یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-05-22

یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے

suicide
ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے تبصرے اور بحث اب آئے دن کا معمول بن چکی ہے۔ ہرکس و ناکس اپنی رائے کا اظہار کررہا ہے اور ہر وہ کام کرنے کا مشورہ دے رہا ہے جو خود اُس کے بس کی بات نہیں۔
یہ سچ ہے کہ ملک میں آج سیاسی اور سماجی حالات ایک عجیب صورتحال کی عکاسی کررہے ہیں اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتیں سیاسی نقطۂ نظر سے اپنا لائحہ عمل بنارہی ہیں اور بنانا چاہئے بھی لیکن سماجی حالات سے نمٹنے کے لئے جو بھی منصوبہ بنایا جائے اس میں ہندوستان کے امن پسند شہری کی شمولیت ضروری ہے۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کی سماجی بیداری کے لئے سنجیدہ کام کرنے والوں کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں ایسے میں میں کیا کروں؟
1) سیاسی قیادت کو موردِ الزام ٹھیراؤں؟
2) مذہبی قیادت کو بُرا بھلا کیوں؟
3) ملک کے بھائی چارہ کو توڑنے والوں کو گالیاں دوں؟
4) زمانہ ہی خراب ہوگیا ہے کہہ کر چپ سادھ لوں؟

ہمارے آس پاس ہمارے اطراف واکناف میں ایسے ہی تو لوگ ہیں جو اوپر درج کسی ایک موضوع سے جڑے ہوئے ہیں۔
آخر کو میں بھی اس سماج کا ایک حصہ ہوں جو آج بہت سنگین مسائل جھیل رہا ہے۔ مذہبی رواداری، مذہبی فرقہ پرستی کا روپ دھار کر ایک بھیانک شکل اختیار کرچکی ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے جس طرح کا خوف کا ماحول بنا رکھا ہے وہ صرف تنہا مسلمانوں کے لئے تشویش کا باعث نہیں ہے اور مسلمانوں کو اسی بنیادی نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی نے اگرچہ مرکز میں اپنی حکومت تشکیل دے لی ہے لیکن بی جے پی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو سارے ہندوؤں کے جذبات کی عکاسی کرتی ہو۔ جی ہاں مسلمانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کا ہر ہندو بی جے پی کا حمایتی نہیں ہے اور مسلمان اس ملک میں امن کے لئے کی جانے والی جدوجہد میں اسی صورت کامیاب ہوسکتا جب وہ اپنے ساتھ اُن ہندوستانیوں کو بھی شامل کرے جو مسلمان نہیں ہیں اور بی جے پی کے حمایتی نہیں ہیں۔

خیر سے یہ تو وہ بات تھی جو ملک کے مسلمانوں کو اپنے دیگر برادران وطن کے متعلق سوچنے اور اس پر عمل کرنے کے علاوہ اسے عام کرنے کی ہے۔ مگر میرا آج کا موضوع وہ اُمور ہیں اور وہ باتیں ہیں جو مسلمانوں کو خود اپنے ساتھی مسلمانوں کے متعلق یاد رکھنی چاہئے۔ صرف یاد رکھنی ہی نہیں بلکہ عمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ ہاں ہم مسلمان ہیں۔
ماہ اکتوبر 2015 کے دوران یوں تو حیدرآباد میں پیش آئے جرائم کی کئی خبروں اخباروں کی زینت بنی لیکن بعض خبریں ایسی تھی جو ہم مسلمانوں کو دعوت فکر دیتی ہیں لیکن زندگی کی بھاگ دوڑ میں اور اپنی ہی کامیابی کو حاصل کرنے کے من گھڑت پیمانوں کو لے کر ہم اس قدر مصروف ہیں کہ ہمیں وقت اجازت ہی نہیں دیتا کہ ہم اپنی ذات اپنے گھر اپنے بچوں اپنے خول سے نکل کر باہر بھی دیکھیں۔

شیخ صابر نامی ایک نوجوان مائیلا دیو پلی کا رہنے والا تھا پیشہ سے وہ لاری ڈرائیور تھا۔ اُس کے متعلق پولیس نے اطلاع دی کہ اُس نے اپنی گھریلو پریشانیوں سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق شیخ صابر اپنے معاشی حالات سے مایوس تھا۔ مایوسی کے اندھیرے سے باہر نکلنے کا جب اُسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیا تو اُس نے اپنے ہی گھر کے سیلنگ فین سے لٹک کر خودکشی کرلی۔

کیا شیخ صابر کی خودکشی کو ٹالا جاسکتا تھا؟ لیکن کوئی بھی اس لاری ڈرائیور کے متعلق سوچے گا کیوں؟ کیونکہ شیخ صابر غریب تھا۔ لاری چلاتا تھا تو شائد اُسی تنخواہ سے اُس کا گھر چلتا تھا۔ گھر کے اخراجات زیادہ کھانے والے زیادہ اور کام کرنے والا وہ اکیلا کتنا کماتا؟ اور کہاں تک گھر والوں کی خواہشات کو پورا کرتا؟ قرض بھی لیا ہوگا اُس نے اور ادا کرنے کیلئے کوئی راستہ نظر نہیں آیا ہوگا۔ اُس کو دوستوں نے بھی مزید قرض دینے سے انکار کیا ہوگا ؟ رشتہ داروں نے بھی منہ پھیر لیا ہوگا۔ جہاں وہ کام کرتا تھا وہاں پر سیٹھ نے بھی مزید اضافی رقم دینے سے منع کیا ہوگا اور جس کے ہاں سے صابر نے قرضہ لیا تھا وہ صبر کرنے کیلئے تیار نہ رہا ہوگا اور غالباً ایسی ہی کسی صورتحال نے صابر کے صبر کو چکناچور کردیا۔
جب وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا لگارہا ہوگا تو کیا کچھ اس کے دل و دماغ میں چل رہا تھا ہوگا؟ کس کے لئے دعا تھی ہوگی اور کس کے لئے اُس نے بدعا مانگی ہوگی۔ آخر کو اُس نے کچھ تو سوچا ہوگا کہ اُس کے مرنے کے بعد اُس کے چاہنے والوں کا کیا ہوگا۔ یقیناً اُس نے اپنے مرنے کے بعد اپنے چاہنے والوں کیلئے آسانیوں کی خواہش رکھی ہوگی۔ اُن کو پریشانیاں نہ آئیں اُس کیلئے تمنا بھی کی ہوگی اور وہ لوگ جنہوں نے اُسے مالی مدد کرنے سے منع کردیا ہوگا اُن کیلئے بھی صابر نے کچھ تو خیال دل میں لایا ہوگا۔ کیا صابر نے اُن لوگوں کیلئے بھی خوشیوں اور راحت کی دعا کی ہوگی جنہوں نے اُسے بُرے وقت میں مدد نہیں کی۔
مجھے تو نہیں لگتا!
اور آپ کیا سوچتے ہیں؟
کیا آپ کے پاس صابر کے متعلق سوچنے کیلئے وقت نہیں ہے؟ تعجب ہے کیونکہ صابر کے متعلق سوچنا کہ اُس کو خودکشی سے کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ صرف اُسی کا مسئلہ نہیں بلکہ خود ہم میں سے ہر ایک کا مسئلہ ہے۔ کیوں کہ بروز قیامت ہم میں سے ہر ایک سے سوال ہوگا کہ تیرا پڑوسی بھوکا تھا؟ تیرا پڑوسی اپنی ضروریات کیلئے پریشان تھا؟ تیرا پڑوسی اپنی بیماری کے علاج کیلئے قرضوں میں گھیرا تھا اور تو اپنے گھر کی شادی کیلئے صرف لائیٹ سجانے کیلئے پانچ پانچ ہزار روپئے خرچ کررہا تھا۔ ویڈیوز اور فوٹوز کے البم بنانے کیلئے تو نے دس دس ہزار روپئے خرچ کردیئے۔
مسجد میں نکاح کرکے ہم خدا کو راضی کرنا چاہتے ہیں اور اگر ہم اپنے پڑوس کی ضرورت کو پورا کرتے اُن کو قرضوں اور دیگر پریشانیوں سے بچا لیتے تو خدا کی قسم اُس کی پاک ذات ہم سے ناراض نہیں ہوتی۔

اخبارات نے جہاں 14/اکتوبر 2015 کو شیخ صابر کی خودکشی کی خبر کو کوور کیا ہیں۔ 11/اکتوبر 2015 کو تین دن پہلے بھی بھوانی نگر کے مسکین محمد حاجی کی اپنے ہی گھر میں فین سے لٹک کر خودکشی کرلینے کی خبر شائع کی تھی۔ آخر اس طرح کی خبریں ہمیں کس طرح کے مستقبل کی خبر دیتی ہیں؟

ایک طرف تو دشمن ہے جو کھلے عام جارحیت کے نعرہ ہی نہیں لگارہا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً اپنی جارحیت کا عملی نمونہ بھی پیش کررہا ہے اور ایک طرف ہم (مسلمان) خود ہی اپنی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
دونوں طرح کی کیفیت ایک ہی بات کا پتہ دیتی ہیں کہ نہ رب ہی ہم سے راضی ہے اور نہ ہمارا پڑوسی ہم سے خوش۔ آخر کو خیال آتا ہے کہ ہم کیسی زندگی جی رہے ہیں اور کس کیلئے جی رہے ہیں۔ غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ہم دوغلی زندگی کے جنجال میں پھنسے ہیں۔
ہم جو ہیں وہ دنیا کو بتانا نہیں چاہئے اور دنیا ہم سے جود یکھنا چاہتی ہے ہم اسی کو چھپانا چاہتے ' بتانے اور چھپانے کے اسی کھیل میں ہماری زندگی گذررہی ہے اور ہم نے اپنے آپ کو مسلمان تو سمجھ رکھا ہے لیکن اسلام کا وہ سبق بھلادیا کہ "پاک ہے وہ ذات جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے وہ سب کچھ جانتا ہے۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے دلوں میں ہے"۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا وہ سبق ہی بھلادیا جس کو سارے عالم تک پہنچانے کی ہمیں ذمہ داری بھی دی گئی ہے۔

میں اسلام کے ارکان کی بظاہر پابندی کرنے کی کوششیں کررہا ہوں مگر جو اصل روح ہے۔ وہ مجھ میں باقی نہیں۔ قرآن کا ناظرہ تو پڑھ لیتا ہو ں مگر عربی زبان کے ایک حرف کے معنی بھی نہیں سمجھ سکتا ہوں۔ جس کتاب پر مجھے عمل کرنا تھا میں اس کو جزدان میں بند کرکے طاق میں سجا کر رکھتا ہوں۔
یا الٰہی یہ میں کیا کررہا ہوں۔ دنیا بھر کے علوم سیکھ لونگا مگر میں نے کبھی قرآن مجید کو سمجھنا تو دور اُس کے معنی بھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی؟ یہ میں کس منزل کی تلاش میں ہوں اور کیسے بھٹک گیا ہوں۔
اے میرے آقا تو تو بھٹکوں کو راستہ دکھاتا ہے میری بھی مدد فرما اور مجھ کو بھی سیدھا راستہ چلا اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ہو۔
آمین یا رب العالمین
سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج
یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

Neglecting others and living a double standard life. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں