05/اگست مضمون ڈاکٹر محمد ناظم علی

نظام آصف سابع میر عثمان علی خان فرماں رواں سلطنت حیدرآباد نے رعایا میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے اعلیٰ تعلیمی ادارہ عثمانیہ یونیورسٹی قائم کیا۔ اپنے ایک فرمانی کے ذریعہ1917ء میں جامعہ عثمانیہ کے قیام کا اعلان کیا۔ جس میں سماجی اور سائنسی و ٹیکنالوی کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا اور یہ نہ صرف کی بلکہ ایشیاء کی مادری زبان اردو میں سب سے پہلی جامعہ ہے جس کا ذریعہ تعلیم اردو میڈیم تھا اور اردو میڈیم سے ہی انجینئرنگ ایم بی بی ایس اور قانون کی تعلیم کا نظم تھا سابق ریاست آندھرا پردیش کے وزیر اعلی ڈاکٹر یم چنا ریڈی نے ایم ایم بی بی ایس اردو میڈیم سے کیا تھااس طرح اس دور کے طلبہ مذکورہ کورس کی تعلیم اردو میڈیم سے حاصل کی تھی لیکن آزادی کے بعد اس کا میڈیم اردو سے انگلش کردیا گیا اس کا اردو کردار ختم کردیا گیا ۔ لیکن جامعہ عثمانیہ کی رگوں میں اردو کا خون گردش کررہا ہے اس کی فطرت سرشت میں اردو تہذیب پنہاں ہے اس جامعہ کی بنیاد، اس اردو مادری پر منحصر و مبنی ہے اردو میں ۔ مادری زبان کے حوالے سے دنیا میں جانی پہچانی جاتی ہے اس کے فرزندان کی سربلندیاں دنیا پر عیاں ہیں ۔ سکندر علی وجد نے اسے فرزند جامعہ عثمانیہ دانش مندی کو خراج تحسین پیش کیا ہے آج دنیا میں عثمانیہ یونیورسٹی کی شناخت اردو اور اس کے تعلیمی معیار سے ہے۔ کوئی بھی جامعہ اس کے تعلیمی معیار اور تحقیق و تنقید سے مقبول ہوتی ہے ، عثمانیہ یونیورسٹی درک کا تحقیق کا معیار بلند ہے اور پورے عالم کو متاثر کرتا ہے تحقیق میں ندرتجدید اور تخلیقی انداز ہوتا ہے آج کل جامعات اپنی تحقیقی کے معیار سے شناخت نیارہی ہیں عثمانیہ یونیورسٹی میں تحقیقی معیار بلند ہے اور سماج ملک و قوم افادیت حاصل ہورہی ہے ۔ کسی بھی جامعہ کو چلانے کے لئے اس کے انظام و انواح اور تعلیمی کوائف کے فروغ و ارتقاء کے لئے ایک وائس چانسلر کی ضرورت ہے ۔Principal H.Mوائس چانسلر تسلیمی اداروں کے اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے سربراہ ہوتے ہیں یہ لوگ انتظامیہ اور تعلیمی لیڈر شپ میں معیار پیدا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اپنیAcademchaedership Principal Leadrshipکی صلاحیتوں کو برائے کار لاکر تعلیمی اداروں کو ترقی دینے رکھے اپنا الگ علاحدہVisitرکھتا ہے تمام قسم کے تعلیمی اداروں کی ترقی کا دارومدار تعلیمی و انتظامی سردارLeaderپر ہوتا ہے اگر وہ دلچسپی نہ دیکھا جائے تو تعلیمی ادارے پسماندہ ہوجاتے ہیں ۔ اسلئے حکومت ایسے افرا دکو نامزد کرتی ہے جو محنتی اور حرکیاتی ہوتے ہیں۔ وہ اپنی محنت شاقہ خون جگر دے کر تعلیمی اداروں کو ترقی عطا کرتے ہیں ۔ جامعہ عثمانیہ کے1917سے2016ء تک جملہ24وائس چانسلر گزرے ہیں ۔ جنہوں نے اپنا خون جگر اور محنت ومشقت سے جامعہ پر ترقی عطا کی ہے عموماً جامعات کے وائس چانسلر کا تقرر ریاستی حکومت کی ایما پر گورنر کرتا ہے ۔ ریاستی حکومت بھی پیانل تیار کرتی ہیا ور گورنر منظوری عطا کرتا ہے تب کہیں جاکر وائس چانسلر کا انتخاب ہوتا ہے کیا بھی اچھا ہوتا وائس چانسلر تعلیمی شعبہ سے ہو ناکہ بیرونی محکمہ سے کیونکہ تعلیمی شعبہ سے آگرV.Cانتخاب ہوتا ہے تو ایسا وائس چانسلر تجربہ مشاہدہ رکھتا ہے اور جامعات کے نشیب و فراز سے خوب واقف ہوتا ہے اور معیار کے ایج کے لئے جدوجہدکرتا ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ V.Cکا انتظام تقرر تعلیمی شعبہ سے کریں ۔ سیاسی سفارشی کو نظر انداز کریں ۔ اعلی تعلیم کے حصول سے قوم و ملک کی بے پایاں ترقی ہوتی ہے اسلئے اعلیٰ تعلیم کے معیار کو ملحوظ رکھتا ہوگا ۔ اب جامعہ عثمانیہ کے جتنے وائس چانسلر نامزد ہوتے ہیں ان میں اچھا و اعلیٰ تعلیمی پس منظر رکھنے والے اور اپنی صلاحیت و لیاقت سے جامعہ کا نام روشن کیا۔ پورے عالم میں جامعہ کا ایک معیار شناخت ہے اس کے ڈگریوں کی اہمیت ہے اور معیاری سمجھی جاتی ہے اور اس جامعہ سے فارغ طلبا مارکیٹ میں آسانی سے Adjustہوجاتے ہیں ۔ انکی کھپت آسانی سے ہوجاتی ہے اب تک جتنے چانسلروں نے اس عہدے جلیلہ پر فائز رہے ہیں ان کی تاریخ وار تفصیل درج کی جاتی ہے تاکہ اخبار کے قارئین کو معلوم ہوجائے کہ کون کون سے وائس چانسلرخدمات انجام دی ہیں ان میں قابل ذکر حسب ذی ذیل درج ہیں اس کے بانی مبانی اساس وائس چانسلر نواب حبیب الرحمن خاں جنہوں نے
ایک سال یعنی 1918 تا 1919 تک فرائض انجام دیے ہیں ۔
نمبر شمار | Name | نام | مدت |
1 | نواب حبیب الرحمن خان | Nawab Habibur Rehman Khan | 1918-19 |
2 | نواب وحید الدولۃ | Nawab Wahi-ud-Dowla | 1920-35 |
3 | نواب مہدی یار جنگ بہادر | Nawab Mehdiyar Jung Bahadur | 1936-43 |
4 | نواب اعظم جنگ بہادر | Nawab Azam Jung Bahadur | 1943-45 |
5 | نواب علی یاور جنگ بہادر | Nawab Aliyawar Jung Bahadur | 1945-46 |
6 | ڈاکٹر ولی محمد | Dr. Woli Mohammed | 1946-47 |
7 | ڈاکٹر رضی الدین صدیقی | Dr. Raziuddin Siddiqui | 1947-48 |
8 | نواب علی یاور جنگ بہادر | Nawab Aliyawar Jung Bahadur | 1948-52 |
9 | پروفیسر سوری بھگونتنم | Prof. Suri Bhagavantam | 1952-57 |
10 | ڈاکٹر ڈی ایس ریڈی | Dr. D. S. Reddy | 1957-69 |
11 | پروفیسر روادا ستیہ نارائینہ | Prof. Ravada Satyanarayana | 1969-72 |
12 | پروفیسر این نروتم ریڈی | Sri. N. Narotham Reddy | 1972-75 |
13 | جسٹس پی جگن موہن ریڈی | Justice P. Jaganmohan Reddy | 1975-77 |
14 | پروفیسر جی رام ریڈی | Prof. G. Ram Reddy | 1977-82 |
15 | سید ہاشم علی اختر | Sri Syed Hashim Ali, IAS | 1982-85 |
16 | پروفیسر ٹی نونیت راؤ | Prof. T. Navaneeth Rao | 1985-91 |
17 | پروفیسر ایم ملا ریڈی | Prof. M. Malla Reddy | 1991-95 |
18 | پروفیسر وی راما کشٹیا | Prof. V. Ramakistayya | 1996-99 |
19 | پروفیسر ڈی سی ریڈی | Prof. D. C .Reddy | 1999-02 |
20 | پروفیسر جے اننتا سوامی | Prof. J. Anantha Swamy | 2002-04 |
21 | پروفیسر محمد سلیمان صدیقی | Prof. Mohd. Suleman Siddqui | 2005-08 |
22 | پروفیسر ٹی تروپتی راؤ | Prof. T. Tirupati Rao | 2008-11 |
23 | پروفیسر ایس ستیہ نارائینہ | Prof. S. Satyanarayana | 2011-14 |
24 | پروفیسر ایس راماچندرم | Prof. S. Ramachandram | 2016 onwards |
اس طرح سے 24 وائس چانسلروں کا دور جامعہ عثمانیہ نے اپنی100سالہ بہار میں دیکھی ہے ۔ ان میں ایک نے کچھ نہ کچھ اصلاحات اور رنگ و روپ کو جلا بخشی اور تعلیمی و انتظامی لحاظ سے فوقیت عطا کی ہے۔ جامعہ عثمانیہ اپنی100بہار پر امن انداز سے دیکھی ہیں درمیان میں کچھ انقلابات آتے ہیں لیکن جامعہ آگے بڑھتا رہا ۔ ایسے حالات موقع پر ہر وائس چانسلر کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کو جدید تحقیق جدید ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی عطا کریں۔ کو عوامی تقاضوں سے لیس مربوط ہونا چاہئے۔ سیاسی رسہ کشی مداخلت دور رکھنا چاہئے تب طلبہ کا تعلیمی معیار بڑحے گا اور وہ ترقی کرے گی۔ ساتھ ہی ساتھ اردو کو جامعہ کے ساتھ منسلک مربوط کردیا ہوگا۔ اردو کے تعلق سے عثمانیہ یونیورسٹی کچھ تو بھلائی کے سونچے اور اسی راہیں تلاش کریں جس سے اردو زبان و ادب کو فروغ حاصل ہو۔
The Vice Chancellors of Osmania University, Hyderabad. Article: Dr. Mohd Nazim Ali
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں