مغنی تبسم - ایک منفرد اور مختلف شخصیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-15

مغنی تبسم - ایک منفرد اور مختلف شخصیت

mughni-tabassum
پروفیسر مغنی تبسم
پیدائش : 13/جون 1930 (حیدرآباد)
وفات: 15/فروری 2012 (حیدرآباد)

26-27 فروری 1999 کو نمائش کلب، حیدرآباد میں "جشن اعتراف خدمات پروفیسر مغنی تبسم" منایا گیا اور اس ضمن میں 70 صفحات کا اہم، معلوماتی اور دیدہ زیب سوونیر شائع کیا گیا تھا ۔۔۔۔ اس سوونیر کے اداریے میں پروفیسر بیگ احساس لکھتے ہیں:
پروفیسر مغنی تبسم اردو دانشوری کا ایک تسلسل ہیں۔ وہ ایک سنجیدہ، باوقار اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ساری اردو دنیا میں ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ ایک شاعر، نقاد، استاد، اسکالر، مدیر، اردو تحریک کے سرگرم کارکن اور اچھے منتظم ہیں۔
پہلی کرن کا بوجھ، مٹی مٹی میرا دل، آواز اور آدمی، لفظوں سے آگے، فانی - حیات شخصیت اور شاعری، سب رس اور شعر و حکمت کے ذریعے انہوں نے ادب کے گلوب پر حیدرآباد کا نام نمایاں کیا۔
پروفیسر مغنی تبسم نے ہمیشہ اپنے ذہن و دل کی کھڑکیاں کھلی رکھیں۔ ادب کے بدلتے ہوئے رجحانات کا کھلے دل سے استقبال کیا اور کبھی انتہاپسندی کا شکار نہیں ہوئے۔ اپنے معقول و معتدل رویے کے باعث وہ آج حیدرآباد کی سب سے محبوب شخصیت ہیں۔ مخدوم اور سلیمان اریب کے بعد حیدرآباد کے ادبی ماحول میں جو خلا پیدا ہوا تھا اسے بڑی حد تک مغنی تبسم صاحب نے پورا کیا۔
پروفیسر مغنی تبسم حرکت و عمل کے فلسفے پر ایقان رکھتے ہیں۔ وہ ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ ادارہ ادبیات اردو کے معتمد عمومی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے ادارے کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ ڈاکٹر زور کے مسن کو وہ پوری جاں فشانی سے پورا کر رہے ہیں۔
تقاریب اعترافِ خدمات کے سلسلے میں اس سوونیر کی اشاعت عمل میں آ رہی ہے۔ اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ اس مختصر سے سوونیر میں ان کے فن اور شخصیت کے تمام پہلو ابھر کر آئیں۔ ویسے اس بحرِ بےکراں کو سمیٹنا ایک شیریں دیوانگی ہی تو ہے۔

سوونیر میں عوض سعید ، خالد قادری اور ڈاکٹر بیگ احساس کے تحریرکردہ خاکے جہاں شامل ہیں وہیں مغنی تبسم کی تہنیت میں شہریار، رحمٰن جامی، حمید الماس، ڈاکٹر سید حسن، ڈاکٹر محمد علی اثر اور ڈاکٹر ایم۔صفدر علی بیگ کی منظومات بھی شائع کی گئی ہیں۔
تابش دہلوی، شمس الرحمن فاروقی، آزاد گلاٹی، مشفق خواجہ، مرزا خلیل احمد بیگ، محمد علوی، بلراج کومل اور نیر مسعود کے مغنی تبسم کو تحریرکردہ خطوط شامل ہیں اور روزنامہ جنگ کراچی میں شائع شدہ وہ انٹرویو بھی نقل کیا گیا ہے جو حسن رضوی نے مغنی تبسم سے لیا تھا۔
سوونیر میں مغنی تبسم کی 10 غزلیں ، 7 نظمیں ، ماہنامہ 'سب رس' کے تین اداریے، نسائی تنقید پر ایک مضمون اور ن۔م۔راشد کی نظم 'مرگ اسرافیل' کا تجزیہ بھی شامل کیا گیا ہے۔

ذیل میں ڈاکٹر بیگ احساس کا تحریر کردہ مضمون پیش خدمت ہے۔

مغنی تبسم صاحب ایک منفرد ORIGINAL اور مختلف DIFFERENT شخصیت کے مالک ہیں۔ مجھے ان کا یہی انوکھا پن بہت متاثر کرتا ہے ۔ مجھے دوسروں سے مختلف لوگ اچھے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ جو کسی کی تقلید نہیں کرتے ، جن کی شخصیت میں کسی کا پرتو نہیں ہوتا۔ جن کی سوچ کا زاویہ نیا ہوتا ہے ، جو اپنا راستہ آپ بناتے ہیں۔ مغنی صاحب کو میں نے مختلف کہاتو یوں ہی نہیں کہہ دیا۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ دوسروں سے کتنے اور کہاں کہاں مختلف ہیں لیکن میری یہ مجبوری ہے کہ میں وہی بتا سکوں گا جو میں نے دیکھا ہے میں نے انہیں بہ حیثیت استاد دیکھا ہے ۔ ان کے رفیق کار کی حیثیت سے شعبہ ٔ اردو میں چھے برس ساتھ کام کیا ہیا ور ادبی انجمن حیدرآباد لٹریری فورم کے وہ صدر اور میں معتمد عمومی رہا۔ بہ حیثیت طالب علم میں نے انہیں دیکھا تو وہ اردو کے دوسرے اساتذہ سے بالکل مخٹلف لگے۔ اس لئے نہیں کہ شیروانی زدہ ماحول میں وہی ایک استاد تھے جو سوٹ پہنا کرتے تھے بلکہ ان کے پڑھانے کا انداز بھی منفرد تھا۔ وہ بہت رک رک کر دھیرے دھیرے بولتے ہیں۔ نہ لہجے میں اتار چڑھاؤ نہ چہرے پر تاثرات ، نہ ہاتھوں کو حرکت نہ ابرؤں میں جنبش، بس بولتے چلے جاتے ہیں جیسے پتھر پر پانی کی بوند مسلسل گر رہی ہو۔ ان کا یہ لکچر ان طالب علموں کے لئے کارکرد ثابت ہوتا ہے جو ادب سے واقفیت رکھتے ہوں۔ وہ موضوع سے ہٹ کر کبھی نہیں بولتے، نہ غیر متعلق باتوں میں وقت صرف کرتے ہیں۔ مغنی صاحب کی گفتگو، لکچر اور تقریر میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا البتہ علمیت سب میں ہوتی ہے ۔

ایم۔ اے کرنے کے بعد حیدرآباد یونیورسٹی میں پی ایچ ۔ ڈی کے لئے داخلہ ملا۔ اپنے مقالے کے موضوع کے انتخاب کے لئے میں مغنی صاحب کے پاس پہنچا۔ بہت دیر تک سوچ میں مستغفر ق رہنے کے بعد کہا۔۔۔۔۔’اردو ناول پر کافکا کا اثر" پر کام کیجئے ۔ یہ موضوع اتنا مختلف تھا کہ گیان چند جی نے کہا میں اس موضوع پر کام کروانے کا اہل نہیں ہوں چناں چہ مجھے کرشن چندر پر کام کرنا پڑا ۔ اس موضوع پر کام نہ کرپانے کا افسوس مجھے آج تک ہے۔ ان دنوں حیدرآباد یونیورسٹی میں اساتذہ کے باضابطہ تقررات نہیں ہوئے تھے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے اساتذہ پارٹ ٹائم کلاس لیا کرتے تھے ۔ جین صاحب نے مغنی صاحب کی خدمات حاصل کیں۔ مغنی صاحب ٹھیک وقت پر اپنی سرخ آسٹن میں ناز مرحومہ کے ساتھ یونیورسٹی آتے، گولڈن تھریشولڈ کی مختصر سی عمارت میں یونیورسٹی تھی ۔ جب تک مغنی صاحب کلاس پڑھاتے ناز مرحومہ کار میں بیٹھی ہوتیں یا لائبریری میں چلی جاتیں طلبہ مغنی صاحب ، ان کی بیگم اور گاڑی کے بارے میں پراسرار باتیں کرتے۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا ، ہم اپنے معاملات سے زیادہ دوسروں کے معاملات میں دلچسپی کیوں لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سوچتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جین صاحب مغنی صاحب سے بہت متاثر تھے جدید ادب کے بارے میں ان کی معلومات کے معترف تو تھے ہی انہیں بہ حیثیت شاعر بھی تسلیم کرتے تھے ۔ حیدرآباد یونیورسٹی میں اردو ایسوسی ایشن بنی تو ہم نے جین صاحب سے مشاعرے کی بات کی ۔ انہوں نے کہا حیدرآباد میں شاعر کون ہے ؟ ایک شاذ تمکنت دوسرے مغنی تبسم ۔ شفیق فاطمہ شعری کو میں نے صرف پڑھا ہے ان سے ملا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کچھ لوگ مغنی صاحب کو شاعر کی بجائے صرف نقاد تسلیم کرتے ہیں اور ان کے خلاف مہم چلاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے ۔

بہ حیثیت لکچرار عثمانیہ یونیورسٹی آیا اور پھر آرٹس کالج میں پوسٹنگ ہوئی تو مغنی صاحب کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ مغنی صاحب ٹھیک وقت پر کالج آجاتے ۔ ان کے آتے ہی چپراسی تھرماس لے کر نکل جاتا ۔ ان کے لئے چائے اور سگریٹ لے آتا۔ مغنی صاحب نے کمرے کے آخری گوشے میں ایک حصہ مطالعے کے لئے مختص کرلیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔بریف کیس کھول کر وہ مصروف ہوجاتے ، پورے چھے برس میں ان کے ساتھ رہا میں نے کبھی انہیں بے کار نہیں دیکھا ۔ اسی مخصوص گوشے میں مصروف رہتے ۔ سامنے والے حصے میں وہ کلاس لیاکرتے ۔ کبھی طلبہ کی تعدا د زیادہ ہو تو کلاس روم چلے جاتے ۔ مغنی صاحب اصول کے پابند ہیں کہیں کسی میٹنگ میں شرکت کرنی ہو ، ریڈیو یا ٹی ، وی ریکارڈنگ ہو کسی وجہ سے کالج آنے میں تاخیر کا اندیشہ ہو ۔ وہ قبل از وقت صدر شعبہ کو مطلع کردیتے ۔ کالج سے لوٹتے ہوئے بھی صدر شعبہ کو بتا کر جاتے ۔ مغنی صاحب نہ کسی صدر شعبہ کے لئے مسئلہ بنے اور نہ خود بہ حیثیت صدر شعبہ کسی کے لئے مسئلہ کھڑا کیا۔
مغنی صاحب چائے کے عادی ہیں۔ جب تک شعبہ میں رہتے ہیں چپراسی کو احکام دیے گئے تھے کہ تھرماس خالی ہوتے ہی اسے بھردیاجائے ۔ چائے میں بھی تنوع کے قائل ہیں۔ کبھی کینٹین کی چائے آتی تو کبھی اٹنڈر اپنے گھر سے بنوا کر لاتا ۔ کبھی ڈکاکشن تھرماس میں لے آتے اور اس میں لیمو کا رس ملا کر پیش کرتے۔ کبھی صرف گرم پانی لے آتے اور اس میں ٹی بیاگ ڈبو کر چائے پیتے اور پلاتے ۔ لوگوں کی بوکھلاہٹ اور حیرت سے لطف اندوز ہوتے اور ہلکے سے مسکرا دیتے جیسے ان کا مقصد حل ہوگیا ہو۔ سگریٹ کے سلسلے میں یہی ہوتا ۔ سیدھے سادھے سگریٹ استعمال کرتے کرتے پائپ یا سگار پینا شروع کردیتے ۔ کبھی پیپر سے سگریٹ بنالیتے ۔ میںنے انہیں بیڑی پیتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔
لباس کے سلسلے میں یہی کیا۔ عام طور پر لوگ پروفیسر ہونے کے بعد سوٹ پہننا ضروری سمجھ لیتے ہیں ۔ مغنی صاحب نے پروفیسر ہونے کے بعد سوٹ پہننا ترک کردیا۔ تقلید کرنے والے حیران رہ گئے ۔ اب بعض خاص موقعوں پر جودہ پوری کوٹ پہنتے ہیں ۔ جودہ پوری کوٹ ہر جسم پر سجتا نہیں اس لئے تقلید کرنے والے گومگو کیفیت میں ہیں۔

ادب میں بھی یہی رویہ ہے۔۔۔۔۔۔ ان کے نظریات میں تبدیلی آتی رہتی ہے ۔ پہلے وہ ترقی پسند تھے اور کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے لیکن بعد میں ان کے ہاں تبدیلی آئی۔ مغنی صاحب اگر نہ ہوتے تو حیدرآباد میں ترقی پسند تحریک سے انحراف کی جو بنیاد سلیمان اریب اور وحید اختر ڈال گئے تھے وہ اتنی ترقی نہ کرتی ۔ جدیدیت کے رجحان کو فروغ دینے میں اور پوری ایک نسل جدید لکھنے والوں کی تیار کرنے میں مغنی صاحب کا اہم رول ہے اور تو اور روایتی انداز میں برسوں سے لکھنے والوں کو بھی انہوں نے جدید انداز اختیار کرنے پر مجبور کردیا ۔ جس کی ایک مثال عوض سعید ہیں جنہوں نے بہت اچھی جدید کہانیاں لکھیں ۔ مغنی صاحب جدید شاعری اور جدید افسانے کا اتنی خوب صورتی سے تجزیہ کرتے تھے کہ خود فن کار کی وقعت اس کی اپنی نظر میں اونچی ہوجاتی ۔ وہ خود کو کچھ سمجھنے لگتا۔ اب ادھر پھر ایک تبدیلی آئی ہے۔ وہ مہمل قسم کی تجریدی تحریروں کی مخالفت کرنے لگے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اب اگر ترقی پسندی باقی نہیں رہی تو جدیدیت بھی باقی نہیں ہے ۔ پھر ایک بڑا گروپ مغنی صاحب کی اس بات کو تسلیم کرنے لگا ہے ۔ مغنی صاحب کی جدت اور دوسروں کی تقلید کا یہی فرق ہے کہ مغنی صاحب بہت سوچ سمجھ کر کوئی موقف اختیار کرتے ہیں اور پھر اس کی بھرپور مدافعت بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو قائل بھی کرتے ہیں ۔

تحقیق کے معاملے میں بھی سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے ۔ ان کی نگرنی میں وظیفے سے قبل ایک اور وظیفے کے بعد دو پی ایچ۔ ڈی ہوئے۔ ان میں جنہوں نے پی ایچ ۔ ڈی مکمل کرلی ان کے مقالے اور موضوعات مغنی صاحب کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ جو پی ایچ ۔ ڈی کے مقالے ادھورے رہ گئے ہیں وہ عین مغنی صاحب کے مزاج کے مطابق تھے ۔ ایک مقالہ وہ ن ۔ م۔ راشد پر لکھوا رہے تھے دوسرا میرا جی پر ۔۔۔۔ دونوں ہی مکمل نہ ہوسکے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ مغنی صاحب نے ا پنے اسکالروں کی ہر طرح مدد کی حتی کہ اپنی لائبریری اور مکان کی کنجی تک ایک اسکالر کو سونپ دی کہ وہ فرصت کے اوقات میں اور یکسوئی کے لئے ان کے مکان اور لائبریری سے بھرپور استفادہ کرے ۔لیکن ان کا وہ اسکالر جو خیر سے اب پروفیسر ہے زیادہ تر ان کے فریج سے استفادہ کرتا رہا ۔۔۔ آج بھی ن۔ م۔ راشد پر کام مکمل نہیں ہوا ۔ اس خواہش کی تکمیل مغنی صاحب نے اس طرح کی کہ شعرو حکمت کا ایک نمبر ن۔ م۔ راشد پر شائع کردیا ۔ پھر شعروحکمت کے دوسرے دور میں انہوں نے میرا جی پر گوشہ شامل کیا۔
تدریسی تحقیقی سے شاکی ہیں ۔ اس کے لئے اسکالروں سے زیادہ اساتذہ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔ ایک بات کہنے لگے ہمارے اساتذہ نے تحقیق کی بد خدمتی کی ہے ۔ ایک مقالے کا عنوان ہوتا ہے ، ڈاکٹر زور اور ان کے رفقا" دوسرے مقالے کا عنوان "رفقا اور ان کے ڈاکٹر زور" ہوتا ہے ۔ پھر انہوں نے لطیفہ سنایا کہ ایک وائس چانسلر تھے جنہیں اچانک تنقیح کرنے کا شوق تھا ۔ نظام کالج پہنچے اور لیب جاکر ایک اسکالر سے دریافت کیا"آپ کیا کام کررہے ہیں؟ اسکالر نے جواب دیا میں موز کے پتے سے کاغذ بنانے کے امکانات پر ریسرچ کررہا ہوں ۔ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ کیے جائیے، کیے جائیے۔۔۔ دوسرے کالجس پر اطلاع پہنچی کہ وائس چانسلر کالجس کا معائنہ کررہے ہیں ۔ سب پہلے ہی سے تیار ہوگئے ۔ سیف آباد کالج جاکر انہوں نے سائنس کے ایک اسکالر سے وہی سوال کیا کہ وہ کیا تحقیق کررہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جواب دیا:"سر میں کاغذ سے موزکا پتہ بنانے کے امکانات پر ریسرچ کررہا ہوں۔ وی ۔ سی صاحب خوش ہوئے اور کہا کہ کیے جائیے۔۔۔۔کیے جائیے"کہنے لگے ہماری ریسرچ کا بھی یہی حال ہے ۔
میںنے لکھا ہے کہ وہ چونکانے کے عادی ہیں۔ کالج میں ہم سب اکٹھے لنچ کرتے۔ لنچ کے بعد چائے کے دوران ادھر ادھر کی گفتگو ہوتی۔ لنچ کے دوران پروفیسر صاحبان نے مغنی صاحب کو بڑے فخر سے یہ بات بتائی کہ وہ دونوں صبح Walkingکرنے لگے ہیں۔
مغنی صاحب نے پوچھا اس سے کیا ہوتا ہے ؟
"عمر بڑھتی ہے۔" دونوں نے یک زبان کہا۔
کہنے لگے" اتنی ہی عمر بڑھتی ہے جتنا چہل قدمی میں وقت ضائع ہوتا ہے ۔"
دونوں مایوس ہوگئے پھر پوچھا۔
"اچھا تو پھر طویل عمر پانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟"
مغنی صاحب نے کہا:" افیون استعمال کیجئے ۔"

لنچ کے بعد اکثر پرانے قصے سنایا کرتے ۔ ایک بار بتایا کہ انہیں روحیں بلانے کا شوق تھا ۔ انہوں نے احباب کے سامنے باضابطہ روحوں کو بلایا ہے ان کا معمول "ناظم القعاد" تھا جس کے ذریعے وہ مطلوبہ روحوں کو بلاتے ۔ کبھی کبھی اس میں گڑ بڑ ہوجاتی۔ ایک بار وہ کسی دوست کے مرحوم باپ کو بلانا چاہتے تھے لیکن مشہور ناولسٹ کی بیوی"سلومی وافیکا کی روح آگئی ۔ عورتیں مرنے کے بعد بھی مغنی صاحب کا پیچھا نہیں چھوڑ تیں۔
مغنی صاحب ذہین آدمی ہیں لیکن ذہین آدمیوں کی طرح چرب زبان نہیں ہیں۔ بہت سوچ سمجھ کر گفتگو کرتے ہیں بلکہ سوچتے زیادہ ہیں گفتگو کم کرتے ہیں۔ اسی وقت بولتے ہیں جب انہیں یقین ہو کہ لوگ انہیں پوری توجہ سے سن رہے ہیں۔ اکثر اوقات صرف ہاں، ہوں سے کام لیتے ہیں ۔ ایک روز ہمارے ساتھی کالج تاخیر سے آئے انہوں نے مغنی صاحب سے معذرت کی اور کہا:
"آج تاخیر ہوگئی ۔"
"ہوں" مغنی صاحب نے جواب دیا۔
"میں حاضری رجسٹر میں دستخط کردوں؟"
فرمایا "ہوں۔"
انہوں نے دستخط کئے اور کہا
"میں کلاس پڑھانے جارہا ہوں۔"
کہا "ہوں"
کلاس کے بعد ایک میٹنگ میں شرکت کروں گا۔
جواب ملا "ہوں"
میٹنگ کے بعد جلد لوٹ جانا چاہتا ہوں۔
"ہوں"
"تو پھر اجازت ہے میں جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"ہوں"

اکثر خالی خالی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے وہ ہمارے سامنے نہ ہوں کہیں اور ہوں۔
آپ کوئی واقعہ سنائیے وہ خالی خالی نظروں سے دیکھتے رہیں گے کافی دیر بعد آپ یہ سوچ کر کہ مغنی صاحب نے آپ کی بات کو قا بل توجہ نہیں سمجھا کوئی اور موضوع چھیڑ دیں گے تو وہ پہلی بات کا جواب دیں گے ۔
مغنی صاحب کو میں نے شدید غصے میں بھی بے قابو ہوتے نہیں دیکھا ۔ کسی بات پر وہ الجھتے نہیں خود کو الگ کرلیتے ہیں ۔ بہت غصہ آئے تو اتنا ہی کہیں گے:
" اگر آپ یہ کام نہیں کرسکتے تھے تو ذمہ داری قبول کرنا نہیں چاہئے تھا۔"
وارث علوی سے جھگڑے کے چرچے ہوئے۔ بعد میں مغنی صاحب نے اصل واقعہ سنایا تو پتہ چلا مغنی صاحب نے وہاں بھی غصے سے کم، ضبط سے زیادہ کام لیا تھا ۔ اکثر اصولوں کی خاطر اڑ جاتے ہیں ۔ مثلاً "حلف" کی عاملہ اس وقت تک نہیں بلائی جب تک کہ حسابات مکمل نہیں ہوگئے ۔ ان کا اس طرح اڑ جانا کسی بھی تنظیم کے حق میں فائدہ مند ہی ہوتا ہے ۔

اپنی کم گوئی اور نظریات میں بار بار تبدیلیوں کے باوجود وہ محبوب شخصیت کے مالک ہیں ۔ اورینٹ ہوٹل کے ختم ہوجانے کے بعد۔ ۔۔ صبا کا دفتر بند ہونے اور سلیمان اریب کے انتقال کے بعد اب حیدرآباد میں مغنی صاحب ہی وہ واحد شخصیت ہیں جن کے اطراف ہر نقطہ ، نظر کے ادیبوں شاعروں و دانش وروں کا مجمع لگا رہتا ہے ۔ ان میں روایت پسند ، ترقی پسند، و جدید سب ہی ادیب و شاعر موجود رہتے ہیں ۔ ایک طرف خوش حال ادیب و شاعر ہیں جن کے پاس ٹیلی فون اور شراب کی بوتلیں ہیں اور دوسری طرف مفلوک الحال اور شراب سے نفرت کرنے والے ہیں ۔ ان میں انگریزی کے اساتذہ بھی ہیں ایزک سکویرا، کمار صاحب، سراج الدین صاحب ، تقی علی مرزا صاحب سے لے کر جمیلہ نشاط اور خالد قادری تک ۔۔ عزیز آرٹسٹ ، ایم۔ اے ۔ قدوس ایڈوکیٹ ، اسامہ فاروقی ، غلام جیلانی، راشد آذر بھی ہیں ۔ بزرگوں میں ہاشم علی اختر صاحب ، محبوب حسین جگر صاحب اور راج بہادر گوڈ صاحب ہیں۔ ان کے علاوہ سارے جدید افسانہ نگار اور شاعر ان کے دوست ہیں ۔ مغنی صاحب کی شخصیت میں ایک کشش ہے ایک جادو ہے، ایک مقناطیسیت ہے کہ لوگ کھنچے چلے آتے ہیں ان کی زنبیل میں ہر قسم کا آدمی ہے ایک طرف ادب سے دلچسپی رکھنے والے ذہین شاعر و ادیب ہیں دوسری طرف نسبتاً کم تر درجے کی ادبی صلاحیتیں رکھنے والے لیکن تنظیمی امورمیں ماہر و فعال افراد ہیں مغنی صاحب دونوں زمروں کے افراد سے مناسب کام لیتے ہیں، اور اس طرح لیتے ہیں کہ ہر شخص خود کو اہم سمجھتا ہے ۔ ماتحتین کے ساتھ مغنی صاحب کا رویہ مربیانہ ہے وہ انہیں کبھی تکلیف نہیں پہنچاتے۔ان کی ضروریت کو اپنی گرہ سے پورا کرتے ہیں چنانچہ جب تک وہ یونیورسٹی میں رہے قاسم صاحب ان کے ساتھ رہے اب دونوں وظیفہ پار ہے ہیں لیکن اب بھی قاسم صاحب مغنی صاحب کے ساتھ ہیں۔ مغنی صاحب کا دائرہ احباب وسیع ہے لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن قدیر زماں سے ان کے تعلقات ویسے ہی ہیں ، ایک روز اقبال اکیڈمی میں کہنے لگے آپ کا اور میرا ساتھ ابلیس اور یزداں کا ہے میں بھی آپ کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا ہوں۔
کوئی مضمون لکھنا ہو کوئی ریڈیو ٹاک ہو مغنی صاحب سے مشورہ کیجئے وہ پوری مدد کریں گے استفادے کے لئے وہ اپنی کتابیں بڑی فراخ دلی سے دیتے ہیں ۔
کسی کام کی ذمہ داری لیتے ہیں تو اسے خوش اسلوبی سے پورا کرتے ہیں ۔ "سب رس" کی ادارت سنبھالی اسے پابندی سے شائع کررہے ہیں ۔ ادارہ ، ادبیات اردو کے امتحانات ٹھیک وقت پر منعقد ہورہے ہیں ۔ ساہتیہ اکیڈیمی کے زیر اہتمام ٹرانسلیشن پر روک شاپ کیا ۔ اور ا پنے اسٹائل سے کیا سارے مندوبین خوش رہے۔ لنچ کا ایسا شاندار انتظام کیا کہ شرکا کہیں اور مصڑوف بھی ہوتے تو لنچ کے وقت پر آجاتے ۔ انتظامات کو اپنے انداز میں کرنے میں ان کی جیب سے کافی پیسہ خرچ ہوتا ہے ۔ ان کی پیشانی پر بل تک نہیں پڑتا اور نہ کبھی اس کا ذکر کسی کے سامنے کرتے ہیں ۔

باہر سے کوئی شاعر و ادیب محقق و نقاد آئے وہ مغنی تبسم صاحب سے واقف ہوتا ہے۔ مغنی صاحب اس کے اعزاز میں جلسہ کرتے ہیں ۔ اس کے قیام و طعام کا انتظام کرتے ہیں اس کے گھومنے اور شاپنگ کرنے کے لئے سواری اور آدمی کا انتظام کرتے ہیں اور آخر میں اسے چھوڑنے ایر پورٹ تک جاتے ہیں ساقی فاروقی ۔ جمیل جالبی سے لے کر لطف الرحمن تک سب مغنی صاحب کے حوالے سے حیدرآباد کی ادبی فضا سے متعارف ہوتے ہیں ۔ آج کل مغنی صاحب نے ادیبوں اور شاعروں کی ویڈیو کیسیٹس تیار کروانے کا کام شروع کیا ہے ۔ بلراج کومل، شہر یار، انتظار حسین اور آصف فرخی کے ویڈیو کیسٹس تیار کیے اور اپنے پاس محفوظ رکھے ۔
مغنی صاحب کا سب سے بڑا وصف ان کی شائستگی ہے۔ وہ شائستہ آدمی ہیں کبھی ضبط و شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔ کبھی اوچھی حرکت نہیں کرتے وہ بہت ظرف کے آدمی ہیں۔ ہرم عاملے میں وہ سلیقہ ملحوظ رکھتے ہیں ۔ مغنی صاحب چور ضمیر GULTY CONCIENCE نہیں ہیں ۔ وہ ہر کام بہ بانگ دہل کرتے ہیں۔ انہوں ںے کبھی فرشتہ بننے کی کوشش نہیں کی لوگ جسے گناہ اور کمزوری سمجھتے ہیں وہ مغنی صاحب کی طاقت ہے ۔ ان کی"بے راہ روی" میں ایک شیریں دیوانگی ہوتی ہے ۔ انہوں نے اپنی کسی کم زوری سے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچا ۔ ان کی کمزوریاں ان کی ذات تک محدود رہیں۔
کرم کیا کہ گناہوں کی دی مجھے توفیق
کرم کرے گا گناہوں کی جب سزا دے گا

مغنی صاحب ہمیشہ فٹ رہتے ہیں۔ میں نے انہیں کبھی سست نہیں دیکھا ۔ کبھی مضمحل نہیں دیکھا ۔ کبھی داڑھی بڑھی ہوئی بال بکھرے ہوئے نہیں ہوتے ۔ کبھی وہ شکن آلود لباس میں نظر نہیں آتے ۔ وہ اپنے غموں اور بیماریوں کا کبھی تذکرہ نہیں کرتے۔ کوئی بیماری کے سلسلے میں پوچھے تو مختصراً جواب دیتے ہیں۔ بیماریوں کا دفتر نہیں کھول دیتے ۔ وہ "قابل رحم" بننا نہیں چاہتے ۔ اندر سے ٹوٹ کر رہ گئے ہیں ل یکن ان کا یہ غم ان کی ذات اور شاعری تک محدود ہے۔ ناز صدیقی ان سے بچھڑ گئیں۔ ا پنے بھائی اور بہنوئی کا صدمہ جھیلا ۔ عالم خوند میری صاحب شاذ اور قیسی ان کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ لیکن مغنی صاحب نے احباب کی مخفل کو گرمائے رکھا ۔
آج کل جدید شاعری کا عمدہ انتخاب کررہے ہیں ۔ اپنی ذاتی تشہیر کے بالکل قائل نہیں ہیں ۔ دوسروں کی کتابوں کی رسم اجرا کا بڑا چاؤ سے اہتمام کرتے ہیں لیکن اپنی کتاب"مٹی مٹی میرا دل" کی رسم اجراء نہیں کی رسم اجراء کی تجویز رکھی گئی تو انہوں نے سخت مخالفت کی ۔ اسی طرح لندن اور امریکہ گئے ، کئی اہم سمیناروں میں شرکت کی ، ساہتیہ اکیڈیمی کے ممبر رہے کسی کی تشہیر نہ کی ۔

اپنے اسٹائل سے زندگی گزارنے کے عادی ہیں ۔ اپنے بھائی کے ریسیڈنشیل کامپلکس میں ایک اچھا خاصا بڑا سا مکان لے رکھا ہے اس سے قبل جو مکان میں تھے وہ بھی ان کے لئے کافی تھا لیکن اب کشادہ مکان میں آگئے ہیں ۔ مغنی صاحب تنہائی پسند ہیں ۔ شام تک وہ بے حد مصروف رہتے ہیں ۔ مغرب کے بعد مخصوص احباب آجاتے ہیں ۔ پھر جب رات بھیگنے لگتی ہے تو سارے دوست احباب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔ محفلوں کا اہتمام کرنے والا ، سمیناروں میں شرکت کرنے والا۔ دوستوں کو رسیو کرنے اور ایر پورٹ چھوڑنے والا یہ شخص، ادارہ، ادبیات اردو"سب رس"،" شعروحکمت"،"مضامین"،"پروف ریڈنگ، میٹنگس۔۔۔ وہ شخص جس نے ا پنے کئی شاگردوں کو استاد بنایا۔ جس نے اپنی مناسب رہنمائی سے کئی فن کاروں کو اسٹابلش کیا، رات میں تنہا ہوجاتا ہے ۔ بچے غیر ممالک میں اچھی پوسٹ پر ہیں اور اپنی زندگی میں مگن ہیں ۔ مغنی صاحب کے وجود میں سناٹا اتر آتا ہے ۔
ایک روز مزاج پرسی کو گیا۔ گھر کا واحد دروازہ اور ساری کھڑکیاں اندر سے بند تھ یں ۔ بیل بجائی۔ دو بار تین بار۔۔۔۔۔۔ آواز نہیں آئی دل زور زور سے دھڑکا۔۔۔۔۔پھر اندر سے مغنی صاحب نے آواز دی، سمجھ میں نہیں آیا کہ انہوں نے کیا کہا، میں آواز سن کر مطمئن ہو گیا۔

***
Prof. Baig Ehsas
8-1-398/PM/416, Yaser Enclave, Flat No. 401, Paramount Hills, Toli Chowki, Hyderabad - 500008
Mob.: 09849256723
Email: baig_ehsas[@]yahoo.co.in
Facebook : Mohammed Baig Ehsas
پروفیسر بیگ احساس

Mughni tabassum, an original, versatile and prominent laureate. Article: Prof. Baig Ehsaas

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں