منصوبے کو مزید توسیع دیتے ہوئے "تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند "مرتب کرنی چاہیے۔اس کے بعد میں نے جنوبی ہند پر مشتمل تاریخ مرتب کرنی شروع کردی، اور اس کے لیے جہاں کہیں سے مراجع ومصادر کی کتابیں ملیں،اکٹھی کرلیں۔
مولوی کاشف صاحب کی آمد سے پہلے مراجع ومصادر کی کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو میرے پاس نہ ہو۔الا ماشاء اللہ ۔پھر کام کا ذکر اپنی کتاب "تابندہ نقوش" مطبوعہ2013ء کے صفحہ73 پر کیا ہے۔اس کاایک اقتباس ملا حظہ فرمائیں:
" جنوبی ہند کے اس حاتم زماں، سخی دوراں پر مفصل مضمون راقم الحروف کی زیر طبع کتاب" تحریک اہل حدیث جنوبی ہند "میں ملاحظہ فرمائیں"۔
کتاب کی ترتیب کا کام سست رفتاری سے جاری تھا۔2015ء میں مولانا حبیب الرحمن اعظمی عمری رحمہ اللہ ( مدیر ماہنامہ"راہ اعتدال" عمرآباد) کا ایک مضمون باؤٹا والے شیخ عبد العزیزصاحب مدراسی پر شائع ہوا۔ میں نے اس مضمون پر اپنے تاثرات روانہ کرتے ہوئے مولانا موصوف سے دیگر جماعتی شخصیات پر بھی لکھنے کی گزارش کی۔جواب میں مولانا نے جو مکتوب لکھا، اس کاایک اقتباس یہ ہے:
" دین وملت اور جماعتی خدمات کا جذبہ رکھنے والوں کے متعلق بندے کے جذبات واحساسات بھی تقریباً وہی ہیں جو آپ کے ہیں۔مولانا نذیر حسین قصوری مرحوم، حاجی عبید اللہ صاحب مرحوم،اورسابق صدورِ جامعہ(دارالسلام) کے تعلق سے مضامین تحریر کئے جاچکے ہیں،جو دیگر محسنینِ جامعہ پر لکھے جانے والے مضامین کے ساتھ کتابی شکل میں جامعہ سے شائع ہونے والے ہیں۔ ان شاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔بندے کی نظر میں آپ کی علمی ودینی خدمات اور جماعتی اُمور سے گہری وابستگی بھی انتہائی قابلِ قدر ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید عزم وحوصلہ عطا کرے۔۔۔۔۔۔۔( اس کی کاپی بھی فیس بک پر ڈال دی گئی ہے)
مولوی کاشف سلمہٗ کا یہ دعویٰ کہ کتاب کے مرتب وہی ہیں اورتمام معلومات کے جمع کرنے میں انہوں نے رات دن ایک کیا ہے،اس کی حقیقت جاننے کے لیے تفصیلات ملاحظہ فرمائیں۔
کتاب میں جن شخصیات کے سوانحی خاکے شامل کئے گئے ہیں،وہ سب درج ذیل اہلِ علم کی کتابوں اور مضامین سے ماخوذ ہیں:

1) مولانا سید اسماعیل رائیدرگی، بانی جامعہ محمدیہ رائیدرگ آندھرا کا کئی قسطوں پر مشتمل مضمون۔
"تحریک اہل حدیث جنوبی ہند" سے ماخوذ سوانحی خاکے درج ذیل ہیں۔اس میں جزوی ترمیم کے ساتھ مکمل مواد مولاناسید اسماعیل رحمہ اللہ کاجوں کا توں کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔
(1) مولانا سید عبد القادر صاحب مدراسی
(2) شیخ ابو سعد اسماعیل بن حسین ویلوری
(3) قاضی عبد الرحیم صاحب کرنولی
(4) مولانا عبد الوہاب شیرازی
(5) مولانا عبد الکریم صاحب قریشی بنگلوری
(6) مولانا سلطان محی الدین محمدی کرنولی
(7) مولانا عبد اللہ صاحب غازی لب بریدہ نزیل سرسی
(8) مولانا رحمت اللہ خان صاحب پنجابی سرسی
(9) مولانا محمد عثمان آرکاٹی مدراس
(10) مولانا عبد القادر صاحب پیارم پیٹی
(11)مولانا احمد علی کوئمبتوری
(12)مولانا عبد الوہاب وانمباڑی
(13) مولانا رضوان اللہ خان پنجابی
(14) مولانا عباس صاحب وانمباڑی رحمہم اللہ۔

2)مولانامحمد ثناء اللہ صاحب عمری ایم۔اے عثمانیہ کی دوکتابیں" نذرانۂ اشک" اور"مجھے یاد آنے والے" ،نیزمجلہ اہل حدیث شکراوہ اور ماہنامہ راہِ اعتدال عمرآباد سے ماخوذسوانحی خاکے درج ذیل ہیں۔ ان تمام شخصیات کا انتخاب راقم الحروف نے کیا تھا،اور مواد بھی میں نے ہی فراہم کیا تھا۔کتاب کے کون کون سے اقتباسات کو درج کرنا ہے، اس کی بھی تعیین میں نے ہی کی تھی۔مندرجہ ذیل سوانحی خاکے مولوی کاشف صاحب نے صرف چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ درج کیا ہے۔قارئین مذکورہ کتابوں سے اس کا موازنہ کرلیں:
(1) مولانا حافظ عبد الواحد صاحب کٹانچوری
(2) مولانا حافظ میاں محمد صاحب پنجابی
(3) مولانا حافظ بشیر احمد صاحب پڈنوی
(4) مولانا عبد الغفار صاحب پڈنوی
(5) مولانا حافظ عبد الرؤف صاحب عمری پڈنوی
(6) مولانا عبد الحق صاحب کٹانچوری
(7) مولانا عبد الحکیم صاحب کٹانچوری
(8) مولانا ابو تمیم جانباز خان محمدی حیدر آبادی
(9) مولانا نذیر احمد صاحب پڈنوی
(10) مولانا عبد الباری صاحب سعیدی پڈنوی
(11) مولانا محمد یحيٰ صاحب ویوری
(12) مولانا عبد الواحد صاحب رحمانی گنٹوری
(13)مولانا عبد السلام صاحب فاروقی ندوی حیدر آبادی
(14) مولانا عبد الرحمن صاحب جامعی بنگلوری
(15) مولانا سید عبد اللہ مدنی شولاپوری
(16) مولانا محمد صدیق خان رحمانی وشاکھا پٹنم
(17) مولانا حافظ عبدالواجد عمری رحمانی
(18) شیخ الحدیث مولانا عبد السبحان صاحب اعظمی
(19) مولانا عطاء اللہ سلفی
(20)مولانا حافظ عبد اللہ صاحب کرنولی مدراسی
(21) مولانا حافظ محمد اسماعیل شمیم شولاپوری
(22) مولانا احمد اللہ خان صاحب عمری کشن گیری
(23) مولانا منشی خطیب عبد الرحمن صاحب عمری پرنامبٹ
(24) مولانا سید ابو الکلام احمد ندوی
(25) مولانا عبد العزیز جامی عمری مدراس
(26) مولانا عبد الحافظ عمری مدراسی
(27) مولانا عبد الرحیم صاحب عمری رائیدرگی
(28) مولانا ابو القاسم خالد العربی اڑیسہ
(29) مولانا محمد شعیب صاحب عمری بنگلوری
(30) مولانا حافظ عبد العظیم صاحب ناگپوری
(31) حاجی حضرت خان شولاپوری
(32) مولانا فقیر اللہ پنجابی پرنامبٹ
(33)مولانا سید اسماعیل صاحب رائیدرگی
(34) مولانا سید عباس صاحب حامی عمری رائیدرگی
(35) مولانا ثناء اللہ صاحب عمری ہاسپیٹ
(36) مولانا منشی عبد الرحیم صاحب پڈنوی
(37) مولانا عبد القادر صاحب پریاکپم ، ٹمل ناڈو
(38) مولانا عبد الجلیل صاحب کانوری
(39) مولانا دیندار خان صاحب ہریانوی
(40)مولانا عبد النور صاحب ادھونی
(41) مولانا محمد احمد خالدی
(42) جناب عبد الرؤف صاحب حیدر آبادی۔رحمہم اللہ
ہمارے معززقارئین کے آگے کتاب" تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو "کے مقدمہ سے ایک بصیرت افروز اقتباس پیش کررہاہوں،جس کو مولانا حافظ حفیظ الرحمن صاحب اعظمی عمری مدنی،ناظم جامعہ دار السلام عمرآباد حفظہ اللہ،نے تحریر فرمایا ہے:
" کتاب کے انتساب کے لیے مولانا محمد ثناء اللہ عمری ایم ۔اے عثمانیہ حفظہ اللہ کا انتخاب ہر حیثیت سے بہت لاجواب ہے۔ کتاب کے مراجع ومصادر کے علاوہ ہر صفحہ میں موصوف کے قلم کی خوشبو رچی بسی ہے"۔
خط کشیدہ الفاظ کو غور سے پڑھیں۔ اس سے مولوی کاشف صاحب کے دعوے کی حقیقت واضح ہوجائے گی۔

3) مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی عمری، مدیر ماہنامہ راہِ اعتدال کی کتاب " چمن جامعہ کے باغبان" اور راہِ اعتدال سے ماخوذ سوانحی خاکے:
1) کاکا محمد عمر صاحب رحمہ اللہ، بانی جامعہ دار السلام عمرآباد۔
2) شیخ عبد العزیز باؤٹا بیڑی مدراس۔
3) الحاج سی عبد الشکور صاحب پرنامبٹ۔
4) جناب سی فضل الرحمن صاحب پرنامبٹ۔
5) جناب آڈیٹر عبید اللہ صاحب مدراسی رحمہم اللہ۔

4) مولانا انور سلفی کے مضامین سے ماخوذ سوانحی خاکے:
1) مولانا فضل الرحمن صاحب اعظمی عمری مؤ۔
2) مولانا عبد الغنی صاحب سیفی عمری رائیدرگ رحمہا اللہ۔مولانا موصوف کی سوانح میں میرے اپنے مشاہدات بھی شامل ہیں۔

5) مولانا حافظ حفیظ الرحمن صاحب اعظمی عمری حفظہ اللہ، ناظم جامعہ دار السلام کے مضامین سے ماخوذ سوانحی خاکے:
1) شیخ الحدیث مولانا محمد نعمان اعظمی عمرآباد۔
2)مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی عمری ۔
3) مولانا خلیل الرحمن اعظمی عمری، سابق ناظم جامعہ دار السلام عمر آباد رحمہم اللہ

6) شیخ محمد رفیق صاحب سلفی مدیر جامعۃ المفلحات حیدر آباد سے حاصل کئے گئے سوانحی خاکے:
1) مولانا شریف محمد الیمانی حیدر آبادی۔
2) مولانا شریف غالب بن شریف محمد الیمانی الأشراف حیدرآبادی
7) راقم الحروف کے تحریر کردہ سانحی خاکے، جو مختلف بزرگ علمائے کرام سے مل کر ترتیب دئے گئے تھے۔ان میں سے کچھ تو جماعتی اخبارات میں شائع بھی ہوئے ہیں:
1) مولانا عبد اللہ صاحب پنجابی ہری ہر۔
2) مولانا محمد ایوب صاحب ماستی بھوپالی۔
3) مولانا حافظ عبد الشکور صاحب رحمانی سرسی۔
4) مولانا سید احمد صاحب میسوری عرف شاہ صاحب۔
5) مولانا سید رفیع الدین صاحب عمری ماستی کرناٹک۔
6) مولانا محمد ادریس صاحب پنجابی ہری ہر۔
7) مولانا ابو رضوان سید محمد عطاء اللہ صاحب میسوری۔
8) مولانا عبد الغنی صاحب جامعی اپن بٹگیرہ ہری ہر۔
9) مولانا بشیر احمد صاحب ادھونی۔
10) مولانا عطاء اللہ صاحب پنجابی ہری ہر۔
11) مولانا ڈی رحمت اللہ صاحب جامعی رانی بنور۔
12) مولانا ابو الجمیل محمد یاسین صاحب سگری۔
13) ماسٹر سید سرمست حسین صاحب رائیدرگی۔
14) مولانا عبد اللہ بن حسن ہرپن ہلی۔
15) ماسٹر عبد الرحیم صاحب ہرپن ہلی۔
16) مولانا عبد اللہ سعیدی صاحب چامراج نگر۔
17) مولاناحافظ عبد الوہاب صاحب کنچوری کرنول۔
18) خواجہ میاں عرف منا ماسٹر رانی بنور۔
19)مولانا عبد الجبار خان صاحب سیف ہری ہر۔
20) مولانا عبد الرحیم صاحب عمری رائیدرگ۔
21) مولانا سید اسماعیل خان صاحب جامعی ہری ہر۔
22)مولانا محمد شریف صاحب بنگلوری۔
23) مولانا محمد بن عبد اللہ حیدر آبادی۔
24) مولانا سید اسماعیل صاحب رائیدرگی۔
25) مولانا انعام اللہ صاحب فاروقی۔
26) حاجی عبد السبحان صاحب ہڈی والے۔
27) ایچ کے عبد القادر صاحب ہاسپیٹ۔
28) مولانا عبد الحمید صاحب عمری ہسکوٹہ۔
29) الحاج عبد الرشید صاحب ماستی۔
30) سید عبد السلام صاحب بلہاری۔
31) الحاج ایس محمد صالح صاحب ماستی۔
32) حاجی امیر الدین صاحب قریشی۔
33) حاجی محمد ابراہیم صاحب ترچنا پلی۔
34) الحاج عبد الجبار خان صاحب ائرنی رانی بنور۔
35) الحاج سید عبد الحفیظ صاحب انجینئر بلہاری۔
36) جناب عبد الغنی صاحب گھڑی ساز رائے چور۔
37) جناب ٹی عبد الغنی صاحب دوڈابالاپور۔
38) جناب عبد الوہاب صاحب کولار۔
39) محمد سرور صاحب محمدی حیدرآباد۔
40) مولانا ابو شحمہ جالوادی بیجاپور۔
41)جناب پی منور علی صاحب موڈبدری۔
42) جناب آر عبد الرشید صاحب گوری بدنور۔

شیر خان احمد حسین صاحب کا سوانحی خاکہ مولانا شیر خان جمیل صاحب حفظہ اللہ سے حاصل کرکے اس کا اختصار میں نے خود کیا تھا ۔آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس مدراس 1918ء کی100صفحات پر مشتمل مکمل روئیداد اہل حدیث امرتسر سے نقل کی گئی ہے، جو میرے پاس محفوظ تھی۔ اس پر کچھ کاشف صاحب نے اور کچھ میں نے حاشیہ لکھا ہے۔جنوبی ہند اہل حدیث کانفرنس کی روئیداد ماہنامہ صوت الحق (مالیگاؤں) سے ماخوذ ہے، جس کو مولانا شیر خان جمیل احمد عمری اور مولانا منصور الدین عمری حفظہم اللہ نے تحریر کیا تھا۔
رہی بات شمالی ہند کے اُن علمائے کرام کی جن کی دعوتی وتبلیغی کاؤشیں جنوبی ہند میں رہیں۔وہ مختلف مطبوعہ کتب سے میری نشاندہی پر قلم بند کی گئی ہیں۔اہل حدیث کی جانکاری کے متعلق مولوی کاشف صاحب کی تاریخ ایک بات عرض کرنی ضروری سمجھتا ہوں۔ جب علامہ وحید الزماں حیدرآبادی کی سوانح لکھی جارہی تھی تو موصوف نے کہا کہ:" شیخ !اس شخص کی سوانح’ تاریخ اہل حدیث میں کیوں شامل کی جائے؟ اِس کے فتاوے دیکھئے۔یہ شخص ادھر کارہا نہ اُدھر کا۔نہ اہل حدیث میں اس مقام ہے نہ مقلدین میں۔اِ س پر میں نے فوراً اُن کو ٹوکا اور کہا:اِس میدان میں آپ ابھی طالب علم ہیں ۔بزرگوں کے متعلق اس طرح کے کلمات سے احتراز کریں۔علامہ رحمہ اللہ کی مکمل سوانح کا مطالعہ کریں، تومعلوم ہو گا کہ ان کی جماعتی خدمات کس قدر عظیم ہیں۔
ایک ضروری وضاحت: مولوی کاشف عالیاوی نے ایک نیا شوشہ یہ چھوڑا ہے کہ "یہ طے ہوا کہ کتاب میں جہاں کہیں متکلم یا اس قسم کے صیغے استعمال ہوں گے، وہ شیخ عبد الوہاب جامعی صاحب کی طرف لوٹیں گے،اور اس کے بارے میں مقدمہ میں وضاحت کردی جائے گی"،یہ سب غلط بیانی ہے اور اپنے کو مرتب ثابت کرنے کے لیے ان کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
جنوبی ہند میں اہل حدیث کی آمد درج ذیل کتب سے ماخوذ ہے:
" الاسلام فی الھند"مولانا سید سلیمان ندوی منصور پوری۔" محمد ا کے زمانے کا ہندوستان" قاضی اطہر مبارک پوری۔"آب کوثر" شیخ محمد اکرام۔" برصغیر میں اسلام کی آمد" مولانا اسحاق بھٹی وغیرہ۔
یہ ساری کتب میں نے موصوف کو پہنچائی تھیں اور یہ بھی بتایا تھا کہ کن اقتباسات کو درج کیا جانا ہے۔مولانا سید محمد علی رامپوری،مولانا نواب خان عالم خان،نواب مبارز الدولہ،مولانا ولایت علی عظیم آبادی ،کے متعلق میں نے تاریخ دعوت وعزیمت، اہل حدیث اور سیاست، ہندوستان میں وہابی تحریک، تحریک آزادی ہند میں اہل حدیث علماء کا کردار وغیرہ۔ خاص کر کتاب خانوادۂ قاضی بدر الدولہ کویت سے مولانا عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ سے حاصل کرکے پہنچائی تھی۔اور ان کتب سے کون سی معلومات جمع کرنی ہیں اس کی بھی نشان دہی میں نے کی تھی۔
خلاصۂ کلام: قارئین پر میری اس تحریر سے واضح ہوگیا ہوگا، کہ
1) مولوی کاشف شکیل عالیاوی سلمہ صرف ناقل تھے۔اس میں ان کی قلمی کاوش برائے نام ہے۔
2)کتاب کی ترتیب کامکمل منصوبہ میراذاتی تھا۔
3) کتاب کی ترتیب کا کام مولوی کاشف صاحب کی آمدسے بہت پہلے میں نے شروع کردیا تھا۔
4) کتاب کے لیے شخصیات کا انتخاب میں نے کررکھا تھا۔ اس لئے کہ ایک ایک شخصیت سے متعلق مضامین دے کر میں انہیں ہدایت دیتا کہ فلاں کتاب سے فلاں اقتباس نقل کریں۔یا کسی مضمون کا اختصار کریں۔ جنوب کے اہل حدیث علمائے کرام کے متعلق اُن کی کوئی جانکاری نہیں تھی،بلکہ اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ جنوب کے علمائے اہل حدیث میں مولانا حافظ حفیظ الرحمن صاحب اعظمی عمری حفظہ اللہ اور مولانامحمد ثناء اللہ صاحب عمری ایم۔اے عثمانیہ حفظہ اللہ کے بعد تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کی جانکاری راقم الحروف کو ہے ،تومبالغہ نہ ہوگا۔
5) کتاب سے متعلق تقریباً پورا مواد میرے پاس جمع تھا، جس کو وقتا فوقتا حسبِ ضرورت انہیں دیا کرتا تھا۔کتاب کا کام بہت باقی تھا کہ بعض وجوہات کی بنیاد پر وہ اس ذمہ داری سے الگ ہوگئے۔
6) کتاب کو آٹھ ابواب میں میں نے ہی تقسیم کیا اور فہرست کی ترتیب بھی میری ہی دی ہوی ہے۔
اس سلسلے میں یہ میرا آخری خط ہوگا۔ یہ خط بھی میں نے بعض احباب کے اصرار پر غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے تحریر کیا ہے۔ورنہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ان باتوں کو سامنے رکھ کر قارئین خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نیک ہدایت عطافرمائے۔آمین۔
خادم جماعتِ اہل حدیث
عبد الوہاب عبد العزیز جامعیؔ

Some other facts behind compiling of a book 'History of South India Ahl-e-Hadees'. Article: Abdul Wahab AbdulAziz Jamie

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں