سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -7 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-27

سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -7


Fall-of-Hyderabad-Pt-Sunderlal-Report
سقوط حیدرآباد کے ساتھ ہی جو قیامت صغریٰ برپا کی گئی اس کا جائزہ لینے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم ہند پنڈت جواہرلال نہرو نے پنڈت سندر لال کی قیادت میں ایک سہ رکنی وفد روانہ کیا تھا۔ اس وفد نے جو رپورٹ تیار کی تھی، اس کی چار قسطیں آن لائن "تعمیر نیوز" میں بحوالہ روزنامہ "اعتماد" فروری 2014 میں شائع کی گئی تھیں۔
چھٹی قسط کے بعد یہ آخری ساتویں قسط ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ریاستی کانگریس کے بارے میں کچھ اظہار خیال کریں ۔ ریاستی کانگریس ایک غیر فرقہ وارانہ جماعت ہے ۔ ہوسکتا ہے اور ہمارا یہ ایقان بھی ہے کہ اس جماعت سے وابستہ کچھ افراد فرقہ وارانہ تعصب رکھتے ہوں لیکن بلا شبہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کانگریسیوں کا ایک طبقہ امید وں پر پورا نہیں اتر سکا۔ پولیس ایکشن کے فوری بعد کئی واقعات میں کانگریسیوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کئی موقعوں پر وہ عملاً ایک متبادل نظم و نسق چلا رہے تھے ۔ حالانکہ یہ چیز انہیں زیبا نہیں دیتی۔ کئی مقامات پر ہم نے یہ شکایت سنی کہ کچھ لوگ مسلمانوں سے ربط پیدا کرتے ہیں۔ وہ مسلمان جنہوں نے گھر بار نہیں چھوڑا یا پھر وہ جو دوبارہ واپس آئے ان سے جبراً رقم وصول کی جاتی اور اس کے بدلے میں ان کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا جاتا ۔ ایک مقام پر ہمیں یہ بتایا گیا کہ اس طرح جو رقم اینٹھی جاتی ہے اس کے ہر روپے میں چار آنے مقامی پولیس کو جاتے ہیں، چار آنے وہ شخص کو جاتے ہں جو یہ پی سے اینٹھتا ہے اور مابقی آٹھ آنے کانگریسیوں کے حصے میں آتے ہیں ۔ ہم شاید اس طرح کی شکایتوں اور کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے لیکن ایک مقام پر ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے ہم سے خود کہا کہ کانگریسیوں کی اتنی شکاتیں ہیں کہ انہوں نے اس طرح جبراً وصولی کے ذریعہ نظم و نسق کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ ہم نے حیدرآباد میں کانگریس کے دو اہم قائدین کے سامنے یہ شکایتیں رکھیں۔ انہوں نے اس طرح کی شکایتوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ ایسی شکایتیں حیدرآباد میں کانگریس کے ہیڈ کوارٹر کو مل رہی ہیں۔ دولت مند کچی تاجروں کے ایک اہم ترین ٹاون میں ایک تاجر کی دکان لوٹ لی گئی اور جزوی طور پر اس کو جلا دیا گیا ۔ اسے اپنی تباہ دکان کی عمارت دوبارہ حاصل کرنے کے لئے مقامی کانگریسیوں کو پندرہ ہزار روپے کا چیک اور اس کے علاوہ دس ہزار روپے نقد ادا کرنے پڑے ۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ مسلمانوں کی قابل زراعت ترک کی ہوئی اراضیات کو کانگریسیوں نے ہراج کردیا۔ اسے مقامی ہندووں کو بطور تحفہ دیا گیا ۔ اس شرط پر یہ اس کی آدھی فصل کانگریسیوں کے حوالے کی جائے ۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ اس طرح کی نا انصافیوں سے نہ تو نظم و نسق کو مدد ملتی ہے اور نہ ہی اس کی ساکھ قائم ہوسکتی ہے ۔ ہمیں ہندوستانی فوج کے بارے میں کچھ کہنا ہے ۔ بہ حیثیت مجموعی بلا شبہ ہندوستانی آرمی نے میجر جنرل جے این چودھری کی قیادت میں بڑی شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ جنرل چودھری کو ہم نے کسی قسم کے فرقہ وارانہ تعصب سے پاک شخص پایا۔ انہوں نے دونوں طبقات کو پر امن رکھنے اور مساوات کو برقرار رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے اوراس کے بیشتر ماتحت عہدیداروں میں اسی جذبہ کے تحت کام کیا ہے لیکن یہاں ایک بار پھر بلا شبہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی فوج کا ایک طبقہ جو فرقہ وارانہ احساسات سے پوری طرح پاک نہیں ہے ۔ کئی مقامات پر مسلح افواج نے دیہاتوں اور ٹاونس سے مسلم بالغ مردوں کو باہر نکالا اور ان کا سفاکانہ قتل عا م کیا۔ کئی مقامات پر فوج نے ہندو ہجوم کو ترغیب دی کہ وہ مسلمانوں کے دکانوں اور گھروں کو لوٹ لیں۔ چند مقامات پر فوج بھی لوٹ مار میں شامل رہی ۔ ایک ضلع کے ٹاون میں نظم و نسق کے موجودہ ہندو سربراہ نے ہمیں یہ بتایا کہ ملٹری نے مسلمانوں کی دکانات کو بری طرح لوٹ لیا ۔ حتی کہ انہوں نے سرکاری عمارتوں کو بھی لوٹ لیا۔
ایک دوسرے ضلع میں سپاہیوں نے منصف کے گھر کو لوٹ لیا اور تحصیلدار کی بیوی سے دست درازی کی ۔ عورتوں کے ساتھ دست درازی ، لڑکیوں کیا غوا کی کئی شکایتیں ملٹری کے خلاف بالخصوص سکھ فوجیوں کے خلاف موصول ہوئیں ۔ یہ کوئی شاذو نادر واقعات نہیں ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر اس کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ لوٹ مار کے دوران عام طور پر جیسا کہ ہم کو بتایا گیا کہ کئی مقامات پر ملٹری نے نقدی سونا چاندی پر ہاتھ مارا اور دوسری چیزوں کو ہجوم میں بانٹ دیا۔
یہ واقعات فطری طور پر ریاست میں مسلم آبادی کے لئے مایوس کن ہیں۔ یہ تمام کم و بیش دہشت زدہ ہوگئے ۔ ایک اور بات جو تعلیم یافتہ مسلمانوں میں شکوک و شبہات کو پروان چڑھارہی ہے وہ پولیس ایکشن ے بعد سرکاری خدمات میں تبدیلی سے متعلق ہے ۔ پولیس ایکشن کے فوری بعد کئی مسلم عہدیداروں اور ملازمین نے عہدے چھوڑ دئیے اور کئی عہدیداران و ملازمین کو پچھلی حکومت کا ہمدرد سمجھتے ہوئے انہیں شک کے دائرہ میں رکھا گیا ۔ نئے تقررات میں تبدیلیاں فطری ہیں اور یہ بات بھی فطری ہے جو نئے تقرررات کئے گئے ہیں ان میں سے بیشتر ہندووں کے کئے گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو ریاست کے باہر سے یہاں لایا گیا ۔ حکومت جن پر بھروسہ کرسکتی ہے ان کا تقرر کرتی ہے لیکن یہ بات بھی مساویانہ طور پر فطری ہے کہ ایک تعلیم یافتہ مسلمان اس کے بارے میں شکوک و شبہات محسوس کرے گا۔ کئی ہندووں کو جو چھوٹے عہدوں پر تھے انہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز مسلمانوں سے اوپر کردیا گیا ۔ شک کی بنیاد پر کئی مسلمانوں کو خدمات سے معطل کیا گیا۔ کئی مسلمانوں سے کہا گیاکہ وہ رخصت پر چلے جائیں ۔ مسلم ملازمین سرکار کی ترقیات کو روک دیا گیا ۔ یہ بھی کہا گیاکہ ہائی کورٹ کے تین ججس کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیاگیا اور چیف جسٹس سے کہا گیا کہ وہ ہند یونین سے تعلق رکھنے والے ایک فاضل شخص کے حق میں اپنا عہدہ چھوڑ دیں اور خود بہ حیثیت جج خدمت انجام دیتے رہیں۔ نظم و نسق میں تبدیلی کے لئے ماضی اور حال کے عہدیداروں کی خدمات سے متعلق چند افراد ذمہ دار ہیں ۔ ہم نے بہت ہی احتیاط کے ساتھ اس کا مشاہدہ کیا ہیا ور اس کے بعد نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ ہم آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ ہم نے جو کچھ تمام دیکھا ہے اس کا مکمل خلاصہ اور اس کا ضمیمہ(اضافہ شدہ) کو بیان کیا ہے۔( اس سے متعلق چھ صفحات کا تسلسل جو واقعات سے متعلق ہے، اختتامیہ ایک دوسرے کے ساتھ۔۔۔ کمیٹی کے ارکان۔۔ نے قلمبند کئے ہیں۔)
پنڈت سندر لال کی اس کمیٹی نے جو خیر سگالی مشن کا ایک حصہ ہے، نے پولیس ایکشن 17ستمبر1948کو ہوا ہے۔ اس وقت جو حالات پنڈت سندر لال کمیٹی کی آمد( اواخر نومبر)تک ہوئی اس کے بارے میں کسی سرکاری ذرائع نے ضبط تحریر کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ ملک کی تقسیم کے وقت بر صغیر میں بڑے پیمانے پر ہنگامے ہوئے۔ مختلف مورخین نے ان ہنگاموں کو کتابوں کے صفحات میں قلمبند کیا ہے لیکن حیدرآباد کا المیہ20 ویں صدی کا ایک ایسا سیاہ باب ہے کہ جس کے بارے میں کوئی مسلمہ تاریخ نہیں لکھی گئی ۔ سقوط حیدرآباد کے بعد تعلیمی نصاب اور محققین نے جو کچھ بیان کیا ہے اس میں پچھلی حکومت کو قوم دشمن اور مسلمانوں کو مخالف کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ایسے دور میں جب کہ ذرائع ابلاغ کو اتنی وسعت نہیں تھی اس کے باوجود خود پنڈت سندر لال کے مطابق سابق ریاست حیدرآباد میں رضا کاروں کی سر گرمیوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا گیا کہ پورے ملک میں اس کے ذریعہ ہندووں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ دکن(حیدرآباد) میں ایک نیا پاکستان بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
پنڈت سندر لال کے مطابق رضا کار دراصل ایک سماجی تحریک تھی جو بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں اس نے ایک موقف اختیار کیا تھا۔ حیدرآباد کا یہ المیہ رہا کہ نہ تو اس کی کوئی حقیقی تاریخ مرتب کی گئی اور نہ ہی ہندوستانی فوج ، کانگریسی ، آریہ سماجی ، بیرون حیدرآباد سے آئے بالخصوص ناگپور،شولا پوروغیرہ سے تعلق رکھنے والے پنڈت سندر لال کے مطابق ایک فرقہ وارانہ ہندو تنظیم سے تعلق رکھنے والوں کے حیدرآبادی مسلمانوں پر کئے گئے جرم استبداد ، قتل عام، تبدیلی مذہب، عورتوں کی توہین اور بے شمار جرائم کی داستانوں کے بارے میں قلم خاموش ہیں ۔ پنڈت سندر لال کی یہ رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ کے برفدان میں پڑی ہوئی ہے ۔ اس رپورٹ کو آج تک عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔ چند ذرائعوںکی مدد سے یہ ر پورٹ باہر آسکی ۔ اس رپورٹ کو عوام اور قارئین ’اعتماد‘ تک پہنچانے صدرکل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی کا تعاون حاصل رہا ہے۔ آندھرا پردیش کے موجودہ علاقائی مسائل علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل جیسے معاملات میں حکومت ہند کی جانب سے تشکیل دئیے گئے گروپ آف منسٹرس سے مجلس اتحاد المسلمین نے جو نمائندگی کی ہے اس نمائندگی میں تحریراً پنڈت سندر لال کی اس رپورٹ کے حوالے دئیے گئے ہیں۔ اس حوالہ سے مجلس اتحاد المسلمین یہ بات بتانے کی کوشش کی گئی کہ ماضی میں جو کچھ حیدرآباد کے ساتھ ہوا اور حیدرآبادی عوام کے ساتھ ہوا اس کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔ او رمستقبل میں جب علاقائی معاملات کی یکسوئی کے لئے کوششیں جاری ہیں ایسے میں ماضی کے ان سیاہ واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے آنے والے کل کی تقدیر کو مرتب کریں۔


The Violent tale of Fall of Hyderabad by Pundit Sunderlal Report. part-7

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں