ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:16 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-09

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:16


خلاصہ فصل - 14
مذہب اور عقل

قدرت نے انسان کو جتنی قوتیں عطا کی ہیں سب میں عقل بڑی زبردست ہے۔جس طرح انسان کی دوسری قوتیں محدود اور ناقص ہیں اسی طرح عقل کی پہنچ بھی ایک حد تک ہے۔ مثال کے طور پر آنکھ ایک خاص فاصلے پر دیکھ سکتی ہے۔پھر بے روشنی کے کام نہیں دیتی۔دیکھنے والا اگر کشتی یا ریل میں ہو تو وہ الٹا ٹہری ہوئی چیزوں کو حرکت میں دیکھتا ہے۔
اسی طرح عقل سے بھی غلطی ہوتی ہے۔حساب کے علاوہ جس کے اصول مقرر ہیں اور اسی وجہ سے اس میں اختلاف نہیں ہو سکتا دوسرے پیشے کے لوگ یعنی ڈاکٹر،فلسفی،جج یا سیاستدان وغیرہ ایک دوسرے کے مخالف رہتے ہیں۔بحث کے قاعدے مقرر ہیں مگر اختلاف کم نہیں ہوا۔
دو ڈھائی سو برسوں میں اہل یوروپ کو سینکڑوں باتیں ایسی دریافت ہوئیں جس سے زمانۂ حال میں انسان کو بہت بڑے فائدے پہنچے۔مثال کے طور پر ہم ریل کو ہی لے لیں۔بھاپ کی طاقت سے سبھی واقف تھے لیکن ریل کی ایجاد نے دنیا کے انسان کو فائدہ پہنچایا۔ایک سائنسداں نیوٹن نے سب سے پہلے مسئلہ کشش کو دریافت کیا۔اس کا کہنا تھا کہ سمندر میں قدرت کے بیشمار موتی بھرے پڑے ہیں اور میں کنارے پر بیٹھا بچوں کی طرح سیپیاں چن رہا ہوں۔جن کو خدا نے عقل دی ہے وہ اپنی محدود عقل کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ہمارے زمانے کے انگریزی پڑھے لکھے کوئی مشکل سوال پوچھو تو منہ کھول دیں گے لیکن ڈینگیں برابر ماریں گے۔جوں جوں زمانہ ترقی کرتا جاتا ہے عقلِ انسانی کے کرشمے کھل کے سامنے آتے جاتے ہیں۔یعنی مہینوں کی مسافت گھنٹوں میں طے کریں گے یا کپڑے کی مشینوں میں کپاس بھر کر کپڑوں کے تھان نکال لیا کریں گے۔مگر پھر بھی آدمی عاجز رہیں گے اورنا چیز،بے حقیقت، کیونکہ اتنا تو معلوم ہی نہیں کہ روح کیا چیز ہے اور اس کا جسم کے ساتھ کس طرح کا تعلق ہے؟
وقت کے آگے انسان کی ہستی معمولی دکھائی دیتی ہے۔یعنی بالکل مٹی کا ڈھیر۔پھر بھی بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا راز انسان پر نہیں کھلا۔مثلاً جلانا، آگ کی خاصیت ہے، مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے مگر کوئی نہیں بتا سکتا کہ کیوں؟
آسمان پر نظر اٹھاؤ تواتنے ستارے نظر آئیں گے جتنے زمیں پر ریگستان میں بھی نہ ہوں گے۔قصہ مختصر کہ سوچنے سمجھنے والے کو دنیا حیرت ہی حیرت ہے۔جب دنیا کے کاموں میں عقل انسانی کی پہنچ اتنی محدود ہے تو دین میں وہ کیا ہماری رہبری کرے گی۔
مثال کے طور پر یہ دنیا جس میں ہم موجود ہیں اور اسے دیکھتے ہیں اور اس میں جو چاہیں دخل اندازی کر سکتے ہیں لیکن دین ہمیں خبر دیتا ہے کہ اس دنیا کے سوا ایک جہاں اور بھی ہے بہ ظاہر وہ غائب۔یہ فنا ہونے والا ہے اور وہ باقی رہنے والا ہے۔یہ امتحان ہے اور وہ نتیجہ۔یہ سفر ہے اور وہ منزل۔یہ خواب ہے اور وہ تعبیر۔انسانی عقل بہت کوشش کررہی ہے کہ وہاں کی حقیقت دریافت کرے مگر کچھ پتہ نہیں چلتا۔البتہ عقل یہ ضرور تسلیم کرتی ہے کہ ہر کام کا ایک نتیجہ لازم ھے۔بعض اوقات کاموں کے نتیجے اسی دنیا میں واقع ہو جاتے ہیں مگر بعض کاموں کے نہیں ہوتے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ دنیا کے نتیجوں کے علاوہ ہماری فطرت کسی اور نتیجے کی منتظر رہتی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک جہاں اور بھی ہونا چاہئیے۔
دل خود بخود اندر سے گواہی دیتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی ہمارا پیچھا چھوٹتا نظر نہیں آتا۔یہاں تک عقل کی اڑان ختم ہو جاتی ہے۔دل اس جہاں کے تفصیلی حالات کے مشتاق تھے اور اب بھی ہیں۔دین کے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو کسی بڑی ہستی کو اپنا رہنما تسلیم کرو۔دین کے کاموں میں عقل انسانی کو کہاں دخل ہے۔ابن الوقت نے غلطی کی جو مذہب کو عقل کا غلام بنانا چاہا۔لہذا اس کے مذہبی رفارم(REFORM)کی ابتدأ صحیح نہیں تھی۔
یہ سچ ہے کہ انسان اپنی تمام قوتوں کے استعمال میں مجبور ہے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ عقل رکھتا ہو اور اس سے کام نہ لے لیکن جسمانی یا عقلی جتنی قوتیں ہیں سب کے استعمال میں اعتدال(BALANCE)شرط ہے۔جو شخص دین کی باتوں میں عقل کو بہت زیادہ دخل دیا کرتا ہے اس کو چاہئیے کہ وہ شروع سے احتیاط کرے۔اپنے خدشات اور شبہات کو دور کرکے خدا تعالےٰ کی قدرت اور دنیا کے نظام میں خدا کی عظمت کا اعتراف کرے اور فکر کرے۔اس لحاظ سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ابن الوقت کی طبیعت ایک نہ ایک دن اس بارے میں سنبھل جائے گی۔

Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-16

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں