یہ موجیں حشر تک ساحل سے ٹکرائیں گی سر اپنا - عاجز ماتوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-12-28

یہ موجیں حشر تک ساحل سے ٹکرائیں گی سر اپنا - عاجز ماتوی

aajiz matvi
2006 کی گرمیاں تھیں۔ میں اپنی پہلی محبت کے آخری پڑاؤ پر تھا غالباً اور شاعری ابھی "چسكے" کی حد تک ہی لگی تھی جان کو۔ میں شعر ویر کہنے لگا تھا یا یوں سمجھئے کہ ویر ہی کہہ رہا تھا ان دنوں، اور ہر سال لکھنؤ میں منعقد ہونے والے نوجوان شعرا کے مشاعرے میں اپنی شاعری سنانے پہنچ جایا کرتا تھا۔ اچھی بات تھی کہ وہ لوگ مجھے سنانے بھی دیتے تھے کہ محبت تھی ان کو مجھ سے۔ مگر اس بار معاملہ کچھ مختلف تھا۔ جب میں شعر سنا رہا تھا تو سامعین میں سے ایک آواز آئی۔ غالباً ڈاکٹر نرمل درشن کی آواز کہ "ابھیشیک، تمہاری خوش نصیبی ہے کہ پنڈت عاجز ماتوی کے سامنے شعر سنا رہے ہو"۔

خوش نصیبی پر اتنا اصرار تھا ان کا کہ میں نے واقعی اپنی خوش نصیبی کو محسوس کرنا شروع کر دیا۔ تاہم پنڈت لفظ سنتے ہی ذہن اس وقت تک کی تربیت اور مائیک پر موجود ہونے کی گھبراہٹ میں مل کر پنڈت نہرو تک چلا گیا ہوگا، مجھے یقین ہے، مگر میں نے خود پر قابو پا کر شعر سنانا جاری رکھا اور پھر جیسا کہ ہر شاعر کی قسمت ہوتی ہے، سنانا شروع کیا ہے تو ختم بھی کرنا پڑتا ہے، سو میں نے بھی ختم کیا۔

مشاعرہ بھی اسی ظالمانہ قسمت کا شکار ہوا کرتا ہے، سو وہ بھی ختم ہوا اور میں ڈاکٹر نرمل درشن کی طرف لپکا۔ انہوں نے ایک مختلف البحر سوٹ پہن رکھا تھا اور عاجز صاحب دھوتی کرتہ اور صدری میں ملبوس تھے۔ میں نے بہت ہمت جٹائی۔ اتنی ہمت کہ ان دونوں کے پاؤں چھو لئے۔ نرمل دادا نے بے حد انسیت کے ساتھ تعارف کرایا کہ یہ ابھیشیک ہیں۔ تاہم ان کی محبت اور شیریں بیانی بھی آج تک مجھے اس بات کا جواب نہیں دے سکے ہیں کہ "ہاڑا ہاڑا کوا رے" جیسی نظم کو گنگنانے کی ہمت ان میں کہاں سے آ جاتی تھی جبکہ وہی "پہلے دل کو جلایا گیا" بھی سناتے تھے۔ خیر وہ عاجز صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی۔

دوسری ملاقات نسیم اختر صدیقی صاحب کے انتقال کے وقت ہوئی۔ اس وقت بھی میں نے بہت ہمت جٹائی اور ان کے پاؤں چھو لئے۔ پھر کچھ دنوں بعد کرشن مراری یادو مرحوم کے گھر ایک نشست تھی۔ میں بھی وہاں پہنچا تو دیکھا کہ عاجز صاحب صدارت فرما رہے ہیں۔ نشست ختم ہونے پر میں نے بے مثال جرات دکھاتے ہوئے عاجز صاحب کا موبائل نمبر ان سے حاصل کر لیا اور اپنی صرف اتنی کاوش پر ایسی خوشی محسوس کی جو آسکر یا نوبل ملنے پر بھی خاک ہوتی ہوگی۔

ایک روز صبح صبح عاجز صاحب کو فون کیا، پتہ پوچھ کر ان سے ملنے ماتی آنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ارے تم کہاں آؤ گے اتنی دور۔ میں آتا ہوں تمہارے پاس اور یوں عاجز صاحب پہلی بار میرے گھر آئے۔ میرے لیے یہ سب کسی خواب کی تکمیل سے کم نہیں تھا کہ خود عاجز ماتوی صاحب میرے گھر آئیں۔ بڑی دیر تک ان سے بات ہوتی رہی۔ ظاہر ہے کہ باتیں ادھر ادھر کی زیادہ ہوئیں کہ ان کے بہتر "خیرمقدم" کے لائق بھی میں نہ ہوا تھا۔ یہ بھی یاد آتا ہے کہ گھر میں ایک پپیتے کا درخت تھا۔ ایک تازہ پپیتا ان کی نذر کیا گیا، تو اس کی تعریف بھی انہوں نے ویسے ہی کی جیسے وہ اکثر صائب اور مشهدی، حافظ اور سعدی کے فارسی شعروں کی کیا کرتے تھے۔

عاجز صاحب کہتے تھے: "بھیا، بڑا آدمی وہی ہے جس کے ساتھ بیٹھ کر خود کو چھوٹا محسوس نہ کیا جائے"

عاجز صاحب خود اپنے اس قول کی زندہ مثال تھے اور ہمیشہ رہے۔ اس کے بعد تو ان سے یادگار ملاقاتوں کے سلسلے رہے۔ وہ اکثر اپنے کئے گئے تبصروں کی زیراكس مجھے دیتے تھے کہ ان کا مطالعہ کر لینا اور میں ان کو بغور پڑھتا بھی تھا۔ جب سب یہ کہتے تھے کہ 'عروض' کی طرف بھول کر بھی نہ جانا، ورنہ شاعری بھول جاؤ گے۔ مگر عاجز صاحب اکیلے میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ لوگ انہیں چھیڑتے ہوئے ان کے سامنے ہی انہیں "بحرالدین عروضی" کہتے تھے، ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کے سامنے مطلع عرض ہے کہنے سے کہیں بہتر ہے کہ "بحر عرض ہے" کہا جائے۔ وہ خاموشی سے اپنی انتہائی پیاری مسکراہٹ بكھیرتے ہوئے یہ تمام سنا کرتے تھے۔
عاجز صاحب اردو، فارسی اور ان کے شعری متعلقات پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ مطالعہ ان کی ذات کا اٹوٹ حصہ تھا۔ اکثر میں انہیں فون کرتا اور جب پوچھتا کہ دادا کیا کر رہے ہیں، تو جواب آتا کہ، "پڑھ رہا ہوں۔" مجھے حیرت ہوتی تھی ان کی ایسی لگن دیکھ کر کہ پچھتر سال کی عمر میں بھی ایک شخص میں کچھ نیا پڑھنے اور سیکھنے کا ایسا جذبہ ہے ۔ ان کے گھر جاتا تو انہی دنوں پڑھی گئی کتابیں ایسے دکھاتے جیسے چھوٹے بچے اپنے رفیق و ساتھیوں کو اپنے کھلونے دکھاتے ہیں۔ یہ دیکھو رشید حسن خاں کی کتاب۔ یہ چراغِ سخن یگانہ کی اور نہ جانے کیا کیا۔ انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے موجود دیکھ کر میرا من اتنی نرمی اور احترام سے بھر جاتا تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔

میری نظر میں کسی انسان کی انسانی سطح پر سب سے بڑی تعریف یہی ہے کہ تمام دنیا کو دیکھنے کے باوجود اس کے اندر ایک بچہ باقی رہے۔ عاجز صاحب بالکل بچوں جیسے تھے۔ ویسے ہی معصوم، بےریا اور انتہائی پیارے۔ ہنسی تو اتنی پیاری تھی کہ آپ بار بار انہیں ہنسانا چاہیں، اور وہ ہنسنا بھی خوب جانتے تھے۔ ہنسی ہنسی میں جانے کیا کیا سکھا جاتے تھے مجھے۔ مجھ سے کہتے تھے کہ بھیا، جس لفظ کا تلفظ نہ معلوم ہو اسے بولو مت، املا نہ پتہ ہو اسے لکھو مت۔ تصدیق کر کے ہی برتو۔ آج بھی سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ زبان سیکھنے کے اعتبار سے یہ ایک غیر معمولی سبق ہے۔ ان سے میری عقیدت کا عالم یہ تھا کہ میں چوبیس گھنٹے انہیں دیکھ اور سن سکتا تھا۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھی کہ جیسی زندگی میں اس جیسی دوسری ملنا کسی معجزے سے کم نہ ہوگا۔
عاجز صاحب کی شعری خدمات کی بات کی جائے تو ان کے دو مجموعے شائع ہوئے تھے۔ ایک کا نام تھا "محبسِ غم" تھا اور دوسرے کا "ہنستی شبنم روتے پھول"۔ شعر وہ اسی روایتی کلاسیکی لب و لہجے میں کہتے تھے جس پر ترقی پسند تحریک، جدیدیت یا مابعد جدیدیت کا سایہ تک نہیں پڑا تھا۔ اور شاید اسی لئے میرے نزدیک ان کا مرتبہ ماہر عروض اور ماہر لسانیات کے طور پر زیادہ بڑا تھا، بطور انسان تو خیر وہ ان سب سے بہت بڑے تھے۔ میرے جیسے نئے لکھنے والے ہی نہیں بلکہ پروفیسر وارث کرمانی، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد، پروفیسر ولی الحق انصاری تک ان کا بڑا ادب و احترام کرتے تھے۔ وہ سراپا محبت تھے اور محبت کب کہاں کس کو اپنا بنا لے کچھ پتہ نہیں ہوتا۔

ان کے ادبی قد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار میں نے ایک بڑی عجیب و غریب افواہ ان کے بارے میں سنی کہ ہندو ہونے کے باوجود اسلامیات پر اپنی گہری نظر اور اردو کی بے لوث خدمات کے سبب انہیں حج کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اس وقت میرے ساتھ اردو اکیڈمی کے شعبہ اشاعت سے منسوب مخمور كاكوروی صاحب بھی تھے۔ میں بتاتا چلوں کہ عاجز صاحب کا اصل نام ہنومان پرساد شرما تھا۔ ادبی حلقوں میں عاجز ماتوی کے قلمی نام سے انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ ماتی گاؤں کی مناسبت سے وہ 'ماتوی' استعمال کرتے تھے۔

بارہ بنکی ضلع میں واقع ماتی گاؤں ہی عاجز صاحب کی جائے پیدائش ہے۔ عاجز صاحب اسی روایت کے پاسباں تھے جو چندربھان برهمن، دیاشكر نسیم اور فراق گورکھپوری سے ہوتی ہوئی آج ڈاکٹر نرمل درشن، منیش شکلا، ڈاکٹر بلرام شکلا اور مجھ حقیر تک چلی آئی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی مشکل نہیں کہ کسی جوش ملیح آبادی کی زندگی اور ادبی خدمات پر بات چیت کسی رگھوپتی سہائے 'فراق' کی زندگی اور ادبی خدمات پر بات چیت کے بغیر ادھوری ہے۔ کسی میر حسن کا ذکر کسی دیاشكر نسیم کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ یہی نہیں کسی شمس الرحمٰن فاروقی پر بات کرتے ہوئے ممکن ہی نہیں کہ کسی گوپی چند نارنگ کا ذکر نہ آئے۔ زبان پر بات ہوگی تو علامہ دتاتریہ 'کیفی' یا گیان چند جین مرحوم کا ذکر آئے گا ہی آئے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں تاریخ چاہے بھی تو نظر انداز نہیں کر سکتی۔

عاجز صاحب جیسے لوگ اکثر گردِ فراموشی جھاڑكر اس وقت کی بحثوں میں اچانک نمایاں نظر آنے لگتے ہیں۔ انہیں ان کی ادبی خدمات کی بنا پر یاد کیا جانے لگتا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کی نظیر سامنے ہے۔ عاجز صاحب جیسے لوگ اپنے کردار اپنی ذات میں اس پل کی طرح ہوتے ہیں جو دو قوموں کو ایک دوسرے کی ثقافت سے جوڑتا ہے۔ ایسے لوگ نوراتری میں ہَون کے بعد اسی احترام و عقیدت سے نعتیہ مشاعروں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے شوق اثری صاحب سے ان کے ایک ادبی معرکہ میں ایک لفظ کے استعمال پر بحث ہوئی تھی اور عاجز صاحب نے ان کو لکھے خط میں قرآن کی ایک آیت مقتبس کرتے ہوئے اس لفظ کا صحیح تلفظ اور استعمال بتایا تھا۔ یہاں یہ ذکر بھی شاید بے بنیاد نہ ہوگا کہ ان کا سلسلہ ان کے استاد سید سجاد حسین شدید لکھنوی سے ہوتا ہوا پیارے صاحب رشید اور پھر میر انیس تک جاتا تھا۔ بھارت بھوشن پنت صاحب نے بات چیت کے دوران کبھی مجھ سے کہا تھا کہ ابھیشیک، میرے استاد والی عاصی جن چند لوگوں کے مکتبہ دین ادب میں تشریف لانے پر اپنی کرسی چھوڑ کر انہیں بیٹھنے کے لئے کہتے تھے ان میں ایک عاجز ماتوی صاحب بھی تھے۔ عاجز صاحب کی شخصیت تھی ہی ایسی کہ ان پر جتنی بات کی جائے کم ہے۔ ایک بار انہیں ماتی چھوڑنے جاتے وقت میں نے ایک فارسی شعر کا مطلب ان سے پوچھا۔ شعر تھا کہ:
جفا كمكن کہ فردا روزِ محشر
میانِ عاشقاں شرمندہ باشی

شعر کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ جفا کم کرو ورنہ کل حشر کے دن عاشقوں کے درمیان تم کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ شعر کا مطلب جان کر میں نے کیا کہا مگر ان کا کہا یاد ہے کہ "سب دنیا شرمندہ ہوئی" اور واقعی ہم لوگ آج بھی جفا کم کرتے نظر نہیں آ رہے۔
عاجز صاحب میرے لیے اردو و فارسی یا گاؤں دیہات کی بول چال کا مستند حوالہ تھے۔ جو کچھ بھی سمجھ میں نہ آتا تھا، ان سے پوچھ لیا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری نظر میں ان کی قدر و منزلت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ وہ بے حد کھرے آدمی تھے یہاں تک کہ انہیں انسانی جذبوں کی صداقت کا پیمانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ عاجز صاحب نے اپنے انتہائی قریبی دوستوں کو ان کی ضرورت کے وقت ایک بڑی رقم جو لاکھوں میں تھی بطور قرض ادا کی تھی۔ اور یہ لوگ عاجز صاحب کی عیادت کے لیے جب کبھی اسپتال آتے تھے تب قرض کی رقم لوٹانے کی بات بھی نہیں کرتے تھے اور عاجز صاحب کے مانگنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان قرضداروں میں سے ایک صاحب تو اس وقت حج پر جانے والے تھے۔
جہاں لوگ آج سو روپے کے لئے بھی صبر کرنے کو تیار نہیں ہیں وہیں میں نے کینسر جیسی بیماری سے لڑتے وقت بھی ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اپنے لاکھوں روپے بطور قرض دوسروں کو دے کر بھی خاموش رہا۔ اسپتال میں بھی نجانے کتنی شعری نشستیں منعقد ہوئیں۔ تقریبا روز ہی چار پانچ شاعر ان سے ملنے آتے تھے اور محفل جم جاتی تھی۔

انہی دنوں انہوں نے غالب کی استعمال كردہ سخت ترین بحر کے بارے میں مجھے بتایا تھا۔ غالب کی مشہور غزل "آ کہ میری جان کو قرار نہیں ہے، تاقتِ بےدادِ انتظار نہیں ہے" اسی بحر میں ہے۔
"بیشتر اساتذہ کے دیوان میں اس بحر میں شعر نہیں ملتے ۔۔"
ان کا یہ کہنا تھا کہ اگلے روز میں نے اسی بحر میں ایک مکمل غزل کہی کہ عاجز صاحب کو شاید اچھا لگے گا۔ ہوا بھی یہی۔ اب اسپتال میں ان سے جو کوئی شاعر ملنے آتا اس کے سامنے مجھ سے اسی غزل کی فرمائش کرتے، اور میں سناتا بھی تھا۔ 'فراق' کے مشہور شعر "اکا دکا صدائے زنجیر، زنداں میں رات ہو گئی ہے" میں تسكینِ اوسط کیا کر رہا ہے، یہ بھی انہی دنوں انہوں نے مجھے سمجھایا تھا۔
اور انہی دنوں مجھے اکثر یہ ڈر بھی ستانے لگا تھا کہ عاجز صاحب نہیں رہے تو؟ جبکہ میں پہلا شخص تھا جس کے آگے ان کی بیماری واضح ہوئی تھی اور میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اب ان پر زندگی مہربان نہیں ہے۔ میں نے آخری اسٹیج کے کینسر کی بات انہیں کبھی نہیں بتائی۔ مجھ میں اتنی ہمت تھی ہی نہیں۔

ایک شام میں ان سے ملنے گیا تو انہوں ایک مطلع سنایا جس کا مصرع ثانی تھا:
"اے کاش کوئی ڈال دے روغن چراغ میں"
میں کمرے سے باہر آکر بےتحاشا رو پڑا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ عاجز صاحب کو اپنی بیماری سے متعلق سب پتا ہے۔ ان سے کچھ باتوں کو چھپانا میرے کسی کام نہیں آیا۔ اسی سخت بیماری کے دنوں کا ہی ایک واقعہ ہے۔ ڈاکٹر ایشور دیال انہیں دیکھنے کمرے میں آئے۔ عاجز صاحب نے ان دنوں مسكرانا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا درد میں کچھ کمی ہے؟ عاجز صاحب نے ان کی طرف دیکھ کر جواب دیا: "برائے نام ہے"۔
"برائے نام؟"
یہ لفظ سن کر ڈاکٹر ایشور دیال کی پیشانی پر خدا جانے کس کس طرح کے بل پڑے۔ وہ تو میں نے جلدی سے وضاحت کی کہ ڈاکٹر صاحب، یہ کہہ رہے ہیں کہ محض نام کا درد ہے۔ تو صورتحال ٹھیک ہوئی۔ بعد میں میں عاجز صاحب کو برائے نام کہہ کہہ کر چھیڑتا رہا اور آخرش وہ اپنے کہے پر مسکرا بھی اٹھے۔ انہی دنوں ایک صاحب ان سے ملنے وہاں آ جایا کرتے تھے۔ جن کا پسندیدہ مشغلہ دوسروں کی دل کھول کر برائی کرنا تھا۔ غیبت کرنا ان کا واحد شوق لگتا تھا۔ میں جب بھی عاجز صاحب کے پاس پہنچتا اتفاقاً کئی بار ایسا ہوا یہ صاحب وہاں سے واپس ہو چکے ہوتے۔ عاجز صاحب مجھ سے کہتے:
"غیبتی آئے تھے"
اور ہم دونوں عاجز صاحب کی طرف سے رکھے گئے اس نام پر خوب ہنستے۔

عاجز صاحب ایک بےانتہا گھنا درخت تھے۔ اس درخت کے سائے سے فیض اٹھانے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس فہرست میں ایک نام میرا بھی آتا ہے۔ آج سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ انتقال سے عین دو تین دن پہلے انہوں نے عروضی نقطہ نظر سے مجھے اپنا ایک مصرعہ سمجھایا تھا۔ وہ مصرعہ یوں تھا-
"تاكجا برداشت عاجز، ہم تو محفل سے چلے۔"

مجھے ذرا بھی علم نہیں تھا کہ صرف اسی ایک مصرعے پر بات چیت ہی نہیں بلکہ صاف صاف محفل چھوڑ کر جانے کا اشارہ تھا۔ 27/ ستمبر 2014 جس دن ان کا انتقال ہوا اس دن شارق کیفی صاحب کا یہ شعر مجھ پر مکمل طور کھل گیا کہ:
یہ سچ ہے کہ اب بے سہارا ہوں میں
مگر اس کے مرنے کا ڈر تو گیا

میں جانتا ہوں کہ طلبہ کے لئے عاجز ماتوی کبھی مرا نہیں کرتے۔ نہ ہی محفلیں چھوڑ کر جایا کرتے ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کسی کو خراج دینے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہوتا۔ خاص کر تب جب اس خراج میں عقیدت کی کوئی کمی نہ ہو۔ آخر میں زندگی سے مكالمے کی صورت عاجز صاحب کا ایک شعر خود عاجز صاحب کی نذر:

ڈبو کر میری کشتی مستقل بےچینیاں لے لیں
یہ موجیں حشر تک ساحل سے ٹكرائیں گی سر اپنا!

***
بشکریہ : ہندی پورٹل 'للن ٹاپ' ، (13/دسمبر 2016)۔
Abhishek Shukla, Lucknow
Mob.: 09559934440
ابھیشک شکلا

Pandit Aajiz Matvi, a poet remembered. Article: Abhishek Shukla

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں