بی جے پی کے لئے گائے عملا گھر تک آچکی ہیں۔ یہ بات یقینی طور پر گجرات دلت سانحۃ تک محدود نہیں ہے ۔ گو، جوکچھ ہوا ہے وہ اس قدر گیر انسانی، رسوا کن اور بربرانہ ہے کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے لیکن گایوں کی حفاظت کے بڑھتے ہوئے عفریت پر اجتماعی سیاسی بھول اور ایک کے بعد ایک واقعہ نے جس میں لوگوں پر حملے کئے گئے یا قتل کیا گیا ہے، ہمیں ایک ظالمانہ نکتہ پر پہنچادیا ہے ۔ ایک ایسے ماحول میں جس میں بی جے پی اور دائیں بازو کے لوگون نے گاؤ ماتا کے نعرہ کو دیگر پارٹیوں کو دیوار سے لگاتے ہوئے انتہائی بلندی پر پہنچا دیا ہے، کیااپوزیشن سیاسی پارٹیاں گایوں کی حفاظت کے نام پر دادری کے بعد ہونے والے واقعات کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھنا پسند کریں گی؟ اگر وہ گائے کے نام پرہلاکتوں کے خلاف زبان کھولیں تو کیا انہیں نام نہاد ہندو رد عمل کا ڈر رہے گا؟ دادری کے بعد بی جے پی کے پیدا کردہ تاثر آپ یا تو گائے کے ساتھ ہیں یا اس کے خلاف کے جلو میں کیا نام نہاد سیکولر آزاد خیال سیاسی پارٹیاں خود سپردگی اختیار کرچکی ہیں۔ جھارکھنڈ میں مویشیوں کے دو تاجروں کے قتل کے لئے گرفتار پانچ کے منجملہ دو افراد کا تعلق گایوں کا تحفظ کرنے والے گروپوں سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ دلتون پر حملہ کے بعد ہی سیاسی پارٹیاں بے حسی کے اپنے خول سے باہر آئی ہیں۔غنیمت ہے کہ تاخیر سے سہی، کچھ تو بیداری سامنے آئی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ گائے کی حفاظت کے نام پر اس غندہ گردی، خونریزرکھشا کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی جائے ۔اس میں بی جے پی کے لئے ایک سبق ہے ۔ اسے احتساب کی ضرورت ہے۔ اس نے مقدس گائے پر ناپاک سیاست کھیلتے ہوئے ملک میں ایک شترب ے مہار عفریت کو چھوڑ دیا ہے۔ ان لوگوں کی جراتیں اس سطح پر پہنچ گئی ہیں کہ گجرات کے اونا میں بھرے مجمع کے سامنے انہوں نے قانون کے کسی ڈروخوف کے بغیر ایک سفاکانہ کارروائی انجام دی ہے ۔ ان کے ڈھیٹ رویہ اور قانون سے بے پرواہ ہوجانے کے پس پردہ یہ یقین کارفرما ہے کہ جو لوگ اقتدار کی گدی پربیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کے طرفدار ہیں ۔ اس عفریب کو بے لگام کرنے کی شروعات بذات خود نریندر مودی نے2014کے لئے اپنی مہم کے دوران اس وقت کی تھی جب انہوں نے گاؤ ذبیحہ اور گوشت برآمدات کا حوالہ دینے کے لئے گلابی انقلاب کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ پھر ان کے بااعتماد رفیق کار امیت شاہ نے سارے مغربی اتر پردیش میں اس کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ انہوںنے بچھڑ خانوں پر اپنا زور بیان صرف کیا تھا اور کہا تھا کہ بھیگ مانگنے والے گوشت کا کاروبار کر کے مال دار بن گئے ہیں۔ اس طرح لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا گیا۔ جس کا واضح اثر مہاراشٹر اور ہریانہ میں بی جے پی کی نئی حکومتوں کے اولین فیصلوں سے ہی ظاہر ہوگیا۔ گائے کے تحفظ کے نام پر اس طرح کی خون ریزی کب رکے گی؟ کیا بی جے پی اب اس عفریت کو روک سکتی ہے؟
Is cow sacred than homeland constitution? - Article: Mohd Asim
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں