گائے - ایک تجزیاتی مطالعہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-10-12

گائے - ایک تجزیاتی مطالعہ

cow
گائے جانوروں میں سب سے سیدھی سادی، یاسیدھے سادے لفظوں میں کہہ لیجئے، شریف ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی موقع بے موقع اسی بےچاری پر مشقِ سخن کرتا ہے۔اب یہی دیکھئے، پرائمری درجات میں مضمون نویسی کی ابتدا بھی ہمیشہ گائے سے کی جاتی ہے کہ اس کی شرافت کی وجہ سے اس پر مضمون بھی سیدھا سادہ اور آسان ہوتا ہے۔ہمارے اساتذہ کے مطابق، سب سے پہلے گائے کی شکل و صورت بیان کرنی چاہئے۔ اس کے بعد اس کی اقسام اور آخر میں اس سے حاصل ہونے والے فوائد۔نقصانات کا ذکر اس لئے ممکن نہیں تھا کہ اس کے بول و براز تک کار آمد ہوتے ہیں۔
لیکن اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔گائے سے متعلق روایتی جملوں میں چند تبدیلیوں کے علاوہ اس کے نقصانات کا بھی اضافہ ضروری ہو گیا ہے ۔مثلاً گائے ایک چوپایہ جانور ہے۔اس کے پیر تو چار ہوتے ہیں لیکن ہاتھ ایک بھی نہیں۔ نتیجتاً یہ اپنی دفاع سے معذور ہوتی ہے اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے گؤ رکشکوں پر انحصار کے لئے مجبور ہوتی ہے۔لیکن اب اسے گؤ سرکشا کمیٹیوں کی شکل میں ہر جگہ زیڈ پلس سیکیوریٹی مہیا ہے۔اس کی حفاظت پر تعینات کمانڈوز کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ ایک خاص فرقے کے لوگ اس کے قریب بھی پھٹکنے سے کانپتے ہیں۔ اگر راہ چلتے کوئی بھولی بھٹکی گائے ان کی لا علمی میں ان کے پیچھے ہو لے تو ان کی موت یقینی ہے۔کمانڈوزفوراً اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور سوالات کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے ’ کہاں سے لا رہے ہو؟ کہاں لے جا رہے ہو؟ اس کا کیا کرو گے؟‘ وغیرہ وغیرہ۔ پھر ارنب گوسوامی کی طرح اس کا جواب سننے سے قبل ہی اسے مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا اعلان اور نفاذ بیک وقت کر دیا جاتا ہے۔بعض اوقات دوسرے فرقے کے لوگوں کو بھی ان کمانڈوز کی چوکسی اور مستعدی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا جن گھروں میں گائیں ہوں ان کے مکینوں کو اپنے مکانوں کی حفاظت کے لئے اب کتوں کی قطعی ضرورت نہیں۔ بس گایوں کو گیٹ پر باندھ دینا کافی ہوگا۔ان کی ڈکار میں جو بازگشت ہوگی وہ کتوں کے بھونکنے میں کہاں۔دلت فرقے کے لوگ البتہ اپنے تحفظ کے لئے مردہ گائے کی کھال اتارنے یا جسم ٹھکانے لگانے سے قبل ”ڈیتھ سرٹیفیکٹ“ کا مطالبہ کرنے کے مجاز ہوں گے۔بصورت دیگر، ضلع مجسٹریٹ یا جج کی موجودگی میں ہی ہاتھ لگانے پر اصرار کرنے کا اختیار ہوگا۔
گایوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ آسٹریلیائی گائیں سب سے زیادہ دودھ دیتی ہیں جب کہ ہندوستانی گائیں سب سے زیادہ ووٹ ۔ اگر کانگریسی رہنماؤں میں ذرا بھی دور اندیشی ہوتی تو اپنا انتخابی نشان گائے بچھڑا بدل کر پنجہ نہ کرتے۔
گائے کا دودھ ہو یا گوشت، دونوں ہی طاقت بخش غذائیں ہیں۔ایک سے جسمانی طاقت حاصل ہوتی ہے تو دوسرے سے سیاسی قوت ۔اگر دودھ سے بھگوان کے چرن دھوئے جاتے ہیں تو گوشت سے بھی تجدیدِ ایمان و عقیدے کا کام لیا جاتا ہے۔فطرہ، زکوٰۃ اور عبادات میں اگر کمی کا احساس ہو تو باقاعدگی سے ہفتے میں تین بار یعنی بدھ، جمعہ اور اتوار کو یہ ”ایمانی بوسٹر“ لیا جاتا ہے۔بعض لوگ سائیڈ ایفکٹ سے بے فکر اسے ایک یا دو بار روزانہ لیتے ہیں۔لیکن اس ایمان افزا غذا سے سیاسی قوت کا حصول مشروط ہوتا ہے۔اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ اکثریتی زون میں ہیں یا اقلیتی زون میں۔ اگر گائے کے گوشت نے کئی لوگوں کی جان لی ہے تو اس سے کئی لوگوں کو جان بھی لیا گیا ہے، یعنی انہوں نے اپنے فرقے یا پارٹی میں اپنی شناخت نمایاں کی ہے، جس کے نتیجے میں اگر ایک طرف گائےنے کئی افراد کو قبرستان یا شمشان پہنچایا ہے تو دوسری طرف دیگر کئی کو پارلیمان کے ایوان تک بھی پہنچایا ہے۔
اگر گائے کا دودھ ملاوٹ جیسی لعنت سے نہیں بچ سکا تو بھلا گائے کا گوشت کیسے بچ سکتا ہے۔ ہم نے عقل انسانی دنگ کر دینے والی خبریں بھی پڑھیں کہ کئی مقامات پر مٹن سے بیف نکل آیا بلکہ پورا کا پورا مٹن بیف میں تبدیل ہو گیا۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ ہفتے ہم نے بازار سے چکن خریدتے وقت دکاندار سے این بی سی (NBC) کا مطالبہ کر ڈالا۔اس نے مجھے اس طرح گھورا گویا میں نے گوشت بیچنے کا لائسنس طلب کر لیا ہو۔
”نو بیف سرٹیفکیٹ!“ میں نے وضاحت کی۔
”اوہ۔“ وہ ہنس پڑے: ”اس کی کوئی ضرورت نہیں۔“
”ارے کیسے ضرورت نہیں؟ جب مٹن بیف بن سکتا ہے، دو کیلو گوشت تجربہ گاہ تک جاتے جاتے بڑھ کر پانچ کیلو ہو سکتا ہے تو چکن کو بیف بننے سے کون روک سکتا ہے؟“
اور پھر اس نے اسٹیٹ لِسٹ اور سنٹرل لِسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی کہ اپنے بنگال میں دیگر صوبوں کی طرح بیف پر قانونی پابندی نہیں۔دستورِ ہند کے متعلق اس کے علم سے میں متحیر ہوا تو اس نے بتایا کہ ایک زمانے میں وہ سول سروسز کی تیاری کر رہا تھا۔ لیکن جب پتہ چلا کہ پولٹری فارمنگ کر کے یا چکن کی تجارت میں آئی اے ایس افسر سے زیادہ پیسے کمائے جا سکتے ہیں تو اس نے ارادہ بدل دیا۔
”بیف کھانے کی قانونی اجازت تو دیگر صوبوں کے لوگوں کو بھی ہے مگر گائے ذبح کرنے پر پابندی ہے۔ بہ لفظ دیگر، وہ دوسرے صوبوں سے لائے گئے بیف کھا سکتے ہیں۔“
”یعنی وہ سینہ پھلا کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ ’امپورٹڈ‘ بیف کھاتے ہیں۔“
ایک خبر کے مطابق، ہریانہ کے کسی قصبے میں پولیس نے بڑے پیمانے پر سڑک کے کنارے واقع ہوٹلوں پر چھاپے مارے۔ ان ہوٹلوں میں بیف بریانی فروخت کئے جانے کا شبہ تھا۔لیکن بعد میں یہ خبر جھوٹی نکلی اور انتظامیہ کو شرمندگی اور تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ضلع انتظامیہ مستقبل میں ایسی سبکی سے بچنے کے لئے کئی اقدامات کر سکتی ہے۔ مثلاً شاپنگ مالس کے داخلہ گیٹس پر ہتھیاروں کا پتہ لگانے والے میٹل ڈی ٹیکٹرس کی طرح ہوٹلوں کے دروازوں پر بھی ”بیف ڈی ٹیکٹرس“ نسب کئے جا سکتے ہیں۔مزید سختی کے لئے گیٹ پر پولیس اہلکاروں کو بھی تعینات کیا جا سکتا ہے جو ہوٹل سے باہر نکلنے والوں کی توند پر دستی ”بیف ڈی ٹیکٹرس“ پھیر کر شک کی تصدیق کر سکیں گے۔ چیکنگ کے دوران ڈکار یا ریاح سے بھی اپنی قوت شامہ کو بروئے کار لاتے ہوئے بیف نوشی کی تصدیق یا تردید کرنے کے قابل ہوں گے۔ضرورت پڑنے پر دیگر ”ذیلی برآمدات“ کو حتمی تصدیق کے لئے تجربہ گاہ میں بھی بھیجنے کا اختیار ہوگا۔
مختلف صوبوں میں بیف پر پابندی کے سبب وہاں کے ہوٹلوں میں ملنے والی چکن یا مٹن بریانی کے پیکٹس پر لکھا ہوگا: ’بیف نوشی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے مضر ہے‘ یا پھر ’بیف دنگوں کا سب سے بڑا سبب ہے‘ وغیرہ۔
ٹرینوں میں چکن بریانی آرڈر کرتے وقت ہڈی والی بوٹیوں کا مطالبہ بڑھ جائے گا۔ کھانا کھانے کے بعد ہڈیاں احتیاط سے پیکٹ میں لپیٹ کر حفاظت سے رکھنی ہوں گی۔پتہ نہیں کب جی آر پی ایف (گؤ رکشا پولیس فورس) ڈبّے میں اٹھ آئیں اور چکن خوری کا ثبوت مانگ بیٹھیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں دعوت کھاتے وقت بھی یہ احتیاط ملحوظ رکھنی ہوگی۔ بصورت دیگر، پاس بیٹھے شخص کی رکابی میں فاضل ہڈی موجود ہونے پر ایک کی گزارش کر سکتے ہیں۔اب اگر اس نے یہ ہڈیاں اپنے بیوی بچوں کے لئے بچا کر نہیں رکھے ہوں گے تو وہ یقیناً آپ کو شکریہ کا موقع دے گا۔ لیکن یاد رہے، مٹن کی ہڈیوں سے حتی المقدور احتراز کرنا چاہئے کیوں کہ اس صورت میں گلو خلاصی کے لئے لیباریٹری کے چکر تک لگانےپڑ سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک مسلمان تاجر کی بیٹی کی شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ ساری رسومات کی ادائیگی کے بعد طعام کے لئے جب زمین دوز ہال میں لے جایا جانے لگا تو چند مہمانوں نے استفسار کیا۔ بتایا گیا کہ ان کے لئے سرپرائز ہے جو وہیں جا کر پتہ چلے گا۔ لیکن سرپرائز دیکھ کر زبان لٹپٹانے کے ساتھ ہی رونگٹے بھی کھڑے ہو گئے۔ دسترخوان انواع و اقسام کے بیف کے آئٹمس سے بھرے پڑے تھے۔دھڑکتے دل اور لپلپاتی زبان کے ساتھ کھانا شروع کیا۔ اکثر کی کیفیت ایسی ہو رہی تھی جیسے ہٹلر کی بیٹی سے اس کے گھر کے پچھواڑے بوس و کنار کر رہے ہوں۔ ان کی ایسی حالت دیکھ کر میزبان نے اعلان کیا: ”حضرات، بالکل بےفکر ہو کر کھائیں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ جس طرح ہم نے آج آپ کی دیرینہ آرزو پوری کی ہے اسی طرح آپ کی حفاظت کا بھی معقول انتظام کر رکھا ہے۔اس ہال کے دروازے پر ہم نے ایک بڑا سا ڈرم رکھوایا ہوا ہے جو چکن کی ہڈیوں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ سب یہاں سے نکلتے وقت ایک ایک ہڈی اپنی جیب میں رکھتے جائیں۔ گیٹ کے باہر تعینات پولیس والوں کو اسے دکھا کر آپ با آسانی رخصت ہو سکیں گے ...“
”لیکن اگر پولیس والوں نے ہڈیاں دکھانے سے قبل ہی بیف ڈی ٹیکٹرس ہماری شکم سے لگا دیا تو؟“ ایک صاحب نے جو کچھ زیادہ ہی ڈرے ہوئے تھے، میزبان کی بات کاٹ کر پوچھا۔
”اس سے بچنے کی بھی ایک ترکیب ہے۔“ میزبان نے ہاتھ اٹھا کر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”آپ نکلتے وقت قطار میں آگے سے ہی چکن کی ران یا سینے کی ہڈی جو بھی آپ کی جیب میں ہو اپنے داہنے ہاتھ میں بلند کر کے رکھیں۔ ان شاء اللہ بیف ڈی ٹیکٹرس کی نوبت نہیں آئے گی۔ ویسے بھی انہیں تمام حقیقت کا پیشگی علم ہے۔ وہ صرف رسمی خانہ پُری کر رہے ہیں۔ آپ کے جانے کے بعد اس ہال میں ان کی ہی باری ہے۔“
آخری جملے نے ہمیں بہت ڈھارس دی اور ہم نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا اور من ہی من میں دلہن سے زیادہ دلہن کے والد کو دعائیں دیں۔

***
jawednh[@]gmail.com
موبائل : 09830474661
B-5, Govt. R.H.E., Hastings, 3, St. Georges Gate Road, Kolkata-22
جاوید نہال حشمی

Cow, an analytical view - Humorous Essay: Jawed Nehal Hashami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں