دو گز زمین بھی نہ ملی ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-05

دو گز زمین بھی نہ ملی ۔۔۔

World-Culture-Festival-2016
ممکن ہے کہ زیر نظر موضوع بادی النظرمیں عجیب، مقامی اور غیر متعلق سامحسوس ہولیکن فی الواقع یہ انتہائی اہم موضوع ہے۔ آئندہ 11مارچ سے 13مارچ تک دہلی میں جمنا کے کنارے ایک ہزارایکڑزمین کے رقبہ پرایک World Cultural Festival یعنی عالمی ثقافتی تہوار منعقد ہورہا ہے۔اس پروگرام کی منتظم سری سری روی شنکر کی تنظیم آرٹ آف لونگ فاؤنڈیشن ہے۔اس کا اردو ترجمہ "تنظیم برائے زندگی گزارنے کا فن"ہے۔سری سری روی شنکرکے پورے ملک میں لاکھوں مداح اور پیروکار ہیں۔ان کا دعوی ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان پیار محبت پھیلاتے ہیں۔
اس ثقافتی پروگرام میں کہتے ہیں کہ پوری دنیا سے لوگ آرہے ہیں۔منتظمین کا کہنا ہے کہ انہیں اس پروگرام میں 35لاکھ لوگوں کی شرکت کی توقع ہے۔اس کے لئے بڑے پیمانے پر انتظامات کئے جارہے ہیں۔یہ پروگرام کس پیمانے کا ہوگا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسٹیج کی لمبائی 1200فٹ، چوڑائی200فٹ اوراونچائی40فٹ رکھی گئی ہے۔شرکاء کے لئے 650 عارضی بیت الخلاء تعمیر کئے جارہے ہیں۔یہ بیت الخلاء جمنا کے دونوں کناروں پر تعمیر کئے جارہے ہیں۔اس وقت جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں زمین ہموار کرنے، تعمیر کرنے'فائبر' لوہے اورلکڑی سے عارضی کیمپ بنانے کا کام بڑی تیزی سے جاری ہے۔اسٹیج کے اوپرفائبر کے بڑے بڑے گنبدبنائے گئے ہیں۔اس سلسلہ میں کسی ماحول دوست تنظیم نے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی)سے شکایت کردی تھی۔این جی ٹی نے اس کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی بنادی تھی۔اس کمیٹی نے بتایا ہے کہ سات ایکڑ زمین پرتو محض تعمیری سازوسامان بکھرا پڑا ہے۔50-60ایکڑ زمین پرجو قدرتی ہریالی تھی اسے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔مزید کچھ ہریالی تعمیری سازوسامان تلے دب کر برباد ہوگئی ہے۔یہاں ہزاروں مزدور رات دن کام کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ماحولیات کی بربادی مچانے کی اجازت کس نے دی اور کیسے دی؟اس سلسلہ میں بڑی دلچسپ صورت حال سامنے آئی ہے۔یہ زمین DDAکی ہے۔ڈی ڈی اے کا سربراہ دہلی کالیفٹننٹ گورنر ہوتا ہے۔لہذاجمنا کنارے واقع ایک ہزار ایکڑ رقبہ پر اس پروگرام کی تیاریوں کی اجازت ڈی ڈی اے نے دی ہے۔جب کچھ ماحول دوست لوگ اس کی شکایت لے کر این جی ٹی کے پاس پہنچے تو این جی ٹی نے افسرا ن سے پوچھا کہ آخر آرٹ آف لونگ فاؤنڈیشن کو یہ پروگرام کرنے کی اجازت کیسے دی گئی؟ڈی ڈی اے والوں کا جواب سنئے: صاحب ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ پروگرام اس نوعیت کا ہے اور اتنا بڑا ہے۔ہم سے تو انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ یہ ایک کلچرل پروگرام ہوگا۔لہذا ہم نے اجازت دیدی۔
این جی ٹی نے جو جائزہ کمیٹی بنائی تھی اس نے اپنی رپورٹ میں اس ایک ہزار ایکڑ رقبہ کی بربادی کا تو ذکر کیا لیکن اس پروگرام کو منسوخ کرنے یا اس کی کیفیت کو کم کرنے کے لئے کوئی سفارش نہیں کی۔اس کمیٹی نے ماحولیات کی بربادی کو جس شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے اس کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کمیٹی نے پروگرام کی منتظم جماعت پر ایک سو 20کروڑ روپیہ جرمانہ لگانے کی سفارش کی ہے۔اب اس کی سنوائی این جی ٹی میں ہونی ہے۔اگر این جی ٹی یہ کہہ بھی دیتا ہے کہ ہاں آرٹ آف لونگ فاؤنڈیشن کو ایک سو بیس کروڑ روپیہ جرمانے کے طورپر دینا ہوگا تب بھی اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ یہ تنظیم فوری طورپر اور اتنی آسانی سے یہ رقم جمع کرادے گی۔سری سری روی شنکراس کے خلاف ہائی کورٹ چلے جائیں گے۔اور اس طرح 11مارچ کا دن آجائے گا اور پروگرام شروع ہوکر ختم بھی ہوجائے گا۔جمناکے کنارے ایک ہزار ایکڑ زمین پر جو ماحولیاتی تباہی آنی ہے وہ آچکی ہوگی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈی ڈی اے یہ کہتا ہے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ پروگرام اس بڑے پیمانے کا ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ پھر آپ نے ایک ہزار ایکڑکا رقبہ استعمال کرنے کی اجازت کس لئے دی؟کیا ایک ہزار ایکڑ زمین چند فٹ میں سمٹ جاتی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ ڈی ڈی اے افسران جھوٹ بول رہے ہیں۔اس لئے کہ اس پرائیویٹ پروگرام کی تیاری میں پرائیویٹ کمپنیاں ہی نہیں لگی ہوئی ہیں بلکہ اس میں PWDسمیت کئی دیگر سرکاری ڈیپارٹمنٹس بھی لگے ہوئے ہیں۔ تو کیا یہ محکمے بھی یوں ہی وقت گزاری کے لئے مصروف عمل ہیں؟اور کیا ایک ہزار ایکڑ زمین پر اتنا بڑا پروگرام کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ ڈی ڈی اے کے چند چھوٹے موٹے افسروں نے ہی کرلیا ہوگا؟کیا اس کے لئے دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہوگا؟یہی نہیں اس عمل میں مرکزی حکومت سمیت دہلی حکومت بھی شامل ہے۔
مثال کے طورپرپی ڈبلیو ڈی کے چیف انجینئراے کے گپتا بتاتے ہیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جمناپرمختلف راستوں کے لئے پونٹون پل بنانے کے لئے Requestآئی اور دہلی حکومت نے اس کو قبول کرتے ہوئے یہ پونٹون پل بنا دئے۔اس پر جو خرچہ آیا وہ بھی سرکاری محکمے نے ہی برداشت کیا۔یعنی پروگرام پرائیویٹ پارٹی کا اور صرفہ سرکارکا۔
ایک اور دلچسپ اطلاع یہ ہے کہ ایک پل انڈین آرمی(فوج) نے بھی تعمیر کیا ہے۔گویا پوری مرکزی اور دہلی حکومت اور اس کے متعلقہ محکمے بشمول فوج'سبھی آرٹ آف لونگ فاؤنڈیشن کے سری سری روی شنکر کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔اس پوری مشق سے ہندوستانی عوام کو کیا فائدہ ہوگا نہیں معلوم۔لیکن اتنا معلوم ہے کہ اس سے غریب عوام کو اور ان کو جن کے سر پر چھت نہیں اور جن کے گھروں میں کھانے کو کچھ نہیں 'کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

آئیے اب ذرا رخ بدلیں اور اس نکتہ کا جائزہ لیں جس کی وجہ سے مجھے اس احمقانہ موضوع پر اتنی سطریں سیاہ کرنی پڑیں۔دہلی میں جمنا کے جس کنارے پرمذکورہ ہمالیائی پروگرام ہورہا ہے اس سے متصل ایک دو نہیں کئی کالونیاں آباد ہیں۔ان کالونیوں میں مسلمان اور دوسرے طبقہ کے غریب عوام آباد ہیں۔انہوں نے خون پسینہ کی کمائی سے کسانوں اور دوسرے لوگوں سے چھوٹے چھوٹے رقبہ کے پلاٹ لے کر اپنے جھونپڑے تعمیر کر رکھے ہیں۔لیکن آج تک ان کالونیوں کو منظورنہیں کیا گیا ہے۔پچھلی حکومت نے اپنے آخری دور میں انہیں منظور کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تک منظوری کا مسئلہ افسروں کی افسرشاہی میں پھنسا ہوا ہے۔ان کالونیوں کو ڈھنگ کے راستے میسر نہیں ہیں۔پینے کا پانی تو آج تک آیا ہی نہیں ہے۔ابوالفضل انکلیو،شاہین باغ،غفار منزل،جوہری فارم،بٹلہ ہاؤس،ذاکر نگراور جوگا بائی ایکسٹنشن جیسے علاقوں میں کئی لاکھ مسلمان آباد ہیں لیکن ان میں سے بیشتر مکانوں پر ڈی ڈی اے،پی ڈبلیو ڈی،فلڈ ڈیپارٹمنٹ ،دہلی حکومت،یوپی حکومت اور مرکزی حکومت کے دوسرے محکموں کی جابرانہ کارروائی کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔بٹلہ ہاؤس اور اس سے ملحقہ مختلف کالونیوں کے خلاف دہلی ہائی کورٹ تک میں مقدمہ زیرسماعت ہے۔عدالت نے ایک جائزہ کمیٹی بنائی تھی اور اس کی سربراہی ایک ریٹائرڈخاتون جسٹس کو سونپی تھی۔انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ جمنا کنارے "منی پاکستان"آباد ہوگیا ہے۔ فلڈ کنٹرول محکمے کے طے شدہ اصول اور ضابطے کے مطابق جمنا کے دائیں بائیں تین سو میٹر کے دائرہ سے باہر ہی کوئی تعمیر ہوسکتی ہے۔لہذا جمنا کنارے آباد مسلمانوں کی ان کالونیوں کی تعمیر تین سو میٹر کے دائرہ سے کافی دورہوئی ہے مگر اس کے باوجودان کالونیوں کے مکینوں کے ساتھ دہلی حکومت ،مرکزی حکومت،دہلی کے لیفٹننٹ گورنر،ڈی ڈی اے،فلڈ ڈیپارٹمنٹ اور دوسرے محکموں یہاں تک کہ منصفوں تک کا سلوک یہ ہے کہ انہیں نہ پینے کا پانی مہیا کرایا جارہا ہے اور نہ دوسری شہری سہولیات دی جارہی ہیں ۔
دوسری طرف سری سری روی شنکر کے آرٹ آف لونگ فاؤنڈیشن کے اس پروگرام کوجمنا کنارے سے تین سو میٹردور نہیں بلکہ سچ پوچھئے تو خود جمنا کے اندر ہی اتنی بڑی جگہ نہ صرف مفت فراہم کی جارہی ہے بلکہ اس کی تیاریوں میں تمام متعلقہ سرکاری محکمے بھی لگے ہوئے ہیں۔اور کمال یہ ہے کہ اس پروگرام کی تفصیلات سے خود ڈی ڈی اے یا دہلی کے لیفٹننٹ گورنر واقف ہی نہیں ہیں۔وہ این جی ٹی کے سربراہ جسٹس سوتنترکمار کے سامنے بڑی معصومیت کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس پیمانہ کا پروگرام ہورہا ہے۔
ہے نا حیرت کی بات؟

مسٹر پرائم منسٹر! اسی کو کہتے ہیں عدم رواداری۔ اور اسی لفظ سے آپ کو دشواری ہوتی ہے!

***
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-chief VNI & Media Adviser to President IICC, New Delhi
ایم ودود ساجد

NGT pulls up DDA on Sri Sri Ravi Shankar's Art of Living event 'World Culture Festival'. Article: M. Wadood Sajid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں