مغنی تبسم - مضمون از عوض سعید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-05-22

مغنی تبسم - مضمون از عوض سعید

mughni-tabassum
پروفیسر مغنی تبسم
پیدائش : 13/جون 1930 (حیدرآباد)
وفات: 15/فروری 2012 (حیدرآباد)

26-27 فروری 1999 کو نمائش کلب، حیدرآباد میں "جشن اعتراف خدمات پروفیسر مغنی تبسم" منایا گیا اور اس ضمن میں 70 صفحات کا اہم، معلوماتی اور دیدہ زیب سوونیر شائع کیا گیا تھا، سوونیر میں عوض سعید ، خالد قادری اور ڈاکٹر بیگ احساس کے تحریرکردہ خاکے شامل ہیں۔

ذیل میں عوض سعید کا تحریر کردہ مضمون پیش خدمت ہے۔

مجھے یاد نہیں کہ میری مغنی سے پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی ۔ ہاں یہ احساس ضرور ہے کہ میں انہیں آج بھی رگ جاں کے قریب پاتا ہوں ۔ اس قرب کے باوجود اگر میں یہ کہوں کہ مغنی کی شخصیت کی نقاب کشائی کا اہل میں ہی ہوں تو یہ میری خوش فہمی ہوگی ۔ کیوں کہ مغنی کی شخصیت کی گہرائی تک پہنچنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں۔ اس لئے مغنی کی شخصیت کا تجزیہ کرنا میرے لئے واقعی مشکل کام ہے ۔ مشکل ان معنی میں کہ وہ ۲،۲،۴ والی شخصیت نہیں بلکہ ۲،۲،۔۔۔ والی شخصیت ہے ۔
ممکن ہے قدیر زباں مغنی کی تہہ دار شخصیت کے اس چیلنج کو قبول کرلیں ۔ ویسے کسی بھی چیلنج کو قبول کرنا اور پھر حواس باختہ ہوجانا قدیر زماں کے لئے معمولی سی بات ہے۔ یہ تو جملہ معترضۃ تھا۔ مجھے تو یہاں مغنی تبسم کی شخسیت کے بارے میں کچھ کہنا ہے ۔
مغنی سے جب صرف پہچان تھی تو ان کا بیش تر وقت’’پارٹی‘‘ کے کاموں میں گزرتا تھا ۔ ایک طرف والد بزرگ وار جج، دوسری طرف فرزند ارجمند کامریڈ، اور ۵۰ یا۵۲ کاسنہ عجیب زمانہ تھا وہ بھی۔
پھر جب آگے بڑھے تو پیچھے مڑ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ صبح کا انتظار کرنے والے ساتھیوں پر رات کیسے گزرتی ہے ۔
مغنی کی شخسیت کا ایک جز ان کی اپنی ’’نرگیست‘‘ بھی ہے۔ اورہ اس آئینے کو بڑی مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں جن میں ان کے چہرے کا عکس مٹتا ابھرتا رہتا ہے ۔ وہ باہر نکلنے سے پہلے اپنے آپ کو سنوارنے میں کافی وقت صرف کرتے ہیں ۔ وہ اس وقت تک آئینے کے سامنے سے نہیں ہٹتے جب تک کہ ان کا کوئی ساتھی انتظار سے تنگ آکر یہ نہ کہے ۔
’’مغنی صاحب اگر آپ مصروف ہوں تو میں پھر کبھی آجاؤں گا۔‘‘
جوابا ً وہ صرف یہی کہتے’’ معاف کیجئے گا کچھ دیر ہوگئی ۔ میں آرہا ہوں۔‘‘
ادبی اور علمی بحثوں میں اچانک کوئی چونکا دینے والی بات کہہ کر اپنے ساتھیوں کو بحث میں الجھا دینا اور پھر دور کھڑے ہوکر تماشا دیکھنا مغنی کا وصف خاص ہے ۔ ایسے موقعوں پر انہیں اس شرارت سے کوئی بھی باز نہیں رکھ سکتا ۔ ویسے مغنی فطرتا ایک شریف اور وضع دار آدمی بھی ہیں ۔ باہر سے آنے والے ساتھیوں کا خیر مقدم کرنا اور انہیں ایر پورٹ یا اسٹیشن تک پہنچاکر خدا حافظ کہنا مغنی کے معمولات میں سے ایک ہے ۔
مغنی سے سو بار مل کربھی یہی احساس ہوتا ہے ۔
اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں جانا
مغنی کی شخصیت اس بند کرمے کی مانند ہے جس پر تالا پڑا ہوا ہیا ور چابی کسی اور کے پاس نہیں خود ان ہی کی جیب میں ہے۔ اس لئے یہاں جو بھی باتیں میں ان کے بارے میں کہوں گا ۔ ضروری نہیں کہ آپ بھی اس سے متفق ہوں۔
انور معظم کی طرح مغنی بھی اپنے دوستوں کے گھر شاذ و نادر ہی جاتے ہیں۔ اکثر صورتوں میں تو ان کے ساتھیوں ہی کو ان کے گھر کا طواف کرنا پڑتا ہے ۔
ایک دفعہ وہ صبح ہی صبح میرے گھر آئے۔ دروازے کو کھٹکھٹانے کے بعد اوصاف کو آواز دی( اوصاف میرے بچے کا نام ہے)
میں نے فاطمہ سے کہا۔ یہ مغنی کی آواز معلوم ہورہی ہے ۔ ضرور کوئی مرا ہوگا۔
فاطمہ نے ناگواری سے میری طرف دیکھا اور کہا ۔’’چپ بھی ہوجائیے، بھائی اگر سن لیں گے تو کیا کہیں گے ۔‘‘
پھر مغنی نے اندر آکر جب چپ کی چادر اوڑھ لی تو میں سمجھ گیا کہ کوئی خاص بات ضرور ہے ۔ پھر وہی بات انہوں نے کہی جو میرے دل میں تھی۔اپنے ایک عزیز کی موت۔
حلقۂ احباب ذوق اور میراجی مغنی کی سب سے بڑی کم زوری ہے ان کی یہی کم زوری انہیں ادب کے بعض مخصوص حلقوں میں معتوب بھی کرتی ہے ۔ اس کے باوصف میرا جی اور راشد کے ادبی سرمائے کی شیرازہ بندی میں وہ برسوں سے جتے ہوئے ہیں۔ اس کٹھن مہم میں انہوں نے اپنے دو ایک شاگردوں کو بھی شامل کرلیا ہے ۔
مغنی کے ورغلانے ہی پر ایک نے اپنے تھیسیس کے لئے راشد کا انتخاب کیا ہے دوسرے نے ان کے زیر اثر میرا جی کا ۔
مغنی نے احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے دونوں شاگردوں پر کڑی نظر رکھی ہے کہ کہیں وہ ہتھے سے نہ نکل جائیں ۔ چنانچہ ان کے پہلے شاگرد نے اس بھاری پتھر کو چومنے سے بہتر یہی سمجھا کہ چند برس کے لئے کہیں فرار ہوجائیں ۔ اور اس طرح ایک دن وہ لاپتہ ہوگئے سناہے کہ انہوں نے اپنی نجات کا راستہ رحمت آباد کی درگاہ میں ڈھونڈ لیا ہے ۔ کوئی عجب نہیں کہ وہ وہاں یہ دعا بھی کرتے رہے ہوں کہ معبود مجھے مغنی اور راشد سے بچائے رکھ۔
دوسرے شاگرد کے بارے میں ایک اطلاع مجھے یہ ملی کہ وہ میرا جی کی بھٹکی ہوئی روح کے تعاقب میں دور نکل پڑے ہیں اور ہنوز انہیں لوہے کے ان تین گولوں کے حصول میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے، جو میرا جی کے ہاتھ میں گھوما کرتے تھے۔
مغنی کی نگرا نی میں ریسرچ کرنا گویا پل صراط پر سے گزرنا ہے ۔ اس پل صراط سے وہی سرکش گزر سکتے ہیں جن کے دل میں کام کی لگن اور سودا ہو ۔
دوستی اور یاری کے باب میں مغنی کی محبت کا انداز ہی کچھ نرالا ہے ۔ وہ جی جان سے ہر ایک کو چاہیں گے مگر اس طرح کہ اسے کانوں کان خبر نہ ہو۔ لیکن جب جذبہ محبت غالب آہی جائے تو زبان ان کے اظہار کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
وہ رات مجھے اچھی طرح یاد ہے جب انہوں نے شاذ کو خلوص سے طلے لگاتے ہوئے کہا تھا۔ شاذ تم فیض سے اچھے شاعر ہو ۔ میں تم پر ضرور مضمون لکھوں گا۔‘‘
یہ بات مغنی نے یوں ہی نہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہی تھی۔
’’مغنی صاحب یہ تو آپ کی محبت اور عنایت ہے ۔ ورنہ یہ بندہ خاک۔‘‘
’’تم نہیں جانتے شاز کہ تم فیض سے بہ ہر حال اچھے شاعر ہو۔‘‘
’’یہ خاکسار۔ بہ ہر حال اپنے آپ کو فیض سے کچھ کم ہی سمجھتا ہے ۔ لیکن خدا جھوٹ نہ بلوائے مغنی صاحب ۔میں بڑا بول نہیں بولتا۔ خدا نے مجھے کچھ اتنی عزت دی ہے کہ میری شہرت ہندوستان اور پاکستان ہی میں نہیں بلکہ افغانستان میں بھی ہے ۔ اب تو مڈل ایسٹ اور اسٹیٹس میں بھی شاذ ہی کی باتیں ہوتی ہیں۔ یار عوض تم چپ کیوں ہو۔ کیا میں یہ باتیں غلط کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’ نہیں شاذ تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو ۔ تمہاری شہرت آج کل فلم اسٹاروں سے کچھ کم نہیں ہے ۔‘‘
اب آئے ہو راستے پر۔‘‘
منظر بدلا تو کچھ پرانے چہرے پھر مجھے دکھائی دیے۔ان چہروں میں قاضی سلیم کا بھی چہرہ تھا ۔ اور انور معظم کا بھی۔ مصحف اقبال کا بھی اور مغنی کا بھی۔
رائل ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوکر میں نے اپنی نشست سنبھالی ہی تھی کہ مجھے ایک آواز آئی ۔ واہ کیا بات کہہ دی ہے۔ اقبال پھر سے یہ شعر سناؤ۔ سناتے رہو۔
جس سے لی تھی اسی کو لوٹا دیں
یہ رہیں صبحیں، یہ رہیں شامیں
یہ مغنی تھے جن پر اس شعر نے ایک وجدانی سی کیفیت طاری کردی تھی ۔ اور جب ایک اور منظر بدلا تو اقبال نے انور معظم سے کہا’’ مغنی صاحب کی محبت اور ان کی شعر فہمی پر ہمیں فخر ہے ۔ وہ کبھی جھوٹی تعریف نہیں کرتے ۔ انور نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا۔’’ اس میں کیا کلام ہے ۔‘‘
مغنی کی کم آمیزی بھی ان کے لئے ایک ہتھیار کا کام دیتی ہے اور انہیں ناگہانی حملوں سے بچاتی ہے ۔ کبھی کبھی تو اہم سے اہم مسئلہ بھی ان کی کم گوئی اور خاموشی کی نذر ہوجاتا ہے ۔مغنی نہ کسی کو مشورہ دیتے ہیں اور نہ کسی کا مشورہ سنتے ہیں۔
ایک دن مجھے ان سے مل کر ایک مشکل دور کرنی تھی ۔ یعنی میں مشورہ کا طلبگار تھا ۔ وہ میری باتیں بڑی دیر تک سنتے رہے ۔ پھر ایک گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ میں ان کے استغراق کو دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھا کہ وہ میری مشکل کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکالیں گے۔
کافی غوروخوض کے بعد انہوں نے جو جملہ مجھ سے کہا ۔ وہ یہ تھا۔
’’ کل ایوان اردو میں ایک ادبی نشست ہے فرصت ہو تو آجائیے۔‘‘
پھر اس کے بعد میں نے یہ عہد کرلیا کہ کبھی مغنی سے مشورہ نہ طلب کیاجائے ۔
ڈریسنگ کے باب میں مغنی بڑے اپٹوڈیٹ اور سوڈرن بھی ہیں۔ وہ اپنے قیمتی کپڑوں کی آئرننگ خود ہی کرتے ہیں۔ دھوبی کی آئرننگ پر انہیں بھروسہ نہیں ۔ کپڑوں پر جو کریز مغنی پیدا کرتے ہیں۔ اگر دھوبی بھی اسے دیکھ لے تو شائد شرمندہ ہوجائے ۔
ایک دن میں جب ان کے گھر پہنچا تو وہ سوٹ میں ملبوس تھے ۔ میں نے مغنی سے پوچھا۔’’ کیا آپ باہر جارہے ہیں۔‘‘
مغنی نے کہا۔’’ نہیں۔‘‘
پھر میں نے پوچھا۔’’ کیا مغنی صاحب آپ باہر سے آرہے ہیں؟‘‘
انہوں نے کہا۔’’ نہیں۔‘‘
میں گھر چلا آیا اور شعروحکمت کے بند ہوجانے کے اسباب پر غور کرنے لگا۔
مغنی تبسم جن کے ہونٹوں پر تبسم کی کلیاں ذرا کم ہی چٹکتی ہیں ۔ میرے اس دو ڈھائی دوستوں میں سے ہیں جن سے مل کر ہمیشہ خوشی ہوتی ہے۔ خواہ وہ کسی موڈ یا رنگ میں کیوں نہ ہوں۔ ہاں مغنی ان ہی لوگوں کے لئے بوجھ بن سکتے ہیں جن کے کان ذہانت کی خوشبو سے نا آشنا ہوں۔
مغنی کے مزاج میں فن کاروں کی سی قلندری بھی ہے ۔ تشہیر اور نام و نمود کے امام ضامن کو کبھی انہوں نے اپنے ہاتھ پر نہیں باندھا۔ ملک کے بڑے بڑے ادبی سمیناروں میں شرکت کی ۔ لیکن کسی بھی اخبار کو اپنے آنے جانے کی اطلاع نہیں دی ۔ خوب تعریفیں بٹوریں ۔ لیکن اس کا ذکر کسی کے سامنے نہیں کیا۔
چپ چاپ گئے اور خاموشی سے لوٹ آئے ۔ ایسی باتیں بڑا ظرف مانگتی ہیں۔
شایدیہ جان کر آپ کو حیرت ہو کہ کبھی بھٹکی ہوئی روحوں سے بھی مغنی کا تعلق خاطر رہا ہے ۔ وہ رات کے کسی بھی حصے میں، کبھی تنہا اور کبھی اپنے مخصوص احباب کے ساتھ جس روح کو بھی بلوانا ہوتا ہے ۔ اسے بلواتے ہیں ۔ اوراس سے کچھ سوالات کرتے ۔ اور یہ سلسلہ رات دیر گئے تک چلتا رہتا۔
ان کے اصرار پر ایک دن میں نے بھی اس تماشے میں شامل ہونے کی کوشش کی ۔ بات چیت کے لئے میں نے اپنے ایک مرحوم ساتھی کا انتخاب کیا جومیرے بلاوے پر آتا ہی نہ تھا۔
میں نے تھک ہار کر مغنی کی طرف دیکھا تو انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں میری ہمت بندھائی ۔ لیکن کنکشن کی غلطیس ے ایک عجیب و غریب روح نے اچانک مجھے آدبوچا ۔ اور بات شروع ہوگئی ۔ میں ایک دم بوکھلا سا گیا۔
میرے چہرے پر آئی ہوئی گھبراہٹ کی لکیروں کو پڑھتے ہوئے مغنی نے کہا۔
’’ کبھی کبھی غلطی سے خبیث روحوں سے بھی ہمارا سابقہ پڑجاتا ہے ۔‘‘
’’ہاں معاملہ ہی کچھ ایسا ہے ۔‘‘ میں نے گھبراہٹ بھرے لہجے میں کہا۔
’’کون تھا وہ۔۔۔۔۔؟‘ ‘ مغنی نے تفصیل جاننا چاہی ۔
لیکن میں گریز سے کام لیتا رہا ۔ جب ان کا اصرار کافی بڑھ گیا تو میں نے بڑی مایوسی سے کہا۔’’وہ میرا جی تھے اور آپ ہی کو پوچھ رہے تھے۔‘‘
مغنی کی شخصیت اکہری نہیں بلکہ دوہری ہے ۔ اور دوہری بھی اس طرح کہ شخصیت کا ایک سرا کہیں اور ہے تو دوسرا کہیں اور۔۔۔۔۔۔۔ جیسے زمین و آسمان آپس میں گلے مل رہے ہوں۔
اس خاموش اور شانت سمندر میں کب طوفان آجائے کوئی بتا نہیں سکتا۔
میں نے انہیں کئی روپ میں دیکھا ہے ، محبت کی آخری سیڑھی چڑھتے ہوئے بھی اور دور ک ھڑے ہوکر اسے الوداع کرتے ہوئے بھی۔ یاروں کی محفل میں جان ڈالتے ہوئے بھی آناً فاناً اسے برباد کرتے ہوئے بھی۔
انہوں نے اپنے لیے ایک شیڈول بنالیا ہے جو ہر سال تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ کبھی شاذ کو فیض پر فوقیت دے دی تو کبھی دبلے پتلے مصحف اقبال کو اچانک پہلوانوں کے اکھاڑے میں کھڑا کردیا۔ کبھی ایک کا ہاتھ تھاما تو کبھی دوسرے کا گریبان چاک کیا۔ کبھی کھائی میں گرے ہوئے کسی اد ھ موئے شاعر کو آواز دی تو دوسری طرف خاصے بھلے شاعر کو کنویں میں ڈھکیل دیا۔
ان کا یہ کھیل تماشا نجی محفلوں میں مدت سے جاری ہے۔ لیکن جب لکھنے کا معاملہ آتا ہے تو ان کا وطیرہ کچھ اور ہی ہوتا ہے ۔ جب کبھی وہ سنجیدگی سے موضوع کو چھوتے ہیں تو اس میں جان ڈال کر ہی رہتے ہیں۔
جدید کہانیوں اور نظموں کا تجزیہ وہ کچھ اس خوب صورتی سے کرتے ہیں کہ معنی و مفاہیم کے کئی گوشے دھیرے دھیرے لکھنے والے کے ذہن میں روشن ہونے لگتے ہیں اور بالآخر وہ اپنی عجیب و غریب باتوں اور تجزیے کے سہارے ادیب کی شخصیت کو پوری طرح جکڑ لیتے ہیں ۔ پھر فن کار کے لئے ان کے اس سحر سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ کسی تخلیق کو سونگھ کر بھی اس کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کردیتے ہیں ۔ اس منزل پر بھی وہ متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ مجھے یاد نہیں ۔ انہوں نے سنجیدگی کا لحاف اوڑھے میرے کتنے افسانوں کے پرخچے اڑائے اور کتنی کہانیوں کو بانس پر چڑھایا لیکن وہ مجھے ہر عالم اور ہر روپ میں بڑے پیارے لگے ۔
مغنی مزاجاً قلندر بھی ہیں اور قدرے دنیا دار بھی۔ کبھی وہ اپنے وجود کو سمندر میں پھینکے ہوئے اس لکڑی کے ٹکڑے کی طرح سمجھتے ہیں ۔ جنہیں لہراتی ہوئی موجیں اسے ادھر ادھر بے سمت بھٹکاتی رہتی ہیں۔ اس موڑ پر پہنچ کر وہ زندگی کی بے معنویت کے قائل ہ وجاتے ہیں اور زندگی کے اس عذاب سے نجات پانے کے لئے اپنے آپ کو Driftکرتے ہیں اور اسDriftingہی کو انسان کا اصلی مقدر سمجھتے ہیں ۔ لیکن دیر ہی سے سہی اس خول سے نکل بھی آتے ہیں ۔
مغنی کی ڈاک ہمیشہ بھاری بھرکم ہوتی ہے ۔ ان کے گھر آئیے ہوئے رسالے اور کتابیں مطالعہ کے انتظار میں جیسے اورنگھتے رہتے ہیں ۔ لیکن وہ صرف انہیں سونگھ کر رکھ دیتے ہیں ۔ انہیں ہاتھ نہیں لگاتے ۔ لیکن جب ان پر پڑھنے کا دورہ پڑتا ہے تو انہیں کسی بات کا دھیان نہیں ہوتا ، ایسے وقت وہ اس صوفی کی طرح دکھائی دیتے ہیں جس پر اچانک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی ہو اور جبرو قدر کا مسئلہ حلق میں پھنس کر رہ گیا ہو۔
مغنی کو بھولے سے بھی اپنی کتابیں یارسائل دیجئے وہ انہیں اپنی ٹیڑھی میڑھی لائبریری میں اس طرح محفوظ کردیتے ہیں کہ انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں مگر ان کی صحت پر ذرا بھی اثر نہیں پڑتا ۔ وہ مخصوص انداز میں کچھ اس طرح مسکراتے ہیں کہ کبھی کبھی جی جل اٹھتا ہے ۔ دوسری طرف ان کی مروتوں کا یہ عالم ہے کہ گھر آنے جانے والا کوئی بھی دوست یا عزیز اپنی پسند کی کوئی بھی کتاب اس طرح اٹھالے جاتا ہے جیسے یہ ان کی اپنی ملکیت ہو۔ ایسے وقت بھی ان کے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ رینگتی رہتی ہے ۔
ایک د ن وہ بڑے موڈ میں تھے ۔ گھر آتے ہی بستر پر لیٹ گئے ۔ میرے ساتھ شاذ اور راشد آذر بھی تھے۔ راشد اور شاذ کی بھوکی نگاہیں بک شلف میں پھنسی ہوئی کتابوں کا طواف کررہی تھیں جیسے اب کوئی ناگہانی حادثہ ہونے والا ہو۔ مغنی نے لیٹے لیٹے اس صورت حال کا جائزہ لیا۔ اور دھیمے لہجے میں کہا۔’’ یہ سب کتابیں لے لو۔ میری پوری لائبریری تم ہی لوگوں کے لئے ہے۔‘‘
مغنی کا یہ کہنا تھا کہ راشد اور شاذ کتابوں پر ٹوٹ پڑے جو بھی کتابیں ہاتھ لگیں ، کار میں اسے ٹھونسنا شروع کردیا جیسے یہاں کوئی مال غنیمت تقسیم ہورہا ہو ۔ میرے حصے میں صرف ساقی فاروقی کا مجموعہ’’پیاس کا صحرا‘‘ ہی آیا جو میری تسکین کا باعث بنا۔ ادھر راشد میری نادانی پر ہنس رہے تھے ۔ اور میں انہیں جواب بھی کیا دیتا یہ تو اپنی اپنی پسند کا معاملہ تھا۔
دوسرے دن ملاقات ہوئی تو میں نے سارا حال کہہ سنایا لیکن وہ حسب عادت زیر لب مسکرارہے تھے۔ جیسے کوئی اہم واقعہ ہوا نہ ہو۔ انہیں ذرا بھی اس بات کا ملال نہیں تھا کہ یاروں نے ان کی ڈھیر ساری کتابیں ہڑپ کرلی ہیں ان کی شخصیت کا یہ تضاد انوکھا بھی ہے اور دلچسپ بھی۔
میں نے مغنی کو ہمیشہ اپنے یاروں سے کہیں زیادہ اپنے مخالفین کی مدد کرتے دیکھا ہے۔ ان کی اس حکمت عملی سے کبھی کبھی انہیں فائدہ کی جگہ نقصان بھی پہنچا ہے ۔
بعض لوگ اپنی خوبیوں سے کہیں زیادہ اپنی شخصی کمزوریوں سے پہچانے جاتے ہیں لیکن مغنی اپنی خوبیوں ہی کے سبب جانے جاتے ہیں ۔ ان کی اپنی شخصی کمزوریاں کبھی ان کی خوبیوں پر حاوی ہونے نہیں پاتیں۔
مغنی جیسا شاہ خرچ آدمی میں نے ذرا کم ہی دیکھا ہے ۔ وقت بے وقت اپنی جیب سے سو کا نوٹ وہ اس طرح سے نکالتے ہیں جیسے وہ سو کا نوٹ نہ ہو کاغذ کا کوئی بے کار پرزدہ ہو پتہ نہیں ان کی شاہ خرچی کب انہیں لے ڈوبے۔ بہ ظاہر اس طرح ڈوبنے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔ ویسے آنے والے کل کے بارے میں کون کیا کہہ سکتا ہے ۔
مغنی کا مزاج جواریوں جیسا ہے۔ وہ زندگی ہی کو ایک جوا سمجھتے ہیں ۔ اس لئے ان کے ہاں ہار جیت کا کوئی علاحدہ خانہ نہیں ہے ۔ ایک ہی خانہ ہے جس میں ان کے شب و روز کا حساب بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے ۔ مغنی شروع ہی سے بڑےActiveاور مصروف آدمی رہے ہیں ۔ کوئی ادبی اور تہذیبی سر گرمیاں ایسی نہیں جہاں ان کا عمل دخل نہ ہو ۔ دوسروں کے لئے کوئی مسئلہ بننے سے پہلے ، ایک ایک کر کے وہ سارے اہم کام اپنے ذمے لے لیتے ہیں اور انہیں اس سلیقے سے منزل تک پہنچاتے کہ آدمی حیرت سے ان کا منہ تکتا رہ جاتا ہے ۔ اس صورت حال کے پیش نظر اگر کوئی ان سے یہ کہے کہ مغنی صاحب آپ نے یہ کیا بکھیڑے پال رکھے ہیں ۔ طالب علموں کو ڈھنگ سے پڑھادیا۔ وقت پر کلاس لے لی ۔ کیا آپ کے لیے یہ کافی نہیں ہے ۔
’’نہیں۔۔۔۔۔ یہی سب کچھ نہیں ہے کچھ اور بھی ہے ۔‘‘
کچھ اور بھی ہے ۔ سننے کے بعد جی تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں آگے کی منزل پر تنہا چھوڑ کر کسی چور دروازے کے ذریعے فرار ہوجایں ۔ مگر مصروفیتوں کے دلدل میں پھنسے رہنے کا مزا تن آسان لوگ کیا جانیں ۔
مے نوشی خیام کی ذات پر ختم ہو یا نہ ہو مگر چائے نوشی کے سارے راستے مغنی کی ذات پر آکر ختم ہوجاتے ہیں ۔ وہ اس کثر ت سے چائے پیتے ہیں کہ کبھی کبھی گمان ہوتا کہ کھانا برابر نہ کھاتے ہوں۔ ویسے کم خوراکی کے سبب وہ آج بھی اسی طرح جوان ہیں جیسے پچیس تیس برس پہلے کبھی تھے ۔ ماہ و سال کی کالی گھٹائیں ان کے سر سے چمٹتی نہیں بلکہ گزر جاتی ہیں۔ کوئی عجب نہیں کہ وہ آئندہ بیس برس تک اسی طرح جوان رہیں ۔
عالم خوشی میں کبھی کبھی وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کون سی بات کہاں کہنی ہے لا شعور میں پھنسے ہوئے سارے کوڑہ کرکٹ کو وہ مخاط کے منہ پر اس طرح دے مارتے ہیں جیسے مخاطب دوست نہ ہو محض ایک دشمن ہو۔ کتھارسس کی یہ قئے بھی عجیب شئے ہے ۔ مگر گنہگاروں کی اس دنیا میں مغنی مجھے کبھی کبھی اس فرشتے کی طرح لگتے ہیں ، جس کے پر اچانک کسی نے کاٹ لیے ہوں ۔
میں نے مغنی جیسے یا ر باش آدمی ذرا کم ہی دیکھے ہیں ۔ دوستوں کے آڑے وقت میں کام آنے کو وہ ایک عبادت سمجھتے ہیں اور اس عبادت میں خلل اسی وقت پڑتا ہے ۔ جب ان کی جیب خالی ہو ۔ ویسے شاہ خرچی کے معاملے میں وہ کچھ اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ کبھی کبھی احساس ہوتا ہے۔ جیسے وہ دست غیب کا علم بھی جانتے ہوں۔
میرا خیال ہے مغنی کی یہی کچھ خامیاں ہیں اور ان خامیوں ہی کے بل بوتے پر ان کی شخصیت کی عمارت کھڑی ہے ۔۔۔!

Mughni tabassum a prominent laureate. Article: Awaz Sayeed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں