پرانے کرنسی نوٹس پاس رکھنے کے خلاف آرڈیننس کابینہ میں منظور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-12-29

پرانے کرنسی نوٹس پاس رکھنے کے خلاف آرڈیننس کابینہ میں منظور

28/دسمبر
پرانے کرنسی نوٹس پاس رکھنے کے خلاف آرڈیننس کابینہ میں منظور
نئی دہلی
یو این آئی
مرکزی کابینہ نے آج ایک آرڈیننس کے نفاذ کومنظوری دے دی جس کے تحت آخری تاریخ کے بعد پانچ سو اورہزار وپے کے منسوخ شدہ کرنسی نوٹس پاس رکھنے پر جرمانہ عائد کیا جائے گا اور سزائے قید بھی سنائے جائے گی۔ آرڈیننس کو منظوری کے لئے صدر جمہوریہ سے رجوع کیا جائے گا جن کی منظوری کے بعد یہ آرڈیننس نافذ العمل ہوجائے گا۔ باخبر ذرائع کے بموجب آرڈیننس میں اس بات کی گنجائش فراہم کی گئی ہے کہ دس نوٹس سے زیادہ پرانی کرنسی پاس رکھنے پر جرمانہ عائد کیاجائے گا اور سزائے قید سنائی جائے۔ ذرائع نے کہا کہ دس یا اس سے زائد نوٹس پائے جانے کی صورت میں متعلقہ فرد کو پانچ ہزارروپے جرمانہ اداکرنا ہوگا یا بعض کیسس میں جرمانہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ چار سال کی سزائے قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سرکاری ذڑائع نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے ساتھ ہی ہی آرڈیننس منظور ہوچکا ہے ۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا تعزیری دفعات کا پرانے کرنسی نوٹس کو بینکوں میں جمع کرانے کے پچاس روزہ ونڈو کے بعد جو30دسمبر کو ختم ہونے والا ہے پاس رہنے والی منسوخ کردہ کرنسی پر اطلاق ہوگا یا اس کا اطلاق31دسمبر کے بعد پا س رہنے وایل پرانی کرنسی پر ہوگا جو حلف نامہ کے فارم کے ادخا کے ذریعہ ریزروبینک کی مصرحہ شاخوں پر پرانے کرنسی نوٹس کو جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے ۔ ذڑائع نے بتایا کہ کابینہ نے ایک اور آرڈیننس کو منظوری دے دی ہے جس کے تحت آربی آئی ایکٹمیں ترمیم کی گئی تاکہ اعلیٰ قدر کے حامل پرانے کرنسی نوٹس پر حکومت اور ریزروبینک کے واجبات کا خاتمہ عمل میں لایاجاسکے اور اس طرح مستقبل میں قانونی کشاکش کو روکا جاسکے۔ یہ اقدام پانچ سو روپے اور ہزار روپے کے منسوخ کردہ نوٹس کو ڈیپازٹ کرانے کی آخری تاریخ سے دو روز پہلے کیاگیا ہے۔ ممنوعہ کرنسی کو ڈیپازٹ کرانے کی آخری تاریخ 30دسمبر2016مقرر ہے ۔ پی ٹی آئی کے بموجب ذرائع نے بتایا کہ بینکوں یا پوسٹ آفس میں پرانے کرنسی نوٹ جمع کرنے کی آخری تاریخ جمعہ کو ختم ہوجائے گی جب کہ بیرونِ ملک افراد ، دور دراز علاقوں میں تعینات مسلح افواج کے ارکان عملہ یا دیگر ایسے افراد جو منسوخ شدہ نوٹوں کو بینک میں جمع نہ کرانے کا جائزعذر پیش کریں وہ31مارچ تک سخت شرائط کے تحت آر بی آئی میں ایسے نوٹ جمع کراسکتے ہیں۔
Cabinet passes ordinance; fine, jail for holding old notes

حکومت کرنسی امتناع پر وائٹ پیپر جاری کرے: راہول گاندھی
نئی دہلی
یو این آئی
نوٹ بندی کے مسئلہ پر نریندر مودی حکومت پر حملہ تیز کرتے ہوئے کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے آج مطالبہ کیا ہے کہ نوٹ بندی کے مسئلہ پر وائٹ پیپر جاری کیاجائے۔ جب کہ عام آدمیوں کو رقم نکالنے پر عائد کردہ حد کوبرخواست کرنے اور کسانوں کے قرضے معاف کردینے کے مطالبات بھی کئے گئے ہیں۔ یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی نے نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ قوم کو بتائیں کہ نوٹ بندی ککے اعلان کے بعد سے کتنا کالا دھن بے نقاب کیا گیا ہے ۔ نوٹ بندی کی بناء پر ملک کو کتنا معاشی نقصان ہوا، پالیسی کا اعلان کرنے کے بعد کتنی ملازمتیں تلف ہوئیں اور کتنے لوگوں کو روزگار کھونا پڑا اور اس پالیسی کی وجہ سے کتنے لوگوں کو اپنی زندگیاں کھونی پڑیں۔ انہوں نے دریات کیا کہ فوت ہونے والے افراد کے خاندانو کو حکومت نے معاوضہ کیوں نہیں دیا ۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ نوٹ بندی پر عمل آوری سے قبل مشاورت اور تیاری کا طریقہ کار کیا تھا اور عوام پر ایسی خطرنا پالیسی آزمانے سے قبل، ماہرین معاشیات یا آربی آئی سے کیوں مشورہ نہیں لیا گیا ۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ وہ ان تمام افراد اور اداروں کے نام بتائے جنہوں نے8نومبر2016کے بعد سے بینک اکاؤنٹس میں پچیس لاکھ روپے یا اس سے زیادہ رقم ڈپازٹ کروائی تھی۔ ملک کے عوام کے حق میں مطالبات کا چارٹر پیش کرتے ہوئے گاندھی نے فوری اثر کے ساتھ رقم نکالنے کی حد پر تمام پابندیاں کو برخواست کرنے کا مطالبہ کیا۔ پی ڈی ایس کے تحت تقسیم کئے جانے والے راشن کی قیمتیں استوار کرنے، تمام ربیع فصلوں کی اقل ترین امداد بھی قیمتوں سے زیادہ بیس فیصد ایک وقتی بونس فراہم کرنے ، ہر بی پی ایل خاندان سے متعلق کم از کم ہر خاتون کے کھاتہ میں بیس ہزار روپے جمع کرنے ، ایم جی این آر ای جی اے کے تحت طمانیت شدہ کے دنوں کو اور اجرت کی شرح کو دوگنا کرنے اور چھوٹے شاپ مالکین اور چھوٹے بزنس کے لئے انکم ٹیکس اور سلیس ٹیکس پر پچاس فیصد کی چھوٹ دینے کے مطالبات بھی کئے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ سوئس بینک میں کھاتے رکھنے والوں کے نام بتائیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے آگے پانچ سوالات رکھتے ہوئے گاندھی نے کہا کہ8نومبر کے بعد سے کتنے کالے دھن کا افشاء کیا گیا ہے، نوٹبندی کی وجہ سے ملک کو کتنا معاشی نقصان ہوا ہے بتائیں۔ انہوںنے استفسار کیا کہ ان کی اس پالیسی کے اعلان کے بعد کتنے فرد ملازمتوں سے محروم ہوگئے اس کے بارے میں اور نوٹ بندی کی وجہ سے کتنی موت ہوئیں۔ حکومت نے متوفی افراد کے کے گھر والوں کو معاوضہ کیوں نہیں دیا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ تمام پابندیاں ختم ہونے تک بینکس کے تمام کھاتہ داروں کو سالانہ18فیصد خصوصی سود کی شرح دینی چاہئے ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈیجیٹل لین دین پر تمام چارجس کو فوری طور برخواست کیاجائے۔ قبل ازیں پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر پارٹی ورکرس اور قائدین سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی نے کہا کہ مودی حکومت ہندوستان کے لباس کو تا ر تار کررہی ہے۔ عوام خوف و خطر میں مبتلا ہیں۔ نوٹ بندی اس کی ایک مثال ہے ۔ نوٹ بندی کو ایک ایسا فیصلہ بتاتے ہوئے جس سے صرف چند کارپوریٹ ہاؤزس اور مٹھی بھر متمول افراد کو فائدہ پہنچا ہے ۔ گاندھی نے کہا کہ یہ تخیل خوف اور نفرت پھیلانے اور سیاست کرنے کا ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم پر زور دیا کہ وہ سہارا اور برلا میں ان کے نام کی شمولیت کے الزام سے خود کو صاف ستھرا بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی کہتے ہیں کہ وہ کرپشن سے لڑ رہے ہیں لیکن وہ الزامات کا جواب نہیں دینا چاہتے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ مودی جی نے کس بنیاد پر تحدیدات عائد کی ہیں۔ یہ حکومت کی نہیں،عوام کی رقم ہے۔ گاندھی نے کہا کہ کانگریس عوام کے حقوق کے لئے اور ان پر عائد تحدیدات کے خلاف لڑے گی۔

سیول اور پولیس عہدیدار مودی حکومت سے تعاون نہ کریں
چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی کی ریاستی نٖظم و نسق کو ہدایت
نئی دہلی
یو این آئی
وفاقی اسٹرکچر بمقابلہ مودی حکومت اپنی لڑائی کو آگے لے جاتے ہوئے ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتاب نرجی اور حکومت مغربی بنگال نے سیول اور پولیس عہدیداروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ لا اینڈ آرڈر صورتحال یہاں تک کہ دہشت گردی کے تشدد سے متعلق بھی کوئی معلومات مرکز کو فراہم نہ کریں۔ ذرائع نے بتایا کہ کولکتہ میں چیف منسٹر کے دفتر نے اس سلسلہ میں ایک ہدایت جاری کرتے ہوئے عہدیداروں سے کہا کہ اشد ضروری کیس کی ہی انہیں اطلاعات بنرجی کے دفتر یا چیف سکریٹری کے دفتر کے ذریعہ دینا چاہئے ۔ اس پر سختی سے عمل کرنا چاہئے ۔ ایک ذریعہ نے یو این آئی کو بتایا کہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ چیف منسٹر مغربی بنگا نے اس طرح کی ہدایت جاری کی ہے۔2013میں بھی یوپی اے دور حکومت میں ریاست میں اس طرح کے احکام پاس کئے گئے اور اس پر عمل سے ضلع واری کرائم ریکارڈ کے باسے میں بنیادی اعدادوشمار وزارت داخلہ کو پہنچانے سے مانع ہوئے۔ مرکز نے قومی کرائم بیورو و ریکارڈس مرتب کرنے کے لئے ا ن اعداد و شمار کو پیش کرنے کے لئے کہاتھا اور نتیجے کے طور پر مرکزی وزارت داخلہ کو ضروری اعداد و شمار اکٹھا کرنے میں چند رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ شرائط و ضوابط کے بموجب مرکز اور ترجیحی طور پر وزارت داخلہ ریاستی محکمہ پولیس سے راست معلومات طلب کرنی ہے ۔ تاہم وفاقی ڈھانچہ کا مسئلہ جو علاقائی پارٹیوں کے دل کے قریب ہے حالیہ دنوں میں مودی حکومت کی جانب سے بالخصوص ریاست کی خود اختیار پر قبضہ کرنے کی کوشش کے بعد یہ مسئلہ علاقائی پارٹیوں کے لئے اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔ مودی کی کوششوں کے بارے میں لگائے گئے الزام کی مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے تردید کی ہے۔ بالعموم ارکان پارلیمنٹ سے پوچھے گئے سوال پر مرکز جرائم کے واقعات اور لا اینڈ آرڈر صورتحال پر معلومات اور اعداد و شمار طلب کرتا ہے کیونکہ اسے ان سوالوں کے جواب دینے ضروری ہوتے ہیں۔ کنونشن تک کسی بھی ریاستی حکومت نے اس طرح کا ڈاٹا مرکز کو فراہم کرنے کے لئے نہ تو کوئی بڑا اعتراض کیا اور نہ ہی ایسی معلومات سیول اور پولیس عہدیداروں کو فراہم کرنے کی ہدایت دی۔ ماضی میں1980کی دہائی میں ایک یا دو مرتبہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر این ٹی راما راؤ نے بتایا جاتا ہے کہ ریاستی پولیس سے راست معلومات طلب کرنے پر مرکز پر اعتراض کیا تھا۔ بنرجی نے2013ء میں یہ مسئلہ اٹھایا اور یہاں تک کہ انہوں نے عہدیدارو ں کو ہدایت دی کہ وہ مرکزی حکومت کے سوال کا راست رد عمل نہ دیں۔ یوپی اے IIکے تحت جب کہ ممتا بنرجی کی پارٹی جو ستمبر2012ء تک کانگریس زیر قیادت مشترکہ حکومت کا حصہ تھی اس نے منموہن سنگھ حکومت کی جانب سے ایف ڈی آئی کلیرنس کے مسئلہ پر حکومت چھوڑ دی تھی۔ اپوزیشن کے اتحاد بالخصوص علاقائی پارٹیوں کے نوٹ بندی نے ٹاملناڈو کے چیف سکریٹری پی رام موہن راؤ کی رہائش گاہ پر انکم ٹیکس دھاؤں کو ایک غلط کھیل سے تعبیر کیا ہے ۔ انہوں نے پچھلے ہفتہ ٹوئٹر پر لکھا قبل ازیں اروند کجریوال کے پرنسپل سکریٹری کے مکان پر دھاوا کیا گیا اور انہیں ہراساں کیا گیا۔ اب ٹاملناڈو کے چیف سکریٹری کے خلا فیہ عمل کیا گیا ہے ۔ یہ انتقامی، غیر اخلاقی اور فنی طور پر غیر مناسب کارروائی تھی جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وفاقی ڈھانچہ میں خلل پیدا کیاجائے۔ وہ امیت شاہ اور دیگر کے خلاف دھاوے کیوں نہیں کرتے جو دولت اکٹھا کررہے ہیں۔ بی جے پی نے بھی پلٹ وار کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کی ملکہ ہوتے ہوئے انہیں سرادھا، نرادا اور روزویابی اسکامس کے جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات بی جے پی قائد سدھارتھ ناتھ سنگھ نے کہی۔ انہوں نے کہا کہ دستوری عہدہ پر رہتے ہوئے وہ مداخلت کررہی ہیں جب کہ انکم ٹیکس محکمہ اپنا فرض انجام دے رہا ہے اور وہ اس تمام معاملہ کو سیاسی بنارہی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں