دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد تباہی کے دہانے پر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-04-07

دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد تباہی کے دہانے پر

Daeratul-Maarifil-Osmania-Hyd
ابتدا ہی سے حیدرآباد علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا مرکز رہاہے ، اہل کمال کی قدردانی اور علم پروری شہر کی سر شت میں داخل رہی ہے ۔ شہر حیدرآباد میں ایک ادارہ ایسا بھی ہے جو1888ء میں قائم ہوا تھا اور عماد الملک سید حسین بلگرامی اور مولانا محمد انور اللہ خان فضیلت جنگ بانی جامعہ نظامیہ جیسی شخصیتیں اس کے قائم کرنے والوں میں تھیں اور جسے تحقیق و تدوین کا تاج محل اور علمی کتابوں کی نشرواشاعت کا قطب مینار کہا جاسکتا ہے ، علم کی دنیا جسے دائرۃ المعارف کے نام سے جانتی ہے ۔اس ادارے نے ایسے نادر مخطوطات کو جو لعل و گوہر سے زیادہ قیمتی تھے ، ایڈٹ کر کے شائع کیا، علم و تحقیق کی دنیا کے یہ آبدار موتی حیدرآباد کے سچے موتیوں سے زیادہ قیمتی ہیں۔ یورپ کے مستشرقین اور عالم اسلام میں مخطوطات کے ماہرین کے نزدیک حیدرآباد کی شناخت نہ چار مینار سے ہے نہ جامعہ عثمانیہ سے ہے نہ گولکنڈہ کے کوہ نور سے ہے کیوں کہ ان اثار کا مثیل و بدیل دوسرے شہروں مین موجود ہے ، اس شہر حیدرآباد کی شناخت دنیا کے اہل علم کے نزدیک بس دائرۃ المعارف سے ہے بلکہ بہت سے اہل تحقیق اور اہل نظر ہندوستان کو بھی دائرۃ المعارف کے حوالے سے جانتے ہیں۔
بے شمار عربی مخطوطات جو بہت کم یاب اور نایاب تھے اس ادارے نے ان کو حاصل کیا اور تحقیق و تدرین کے بعد ان کو شائع کیا اور اس علمی خزانے کو وقف عام کردیا۔ ان کتابوں کا صرف نام بھی لکھاجائے تو اس کے لئے کئی صفحا ت درکار ہوں گے ۔ حدیث و رجال، فقہ و تاریخ، طب و لغت اور تفسیر کے بہت سارے مخطوطات پہلی بار دائرۃ المعارف سے شائع ہوئے اور نہ جانے کیسے کیسے علمی ذخیرے ہیں جو دائرۃ المعارف کے واسطے سے اہل علم کی آنکھوں کا سرمہ بنے اور اس کے زریعے یہ علمی امانتیں مخطوطات کے دفینوں سے مطبوعات کے سفینوں تک پہنچیں جب کہ اس وقت عربی کتابوں کی طباعت آسان نہ تھی۔ دائرۃ المعارف العثمانیہ نے قرآن سے متعلق متعدد کتابیں شائع کی ہیں۔ دائرے کے عظیم محقق حضرت عبدالرحمن المعلمی جن کی یادگار تحقیقی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مملکت سعودی عربیہ نے خانہ کعبہ کے مکتبہ کا نام’’مکتبہ عبدالرحمن المعلمی‘‘ ہی سے موسوم کیا جو دائرے کے شعبہ تحقیقی کاموں کا اعتراف ہے ۔ یہاں مخطوطات پر تحقیقی کام بڑی عرق ریزی اور محنت و جستجو سے انجام دیاجاتا تھا تمام نسخوں کا مقابلہ اور موازانہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔
یہاں کی مطبوعات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اصول تحقیق و تدرین کے لحاظ سے نہایت ذمے داری کے ساتھ مدون کی گئی ہیں اور تمام نسخوں کے حصول اور مقابلے و موازنے میں بہت زیادہ احتیاط برتی گئی ہیں صرف ان کے نام لکھے جائیں تو اس کے لئے کئی صفحات درکار ہوں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دائرۃ المعارف العثمایہ شہر حیدرآباد کے گلے کا زیور اور اس کے سر کا تاج ہے۔ دائڑہ المعارف حسب ضرورت دنیا کے مختلف اہم اور علمی کتب خانوں سے علمی ، ادبی اور اہم مخطوطات کو حاصل کرتا ہے، مخطوطات کے انتخاب کی صورت یہ ہوتی ہے کہ دائرۃ المعارف کے شعبہ تصحیح سے تعلق رکھنے والے علماء فضلاء دنیا کے مشہور و معروف مکتوبات کی فہرست مخطوظات خورد بینی سے ملاحظہ کرتے ہیں ۔ان فہرستوں میں قابل ذکر فہرست دارالکتب المصریہ، فہرست مخطوطات رامپور، فہرست مخطوطات سالار جنگ، فہرست مخطوطات آصفیہ، فہرست مخطوظات، بروکلمان، فہرست دارالکتب الظاہریہ، فہرست المکتبۃ الازہریہ، فہرست الخزانۃ التیموریہ، فہرست مخطوطات الموصل ہیں ۔ ایسے ہی امہات الکتب اور مصادر علمیہ جیسے فہرست ابن ندیم، حاجی خلیفہ کی کشف الظنون وغیرہ دیکھ کر مخطوطات کی ایک فہرست بنالیتے ہیں پھر انٹر نیٹ کے ذریعے مقدور بھر کوشش کرکے اس بات کا پتہ لگاتے ہیں کہ آیا یہ مخطوطات ہند یا بیرون ہند کہیں سے شائع ہوئے ہیں یا نہیں۔ جن مخطوطات پر کامل یقین ہوجاتا ہے کہ یہ کہیں سے شائع نہیں ہوئے ہیں ان کی فہرست تیار کر کے صدر مقحح کو سونپ دی جاتی ہے اور صدر مقحح دائرۃ المعارف کی علمی نگرانی کرنے والی کمیٹی کو یہ فہرست پیش کرتا ہے ۔ اس کمیٹی میں بحث و مباحثہ کے بعد جن مخطوطات پر کام کو منتخب کیاجاتا ہے ان پر کام کیاجاتا ہے ۔ عام طور پر یہ پانچ سالہ پروگرام ہوتا ہے ، مخطوطہ پر کام ی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ جس مخطوطہ پر کام کرنا مقصود ہوتا ہے ان سب نسخوں کو یا اکثر نسخوں کو مختلف لائبریریوں سے خط و کتابت کے ذریعے یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر حاصل کرلیاجاتا ہے۔ کبھی ذاتی روابط پر بات بن جاتی ہے تو کبھی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ مخطوطے کے نسخوں کو جمع کرنے کے بعد ان میں سے بہترین اور کامل نسخے کو اصل مان کر دوسرے نسخوں سے مقابلہ کرتے ہیں، لفظاً لفظاً اور حرفاً حرفاً پوری توجہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں ، فروق اور اختلافات کو نوٹ کرنے کے بعد ماہر مقصحح کی نگرانی میں اس کی تصحیح و تحقیق ہوتی ہے ۔
تصیح شدہ حصہ چیف ایڈیٹر کی نظر سے گزرتا ہے ، تصحیح و تحقیق کے مراحل مکمل ہونے پر اس کو طباعت کے لئے بھیج دیاجاتا ہے لیکن حیدرآباد کے ل ئے جو ادارہ اس قدر باعث عزت و افتخار ہے اور جس میں کام کرنے والے تحقیق و تدفین کے میدان ے شہ سوار ہوتے ہیں وہ اب ناقدیر اور کسمپرسی کا شمار ہیں۔125سالہ قدیم اقلیتی علمی و تحقیقی مرکز دائرۃ المعارف کو تاریکی کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔، اگرچہ مرکزی اور ریاستی حکومت نے اس ادارے کی علمی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے پوری دنیا میں اس کو متعارف کروانے کے لئے خطیر رقم منظور کی لیکن پھر بھی دائرۃ المعارف کے اندرونی حالات بگڑتے ہی جارہے ہیں ۔
دائرۃ المعارف میں تحقیق و تدوین کا کام کرنے والے جو چند اشخاص باقی رہ گئے ہیں ان کو یہاں کی اصطلاح میں مصحین کہاجاتا ہے ، تصحیح کا یہ کام وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جو عربی زبان کے ساتھ اسلامی علوم کے ماہر ہوں۔یہ اصلاً تحقیق و تدوین کا کام ہے، یہ ایسا فن ہے جس میں ادبی، علمی و تحقیقی اجزاء شامل ہیں۔ جس میں املا کو درست کرنا ، رموز واوقاف کو ٹھیک کرنا، نئی کتابیں ہوں تو پیراگراف کو گھٹانا بڑھانا، زبان و بیان کو بہتر بنانا، تکرار کو دور کرنا، وغیرہ ،سارے کام شامل ہیں ۔ یورپ اور امریکہ کے اشاعتی ادارے کتابوں اور رسائل کے لئے تدوین کے ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ قدیم کتابوں اور مخطوطات کی تدوین کے لئے تو اس سے بھی بہتر صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ، قدیم مطبوعہ کتابوں کے مختلف ایڈیشنوں اور مخطوطات کے دوسرے تمام نسخوں کو منگوانا اور ان کو سامنے رکھنا پڑتا ہے ۔ متن کی وضاحت کے لئے حواشی دیے جاتے ہیں ، نسخوں کے اختلاف کا تذکرہ کیاجاتا ہے متن کو مختلف نسخوں سے مقابلہ کرکے مستند بنانا پڑتا ہے ۔ مقدمہ میں مخطوطے کی اہمیت و افادیت اجاگر کی جاتی ہے ۔ کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے ، مخطوطے میں اگر قرآن کریم کی آیتیں یا احادیث یا اشعار یا اقوال موجود ہوں تو اس کے لئے مصادر و مراجع کی طرف رجوع ہونا پڑتا ہے ، تعین زمانہ کے لئے تاریخی و سیر کی کتابوں کو کھنگالاجاتا ہے ۔
اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ تصحیح مخطوطات یعنی تحقیق و تدرین کا کام کتنا عظیم ، کتنا نازک اور کتنا دشوار گزار ہے ۔ عربی مخطوطات کے لئے خاص طور پر اعلیٰ علمی لیاقت، عربی زبان اور قواعد سے واقفیت اور جدید دور کے علمی و تحقیقی طریقوں کا علم بھی ضروری ہے ۔ مخطوطات کی تحقیق کا کام محنت اور دیدہ ریزی کا طالب ہے، یہ چیونیٹیوں کی طرح شکر کے دانے جمع کرنا ہے ۔ حیدرآباد کا دائرۃ المعارف ایک ایسا ادارہ ہے جس پر نہ صرف شہر حیدرآباد کو بلکہ ملک کو ناز کرنا چاہئے، لیکن اس ادارے کی بہار اب رخصت ہوا چاہتی ہے اور اس ادارے کے مصحین یعنی علمی و تحقیقی کام کرنے والے مشکل حالات میں اور ناخوشگوار ماحول میں اور غیر یقینی مستقبل کے ساتھ کام کررہے ہیں، مستقل ملازمت نہیں ہے، بڑی تعداد میں عارضی ملازمت پر لوگ لگے ہوئے ہیں، موجودہ حکومت تلنگانہ کے نائب وزیر اعلیٰ محمود علی نے ایک مستحسن اقدام اٹھاتے ہوئے اس ادارے کی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی جس میں سید عمر جلیل میناریٹی سکریٹری کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے یہاں کے مصحین کو اسسٹنٹ پروفیسر اسوسی ایٹ ، پروفیسر اور پروفیسر کے مستحقہ مقام کو بحال کیا۔
تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر سے امید ہے کہ وہ اپنی خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے عاجلانہ اقدامات کے ذریعہ احکامات جاری کریں گے اور اس کے پلان بجٹ کو نان پلان بجٹ میں تبدیل کروائیں گے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ادارے کے قیام کے ایک سو پچیس سال گزرنے کے باوجود کبھی بھی اس علمی و تحقیقی ادارے کی سلور جوبلی ، گولڈن جوبلی، پلاٹنیم جوبلی صدری تقاریب منائی نہیں گئیں۔ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے صدر سالہ جشن سے قبل دائرۃ المعارف العثمانیہ کا بھی ایک سو پچیس سالہ جشن منایا جاتا اور ا س ادارے سے وابستہ علمائے ذیشان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا، تلنگانہ حکومت اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے جہاں کوشاں ہے وہیں دائرۃ المعارف العثمانیہ کے لئے ایک تاریخی جشن کا انعقاد بھی عمل میں لائے تاکہ اقلیتوں کے اس عظیم الشان ادارے کا حق بھی ادا ہو ۔ جب کہ دائرۃ المعارف العثمانیہ ایک ایسا عظیم علمی و تحقیقی ادارہ ہے جو نامساعد حالات میں بھی علم و فن کا چراغ روشن کئے ہوئے ہے۔

Daeratul Maarifil Osmania Hyd, at the brink of destruction. Article: Faiz Mohd Asghar

1 تبصرہ: