کچھ افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق کے بارے میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-13

کچھ افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق کے بارے میں

ہندوستان کی لسانی بنیادوں پر صوبہ جاتی تقسیم سے قبل آندھرا پردیش کا ضلع کرنول1952ء تا 1956ء وشال آندھرا کا صدر مقام رہا۔ اس سے پہلے جنوبی ہند کا بہت بڑا علاقہ صوبہ مدراس کہلاتا تھا ۔ جس میں موجودہ آندھرا اور کرناٹک کے علاقے بھی شامل تھے ۔ اور رائل سیما کاعلاقہ کرنول ابتداء میں ہندو راجاؤں کا سیاسی گڑھ تھا۔ بعد میں اطراف کے تعلقہ جات میں مسلمانوں کی فوجی چھاؤنیوں کی وجہ سے جنگ تالی کوٹہ کی فتح کے بعد بیجا پور سے کرنول ادھونی اور اننت پور کے کچھ علاقے مسلم نوابوں کے قبضہ میں آگئے ۔ یعنی بیجا پور کی گورنری عبدالوہاب خاں کو ملنے پر تقریباپندرہ سال تک وہ ان علاقوں پر حکمراں رہے۔ اور تبھی سے وہاں مسلم آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔
علاوہ ازیں بزرگان دین کے دعوتی کام کی وجہ سے بیرونی علماء و ادباء وہاں آکر بسنے لگے ۔ اسی لئے قدیم شہر کرنول میں جگہ جگہ درگاہیں، وقف جائیدادیں اور مساجد آباد ہیں ۔ اس طرح وہاں ایک ملی جلی تہذیب کا جنم ہوا ۔ تلگو زبان کے ساتھ ساتھ اردو بھی پھلی پھولی ۔ پھر نوابوں کا دور ختم ہوا، آخری نواب غلام رسول خاں کے بعد کچھ تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ انگریزوں نے اسے صوبہ مدراس کا ضلع بنادیا جس سے اس کی تاریخی اہمیت کم ہوگئی ۔ تقریبا نصف صدی تک وہ مدراس کے زیر اثر رہا۔ اس دوران تہذیبی قدریں بدلنے لگیں لیکن 1896ء میں مولانا محمد عمر بلہاری سے کرنول آئے تو ساتھ ہی کئی مسلم خاندان بھی آباد ہوئے ۔ اسی زمانے میں ادونی، نندیال، بلہاری سے تجارت کو فروغ ملا ۔ مگر مولوی محمد عمر نے تعلیمی میدان میں ایک اہم رول ادا کیا جن کے زیر اہتمام ایک دینی مدرسہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا اسلامیہ عربی کالج بن گیا۔ اس طرح کرنول میں تعلیمی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد پڑی ۔
دراصل مولانا محمد عمر کی تربیت میں مولانا عبدالوہاب شیرازی اور مولانا عبدالقادر مدراسی کا ہاتھ رہا ۔ پھر انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے فیض العلوم کانپور میں داخلہ لیا جہاں علامہ رشید احمد گنگوہی، مولانا احمد حسین، مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی و مولانا عبدالرحمن جیسے اساتذہ کے تلمذ رہے ۔
مولانا محمد عمر کے فرزند ارجمند ڈاکٹر محمد عبدالحق نے خوب نام کمایا۔ انہوں نے کرنول کو مختلف علوم و فنون کا تعلیمی مرکز بناکر ہندوستان بھر میں اس کا نام روشن کردیا۔ تعلیم و تعلم کی ضیاء کو پھیلانے کے لئے جدو جہد کرنا بڑا ہی کٹھن اور صبر آزما کام ہوتا ہے ۔ اپنے دوستوں کے تعاون اور حضور نظام سے دو لاکھ کی رقم ملنے پر انہوں نے ہندری ندی کے دامن میں وسیع و عریض اراضی پر عثمانیہ کالج قائم کیا جس سے متصل دارالاقامہ( ہاسٹل) بھی تعمیر کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالحق کی خواہش تھی کہ عثمانیہ کالج لائبریری کا افتتاح ڈاکٹر ذاکر حسین کے ہاتھوں عمل میں آئے۔ چنانچہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے رسم افتتاح انجام دی۔ حضرت امجد کہتے ہیں:
کیسا کالج بنادیا ہے تم نے
سرسید کو جگا دیا ہے تم نے
اے عبد حق خدا جزا دے تم کو
کیا حق العباد ادا کیا ہے تم نے

اس کے علاوہ اسلامیہ عربی و طبی کالج (موجودہ نام ڈاکٹر عبدالحق یونانی و میڈیکل کالج)کرنول، عمر عربی اسکول کرنول ، گورنمنٹ بی ٹی کالج کرنول ، گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکول کرنول بھی قائم کیا۔ مدرسہ تحتانیہ نسواں، مدرسہ وسطانیہ برائے اطفال اردو سیکنڈری گریڈ اور ہائر گریڈ ٹریننگ سینٹر کی بنیاد بھی رکھی ۔ یہ کرنول سے متعلق درسگاہیں ہیں:
بن اپنے سفینہ کا نا خدا اے دوست
بلند عزائم ہواؤں کا رخ بدلتے ہیں

کرنول، میرا (راقم الحروف) کا بھی آبائی وطن ہے ۔ڈاکٹر عبدالحق سے رشتہ اس طرح ہے کہ وہ میری ممانی جان کے حقیقی بھائی تھے ۔1955ء کی بات ہے اس وقت میری عمر گیارہ سال کی تھی مدرسہ وسطانیہ اعظم پورہ میں جماعت ششم کا طالب علم تھا۔ ممانی جان مغلپورہ سے ملک پیٹ آئیں۔ وہ حضرت امجد حیدرآبادی سے ملنے جارہی تھیں۔ پروگرام کے مطابق ہمارے والد صاحب کے ہمراہ کار میں آغا پورہ چار قندیل گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا ۔ کچھ کچھ یاد ہے کہ وہاں ڈاکٹر عبدالحق صاحب کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی اور ڈاکٹر آرآر سکسینہ الہام( جو ہمارے فیمیلی ڈاکٹر تھے) کا تذکرہ بھی ہورہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ 31/جنوری1955ء کو ادارہ ادبیات اردو کے جشن سیمیں کے موقع پر حکیم الشعراء حضرت امجد حیدرآباد کی خدمات شعروسخن کے اعتراف میں بمقام سٹی کالج ایک تقریب ڈائمنڈ جوبلی حضرت امجد بھی منائی گئی جس کی صدارت افضل العلماء ڈاکٹر محمد عبدالحق نے انجام دی تھی ۔ اس تقریب میں جوش ملیح آبادی ، جگر مرادآبادی عرش ملسیانی کے علاوہ حضرت امجد کے شاگرد و ڈاکٹر سکسینہ الہام بھی شریک تھے ۔
مدراس میں ڈاکٹر عبدالحق کی زندگی کی بیشتر بہاریں گزری ہیں ۔ انہوں نے صرف کرنول تک ہی نہیں بلکہ سارے جنوب میں مختلف تعلیمی اداروں کے قیام میں اپنا رول نبھایا اور کئی اداروں کی سرپرستی بھی کی۔

ڈاکٹر عبدالحق کی صحیح تاریخ پیدائش 21/فروری 1900ء ہے جب کہ پاسپورٹ اور کیلنڈروں میں1901ء لکھی ہوئی ہے ۔ انہوں نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں عربی فارسی اور اردو کی اعلی تعلیم نہایت قلیل مدت میں مکمل کی ۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی تقریری صلاحیت کو بھی ابھارتے رہے۔ بچپن سے ہی وہ ذہین و فطین تھے ۔ بلا کا حافظہ تھا، کسی بھی عبارت کو دو تین مرتبہ پڑھتے تو یاد ہوجاتی تھی ۔ ڈاکٹر سید عبداللطیف سے انگریزی تعلیم حاصل کی ۔ اس طرح کرنول میں 1918ء میں انہوں نے امتیازی درجہ میں میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ اعلی تعلیم کے لئے مدراس جانا ضروری تھا۔ بی اے اعلی نمبروں سے کامیاب ہوئے ، اس کے بعد وہ اپنے والد کے مدرسہ میں درس و تدریس کی خدمت انجام دینے لگے ۔ 1923ء میں افضل العلماء اور 1924ء میں ایم اے کے امتحانات میں شریک ہوئے اور امتیازی کامیابی حاصل کی ۔

واضح ہو کہ "افضل العلماء" کوئی عام تعظیمی لقب نہیں بلکہ مدراس یونیورسٹی کی ایک ڈگری کا نام ہے، جو عربی کے فاضل امتحان کامیاب کرنے پر دیاجاتا ہے ۔ انہیں عربی فارسی اور اردو اور انگریزی میں عبور تھا ۔اس لئے وہ مقبول ترین اساتذہ میں شمار کئے جانے لگے1936ء میں حکومت کی جانب سے اعلی تعلیم کے لئے آکسفورڈ یونیورسٹی گئے وہاں مشہور مستشرق پروفیسر ڈی، ایس، مارگولیتھ کی نگرانی میں ڈٰ فل کی ڈگری حاصل کی ۔ آکسفورڈ میں اپنی تعلیم مکمل کرکے 1938ء میں مدراس واپس ہوئے اور 1939ء میں محمڈن کالج مدراس میں کرنل عبدالحمید کی جگہ پرنسپلی کا عہدہ سنبھالا۔ مئی 1947ء سے 1948ء تک ڈپٹی ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن کے فرائض انجام دیئے۔ پھر آپ کا تبادلہ پریسیڈنسی کالج مدراس میں ہوا۔ 1950ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ممبر منتخب ہوئے۔ اسی سال اہلیہ اور خسر کے ساتھ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے ۔
1952ء میں انہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کے اصرار پر علی گڑھ یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر کا عہدہ قبول کیا۔

ڈاکٹر عبدالحق نے اپنی زندگی میں مسلمانوں میں تعلیمی شعور بیدار کرنے اور علم کی شمع جلانے کا کام بڑی تندہی سے انجام دیا۔ انگریزی تعلیم سے روشناس کراتے ہوئے مادری زبان کے کما حقہ واقفیت کے لئے ہر جگہ اردو کی آبیاری بھی کرتے رہے ۔ وہ شمالی ہند کے ماحول سے بھی آگاہ تھے ۔ اور مشہور ماہر لسانیات ڈاکٹر ایس کے چٹر جی کے ہم خیال بھی تھے ۔ ڈاکٹر چٹر جی کا کہنا تھا"اگرچہ یہ سچ ہے کہ اردو اور ہندی، دونوں دہلی کی کھڑی بولی کی دو شکلیں ہیں لیکن تاریخی اعتبار سے یہ کہنا غلط ہے کہ اردو، ہندی کی مسلمانی شکل ہے ۔ اردو کا ارتقاء ہندی کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ آج ہم جس زبان کو ہندی کے نام سے جانتے ہیں اس کی تشکیل تو اردو کے ڈھانچے کو سامنے رکھ کر اٹھارہویں صدی میں کی گئی ۔ اس طرح رشتہ کے لحاظ سے یہ دونوں سگی بہنیں ہیں ، اردو نہ مسلمانی زبان ہے اور نہ ہندی کی حریف ۔ اس کا دامن مذہبی فرقہ واریت سے نہیں جوڑا جاسکتا۔
چنانچہ مندرجہ بالا عبارت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمان مختلف زبانیں مثلا تامل، ملیالم، بنگالی، و گجراتی بولتے اور سمجھتے ہیں اور اسی طرح شمالی ہند، یوپی اور پنجاب میں رہنے والے ہندو حضرات اردوبولتے ہیں۔ اسی تجزیہ کو افضل العلماء ، ڈاکٹر عبدالحق پیش نظر رکھتے تھے۔ وہ ایک پہلو دار شخصیت کے حامل تھے ۔ ایک محقق، ایک ادیب، ایک موثر خطیب اور ایک لائق استاد کی حیثیت سے قابل احترام رہے ہیں۔ وہ ایک بہترین ایڈ منسٹریٹر بھی رہے ۔
انہیں خان بہادر، کا خطاب حکومت برطانیہ کی جانب سے عطا ہوا ۔ سر سید ثانی ، حضرت امجد و پروفیسر آل احمد سرور کا دیا ہوا خطاب ہے ۔

مدراس میں جن اداروں کی سرپرستی ڈاکٹر عبدالحق نے کی ان میں سے چند یہ ہیں۔ گورنمنٹ محمڈن کالج مدراس، پریسیڈنسی کالج مدراس، نیو کالج مدراس۔ ایس آئی ای ڈی کالج مدراس، امیتھر اج کالج مدراس، فاروق کالج (ملابار) جمال محمد کالج ترچنا پلی، اسلامیہ کالج وانمباڑی، سینٹ جوزف کالج بنگلور وغیرہ وغیرہ۔
راز اپنا اگر خود پہ ہویدا ہوجائے
انسان فرشتوں سے بھی اونچا ہوجائے
امجد وہ شخص کیا نہیں کرسکتا
جس کو اللہ پر بھروسہ ہوجائے
بابائے اردو ڈاکٹر عبدالحق (جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو پاکستان) نے افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق کے نام ایک خط میں لکھا ہے:
"آپ میرے ہم نام ہی نہیں ہیں بلکہ میرے ہم قدم اور ہم جسم بلکہ ہم رنگ و ہم ذوق بھی ہیں۔"

مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے ڈاکٹر عبدالحق کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ ایک مرتبہ جب ڈاکٹر عبدالحق لکھنو تشریف لے گئے اور مولان کو مدراس آنے کی دعوت دی تو مولانا کے تاثرات اس طرح رہے کہ دیکھنے پر اس سے بھی بڑھ کر نکلے جو سنے ہوئے تھے بڑے مہذب اور بڑے خوش لہجہ۔"
ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھی ڈاکٹر عبدالحق کے بڑے مداح تھے ۔ ڈاکٹر حمید اللہ کو بہت افسوس رہا کہ بہت زیادہ قریبی روابطہ نہ رکھ سکے صرف سر سری ملاقاتیں رہیں۔
ماہر اقبالیات پروفیسر جگن ناتھ آزاد کہتے ہیں۔"افضل العلماء ڈاکٹر عبدالحق جن کی ذات بابرکات پر ہندوستان جتنا بھی ناز کرے کم ہے ۔ ڈاکٹر عبدالحق ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کے گرویدہ اور اسی تہذیب کے نمائندے تھے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ وہ اسی تہذیب کے مرقع تھے تو غلط نہ ہوگا ۔ علم و فضل، صدق و صفا، خلوص و حلم ، تحمل و برباری یہ سب ابعاد ڈاکٹر عبدالحق کی ذات میں سما کر یک جان ہوگئے تھے ۔"

رشید احمد صدیقی ، ڈاکٹر عبدالحق کے بڑے معتقد تھے ۔ وہ لکھتے ہیں" ڈاکٹر عبدالحق کو دیکھ کر میرے دل میں بھی آرزو پیدا ہوتی تھی کہ کاش میں بھی ایسا مسلمان ہوتا۔"

پروفیسر کوکن صاحب نے ڈاکٹر عبدالحق کی تقریروں کی بڑی تعریف کی ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے ۔ "ان کی تقریریں بہت پر مغز اور موثر ہوتی تھیں ، ہمیشہ ان کے کہنے کا ڈھنگ بالکل نرالا ہوتا تھا۔ ہمیں ان کی تقریریں سننے کے بہت سے مواقع نصیب ہوئے ہیں۔میں ان کی لذت کو ہمیشہ دل و دماغ میں محسوس کرتا رہا ہوں۔"
ماہر القادری نے ڈاکٹر عبدالحق کے انتقال پر اظہار عقیدت اس طرح پیش کیا:
" ڈاکٹر عبدالحق اتنے کام کے آدمی تھے کہ اگر زندگی کا کچھ حصہ دوسروں کو دیاجاسکتا تو میں ناکارہ اپنی عمر کے چند سال ان کو نذر کردیتا۔"

***
Mahmood Saleem
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad - 500024
موبائل: 09440059309
محمود سلیم

Remembering Afzal-ul-ulema Dr. Abdul Haq. Article: Mahmood Saleem
Dr. Abdul Haq Urdu University, is the State University Established in 2016 by The Government of Andhra Pradesh,
Kurnool, Andhra Pradesh, India.

1 تبصرہ:

  1. ماشاءاللہ بہت ہی شاندار اور معلوماتی مضمون

    جواب دیںحذف کریں