سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -6 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-04-26

سقوط حیدرآباد کی خون ریز کہانی - پنڈت سندرلال کی زبانی -6


Fall-of-Hyderabad-Pt-Sunderlal-Report
سقوط حیدرآباد کے ساتھ ہی جو قیامت صغریٰ برپا کی گئی اس کا جائزہ لینے کے لیے اس وقت کے وزیراعظم ہند پنڈت جواہرلال نہرو نے پنڈت سندر لال کی قیادت میں ایک سہ رکنی وفد روانہ کیا تھا۔ اس وفد نے جو رپورٹ تیار کی تھی، اس کی چار قسطیں آن لائن "تعمیر نیوز" میں بحوالہ روزنامہ "اعتماد" فروری 2014 میں شائع کی گئی تھیں۔
اب باقی 3 اقساط بھی ملاحظہ فرمائیں۔

ریاست کے 16اضلاع میں سے4اضلاع جن کے نام ہیں عثمان آباد، گلبرگہ، بیدر اور ناندیڑ شدید متاثر ہوئے ہیں۔ عثمان آباد ٹاؤن جو ضلع کا مستقر بھی ہے سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی با اعتبار معزز شخص جنہیں مخالف رضا کار سر گرمیوں کی وجہ سے پچھلی حکومت میں چھ مہینے جیل میں گزارنے پڑے، ہمارے کہنے پر عثمان آباد مستقر میں گھر گھر جاکر تحقیقات کی اور کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کی فہرست تیار کی ۔ افواہیں تو بڑے پیمانے پر چلتی رہیں لیکن اس معزز شخصیت نے جو فہرست تیار کی اس سے ہم مطمئن ہیں جس کے مطابق اس میں بتایا گیا کہ725کا قتل کیاگیا اور 190دوسرے لاپتہ ہوئے ۔ لاپتہ افراد کی اکثریت کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ انہیں بھی قتل کردیا گیا ہوگا۔ لاتور ٹاون جو اسی ضلع میں واقع ہے کافی شدید متاثر رہا۔ چند عینی شاہدین نے ہمیں بتایا کہ لاتور میں2000اور2500کے درمیان مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے ۔ ہمارے سامنے جو شواہد رکھے گئے تھے ان تمام کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ لاتور مستقر اور اس کے قریبی نواحی علاقوں میں کم از کم ایک ہزار مسلمانوں کا قتل کیا گیا ۔ لاتور ایک بہت بڑا تجارتی مرکز ہے۔ یہاں کئی بڑے کچی تاجر ہیں۔ یہاں کی مجموعی مسلم آبادی تقریباً دس ہزار تھی لیکن جب ہم نے اس ٹاؤن کا دورہ کیا ہے ۔3000لوگوں کا ہم نے تخمینہ کیا ہے ۔ ان میں سے کئی اپنی زندگی کو بچانے راہ فرار اختیار کرچکے ہیں۔ یہاں بیس دن تک قتل عام جاری رہا۔ موضع مورم کا نمبر تیسرا آتا ہے ۔ کانگریس کے ایک ہندو کارکن کے مطابق اس موضع میں لگ بھگ چار سو اموات ہوئی ہیں جب کہ مسلمانوں نے یہ تعداد تقریباً1000بتائی ہے ۔ ضلع میں1500جملہ دیہاتوں کے منجملہ صرف چند ایک غیر متاثر رہے ۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ان ضلاع میں5500اور10000کے درمیان مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ قتل عام میں شدید متاثرہ ضلع کے اعتبار سے ہمیں موصول شواہد کی بنیاد پر گلبرگہ کا نمبر دوسرا آتا ہے ۔ ہم ان تفصیلات میں جانا نہیں چاہتے کہ ضلع کے مختلف مقامات پر کتنی تعدادکو کاٹا گیا۔ ہم ضلع گلبرگہ میں کی گئی مجموعی ہلاکتون کے بارے میں کہنا چاہتے ہیں جو5000اور 8000کے درمیان ہونی چاہئے ۔ ہم نے تعداد کا تخمینہ ہندووں اور کانگریس کی جانب سے دی گئی معلومات سے لگایا ہے ۔
ضلع بیدر بھی اتنا ہی متاثر ہوا جتنا گلبرگہ۔
چوتھا ضلع ناندیڑ ہے ۔ جہاں ہمارے تخمینہ کے مطابق2000اور4000کے درمیان جملہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
جہاں ہم ہلاکتوں کے بارے میں کہہ رہے ہیں ان میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں بلکہ صرف وہی لوگ شمار کئے گئے ہیں جن کا سفاکانہ قتل کیا گیا ہے ۔
اورنگ آباد ضلع مستقر کا ایک اچھے اور طاقتور ملٹری عہدیدار نے قبضہ حاصل کیاتھا ۔ ان کی کوششوں خی وجہ سے ٹائن کو بچایا جاسکا ۔ ٹاؤن میں ملٹری کے اس عہدیدار کا طرز عمل کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ بہت غیر معمولی تھا ۔ اور انہوں نے جو اقدامات اٹھائے وہ بہت متاثر تھے۔ لیکن وہ ضلع1000اور اس سے زائد دیہاتوں کو بچا نہ سکے ۔ ہمارے اندازے کے مطابق اورنگ آباد ضلع میں2000تا3000کے درمیان ہلاکتیں ہوئی ہیں ۔
اس کے بعد ضلع بیڑ کا نمبر آتا ہے ۔ ہمیں دستیاب شہادتوں کے تنقیح کے بعد ضلع میں کی گئی ہلاکتوں کا تخمینہ1000تا1500کے درمیان ہوگا۔
ہم نے مزید دو اضلاع نلگنڈہ اور میدک کا دورہ کیا۔ دیگر علاقوں کے جہاں کا اہم نے دورہ کیا ہے یہ دو اضلاع کم متاثر ہوئے ہیں۔ نلگنڈہ کے چند دیہاتوں کا ہم نے دورہ کیا۔ جن علاقوں کا ہم نے دورہ کیا یا جن علاقوں کے بارے میں ہم نے ثبوت اکٹھا کئے وہاں جملہ ہلاکتیں ایک اندازہ کے مطابق پانچ سو تا چھ سو کے درمیان ہوگی اور سارے ضلع میں ہلاکتوں کے جو اعداد و شمار ہوں گے بہت محتاط طریقہ پر کم از کم ایک ہزار۔ ضلع میدک میں ہم صرف پانچ دیہاتوں کا دورہ کرسکے جو ہمارے سفر کے دوران سڑک سے لگے تھے ۔ ان دیہاتوں میں صرف تیس ہلاکتوں کا تخمینہ کیا گیا ہے ۔ ہم نے ضلع کے دیگر علاقوں بشمول میدک مستقر کے بارے میں شواہد حاصل کئے ہیں اور اموت کی جملہ تعداد45بتائی جاتی ہے ۔ہمیں یہ بتایا گیا کہ ضلع میں تقریبا1500دیہات ہیں ۔ اور ان میں سے چند غیر متاثر رہے ۔ سارے ضلع میں جہاں تک ہلاکتوں کا سوال ہے محتاط طریقہ پر1000ہوگی۔ پس اس طرح8اضلاع میں جہاں ہم نے دورہ کیا ہے ہلاکتون کا تخمینہ تقریبا23000اور36000کے درمیان ہونا چاہئے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چار اضلاع، عثمان آباد ،گلبرگہ، بیدر اور ناندیڑ شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہ اضلاع رضا کار کے طاقتور گڑھ بتائے جاتے ہیں۔ لاتور وہ ضلع ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بتایا ہے کہ قاسم رضوی کا اس سے تعلق ہے ۔ ہم نے ان کے اجڑے ہوئے گھر کو بھی دیکھا ہے ۔
ریاست کے دیگر7اضلاع(مستقر حیدرآباد کے اطراف بلدہ کو شمار نہ کرتے ہوئے ریاست کے16اضلاع کے بارے میں) ہم نے جو شواہد حاصل کئے ہیں ان میں چار اضلاع، پربھنی ، ورنگل عادل آباد، اور نظام آباد شامل ہیں۔ دیگر تین اضلاع جن کے نام ہیں رائچور ، کریم نگر اور محبوب نگر نسبتاً پرسکون رہے لیکن مکمل طور پر غیر متاثر نہیں۔ بہت ہی معقول اندازہ کے مطابق ریاست میں جملہ ہلاکتوں کا تخمینہ تیس ہزار اور چالیس ہزار کے درمیان کیاجاسکتا ہے ۔ کسی بھی صورت میں یہ پچیس ہزار سے کم نہیں ہوسکتے ۔
ہلاکتوں کے سلسلہ میں ہم چند مزید واقعات کو یہاں رکھنا چاہتے ہیں ۔ دہشت کے عالم میں مسلم آبادی ریاست کے مستقر علاقوں اور ان دیہاتوں کی طرف جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں فرار ہونے لگی۔ اس فرار ہوتی ہوئی آبادی کو دوران راستہ اور جنگلوں میں بڑے پیمانے پر قتل کیا گیا ۔ کئی مقامات پر ہم نے کنویں اور باولیاں دیکھی ہیں جو لاشو سے بھری پڑی تھیں اور لاشیں سڑ چکی تھیں۔ لاشوں سے بھرے ایک کنویں کو ہم نے دیکھا جہاں گیارہ لاشیں تھیں ان میں ایک عورت کی لاش بھی تھی اور اس عورت نے اپنے شیر خوار کو اپنی چھاتیوں سے لگا رکھا تھا ۔ ایک اور مقام پر ہم نے دیکھا کہ بے شمار نعشوں پر مٹی ڈال دی گئی۔ ہم اس علاقہ کا معائنہ کرکے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی سفاکی سے یہاں قتل عام کیا گیا ہے۔ ظلم اور جبر اور سفاکانہ قتل عام کا یہ ناقابل تردید ایک مکمل ثبوت ہے ۔ ہم نے ایسے کنویں دیکھے جو لاشوں سے بھرے تھے ۔ کئی گڑھون میں نعشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کئی مقامات پر جلی ہوئی نعشیں ملیں ۔ اور ہم نے دیکھا کہ جلی ہوئی ہڈیاں اور جلی ہوئی کھوپڑیاں میدانوں میں پڑی ہوئی ہیں۔ ان مقامات پر ہم نے وہاں مہلوکین کی بیواؤں کی آہ و بکا سنی۔ ان بے یارومددگار عورتون اور ان کے بچوں کے سامنے ان کے خاندانوں کے مرد افراد کا قتل کیا گیا اور قتل کرنے کے بعد ان کی نعشوں کو جلایا گیا ۔ ہم نے آہ و بکا کرنے والے ان عورتوں کو تسلی دینے کی کوشش کی اور ان سے کہا کہ ان کی اس تمام بد بختی کی مہ دار ان کے ہم مذہب ان تمام لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنہوںنے پچھلی حکومت میں ہندووں کو دہشت زدہ کردیا تھا ۔ ہم نے انہیں یقین دلایا کہ نئی حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہندو اور مسلمان مل کر رہیں۔ ایک بار پھر پر امن طریقہ سے اچھے پڑوسی کی طرح بھائیوں کی طرح زندگی گزاریں ۔
جہاں تک لوٹ مار کا سوال ہے قتل عام سے کہیں زیادہ لوٹ مچائی گئی ہے ۔ ہم نے بے شمار مقامات کا معائنہ کیا اور کئی ایسے مالدار تجارتی مراکز دیکھے جہاں مرفع حال کچی و دیگر مسلم تاجران اور صنعت کار رہتے تھے۔ یہ تمام عملی طور پر نیست و نابود ہوگئے۔ عام اور غریب تر مسلمان کی حالت تو ان سے کہیں بد تر ۔ ہم نے جو کچھ دیکھا بنا کسی مبالغہ آرائی کے ریاست کے ایک بڑے حصہ میں تمام مسلمانوں کی معاشی زندگی تہس نہس ہوکر رہ گئی ۔ ہزاروں قلاش کردئیے گئے ۔ ہزاروں گھروں کے چھت اکھاڑ دئیے گئے، دروازے نکال دئیے گئے اور ان گھروں کا سامان لوٹ لیا گیا ۔ ہمارے سامنے جو شہادتیں ملی ہیں ہم ان کی تفصیلات میں یہاں جانا نہیں چاہتے ۔ لیکن یہ یقین ہے کہ جو املاک لوٹ لی گئی ہے یا تباہ کردی گئی ہے ۔ ان کا تخمینہ کروڑہا روپے کیاجاسکتا ہے ۔
کئی مقامات پر آتشزنی ایک معمول بن گئی ۔ عورتوں کے خلاف جرائم بہت عام تھے ۔ ہمارے پاس اس بات کے ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ کئی مقامات پر عورتوں نے اپنی عزت و عصمت بچانے کنووں میں چھلانگ لگا دی۔ کئی مقامات پر ایسا ہوا کہ عورتوں نے اپنے بچوں کو پہلے کنویں میں پھینکا اور اس کے بعد خود چھلانگ لگا دی ۔
کئی مقامات پر عورتوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکالا گیا ۔ انہیں کئی دنوں تک رکھ کر ان میں سے چند کو ان کے گھر واپس بھیج دیا گیا ۔ ہم جہاں جہاں گئے ان تمام اضلاع میں یہ واقعات ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ چند مسلم عورتیں اب بھی ہندووں کے گھروں میں ہیں۔ کئی مقامات پر مسلمانوں کی جائیدادیں ، مسلمانوں کے گھروں پر ہندو غیر قانونی طور پر قابض ہیں۔ مسلمانوں پر ہندو تسلط بنائے ہوئے ہیں۔ ہم نے ریاستی انتظامیہ سے کہا کہ ایسی غیر منقولہ جائیدادیں اور ایسی عورتوں کو مسلمانوں کو واپس دلانے کے عاجلانہ اقدامات کئے جائیں ۔ منقولہ لوٹی ہوئی املاک جائیداد نہ بھی دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن غیر منقولہ جائیدادوں اور عورتوں کی واپسی کو یقینی بنایاجائے ۔
جہاں تک زبردستی تبدیلی مذہب کی بات ہے یہ عام طور پر دیکھی گئی ہے ۔ ہم جہاں جہاں گئے ان تمام علاقوں میں جبری تبدیلی مذہب کیا گیا۔ محلہ کے تمام بالغ مردوں کو قتل کرنے کے بعد جو عورتیں اور بچے بچ گئے ہیں انہیں ہندو عقیدہ قبول کرنے کی ترغیب دی گئی ۔ ہم نے سینکڑوں مسلم عورتوں کو دیکھا جنہیں زبردستی ان کے جسم پر اور پیشانیوں پر ہندو ہونے کا نشان لگایا گیا۔ جس طرح قدامت پسند ہندو رہتے ہیں انہیں اسی طرز پر ان عورتوں کو نشان لگائے گئے ہیں ۔ یہ نشان تبدیلی مذہب کی علامت ہوتے ہیں ۔ ان میں سے چند کے ہندو نام بھی دئیے گئے اوران کے بازووں پر گہرے ٹٹو نشانات پوست کردئیے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ کئی لڑکوں کے کان چھید دئیے گئے ہیں۔ انہیں ہندو بنانے کے لئے اس طرح کی علامت کی گئی ہے ۔ داڑھیاں نکالی دی گئیں۔ سروں کے بال نکال کر ہندو علامتی چوٹی رکھی گئی ہے ۔ ہم نے ان مسلمانوں کی گردن کے اطراف ہندووں کے مقدس دھاگے کو دیکھا۔ کئی مقامات پر ہمیں یہ بتایا گیا کہ چند منتری جی( وزراء) ایک مقام سے دوسرے مقام کوگھومتے ہوئے بے یارومددگار مسلمان عورتوں اور بچوں کو ہندو بنارہے ہیں ۔ انہیں ہندو دھرم میں داخل کرتے ہوئے ان کے جسم پر مقدس دھاگہ لگا رہے ہیں وغیرہ۔
بنا کسی استثنیٰ کے ہم اس بات کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہندووں کے مکانات میں اب بھی جو مسلم عورتیں ہیں ان کو وہاں سے نکالا جائے اور زبردستی جن تمام کی تبدیلی مذہب کیا گیا ہے اس عمل کو بالکل کالعدم قرار دیاجائے۔
ایک اہم ٹاؤن میں ہمیں یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ ایک اہم آریہ سماجی نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ اس نے مقامی آریہ سماجی مندر کو ایک سب جیل بنادیا۔ اپنی ہی ایماء پر وہ اپنے علاقہ اور متصل دیہاتوں سے مسلمانوں کو گرفتار کرتا اور انہیں اپنی بنائی ہوئی جیل میں ٹھونستا ۔ انہیں چار پانچ دن اس سب جیل میں رکھا جاتا اور جو لوگ پیسے دیتے انہیں وہ رہا کردیتا۔ اور جو نہیں دیتے یہ کہہ کر یہ رضا کار انہیں پولیس کے حوالے کرتا۔ ،یہ سلسلہ ایک مہینے سے زیادہ جاری رہا ۔ یہ جگہ اگر بس نہیں ہوتی تو یہ آریہ سماجی اپنے علاقہ کی دیگر عمارتوں کو اس مقصد کے لئے حاصل کرتا ۔ ہم نے ان مقامات کا معائنہ کیا اور عمارتیں دیکھیں اورجائے مقام پرپہنچ کر معلومات بھی حاصل کی ۔ چند علاقوں میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ متاثرین کو ان عمارتوں سے نکال کر قریبی مندروں میں منتقل کیا گیا اور بعد میں مقدس فریضہ کے نام پر ان کا خاتمہ کردیا گیا۔‘‘


The Violent tale of Fall of Hyderabad by Pundit Sunderlal Report. part-6

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں