کیا گائے مادر وطن کے قانون سے بھی مقدس ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-07-31

کیا گائے مادر وطن کے قانون سے بھی مقدس ہے؟

holy cow
جولائی میں گجرات کے اونا میں نام نہاد گاؤ رکھشکوں نے دلتوں کو ننگا کیا اور آہنی سلاخوں سے مارا پیٹا۔ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ مردہ گایوں کی کھال اتارتے ہیں ۔ جون میں راجستھان میں گائے کے نگہبانوں نے تین افراد کو ننگا کر کے ان کی پٹائی کی۔ یہ لوگ ذبح کرنے کے لئے گایوں کو منتقل کررہے تھے ۔ مارچ میں گائے کے مبینہ محافظوں نے ہریانہ میں مستان عباس کا اس وقت قتل کردیا جب وہ اپ نے کھیتوں میں استعمال کے لئے ایک نئے خریدے ہوئے بیل کو منتقل کررہے تھے ۔ مارچ میں ہی مویشیوں کے دو مسلم تاجروں بشمول ایک بارہ سالہ لڑکے کو جھار کھنڈ میں م بینہ طور پر گایوں کا تحفظ کرنے والے گروپ نے ایک درخت سے لٹکا دیا ۔ اکتوبر میں جموں ، سری نگرشاہرہا پر اودھم پور میں ایک ٹرک ڈرائیور پر ایک ہجوم نے بیف کی افواہوں پر پٹرول بموں سے حملہ کردیا۔ اور ان سب واقعات سے پہلے دادری میں جو قومی دارالحکومت سے بہ مشکل ایک گھنٹہ سے بھی کم مسافت پر ہے، بیف رکھنے کی افواہوں پر ایک ہجوم نے اخلاق نامی معمر شخص کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ ہندوستان نے ایک سال سے بھی کم عرصہ میں ایک طویل راستہ طے کرلیا ہے۔گائے،مادر وطن کے قانون سے بھی مقدس ہوگئی اور غنڈوں کا کوئی بھی گروپ ، گاؤ رکھشک ہونے کا دعوی کرتے ہوئے فی الفور انصاف کرسکت اہے ۔ گائے کا نام لو اور ایک کینگر و عدالت فوری حرکت میں آنے کے لئے تیار ہوگی ۔ گزشتہ دنوں گجرات کے اونا میں گائے کے قتل کے شبہ میں چار دلتوں کو ننگا کرتے ہوئے ان کی پٹائی کی گئی ۔ دن دھاڑے پیش آئے اور بربرانہ واقعہ پر گجرات میں دلتوں نے ہتھیار اٹھالیے اور بالکل درست کیا۔سیاسی پارٹیاں بھی طیش میں آگئیں۔ سب بیک آواز چیخ اٹھے ، دلتوں پر مظالم بند کرو ۔ بی جے پی بھی دفاعی موقف میں آگئی ۔ اب گائے کے قاتلوں پر زہر اگلنے والا کوئی سنگیت سوم نہیں تھا۔ کوئی یہ سوال نہیں کررہا تھا کہ ملزمین کوآزاد کیوں چھورڑ دیا گیا ہے جیسا کہ دادری معاملہ میں ہوا تھا۔ گائے کا تحفظ کرنے والوں کے ل ئے کوئی شیو سینا والے پنچایتیںمنعقد نہیں کررہے تھے، جیسا کہ دادری معاملہ میں کیا گیا تھا ۔ کیا آج کوئی بی جے پی لیڈر اونا میں دلت متاثرین کے خاندان سے ملاقات کے لئے جانے پر چیف منسٹر آنندی بین پٹیل کو گائے دشمن کہے گا جیسا کہ انہوں نے محمد اخلاق کے گھر والوں سے ملنے پراکھلیش یادو اور دیگر قائدین کو کہا تھا ؟ کیا یوگی آدتیہ ناتھ یا سنگیت سوم غنڈوں کا نشانہ ستم بننے والے ان دلتوں کے خلاف ایک کیس درج کرنے کامطالبہ کریں گے؟ کیوں؟ اس لئے کہ اس مرتبہ متاثرین دلت ہیں اور اتر پردیش کے انتخابات کا نتیجہ طئے کرنے میں ان کا رول کلیدی ہوگا۔
بی جے پی کے لئے گائے عملا گھر تک آچکی ہیں۔ یہ بات یقینی طور پر گجرات دلت سانحۃ تک محدود نہیں ہے ۔ گو، جوکچھ ہوا ہے وہ اس قدر گیر انسانی، رسوا کن اور بربرانہ ہے کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے لیکن گایوں کی حفاظت کے بڑھتے ہوئے عفریت پر اجتماعی سیاسی بھول اور ایک کے بعد ایک واقعہ نے جس میں لوگوں پر حملے کئے گئے یا قتل کیا گیا ہے، ہمیں ایک ظالمانہ نکتہ پر پہنچادیا ہے ۔ ایک ایسے ماحول میں جس میں بی جے پی اور دائیں بازو کے لوگون نے گاؤ ماتا کے نعرہ کو دیگر پارٹیوں کو دیوار سے لگاتے ہوئے انتہائی بلندی پر پہنچا دیا ہے، کیااپوزیشن سیاسی پارٹیاں گایوں کی حفاظت کے نام پر دادری کے بعد ہونے والے واقعات کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھنا پسند کریں گی؟ اگر وہ گائے کے نام پرہلاکتوں کے خلاف زبان کھولیں تو کیا انہیں نام نہاد ہندو رد عمل کا ڈر رہے گا؟ دادری کے بعد بی جے پی کے پیدا کردہ تاثر آپ یا تو گائے کے ساتھ ہیں یا اس کے خلاف کے جلو میں کیا نام نہاد سیکولر آزاد خیال سیاسی پارٹیاں خود سپردگی اختیار کرچکی ہیں۔ جھارکھنڈ میں مویشیوں کے دو تاجروں کے قتل کے لئے گرفتار پانچ کے منجملہ دو افراد کا تعلق گایوں کا تحفظ کرنے والے گروپوں سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ دلتون پر حملہ کے بعد ہی سیاسی پارٹیاں بے حسی کے اپنے خول سے باہر آئی ہیں۔غنیمت ہے کہ تاخیر سے سہی، کچھ تو بیداری سامنے آئی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ گائے کی حفاظت کے نام پر اس غندہ گردی، خونریزرکھشا کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی جائے ۔اس میں بی جے پی کے لئے ایک سبق ہے ۔ اسے احتساب کی ضرورت ہے۔ اس نے مقدس گائے پر ناپاک سیاست کھیلتے ہوئے ملک میں ایک شترب ے مہار عفریت کو چھوڑ دیا ہے۔ ان لوگوں کی جراتیں اس سطح پر پہنچ گئی ہیں کہ گجرات کے اونا میں بھرے مجمع کے سامنے انہوں نے قانون کے کسی ڈروخوف کے بغیر ایک سفاکانہ کارروائی انجام دی ہے ۔ ان کے ڈھیٹ رویہ اور قانون سے بے پرواہ ہوجانے کے پس پردہ یہ یقین کارفرما ہے کہ جو لوگ اقتدار کی گدی پربیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کے طرفدار ہیں ۔ اس عفریب کو بے لگام کرنے کی شروعات بذات خود نریندر مودی نے2014کے لئے اپنی مہم کے دوران اس وقت کی تھی جب انہوں نے گاؤ ذبیحہ اور گوشت برآمدات کا حوالہ دینے کے لئے گلابی انقلاب کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ پھر ان کے بااعتماد رفیق کار امیت شاہ نے سارے مغربی اتر پردیش میں اس کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ انہوںنے بچھڑ خانوں پر اپنا زور بیان صرف کیا تھا اور کہا تھا کہ بھیگ مانگنے والے گوشت کا کاروبار کر کے مال دار بن گئے ہیں۔ اس طرح لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا گیا۔ جس کا واضح اثر مہاراشٹر اور ہریانہ میں بی جے پی کی نئی حکومتوں کے اولین فیصلوں سے ہی ظاہر ہوگیا۔ گائے کے تحفظ کے نام پر اس طرح کی خون ریزی کب رکے گی؟ کیا بی جے پی اب اس عفریت کو روک سکتی ہے؟

Is cow sacred than homeland constitution? - Article: Mohd Asim

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں