متحد ہو کر ہی کچھ ہو سکتا ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-08-10

متحد ہو کر ہی کچھ ہو سکتا ہے

journalists-unity
میں بیکار میں کرن تھاپر اور نسبتاًحالیہ ترین بھرکھادت جیسے اپنے پسندیدہ ٹیلی ویژن اینکروں کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ انہیں ہٹا دیا گیا ہے ۔ یہ کس نے کیا، اس پر قیاس آرائی ہو سکتی ہے ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ نریندر مودی حکومت کا دباؤ ہے جب کہ بعض دیگرافراد اس پر اظہار افسوس کررہے ہیں کہ یہ خود ٹی وی چینل کے مالکان کی حرکت ہے ۔ حیرت اس پر ہے کہ کسی نے احتجاج نہیں کیا ۔ میرے زمانہ میں تو شور مچ جاتا اور یہ بتانے کے لئے کہ پریس کی آواز دبا دی گئی ہے یا یہ کہ نکتہ چینوں کو خاموش کردیا گیا ہے، میٹنگیں ہوتیں۔ بے شک ایمرجنسی کے دنوں میں معاملہ مختلف تھا لیکن اس سے پہلے وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پریس کے خلاف کارروائی کی ہمت تک نہیں کی تھی۔ وہ اپنے حامیوں کی متلاشی رہتی تھیں جو معدودے چند تھے ، لیکن نکتہ چینیوں کی تعداد بھی بہت تھی۔ مجھے یاد ہے کہ 1975-77 کے دوران سینسر شپ نافذ کرنے کے بعد انہوں نے فاتحانہ انداز میں کہا تھا کہ ایک کتا بھی نہیں بھونکا۔ اس سے مجھے اور دیگر صحافیوں کو دلی تکلیف پہنچی تھی ۔ ہم 103 افراد نے پریس کلب پر جمع ہوکر سینر شپ کی تنقید کرنے کے لئے ایک قرارداد منظور کی۔ وزیر اطلاعات پی سی شکلا نے جو مجھے اچھی طرح جانتے تھے ، فون پر مجھے متنبہ کیا کہ آپ میں سے ہر شخص کو جیل میں ڈال دیاجائے گا۔ اور واقعی یہی ہوا۔ مجھے تین ماہ کے لئے حراست میں رکھا گیا ۔
وہی زمانہ میری آنکھوں کے سامنے ایک بار پھر آگیا ، جب تسلیمہ نسرین نے کچھ دن پہلے یہ کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اختلاف کی گنی چنی آوازیں ہی سنی جارہی ہیں۔ کولکاتا چھوڑنے کے بعد انہیں اورنگ آباد میں نظر بند رکھا گیا تھا۔ ان کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور وہاں کے بنیاد پرست عناصر نے انہیں اس لئے ملک بدر کردیا کہ انہوں نے "لجا" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ، جس میں ان کے ملک میں بنیاد پرستوں کے ہاتھوں ایک ہندو عورت کی بدحالی کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔
یہ ہندوستانی جمہوریت پر ایک داغ ہے کہ تسلیمہ نسرین اپنی پسند کے شہر میں نہ رہ سکیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ چند روز پہلے وہ اورنگ آباد سے دہلی کے لئے روانہ ہوئیں، لیکن یہاں انہیں داخل ہونے نہیں دیا گیا اور اورنگ آباد واپس بھیج دیا گیا۔ اس واقعہ پر مزید رائے زنی نہیں کرنا چاہتا، لیکن جو بات میرے ذہن میں ہے وہ جمہوریت کو لاحق خطرہ ہے ۔ ایمرجنسی نما صورت حال کا بول بالا اس کے حقیقی نفاذ کے بغیر بھی ہو سکتا ہے ۔ آر ایس ایس مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو ان کے عہدوں سے ہٹانے میں کامیاب رہی ہے ۔ میں نے نہرو میموریل سینٹر کے معاملے پر غور کیا تو یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ مانوس اعتدال پسند افراد وہاں پر مفقود ہو گئے ہیں۔ مانا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) اور آر ایس ایس کی حیثیت حرف آخر کی ہے، لیکن وہ عوام کے پاس ووٹ مانگنے نہیں گئے تھے اور نہ ہی یہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر تھا۔
آج بھی تسلیمہ نسرین کے معاملہ کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ پونے جو اورنگ آباد سے قریب ترین ہے ، اس کے علاوہ کوئی ہوائی اڈہ نہیں، اپنے احاطے میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ ظاہر ہے کہ حکومت نے ضرور ایسی ہدایات جاری کی ہوں گی کہ تسلیمہ کو دیگر مقامات پر جانے نہ دیا جائے ۔ یہ سب کچھ اسلام کے خلاف سوالات اٹھانے والی کتاب "شیطانی آیات" لکھنے پر رشدی کے خلاف ایران کی طرف سے جاری فتوے جیسا ہے ۔

ہندوستانی عوام کو ہر وقت چوکنا رہنا ہے، کیونکہ وہ سینسر شپ کے 19 ماہ کے اذیت ناک دور سے گزرے ہیں۔ پریس نے اس میں زیادہ ہی اچھی کارکردگی دکھائی جیسا کہ بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی نے کہا کہ آپ سے جھکنے کے لئے کہا گیا تھا ، لیکن آپ تو گھٹنوں کے بل چلنے لگے ۔ بڑی حد تک اڈوانی کی بات صحیح تھی۔ صحافیوں کے گروہ اندرا گاندھی حکومت کے ہاتھوں بے وقعت ہونے سے خائف تھے ۔ یہاں تک کہ پریس کونسل آف انڈیا نے بھی، جو آزادی اظہار کی نقیب ہے مسز اندرا گاندھی کے حق میں جھنڈا بلند کرنے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔

آج حالات بالکل بدلے ہوئے ہیں اور پریس کی بھگوا کاری ہو چکی ہے اور اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں چند گنی چنی آوازوں کو چھوڑ کر سب کے سب برسر اقتدار افراد کے مطیع بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت اور آج میں بہت ہی کم فرق رہ گیا ہے ، کیوں کہ اخبارات یا ٹیلی ویژن چینلوں کے مالکان اور صحافیوں کے ذہنوں میں سب سے بڑا سوال بقا کا ہے ۔ این ڈی ٹی وی پر دباؤ اس لئے پڑ رہا ہے کہ اس کے مالک پرانو رائے نے ایک رقم قرض لی تھی ۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ حکومت کے اشارے پر سی بی آئی نے آر آر بی آر ہولڈنگ پرائیویٹ لمٹیڈ، پرنو رائے ، ان کی اہلیہ رادھیکا اور آئی سی آئی سی آئی بینک کے نامعلوم افراد کو مجرمانہ سازش ، فریب کاری اور بد عنوانی کا ملزم قرار دیا۔
ٹیلی ویژن چینل سے ان کی طویل وابستگی کی وجہ سے ہو سکتا ہے حکومت نے کرن تھاپر اور برکھادت کو ہراساں کرنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈ نکالا ہو۔ مظلوم اور پریشان حال لوگوں کے مفاد کی حمایت کرنے میں یہ دونوں اینکر سب سے زیادہ بے باک رہے ہیں۔ یقیناً سرکاری انتظامیہ کو یہ بات پسند نہیں آئے گی۔ ان دونوں کو ہٹانے کے لئے چینلوں پر کافی دباؤ پڑا ہوگا۔

ہم آزادی کا ماحول کیسے واپس لائیں گے ؟ یہ سوال ملک کے عوام کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے ۔ ایسے میں جب کہ ان کے سر پر ملازمت خطرے میں پڑنے کی تلوار لٹکی ہوئی ہو، وہ زبان کھولنے سے خائف ہیں کہ کہیں مالکان ان سے خفا نہ ہو جائیں۔ لیکن اس کے نتیجے میں عوام تک لیپا پوتی والی خبریں آ رہی ہیں ، کیوں کہ ان کے در پردہ بہت سی مصلحتیں اور طرح طرح کے دباؤ ہیں۔

امریکہ میں ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی تھی ،جہاں صحافیوں نے متحد ہو کر اپنا ذاتی چینل شروع کیا تھا۔ یہ ایک مثالی جرات مندی تھی کیوں کہ آخر کار تنقید سے ماورا بہت سے ادارے ہو گئے اور انہیں خیرباد کہنے کا رجحان عام ہو گیا۔ وسائل کی کمی شدت سے محسوس کی گئی اور آزادی سے سمجھوتہ کرلیا گیا ۔ کرن تھاپر اور برکھا دت کو یہ ذہن نشین کرلینا ہوگا کہ ان کا سفر طویل اور صعوبتوں بھرا ہوگا۔ سرکاری انتظامیہ مستقل انہیں سبز باغ دکھا کر اپنی تائید پر آمادہ کرنا چاہے گا، لیکن انہیں دہرانے میں در پیش صعوبتوں کو جھیلنا ان کے فیصلے پر منحصر ہے۔ یہ کام آسان تو نہیں لیکن اپنے کردار کی بنیاد پر وہ کر سکتے ہیں ۔
میں ان کی بھرپور حمایت کرتا ہوں خواہ اس کی حیثیت کچھ بھی ہو۔ اب پورے معاملہ کا انحصار ان کی قوت برداشت اور پریس کی طرف سے ملنے والی حمایت پر ہے۔ نہ صرف میڈیا بلکہ پورے ملک کے عوام کی نگاہیں ان پر ٹکی ہوئی ہیں۔ جو کچھ ایمر جنسی کے دوران ہوا، شاید اب نہ ہو۔ اس وقت پریس بری طرح بیٹھ گیا تھا ، لیکن متحد ہو کر ہم اپنے عزائم میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔

Together, we can. Column: Kuldip Nayar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں