حیدرآبادی بیوی کا شک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2017-04-07

حیدرآبادی بیوی کا شک

husband-wife-quarrel
میاں پر شک کرنا حیدرآبادی بیوی کی گھٹی میں پڑا ہے ، شوہر پر شک کرے بغیر اس کا کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا ۔ دوسروں کی بیویاں جب شوہر شام کو گھر آتا ہے تو میک اپ کر کے پھول لگا کر خوشی خوشی اس کا استقبال کرتی ہیں، شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں تو اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ خوش رہتی ہیں۔ انہیں یہ فکر نہیں رہتی کہ اس کا میاں کدھر دیکھ رہا ہے ؟ کس سے سیل فون پر بات کررہا ہے ، یا کیا کررہا ہے ؟ کیونکہ اسے اپنے شوہر پر بھروسہ رہتا ہے ، اس لئے اس کی زندگی خوشگوار رہتی ہے اور کامیاب رہتی ہے ، لیکن حیدرآبادی بیوی جب میاں شام کو تھکا ماندہ گھر آتا تو عجیب سی صورت بنا کر سب سے پہلے شک بھری نگاہوں سے میاں کو اوپر سے نیچے تک دیکھتی ہے جیسے میاں باہر کمانے یا نوکری کرنے کے لئے نہیں کوئی گناہ کرنے کے لئے گیا تھا ۔
حیدرآبادی بیوی کی بد قسمتی یہ ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت، خوب سیرت، تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس احساس کمتری میں مبتلا رہتی ہے کہ شاید اس کا شوہر اسے دھوکا دے رہا ہے اور یہ احساس، شک کی بنیادی وجہ ہوتا ہے ۔ یہ شک کا کیڑا جو حیدرآبادی بیوی کے دماغ میں کلبلا تا ہے ، بھیانک قسم کی بمباری سے بھی زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔
لڑکی، بچپن سے جوانی تک والدہ کو والد پر شک کرتا ہوا دیکھتی ہے ، اور پھر رخصتی کے وقت ماں بطور خاص بیٹی کو سبق دیتی ہے کہ:
"دیکھو! میاں کو ڈھیلی ڈوری نکو دیو، ذرا میاں کی حرکتوں پہ نظر رکھو ۔ اکیلے نکو چھوڑو کبھی، تمہارے سہیلیوں سے ملانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ خاندان میں جہاں لڑکیاں ہیں، وہاں میاں کو نکو لے جاؤ۔ تمہارا باوا کی وجہ سے میری زندگی کیسی دوزخ ہوگئی دیکھ ریں ناں (حالانکہ بیچارہ باوا خود ساری زندگی شادی کے بعد دوزخ میں گزارتا ہے۔) تمہارے باوا کو اگر میں کنٹرول نہیں کرتی تو کب کے ہاتھ سے نکل جاتے انوں اور تم لوگاں گلی گلی کے ہوجاتے تھے۔"
لیکن یہ تمام سبق دیتے وقت ماں یہ بھول جاتی ہے کہ اس کی ماں کی دی ہوئی انہی نصیحتوں پر عمل کر کے وہ اپنی زندگی کی ساری خوشیاں کھوچکی ہے۔ حیدرآبادی شوہر عموماً بلا ضرورت ادھر ادھر تانکا جھانکی کچھ زیادہ ہی کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بیوی کا شک پختہ ہوجاتا ہے ۔ ویسے حیدرآبادی شوہر سادہ لوح ہوتے ہیں جب بھی ایسی ویسی حرکت کرتے ہیں، پکڑے جاتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر اپنی بیوی کے ساتھ جا رہا تھا کہ سامنے سے آتی ہوئی ایک شوخ و چنچل لڑکی نے انہیں "ہیلو" کہا ۔ بیوی پوچھ بیٹھی: وہ کون لڑکی تھی؟
تو ڈاکٹر نے کہا: پیشہ وارانہ تعلق ہے ۔
تو بیوی نے جل کر کہا: کس کا پیشہ تمہارا یا اس کا؟

حیدرآبادی بیوی کو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ اس کا شوہر پر اندھا بھروسہ کرتا ہے ۔ دیس پردیس صرف اور صرف بھروسے پر بیوی کو اکیلے چھوڑ کر زندگی گزارتا رہتا ہے ، اس لئے کیونکہ وہ اپنی بیوی پر کبھی شک نہیں کرتا۔ ایک کنجوس سے جب قبرستان کے اطراف دیوار اٹھانے کے لئے چندہ مانگا گیا تو اس نے کہا: قبرستان کے اطراف دیوار اٹھانے کا کیا فائدہ ، کیونکہ اندر والا باہر نہیں آسکتا اور باہر والا کوئی اندر نہیں جانا چاہتا ۔ اسی طرح عورت کو اپنے شوہر پر شک کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ کوئی ایک آدھ شوہر اگر حقیقت میں بگڑا ہوا بھی ہے تو وہ بیوی کے شک کرنے سے سدھر نہیں سکتا اور جو بیچارے سدھرے ہوئے ہیں ان پر بلا وجہ شک کرکے اپنی اور اپنے میاں کی زندگی حرام کرنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

حیدرآبادی شوہر برے نہیں ہوتے ، دراصل وہ بیوی کو کچھ بتانا کسر شان سمجھتے ہیں ۔ جس سے بیوی کا شک بڑھ جاتا ہے ۔ حیدرآبادی شوہر خواہ مخواہ بیوی کو شک میں مبتلا کرتے ہیں ، اگر وہ اپنی بیوی کو :
کہاں جارہے ہیں؟ کب تک آئیں گے؟ کس کام سے جارہے ہیں؟
جیسے سوالات کے جوابات تسلی بخش انداز میں دیں تو بیوی کو شک نہیں ہوگا۔ لیکن حیدرآبادی شوہر چار مینار کے پاس کھڑے ہوکر بیوی سے کہتا ہے کہ سکندرآباد میں ہوں۔ سیل فون تو تابوت کی آخری کیل بن گیا ہے ۔ بیوی کو دن بھر اور کوئی کام نہیں رہتا اور سارا دن فون پر میاں کی رپورٹ لیتی رہتی ہے ، اور میاں بھی جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہتا ہے ۔
حیدرآبادی بیوی کو جب اس بات پر فخر ہے کہ وہ اپنے شوہر کے علاوہ دوسرے کسی مرد کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتی ہے تو اسے یہ بھی یقین ہونا چاہئے کہ دوسری عورتیں بھی اسی کی طرح کی ہوتی ہیں اور کوئی بھی اس کے شوہر کو گھاس نہیں ڈالتی ہے ۔
حیدرآبادی بیوی کی سب سے بری عادت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ شوہر کو فون کرتی ہے تو سب سے پہلے پوچھتی ہے: آپ کہاں ہیں؟ کیا کررہے ہیں؟ کس کے ساتھ ہیں؟ یہ عورتوں کی آوازاں کاں سے آریں؟ اتنا سناٹا کئی کو ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
اگر میاں ان تمام سوالوں کا معقول جواب دے تو کہتی ہے: میں یہ کہنے کے لئے فون کری تھی کہ اپنے فلاں رشتے دار کا آج انتقال ہوگیا ، ذرا جلدی گھر کو آجاؤ، اپنے کو جانا ہے ۔
اگر سوال جواب کے اس سشن میں میاں بیوی میں تو تو میں میں ہوجائے تو پھر رشتے دار کی موت کی اطلاع دیے بغیر ہی فون پر باتوں کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے ۔اور شوہر گھر آنے تک مرحوم کی تدفین بھی ہوچکی ہوتی ہے ۔

حیدرآبادی بیوی بھی دوسروں کی طرح شاندار زندگی گزار سکتی ہے بشرطیکہ وہ خود پر اعتماد ہوجائے ، شوہر کا آتے اور جاتے وقت ایکسرے لینا چھوڑ دے ، بلا ضرورت فون نہ کرے، فضول سوالات نہ کرے ۔ شادی کا رشتہ صرف اور صرف ایک دوسرے پر بھروسے کا رشتہ ہوتا ہے ۔ یہ رشتہ اگر شک کی بنیاد پر قائم ہو تو پھر کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا اور بیوی اپنی اور آنے والی نسل کی بربادی کی ذمے دار ہوتی ہے۔ دوسری طرف شوہر کو بھی چاہئے کہ اگر اس کا ماضی چاہے کتنا ہی ٹیکنی کلر رہا ہو وہ اسے بند کر کے حقیقی زندگی کی بلیک اینڈ وہائٹ پکچر کو ہی ٹیکنی کلر بناکر چلتا رہے ۔

***
نوٹ :
بشکریہ: روزنامہ 'منصف'
مضمون از: مظہر قادری (موبائل: 09392488219)

Hyderabadi wife - Humorous Essay: Mazhar Qadri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں