کرشن چندر کے تین خط جیلانی بانو کے نام ۔۔۔
سن 1958 میں تحریر کردہ معروف ادیب کرشن چندر کے تین خط، جو حیدرآباد کی ممتاز افسانہ/ناول نگار محترمہ جیلانی بانو کو لکھے گئے تھے اور انہی کی مرتب کردہ کتاب "دور کی آوازیں (خطوط کا انتخاب)" میں شامل ہیں ۔۔۔ قارئین کے ذوق مطالعہ کی خاطر یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ جیلانی بانو کے فرزند اشہر فرحان نے اشاعت کی اجازت دی ہے جس کے لیے ادارہ تعمیرنیوز ان کا شکرگزار ہے۔
پیش گفتار
اردو کے چند اہم ادیبوں نے پچھلے 50 سال میں جو خطوط مجھے لکھے، ان کا یہ انتخاب شائع کرنے سے غرض اپنی اہمیت دکھلانا نہیں ہے۔ یہ دور کی آوازیں آج بھی میرے آس پاس گونجتی اور مجھے لکھتے رہنے کے لیے اکساتی رہتی ہیں۔ دوسری زیادہ اہم وجہ ان خطوط میں موجود ہے۔ ان کو پڑھیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پچھلی نصف صدی میں اردو ادب کن ادوار سے گزرا اور کون سے ادبی نظریات اور رجحانات زیربحث رہے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے اپنے اپنے معاشروں کو بدلنے کا مقدس فرض انجام دیتے رہے۔ یہ لکھنے والے ایک دوسرے سے جس قدر محبت رکھتے تھے، جتنی ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے، وہ ان خطوط میں موجود ہے لیکن آج کہیں نہیں دکھائی دیتی۔
میں نے لکھنے والوں کے علاوہ اپنے پڑھنے والوں کے چند خطوط بھی شامل کیے ہیں۔ کیونکہ میں زندگی بھر ان کے لیے لکھتی رہی ہوں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ادب کی تحسین و تنقید مٹھی بھر ناقدین کے حوالے کر دی گئی ہے اور قارئین ادب کو اس میں کبھی شامل نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ خطوط بہت دلچسپ ہیں۔ یہ ادب کی تنقید و تحسین کا ایک اور زاویہ سامنے رکھتے ہیں۔ ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اردو افسانے کی رسائی اردو جاننے والوں کے کن طبقات تک ہے اور اس رسائی میں افسانے کے فن اور اس کے موضوعات کا کتنا ہاتھ ہے؟
جیلانی بانو
٭٭٭
نام کتاب: دور کی آوازیں (خطوط کا انتخاب) - Door ki Awazen (Khutut ka intekhab)
مرتب: جیلانی بانو
ٹائٹل: رجا فرحان
سن اشاعت اول: 2010
قیمت: 600 روپے
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔
بمبئی
کرشن چندر
3-5-1958
محترمہ۔ آداب، آپ کا خط مل گیا تھا۔ کتاب بھی دو دن کے بعد مل گئی ۔ میرا خیال ہے گزشتہ چھ سات سال میں افسانوں کا ایسا خوبصورت مجموعہ تو شائع نہیں ہوا جو صورت اور معنی دونوں اعتبار سے اس قدر حسین ہو! مشکل ہی سے کوئی دوسرے درجے کا افسانہ اس میں کسی کو ملے گا ۔ فنی نزاکتوں کی آپ کے نزدیک بڑی اہمیت ہے ۔ اور اس میدان میں آپ نے بڑوں بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ الفاظ کے استعمال میں آپ بےحد محتاط نظر آتی ہیں۔ اور مشاق جوہریوں اور نگینہ سازوں کی طرح عرق ریزی کرتی ہیں۔
اس پر بھی آپ کو گلہ ہے کہ بڑے ادیب آپ کو رجسٹرڈ ادیب نہیں مانتے؟ چھوڑئیے ان باتوں کو۔ بڑا ادب خود اپنے آپ کو منوا لیتا ہے ۔ اسے کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جب ہم نے لکھنا شروع کیا تھا تو منشی پریم چندکا چراغ جل رہا تھا ۔ اس وقت کون باور کر سکتا تھا کہ ان کے سامنے عصمت، بیدی، منٹو کا چراغ جل سکے گا؟ مگر دنیا نے د یکھا اور مانا۔ اور نئے ادیبوں کی قوت کا اعتراف کیا۔ جب افسانہ نویسی میں منٹو، بیدی، عباس، عصمت وغیرہ نے شاندار روایتیں تعمیر کر لیں کسے خیال تھا کہ ان کے سامنے کسی دوسرے ادیب کا چراغ جلے گا۔ لیکن دنیا نے جیلانی بانو، ہاجرہ مسرور، اشفاق احمد، شوکت صدیقی ، انور عظیم اور دوسرے نئے افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھے اور جان لیا کہ ترقی کبھی ایک منزل پر آ کے رکتی نہیں ہے ۔ زندگی اور اس کی قوت نمو نئی نئی صورتوں میں ہمیشہ جلوہ گر ہوتی رہے گی ۔ پھر ایک روز ہماری طرح آپ کا بھی پرانے ادیبوں میں شمار ہونے لگے گا اور بطن گیتی سے نئے آفتاب اور نئے ماہتاب پیدا ہوں گے ۔ یونہی ہوگا اور اسے کوئی روک نہ سکے گا۔
آپ کے افسانوں میں مجھے ایک انار، روشنی کے مینار، نئی عورت، پنچوں کی رائے، بہاروں کے بیج، بہت پسند آئے ۔ وہ مونولوگ ۔۔ "فصل گل جو یاد آئی" بھی بہت خوب ہے۔ حیدرآباد کی سرزمین پر یو۔پی کے مسلم شرفا کی معاشرت اور ان کی زبان مزہ دیتی ہے ۔ اور عہد رفتہ کی دلفریبیوں کی یاد دلاتی ہے۔ جن اجڑی محل سراؤں کی املیوں تلے آج ہولناک سناٹا ہے ان کی منظر کشی آپ نے بڑے بلیغ اشاروں میں کی ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ آج تک (3-اگست-1958) ہر انسانی تہذیب و تمدن کے پس پردہ ظلم کی ایک چھپی ہوئی تلوار رہتی ہے ۔ خدا کرے آگے چل کے جو تہذیب نکھرے اس میں یہ برائیاں نہ ہوں۔ لیکن میں زیادہ پر امید نہیں ہوں۔
پورے مجموعے میں صرف دو ہی افسانے مجھے کمزور نظر آتے ہیں ، جو امن کے موضوع سے متعلق ہیں ۔ "آگ اور پھول"، "بھنور اور چراغ"۔ کم سے کم آئندہ پانچ سال تک آپ کبھی کسی کی فرمائش پر، کسی کے دئیے ہوئے موضوع پر ، کسی کی سفارش پر ، اپنے ہی دل کی کسی کمزور تحریک پر کوئی افسانہ نہ لکھئے ۔ ابھی یہ عیاشی بہت مہنگی پڑے گی۔
سنا ہے ان دنوں آپ ایک ناولٹ لکھ رہی ہیں۔ کب مکمل ہوگا؟ کہاں چھپے گا؟ عصمت کبھی کبھی اپنے افسانوں میں بالکل مردوں کی طرح وار کر جاتی ہیں ۔ لیکن آپ بالکل عورتوں کی طرح لکھتی ہیں اور سوچتی ہیں ۔ نئی عورت کی آرزوئیں ہوں یا پرانی مشرقی عورت کے دل کی نازک ترین پرچھائیاں ہوں۔ کہنے کا ڈھب بے حد نسائیت لئے ہوئے ، کچھ عجیب ایجاز لئے جھجکتا، سسکتا سا انداز بیان ہے ۔ جو اردو ادب میں ایک نئی چیز ہے ۔
"روشنی کے مینار" پر میری دلی مبارکباد قبول فرمائیے۔
مخلص
کرشن چندر
بمبئی
5-9-1958
بانو بہن
آداب۔ ایک عرصے کے بعد آپ سے مخاطب ہوں ۔ کچھ اس قسم کی لغو قلمی مصروفیتوں میں گھرا رہا کہ ہزار کوشش کے بعد بھی آپ کو وقت پر جواب نہ بھجوا سکا ۔ اس کا مجھے بے حد افسوس ہے ۔ یعنی ایک تو خط لکھو اور معافی بھی مانگو۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کچھ روایتیں اچھی بھی ہوتی ہیں ۔
میں نے آپ کی رسمی تعریف نہ کی تھی ۔ جو صحیح سمجھا اسے لکھ ڈالا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اس سے بہتر تعریف و توصیف کی مستحق ہیں ۔ مگر دنیا، آپ کو آئندہ معلوم ہوگا تعریف کرنے میں بہت بخل سے کام لیتی ہے۔ تنقیص پر ہر وقت آمادہ رہتی ہے۔
مجھے معلوم نہیں تھا آپ بدایوں کی رہنے والی ہیں؟ مجھے آج تک یہ بھی معلوم نہ تھا کہ عصمت بھی بدایوں کی رہنے والی ہیں! بدایوں کے پیڑوں کی تعریف البتہ سن چکا ہوں ۔اس سے آپ کو میری جہالت کا اندازہ ہو جائے گا۔
آپ نے یہ بالکل درست کہا کہ عورتوں کی ترقی اور اس کے لئے جو اب تک جدوجہد ہو چکی ہے اس کی کہانی اب تک لکھی نہیں گئی ہے ۔ اس لئے کہ اسے کوئی سماجی اور تاریخی شعور رکھنے والی حساس اور ذہین عورت ہی لکھ سکتی ہے ۔ ہم لوگ لکھیں گے تو صرف شعور سے لکھیں گے ۔ عورت تو اسے گویا اپنے خون سے لکھے گی ۔ کم سے کم اپنے دل سے تو ضرور لکھے گی۔
عورتوں کے معاملے میں بڑی مصیبت یہ ہے کہ گھر بسانے کے بعد ادب کے میدان میں ان کے تخلیقی کام کی رفتار بہت سست ہو جاتی ہے ۔ ہماری بہن سرلا دیوی شادی سے پہلے اچھے خاصے افسانے لکھ لیتی تھیں۔ شادی کے بعد اکدم ٹھس ہو کے بیٹھ گئیں ۔ عصمت کے ہاں بھی پژمردگی کا سا عالم ہے ۔ تلخی میں وہ جو پہلے کی سی چمک تھی وہ اب غائب ہے ۔ ہاجرہ اور خدیجہ بھی ان دنوں بہت کم لکھتی ہیں۔ مگر اس کا علاج بھی کیا ہے ؟
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ بی اے پاس کرنے کی فکر مت کیجئے ۔ بی اے ضرور پاس کیجئے ۔ ایم اے بھی کیجئے ۔ مگر افسانے برابر لکھتی رہئے ، اور جلد لکھتی رہیے اور وہ ناول اور اس کے بعد دوسرا ناول بھی مکمل کر ڈالیے ۔ آ پ کے پاس وقت بہت کم ہے ۔
ہوسکتا ہے میں غلطی پر ہوں ۔ اور مجھ سے زیادہ کوئی خوش نہ ہوگا اگر میں غلط ثابت کر دیا جاؤں ۔ لیکن میری صاف گوئی کا برا مت مانئیے گا۔
میرا خیال ہے کہ آپ میرا لکچر سنتے سنتے بور ہو چکی ہیں ۔ لہٰذا اجازت چاہتا ہوں ۔ پھر کسی دن حاضر ہوں گا۔
آپ کا بھائی
کرشن چندر
بمبئی
16-11-1958
اچھی بہن آداب۔
سویت رو س کے ایک کونسل نے دلی سے مجھے عرصہ ہوا ایک خط لکھا تھا۔ اور مجھ سے کہا تھا کہ میں ان کے لئے ہندوستان کی مختلف زبانوں سے گزشتہ دو سال کی ایسی تخلیقات کا انتخاب کروں جو سوویت زبانوں میں ترجمہ کی جائیں ۔ یہ کام ظاہر ہے کس قدر اہم اور کس قدر مشکل بھی ہے ، ایک ادیب کے لئے جو صرف دو تین زبانیں جانتا ہو ۔ ہمارے ملک میں تو چودہ زبانیں ہیں ۔ بہر حال میں نے اب کے تو صرف اردو کے بارے میں اپنا انتخاب بھیج دیا ہے۔ اور انہیں اس سلسلے میں "روشنی کے مینار" کے بارے میں بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ یا تو اسے مکمل طور پر شائع کریں یا اس میں سے چند ایسی کہانیوں کا انتخاب کرلیں جو حیدرآباد کی نئی زندگی سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ نثر نگاروں میں سے میں نے بیدی ، عصمت ، مہندر اور عباس کی چند تخلیقات بھی شامل کی ہیں ۔
میں نے جو بات کہی تھی عورتوں کی شادی کے بارے میں کہی تھی ۔ اور افسانہ نگار عورتوں کی شادی کے بارے میں کہی تھی ۔ آپ نے سب کو، مردوں کو عورتوں کو ، ایک ہی ریوڑ میں دھکیل دیا۔ نہیں، عورتوں کی شادی اور مردوں کی شادی میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ نمبر ایک۔ نمبر دو یہ کہ میں خود جی جان سے چاہتا ہوں کہ کوئی عورت شادی کے بعد بھی میرے اس کلیے کو جھٹلا دے اور اسی شان سے لکھے ، اسی آگ سے لکھے ، اسی تیزاب سے لکھے جس سے وہ شادی سے پہلے لکھا کرتی تھیں ۔
میں تو خود یہ چاہتا ہوں کہ شادی اچھی ہو یا بری ، رفیق کار اچھا ہو یا برا۔ اس چیز کو فن کی راہ میں حائل نہ ہونا چاہئے ۔ جس طرح فلم کو یا سرکاری نوکری کو ادب کے راستے کا روڑا نہ بننا چاہئے ۔ مگر اس میں بہت بھید ہے ۔ شادی عورت کے لئے ایک گہرا روحانی تجربہ ہے ۔ مرد کے لئے اس حد تک نہیں ہے (ہونا چاہئے مگر ہوتا نہیں ہے) پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ وہ گہرا روحانی تجربہ ایک ادیب خاتون کے فن کو جلا دے۔ وہ فن ماند کیوں پڑنے لگتا ہے؟ یعنی فن کی اٹھان ہوتی ہے کہ سلسلہ راستے ہی میں کٹ جاتا ہے ۔ بالعموم فن کی بلوغت تک پہنچنے کے لئے بیس پچیس سال درکار ہوتے ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں شادی کے چار چھ سال بعد ہی دم توڑ دیتی ہیں ۔ مرد آٹھ دس سال، بارہ سال کے بعد۔ گو یہ بھی کلیہ نہیں ہے ۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ فن ریاضت چاہتا ہے اور ریاضت کے لئے وقت چاہئے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی تو ان خواتین میں سے ایسی ہو جو ہر طرح کی مسرتوں تکلیفوں، کامرانیوں ، ناکامیوں کے باوجود مسلسل لکھتی چلی جائے ۔ عظمت اس کے بغیر نہیں ملتی ہے ۔ اور کبھی اتنی کاوش کے بعد بھی نہیں ملتی ہے ۔ مگر دل کو یہ تو تسلی ہوگی کہ ہم نے اپنی سی کوشش کرلی۔
(دیکھئے ۔ میں نے پورے دو صفحے نصیحت کرنے میں ضائع کر دئیے ۔ دراصل نصیحت کرنا بہت آسان ہے) آپ غزل کہیے ہم قصیدہ کہیں گے، ناول کہاں تک رہتی ہے؟ ان دنوں میں میں ایک ناول لکھ رہا ہوں ۔عنوان ہے "ایک عورت ہزار دیوانے!"
مگر یہ عورت غزل کی روایتی محبوبہ نہیں ہے ۔ بڑی جاندار عورت ہے ۔ ایک خانہ بدوش لڑکی کی داستان حیات ہے ۔ جو شروع سے آخر تک مسلسل جدوجہد کیے جاتی ہے۔ (گو ذاتی طور پر مجھے غزل کی وہی روایتی محبوبہ پسند ہے ، حنائی ہاتھ ، غنائی لہجہ ، آہستہ خرام ، ایک قدم چلیں تو سو بل کھائیں ، رخساروں سے پلکیں اٹھیں تو کئی صدیاں گزر جائیں ۔ مشرقی مرد کے اس تضاد نے بےچاری عورت کو تباہ کیا ہے) ابھی دو تہائی لکھا ہے ۔ قریباً ایک تہائی باقی ہے ۔ اس ناول کا اختتام خود مجھے معلوم نہیں ۔ اب دیکھئے کیسے اور کس طرح ختم ہوتا ہے یہ ناول؟ اور آپ لوگوں کو پسند بھی آتا ہے ؟
حیدرآباد ایک عرصہ سے آنا نہیں ہوا ۔ اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان بھی نہیں ہے ۔ آؤں گا تو ضرور آپ سے ملوں گا ۔ ہاں اس دوران میں اگر آپ لوگ کبھی اس طرف آئیں تو ضرور مجھے مطلع کیجئے گا ۔ میں البتہ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ماں جی سے ملنے دلی جاؤں گا ۔ اس لئے اگر آپ اس خط کا جواب پندرہ دسمبر تک دے دیں تو ٹھیک رہے گا ورنہ سات جنوری کے بعد جواب دیں جب تک میں دہلی سے واپس لوٹ آؤں گا۔
آپ کا بھائی
کرشن چندر
Letters of Krishan Chander to Jeelani Bano. Ref.: Door ki awazen, Edited by: Jeelani Bano.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں