آصف سابع میر عثمان علی خان ۔ ہندو مسلم اتحاد کے نقیب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-03

آصف سابع میر عثمان علی خان ۔ ہندو مسلم اتحاد کے نقیب

osman-ali-khan asaf jah VII
(یوم پیدائش 6/اپریل کے موقع سے خصوصی تحریر)

عدم رواداری ، فرقہ واریت، نفرت اور دنگوں اور فسادوں کے اس دور میں جب کہ ہندو مسلمانوں کے درمیان نفرت کے بیچ بو کر مسلمان ہندواتحاد ویکجہتی کو ملیامیٹ کرنے اور اور ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جانے اور ملک کے باسیوں کے بیچ تفریق ، پھوٹ اور نفرت کے بیچ بو کر سیاست کی گدی پر پہونچنے والوں کے لئے خصوصا آصف سابع میر عثمان علی خان کی مذہبی رواداری ، ہم آہنگی ، ہندو مسلم اتحاد ویکتا اور ان کے اس حوالے سے بے تعصبی اور روادای اس دور میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ، میر عثمان علی خان آصف سابع کی پیدائش کے موقع سے ان کے ہندو مسلم اتحاد کی نقیب کی حیثیت سے کارہائے ناییاں کو اجاگر کرنا میرا مقصود ہے ، تاکہ ہندوستان ہمیشہ جس طرح صدیوں سے اپنی گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ اور مرکز بنارہا ہے ، وہ اسی طرح باقی وبرقرار ہے اور ہمارے ملک ہند پر اس طرح تعصب اور نفرت انگیزی اور شر انگیزی کی پرچھائیں بھی نہ پڑیں ۔
دکنی رواداری:
دکن میں صدیوں سے مسلمان بادشاہوں نے حکمرانی کی ہے ، عادل شاہی بادشاہوں کے عد ل وانصاف او ربرید شاہوں کے حسنِ سلوک سے کسی کو انکار نہیں ، بہمنی تاج داروں کی رواداری اس سلطنت کے بادشاہ حسن گنگوہی بہمنی کے لقب سے ہی ظاہر ہوتی ہے ، قطب شاہی عہد حکومت میں نہ صرف “اکنّا ، مادنّا بادشاہ کے قریب تھے ؛ بلکہ ہندو خواتین شہزادوں کے محل کی زینت بنی ہوئی تھی۔
دولت آصفیہ کی رواداری بے مثل رہی ہے ، مساوات کا جو برتاؤ آصف جاہی حکومت نے برتا اس کی نظیر نہیں ملتی، یہاں ہر کسی کو مذہبی آزادی تھی، مسجد ، مندر ، گرد وارے ، کلیسا ، آتش کدہ سبھی کو عزت کی نظر سے دیکھاجاتا تھا، جہاں صدائے ناقوس بلند ہوتی وہیں اذان بھی سنائی دیتی، آتش کدوں میں آگ دہکتی اور گرجاؤں میں گھنٹے بجتے ۔
حیدرآباد میں جہاں ایک طرف پائیگاہوں، نوابوں کے خاندان امیرانہ تزک واحتشام کے ساتھ رہتے تھے ، تو دوسری طرف چھتریوں ، برہمنوں اور کائستوں کے خاندان باسطوت زندگی گذارتے تھے، چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے والی بھی آصف جاہی امراء میں داخل تھے ، اور جاگیریں اور مناصب حاصل کرتے تھے ، پارسیوں ، عیسائیوں اور سکھوں ؛ بلکہ بعض انگریزوں اور فرانسیسیوں کو بھی پشت ہا پشت سے مناصب ملتے رہے ہیں۔
محکمہ امور مذہبی کا بنیادی مقصد ہی مختلف فرقوں اور طبقوں کی مذہبی اور روحانی ترقی کے لئے سہولتیں پہنچانا تھا، ایسے قاعدے مرتب کئے گئے تھے کہ کسی کے مذہبی جذبات نہ بھڑکیں اور مملکت میں ہر طرف صلح وآشتی کا ماحول بنارہے ، آصف جاہ اول نے ملکی معاملات میں بھی ہندوؤں کو مسلمانوں کے ساتھ مساویانہ مواقع دیئے ، بے تعصبی اور رواداری کی جو مثال انہوں نے قائم کی اس کا پرتو 20صدی کے اختتام تک نظر نہیں آتا ۔
دور عثمانی میں حیدرآباد میں 27 مساجد، 10 عاشورخانے ، 12 الاوے ، 27 درگاہیں،13 تکئے، 21دیول، 12 مٹھ، 2 گردوارے ، 11 کلیسائیں اور 43آتش کدے تھے ( آصف سابع میر عثمان علی خان او ران کا عہد: 322363،ادارہ ادبیات اردو)
میر عثمان علی خان حالات زندگی:
یکم رجب 1302ہ، 5اپریل 1886ء کو بطن امۃ الزہرا سے پروانی حویلی میں ہوئی، 24 سال کی عمر میں میر محبوب علی خان آصف جاہ سادس کے جانشیں اور ملک دکن کے ساتویں فرماں روا ہوئے ، پرانے مشرقی طریقے پر تعلیم دی گئی، پانجویں برس سے تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا، عربی، فارسی، انگریزیاور اردو کی تعلیم گھر ہی پر ہوئی، مولانا انوار اللہ خان فاروقیؒ دینی اور عربی تعلیم کے لئے استاذ مقرر ہوئے، اور آغا حیدر شوشتری فارسی تعلیم کے متعین ہوئے ، یہ دونوں اپنی علمی قابلیت کے لحاظ سے یگانہ روز تھے، مسٹر ایجرٹن انگریزی تعلیم پر مامور ہوئے، فنون سپہ گری اور شہ سواری کے لئے سر افسر الملک منتخب ہوئے جو افواج آصفیہ کے کمانڈر تھے ۔
میر عثمان علی خان زبان اور قلم دونوں کے دھنی تھے ، نثر ونظم دونوں پر یکساں عبور حاصل تھا، عربی، فارسی، اردو اورانگریزی پر قدرت حاصل تھی، اور اور فارسی میں اپنے دیوان شائع کئے ، اردو زبان کے اسلوب تحریر او رانداز بیان میں منفرد تھے ، شاعری ورثے میں ملی تھی
نکاح: 1326ہ یعنی 1910ہ ء میں میر عثمان علی خان کا نکاح نواب جہانگیر جنگ بہادر کی صاحبزادی سے پڑھا گیا جو دلہن پاشاہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔
تخت نشینی: 4 رمضان 1329ہ یعنی 1911ء میں 24 سال کی عمر میں آپ محبوب دکن میر محبوب علی خان کے جانشیں مقرر ہوئے ، او رآصف جاہ ہفتم آپ کا لقب ہوا اور جانشینی کا اعلان ہوا، اس طرح آصف جاہ ہفتم کا عہد حکومت 29اگسٹ 1911ء سے شروع ہوا ۔
اخلاق وعادات: آصف سابع میر عثمان علی خان ایک ایسے فقیر منش انسان تھے جو دولت سطوت کے سائے میں بھی فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے ، اپنی دولت سے پورے بر اعظم کی ملی تحریکوں اور تعلیمی اداروں کو فیض پہنچایا، ملک اور اہل ملک کی خدمت کی ، ٹرسٹ قائم کئے جن سے ان کی رعایا مستفید ہوتی رہی، اور ہورہی ہے ، غریبوں کی پرورش، ملک کی خوش حالی اور ایک مہذب تمدن ، ملک کی ترقی ان کا مطمح نظر تھأ، آخری سانس تک انہوں نے عوام کی خدمت کی ، غریبوں کے دکھ درد ، ہریجنوں او ر بچھڑے ہوئے طبقوں کی فلاجح وبہبودی کی ایسی شان دار مثال چھوڑی جس پر تاریخ دکن ہمیشہ ناز کرے گی ۔
میر عثمان علی خان عالم اور علم پرور تھے، اپنی ریاست میں انہوں نے علم وفن کی سرپرستی کی ، جس فراخ دلی سے اردو کی خدمت کی ، رہتی دنیا تک اردو دنیا اور تاریخ اردو ادب انہیں خراج تحسین ادا کرتی رہے گی، آصف سابع مسلمان ہند اور خصوصامسلمانان دکن کی عظمت کے علم بردار اور آصفی سطوت ومرتبت کی آخری یادگار تھے، ان کی وفات سے ہندوستان میں اسلامی ثقافت ، تہذیب وتمدن اور اقدار ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے ۔
17 ستمبر 1948ء وہ ستم گر دن تھأ جس کا شب گزیدہ سورج اپنے جلو میں سیاہی میں چھپالیا، کنگ کوٹھی میں اندھیرا چھاگیا، ایک پرعظمت انسان کو عام انسان کی طرح اپنی چار دیوار میں زندگی کے آخری ایام کس مپرسی میں گذارنے پر مجبور ہونا پڑا، وہ کروفر، وہ عظمت ودبدیہ سب ختم ہوگیا، مغل تہذیب کے نقوش مٹ گئے ، آصفی پرچم سرنگوں ہوگیا ، مسلم اقتدار کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ختم ہوگیا ۔
میر عثمان علی آصف سابع نے 24 جنوری 1967ء کو وفات پائی اور مسجدجودی میں مدفون ہوئے ۔ ( آصف سابع میر عثمان علی خان او ران کا عہد: 80۔85،ادارہ ادبیات اردو)
دور عثمانی حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب وقومی یکجہی کا سنہرا باب :
ان کی فرماں روائی کا 36 سالہ دور تاریخ کا ایک باوقار باب ہے جو ہمیشہ دلوں کو گرماتا رہے گا، حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب ، قومی یکجہتی دور عثمانی کا ایک قابل قدر باب ہے ۔
عثمان علی خان عادل اور منصف مزاج تھے، فریادیوں کی فریاد رسی کرتے، آزادئ ضمیر، آزادئ تقریر، آزادئ پریس اور آزادئ مذہب کی ہر کسی کو اجازت تھی، ہندو رعایا کی دل داری کے لئے انہوں نے گائے کی قربانی کو ممنوع قرار دیا اور مذہبی رواداری کا ثبوت دیی۔
کسی اخبار کے جرنلسٹ نے ایک بار ان سے دریافت کیا کہ “کیا حضور کی سلطنت میں ہندو زیادہ ہیں؟ آپ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا : “ مجھ کو اس مذہبی امتیاز کی گفتگو سے سخت نفرت ہے ، میرے لئے رعایا میں نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان، دونوں میرے بچے ہیں، مجھ کو ان سے الفت ہے اوران پر فخر ہے ، میری دلی تمنا ہے کہ اپنی رعایا کو ترقی کرتے دیکھو، ان کے عہد حکومت میں کبھی کسی کو قتل کا حکم نامہ نہیں دیا گیا، وہ منصف مزاج تھے ، لیکن خدا کی عدالت کو سب سے بڑ ی عدالت سمجھتے تھے ۔
مذہبی روادای اور بے تعصبی:
آصف سابع کی مذہبی رواداری آج کے زمانے کے لئے عبرت ہے ، آصف جاہی سلطنت یکجہتی ، عوام دوستی اور رواداری یوں بھی حیدرآباد کی امتیازی خصوصیت رہی ہے ؛ لیکن اپنے دور حکومت میں رواداری کی ایسی مثال قائم کی جس سے تنگ دل ہندو بھی انکار نہیں کرسکتے ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خوش حالی زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں تھی، مسلمانوں کے ساتھ ہندو قوم کو بھی اعلی، مراتب حاصل ہوئے ، جاگیریں اور منصب حاصل تھے ،آپ کے دور حکومت میں مہاراجہ کشن پرسادوزیر اعظم تھے ،وینکٹ راما ریدی کوتوال بلدہ، مسٹر تارا پور ولا مشیر مال حضور نظام تھے ،راجہ نرسنگ راج بہاد ر عالی مہتمم سیونک بینک نظامت ٹپہ کی خدمت پر مامور تھے ،وہ مذہبی تعصب سے بلند تھے اور ساری رعایا پر یکساں شفقت فرماتے تھے ،وہ اسلامی اصول کے پابند تھے ، لیکن دوسرے مذاہب کا بھی احترام کرتم تھے
کسی طبقے کو یہ محسوس نہیں ہونے دیتے کہ وہ ایک دوسرے سے اجنبی ہیں، جہاں انہوں نے مسجدوں ، عاشور خانوں ، درگاہوں کی امداد کی، وہیں مندروں، گرد واروں، کلیساؤں اور آتش کدوں کی مالی سرپرستی بھی کی،پارسیوں کو نوروز کی ، عیسائیوں کو کرسمس کی ، سکھوں کو گرونانک کے جنم دن کی اور ہندوؤں کو دیوالی، دسہرہ اور دوسرے تہواروں کی اور مسلمانوں کو عیدوں میلادوں کی تعطیل ملتی تھی ،ہر مذہب کے تہوار پر میر عثمان علی خان اپنے کلام کے ذریعے عوام کو مبارک باد بھجواتے تھے
وہ ہندومسلم بھائی چارہ کے علم بردار تھے، انہوں نے غیر مسلم قوموں کو اطمینان دلا یا کہ جہاں تک تمہارے معاملات کا تعلق ہے ، ہم کو” لا مذہب” سمجھو اور یقین رکھو کہ تمہارے ساتھ وہی برتاؤ ہوگا جو ہم مسلمانوں کے ساتھ کریں گے ۔پست اقوام سے کہا: میری نظر میں نہ کوئی قوم بلندوپست ہے ، اور نہ کوئی اچھوت ہے ، ، میں سب کو بہ حیثیت بنی نوع انسان ایک طرح سے برابر سمجھتا ہوں ،ایک بار ہندوؤں کے مذہبی پیشوا نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ہم حکومت کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کے خلاف ہیں جو ریاست میں بد نظمی پھیلانے کے ناپاک ارادے رکھتے ہیں، ہم ہمیشہ اپنے عالی قدر حکمراں کا ساتھ دیں گے ۔
یہ بھی فرمایا: جس طرح ہمارے دل میں ہمارے مذہبی پیشواؤں کی عزت وقدر ہے اسی طرح دوسرے مذاہب کے مذہبی مقتدا ہماری نظروں میں عزت کے مستحق ہیں دولت آصفیہ مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں اور رسومات کا برابر احترام کرتی تھی ۔
میر عثمان علی خان نے اعلان کیا کہ : اس امر کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ میرے بعض ذاتی اعمال اور افعال کی وجہ سے پبلک میں غلط فہمی نہ پیدا ہو یا بعض ناعاقبت اندیش او رنافہم طبقہ اصل واقعات کو رنگ دے کر دوسری شکل میں پیش نہ کرے ، اس لئے اس امر ک واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میرا خاندان، میرا مذہب اور ذاتی عقائد جو کچھ ہیں ان کی توضیح کی اس جگہ چنداں ضرورت نہیں، یہ یہ دوعالم پر آشکارا ہے ؛ مگر بہ حیثیت رئیس ایک دوسرا مذہب بھی رکھتا ہوں جس کو “صلح کل ‘ ‘کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے ، کیوں کہ میرے زیر سایہ مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، اور ان کے معابد کی نگہداشت میرے آئین سلطنت کا ایک زمانے سے وطیرہ رہا ہے ، میرا اور میرے بزرگوں کا شعاررہا ہے کہ دنیا کے سب مذاہب کو ایک نظر سے دیکھا جائے ، اس مشرب پر مجھے اور میرے بزرگوں کو نازرہا ہے اور رہے گا ۔
اپنی بے مثل رواداری سے انہوں نے ہر قوم وفرقے کی امداد کی تاکہ کوی فرد ان کی نوازشوں سے محروم نہ رہ جائے ،انہوں نے سکھ رعایا سے کہا: یہ امتیاز اس ریاست کو حاصل ہے کہ سکھوں کے تمام گردوارے کے لئے لئے میری حکومت سے معاش مقرر ہے ، ان کے مدارس کو میری گورنمنٹ سے امداد ملتی ہے عیسائی رعایا سے فرمایا: “ عیسائیوں کے جتنے مشن ہیں ان کو بھی ہر ایک مذہب کی طرح تبلیغ کی آزادی حاصل ہے ، ان اکثر مدرسوں کو میری گورنمنٹ سے امداد ملتی ہے ۔
سلطان دکن کا بہ حیثیت بادشاہ اپنی رعایا کے ساتھ جو تعلق تھا اس سے سبھی واقف تھے ، ہر فرد اپنے مذہبی عقیدے میں آزاد تھا، اور حکومت اپنافرض سمجھتی تھی کہ ان کی مذہبی آزادی میں دخل انداز نہ ہو ۔
رعایا کی فلاح وبہبود کے لئے انہوں نے ٹرسٹ قائم کئے ، جس کے ذریعے غریبوں، محتاجوں ، بے سہاروں کی امداد کی جاتی تھی، طلبہ کو وظیفے دیئے جاتے، بیواؤں کو سہارا دیا جاتا، ساتھ ہی خانوادۂ آصفی کے صاحب زادوں صاحب زادیوں کو بھی اس سے مستفید ہونے کا موقع ملتا، ملک وبیرون ملک مختلف مسلم وغیر مسلم اداروں، اسکول ، جامعات کو لاکھوں روپیوں کے وظائف عطاء کئے گئے ، ملک کی دولت کی رعایا کی فلاح وترقی کے لئے ہی صرف کی جاتی تھی، ان کی فیاضی کی کوئی حد نہیں تھی، برما کے مسلمانوں نے بہادر شاہ ظفر کی یادگار قائم کرنے کا مطالبہ کی تو نظام دکن کا نام عطیات دینے والوں میں سرفہرست تھے، بلا امتیاز مذہب یا قوم کے انہوں نے بے شمار اداروں کی سرپرستی کی، غیر مسلم مذہبی ادارے جن میں دھرم شالے ، گرجا، آتش کدے ، گرودوارے شامل ہیں ، ان کی تعداد 12 ہزار تھی، جن کی امداد سرکار سے مقرر تھی، اس کے برخلاف مسلمان ادارے جن میں مساجد، عاشور خانے ، درگاہیں، خانقاہیں تھیں تعداد میں صرف پونے پانچ ہزار تھے ، جن کی سرکار سے تنخواہ وآمدنی مقرر تھی۔
عثمان علی خان کے عہد میں ناقوس کی جھنکار کے ساتھ مسجد میں اذان کی صدائیں بلند ہوتی تھیں، گرجا گھر گھنٹے گونجتے ، اور آتش کدوں میں آگ سلگتی رہتی تھی، آصف جاہی امراء میں کائستھ ، چھتری ، برہمن، ریڈی، سنی ، شیعہ سبھی شامل تھے ، جنہیں بڑی بڑی جاگیریں ، اور مناصب حاصل تھے ، کچھ پارسی، انگریزی اور سکھ بھی تھے جو پشت ہاپشت سے منصب حاصل کرتے آرہے تھے
ہندو مسلم حیدرآباد میں اس قدر گھل مل کر رہتے تھے کہ ان میں اجنبیت کا احساس ہی نہ ہوتا تھا، خاندانی دوستی ، پیڑھی اور پیڑھی چلی آتی تھی، بادشاہ کی طرح ان کے دل بھی تعصب سے پاک تھے ، ایک دوسرے کی تقریبوں میں شریک ہوتے ، ایک دوسرے کے رسومات کو اپناتے ، لباس ، بات چیت ، رہن سہن سب یکساں ہوتا تھا۔
بادشاہ “ واحد قومیت” کا تصور رکھتے تھے ، اس لئے مساوات زندگی کے ہر شعبہ ، ہر دل ، ہر چیز میں داخل تھا، عثمان علی خان کی سالگرہ کی تقریب ہر سال وقت مقررہ پر نماز شکرانہ کے بعد منائی جاتی ( مغلیہ دور میں بھی یہ دستور تھا) اور پھر اراکین سلطنت کو ان کی خدمات کے اعتراف میں خطابات دیئے جاتے تھے ، اس میں انہوں نے اصلاح کردی ، خطابات کی فہرست کم کردی، شاہی خاندان کے لئے “جاہ” کا خطاب مخصوص تھا، جیسے اعظم جاہ، ریاست کے ممتاز عہدہ داروں کو “جنگ “ پائیگاہ والوں کو “ دولۃ” اوراس سے کم درجہ رکھنے والوں کو “ملک “ جیسے مہدی یار جنگ ، لطف الدولۃ اور سلطان الملک ، عماد الملک ، ہندو عہدہ داروں کے لئے راجہ بہادر کا خطاب دیا جاتا تھا، دولت آصفیہ کے رزیڈنٹس کو بھی خطابات ملتے تھے ، کر سپٹرک کو حشمت جنگ ، موتمن الملک،افتخار الملک کا خطاب دیا گیا تھا، مسٹر رسل کو ثابت جنگ اور مسٹر مٹکاف کومنتظم الدولۃ کے خطا سے نوازا تھا، ان کے بعد یہ سلسلہ موقوف کردیا گیا ۔ ( آصف سابع میر عثمان علی خان او ران کا عہد طیبہ بیگم : 101236107،ادارہ ادبیات اردو)
اعلی حضرت کے دور حکومت میں سارے مذاہب باہمی پیار اور انسانیت کے رشتے میں منسلک تھے ، خود بے تعصب بادشاہ بلالحاظ مذہب وملت اپنی رعایاکے ساتھ دیکھ بھال کرتے تھے ، مذہبی تقاریب کے موقعوں پر انہیں مبارک بادی بھجواتے ، اور ان کی خوشیوں میں ساتھ رہتے ، “نوروز” کیموقع پر پارسیوں کے لئے انہوں یہ قطعہ قلم بند کیا
آج دنیا میں جو نوروز ہوا
حق میں ہر ایک کے فیروز ہوا
شام غربت یہی کہتی ہے سنو
نیک ساعات کا یہ روز ہوا
مسلمانوں کے لئے “ عید “ کے موقع پر انہوں نے مبارک بادبھجوائی
قدسیوں کی یہ صداآتی ہے پیہم عثمان
عید کا روز ہے مزدہ مسلمانوں کو
“ہولی “ کے رنگین ماحول میں ہندی میں انہوں نے اپنی ہندو ریاعاکے لئے کہا:
گلناری میں کو مات ہے پچکاری
گاگر میں کیسا رنگ بھرا ہے
وہ بھی کھرا زنگاری
سابع پیا تورے نین رسیلے
دار لگا یاسا کاری ۔ ( آصف سابع میر عثمان علی خان او ران کا عہد، طیبہ بیگم 136۔137،ادارہ ادبیات اردو)
خلاصہ یہ کہ آصف جاہ سابع کی پیدائش کے موقع سے ہندوستان کی اس تصویر کو پیش کرنا مقصود ہے جو مسلم دور حکمرانی میں ہوا کرتی تھی، مذہبی رواداری، یکجہتی اور بے تعصبی آصف جاہ سابع کی دور حکومت کا خاص وصف تھا، وہ ہر فرد انسان کو بے حیثیت انسان کے اس کا احترام کرتے تھے ، امیر غریب، چھوت چھاد ، بھید بھاؤ اور مذہبی منافرت کے لئے ان کے یہاں کوئی جگہ نہیں تھی، وہ بلا لحاظ مذہب وملت کے ہر شخص کو اپنی رعایا اور اپنے بچے مانتے تھے ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خوش حالی اس دور کا خاص وصف تھا، مسلمانوں کی طرح ہندوں کو بھی بڑے بڑے مناصب دیئے جاتے ، مسلمان مذہبی پیشواؤں کی طرح غیر مسلموں کے مذہبی پیشواؤں کا احترام بھی بجا لایا جاتا، بلا لحاظ مذہب ہر مسجد، درگاہ، تکیہ ، عاشور خانے ، مندر، کلیسا، گروارہ ہر ایک خصوصی امداد کی جاتی ، آصف سابع کا وصف یہ تھا کہ وہ اپنی رعایا کی خوشیوں میں ان کی شادی بیاہ او رمذہبی تقاریب میں کھلے دل سے شریک ہوتے ، مسرت وشادمانی کے ساتھ ماتمی اور غمی میں ان کا غم بانتٹے، میت کے ساتھ چند قدم چلتے ، انسانی ہمدردی ان کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا، اکثر یوں ہوا کرتا کہ میت کی تجہیز وتکفین کے مراسم بھی خود عثمان علی خان نے ادا کئے۔

***
رفیقِ تصنیف دار الدعوۃ والارشاد ، یوسف گوڑہ ، حیدرآباد
خادم تدریس دار العلوم دیودرگ
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Asaf Jah VII Mir Osman Ali Khan, the leader of Hindu Muslim unity. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں