ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:17 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-16

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:17


خلاصہ فصل - 15
ابن الوقت سے لوگوں کی عام نا رضامندی

ابن الوقت کو چاہئیے تھا کہ مذہبی چھیڑ چھاڑ نہ کرتا۔جس کی وجہ سے اس کو رفارم میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔یعنی ابن الوقت مسلمانوں میں ایک نئے عقیدے کا موجد سمجھا جانے لگااور یہ بدگمانی عام ہوگئی کہ یہ اصلاح نہیں بلکہ خودغرضی ہے۔اس کے شروع کے دو برس بڑی کامیابی کے برس تھے۔کیونکہ نوبل صاحب اس کے حامی و سرپرست تھے اور اس کے پاس موجود تھے۔جس کی وجہ سے کسی کو ابن الوقت پر کھلا اعتراض کرنے کی جرأت نہ تھی۔البتہ بغاوت کی تحقیقات میں ابن الوقت کی اچھی نیک نامی ہوئی اور نوبل صاحب کی وجہ سے اس کی لیاقت اور کارگذاری کو سراہا جانے لگا۔اعلیٰ عہدہ دار اس کو منصف مزاج سمجھنے لگے۔یعنی ابن الوقت کی رائے کی اہمیت پیدا ہونے لگی۔یہ سب کچھ تھا لیکن حسد کی آگ بھی دلوں میں بھڑک رہی تھی۔چنانچہ حاکموں کے روبرو جو لوگ جاکر ابن الوقت کے خلاف الٹی سیدھی باتیں بیان کرتے تھے۔اس کی وجہ سے ابن الوقت اور اس کے منصوبوں کو بہت بڑا نقصان پہنچتا تھا۔ناچار ابن لوقت کو اپنے آپ کو اپنے ہی گروہ سے الگ رکھنا پڑتا تھا۔وہ انگریزوں سے ملتا تھا مگر اپنے قریبی لوگوں سے بچ کر۔نوبل صاحب نے اس کو کلب میں داخل کردیا تھا۔تبدیل وضع تو اس نے کرلی تھی لیکن وہ بڑا سنجیدہ آدمی تھا۔وہ ہر ایک سے نہیں کھلتا تھا۔مگر انگریزوں کے مقابلے میں خرچ کی بالکل پروا نہ کرتا تھا۔بھلے ہی اس کے مخالفین منہ پر کچھ نہ کہتے لیکن موقع پاتے ہی اس کے خلاف زہر اگلنے لگتے۔
ایک مرتبہ یوں ہوا کی امریکہ کے مشن کی طرف سے ایک اسکول جاری تھا۔اس میں پڑھنے لکھنے کے علاوہ لڑکوں کو دستکاری بھی سکھائی جاتی تھی۔چونکہ ایسے مدرسے کی بہت ضرورت تھی اس لئے لڑکے ایسے گرتے جیسے شہدکی مکھیاں۔
پادری صاحب بڑے ہی ملنسار آدمی تھے۔اسکول میں ہر سال ایک جلسہ کرتے اور شہر کے خاص آدمیوں کو بلاتے۔ان کو خوش کرنے کے لئے بجلی اور مقناطیس کے عجیب عجیب کرتب دکھاتے۔انھوں نے ابن الوقت سے کہہ رکھا تھا کہ وہ ضرور آئے اور لکچر بھی دے۔انہی دنوں ابن الوقت کے چند انگریز دوستوں نے اصرار کیا کہ ان کو اپنے علاقے میں لے جاکر شکار کھلائیں۔مگر ایسے انتظام کے ساتھ کہ جلسہ ناغہ نہ ہو۔وہاں شکار میں اتفاق سے کوئی انگریز گھوڑے پر سے گرا اور اس کی تیمارداری نے ابن الوقت کو فرصت نہ دی۔لہذا اس نے پادری کو عین وقت پر معذرت لکھ بھیجی۔پادری نے بڑا افسوس کیا اور چاہا کہ کوئی ہندوستانی لکچر دے لیکن کوئی راضی نہ ہوا۔
پادری نے ایک بیٹھک میں افسوس کا اظہار کیا کہ ابن الوقت کے نہ ہونے سے ان کی خوشی ادھوری رہ گئی۔وہ ہوتے تو بڑا عمدہ لکچر دیتے جس سے سامعین خوش اور طالب علم فائدہ اٹھاتے۔ایک انگریز جج نے اس خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ابن الوقت نے جو نوبل صاحب کے ڈنر میں تقریر کی تھی وہ بہت خوب تھی۔
لیکن بعض ڈپٹی کلکٹر حضرات جن میں ایک کائستھ ہندو تھے اور ایک یوریشین (یوروپ اور ایشیا کی ملی جلی نسل کا آدمی) ابن الوقت کے خلاف رائے دینے لگے۔جس کی تائید میں جائنٹ مجسٹریٹ نے کہا کہ ابن الوقت ،نوبل صاحب کا منہ چڑھا ہو گیا ہے۔وہ اس کو سکھائیں گے کہ صاحب لوگوں کو بے عزت کرنے کا ان کو کوئی حق نہیں۔دراصل ہندوستانی ہندو اور مسلم رئیس جو اس وقت بیٹھک میں تھے،انگریز صاحبوں کی خوشامد میں لگے ہوئے تھے۔جس کی بنأپر ایسی رائے قائم ہوئی۔
جب یہ بات سامنے آئی کہ مسلمان شائد ابن الوقت کو عیسائی سمجھنے لگے ہیں تو پادری صاحب نے قہقہہ لگا کر کہا کہ وہ ہر گز عیسائی نہیں ہیں۔کیونکہ وہ عیسیٰ مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے بلکہ عام مسلمان کی طرح صرف ایک پیغمبر مانتے ہیں۔اگر ابن الوقت دل سے عیسائی ہوتے تو علانیہ طور پر اقرار کرتے۔وہ اپنی رائے کو چھپانے والے آدمی نہیں ہیں۔
اس پر یہ سوال اٹھا کہ پھر ابن الوقت کو آپ اپنے ساتھ کھانا کیوں کھلاتے ہیں؟پادری صاحب نے جواب دیا کہ آدمی کا جسم چند روزہ اور نا پائیدار ہے۔وہ ایک قاعدے کے مطابق پرورش پاتا ہے اور آخر کو فنا ہو جائے گا۔یعنی روح اور جسم کا تعلق عارضی ہے۔جس طرح جسم نجاست اور غلاظت سے ناپاک ہوتا ہے اسی طرح روح غصّے،لالچ،حسد،جھوٹ اور ظلم اور اسی طرح کی خراب باتوں سے ناپاک ہوجاتی ہے۔جسمانی ناپاکی بہت آسانی سے دور ہوسکتی ہے مگر روح کی ناپاکی عیسیٰ مسیح کو نام کے پانی کے بغیر پاک نہیں ہوسکتی (یہ عمل عیسائی مذہب کے عقیدے میں شامل ہے) لہذا ہم نے ابن الوقت کو اپنے ساتھ کھانا اس لئے کھلایا کہ وہ ہماری طرح کے آدمی ہیں۔ہم ہر شخص کو اپنے ساتھ کھانا کھلانے کو تیار ہیں۔
اس پر مجسٹریٹ نے کہا کہ اگر کوئی ابن الوقت کو اپنے مذہب میں لینا نہیں چاہتا تو ان کو اس کی پروا نہیں وہ صرف ایک بلند نظر آدمی ہے اور دنیا میں اس قسم کے اور بہت آدمی ہوئے ہیں۔وہ فقط اپنی نمود چاہتا ہے۔اس بات کی مسلمان،کائستھ،یوریشین سب نے تصدیق کی۔
پادری صاحب نے یہ بھی کہا کہ ابن الوقت نے ہمیشہ انگریزی سوسائیٹی میں مسلمانوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کیا ہے اس لئے وہ دل سے مسلمانوں کا خیر خواہ ہے اور اسے اپنی قوم سے بڑی ہمدردی ہے اور جب بھی اس کو موقع ملتا ہے، مسلمانوں کے فائدے میں کوشش کرتا ہے۔لیکن دوسرے مسلمانوں کی ابن الوقت سے مخالفت دیکھ کر مجسٹریٹ (جنٹ صاحب) یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ابن الوقت کی فطرت اور گہرائی میرے سوا کسی نے نہیں پائی اور جلسہ برخاست کردیا۔

Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-17

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں