فیض احمد اور سردار جعفری - ترقی پسند سکے کے دو رخ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-03-11

فیض احمد اور سردار جعفری - ترقی پسند سکے کے دو رخ

faiz-ahmed-sardar-jafri
اردو ادب کے بعض ادیبوں، ناقدوں، مورخوں، محققوں، شاعروں، صحافیوں اور انشا پردازوں کا یہ بھی عجیب مزاج اور خاص ہنر ہے کہ سکّہ کا ایک رخ دیکھ اور دکھا کر فیصلہ کرلیتے ہیں کچھ اس طرح کے مسائل فیضؔ اور سردارجعفری کے تعلقات اور تخلیقات کے ضمن میں فیض صدی کے مختلف تحریری اور تقریری مقامات پر پیش ہوئے۔ یہ مضمون اُسی داستان کی ان کہی باتوں کا تذکرہ اور تجزیہ ہے جس میں مستند اور منطقی حوالوں سے یہ بات ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہے کہ سردارؔ جعفری اور فیضؔ احمد میں فکری، نظری، سیاسی، اور تخلیقی مماثلت تھی اگر کچھ لہجہ جداگانہ تھا تو وہ دونوں کی شخصیت کا نچوڑ تھا۔
ع تو من شدی من تو شدم کی تغیر نہیں ہوا البتہ دونوں شخصیتوں کا ایمان اسی فلسفہ پر تھا کہ ؂
تو براے وصل کردن آمدی
نابراے فصل کردن آمدی
تقسیم برصغیر کے فور بعد جب فیضؔ کی شاہکار نظم "صبح آزادی" شائع ہوئی تو یہ نظم اپنے متن کے لحاظ سے دونوں ملکوں میں اعتراضات کا ہدف بنی۔ اس تاثراتی نظم میں فسادات کے قتل و غارت سے متاثر ہوکر شاعر نے انقلاب کی تحریک کو جاری رکھنے کا عزم کیا تھا ؂
یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرز لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
*
ابھی گرانئ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
جب یہ نظم سرداری جعفری نے پڑھی تو انھوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "ایسی نظم تو کوئی بھی آریہ سماج کا شاعر یا مسلم لیگ کا شاعر لکھ سکتا ہے۔ اس میں ترقی پسندی کا عنصر کہاں ہے" فیضؔ کی خوبصورت نظم پر ان کے دیرینہ دوست اور ساتھی کی جانب سے یہ اعتراض ادبی اور سیاسی تحریروں کی سرخی بنا لیکن اس کا اثر فیضؔ پر مثبت ہوا اور وہ اس میدان سے سرخ رو نکلے۔ جو لوگ تحریک سے وابستہ نہ تھے وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دونوں ہستیوں کے درمیان جو تھوڑی سی فطری چشمک تھی اُس کو چقماق بنانے میں اس لیے ناکام ہوئے کہ دوسرا پتھ صفت تخلیق کار فیضؔ ہر ضربہ کو شرر میں تبدیل کرنے کے بجائے شعر میں تبدیل کررہا تھا۔ بہر حال چونکہ یہ قلمی بحث ادبی اوراق پر ہوئی جب کہ فیضؔ کی جانب سے خاموشی کا شور تمام دوسی آوازوں کو شکست دے رہا تھا لیکن اس کی گونج آج بھی مسلسل سنائی دیتی ہے اور اسے ایک ایسے ذاوئے سے پیش کیا جاتا ہے جس میں تنقید سے زیادہ تنازعہ کا رنگ ہوتا ہے جب کہ ایک صحت مند تنقید تخلیق کے ارتقا کی ضامن ہوتی ہے۔ یہاں یہ مسئلہ اُسی فارسی کہاوت کے مطابق ہوجاتا جس میں شاہ بخشے مگر غلام نا بخشے کی روایت زندہ ہوجاتی ہے۔ فیضؔ نے خود اپنے نظریہ فن کی بنیادی ضروریات، جن میں مواد کے ساتھ ساتھ ان کا اسلوب و لہجہ بھی شامل تھا اور جس کی وجہ سے ان کا بعض ترقی پسند مصنفوں سے اختلاف بھی تھا، ایک مطبوعہ انٹرویو میں جو سہیل احمد خان نے لیا تھا کہتے ہیں :
"ہمارے یہ جو دوست تھے، مجاز تھے، مخدوم تھے، علی سردار جعفری تھے۔ خیر کچھ تو ہم ان کی طرح براہ راست سیاست میں دخیل نہیں تھے، کچھ ہمارا خیال تھا کہ یہ ہنگامی شاعری ہے۔ وہ لوگ بھی بعد میں اس کے قائل ہوگئے۔ ہنگامی شاعری اور ایجی ٹیشنل شاعری کا بھی ایک مقام ہے لیکن وہ ہوتا ہے وقتی۔ ہونا یہ چاہیے کہ دیرپا چیز سامنے آئے۔ اس میں صنعت اور فن کے تقاضے بھی پورے کئے جائیں۔ ایسی چیز پیدا ہو جو نظریہ کے اعتبار سے بھی صحیح ہو اور ساخت کے اعتبار سے، ہئیت کے اعتبار سے اور نعت کے اعتبار سے بھی اس میں پختگی ہو۔ اس پر ان سے ہمارا اختلاف رہا۔ چنانچہ ایک بہت بڑا فساد اس وقت ہوا جب ہم نے جوشؔ صاحب پر مضمون لکھا اور کہا کہ یہ انقلابی شاعری نہیں ہے۔ اس پر علی سردار جعفری اور دوسرے دوستوں سے بڑی لعن طعن سننی پڑی"
لہجوں کا فرق اور ادائیگی کی طرز نظریۂ اور فکر کا اختلاف نہیں یہ اپنا اپنا خاص رنگ ہوتا ہے۔ ہر شاعر کی قوت تخیل اس کی زبان دانی اور بات برتنے کا انداز اس کی ذہنی توانائیوں اور تجرباتی گیرائی اور مشاہدہ کی گہرائی پر منحصر ہوتا ہے۔ اسی کو اس شاعر کا اسٹائل بھی کہتے ہیں۔ سجاد ظہیر نے سردار جعفری کو ترقی پسند رجحان کی برہنہ شمشیران کے لہجے کو دیکھ کر ہی کہا تھا۔ اسی طرح فیضؔ نے مجازؔ کو انقلاب کا ڈھونڈرچی نہیں بلکہ مطرب کہا تھا جب کہ خود فیضؔ انقلاب کی دھیمی راگ تھے جس میں کئی نرم اور دیر اثر سُروں کو یکجا کیا گیا تھا۔ سردارؔ جعفری ایک بہت مختصر سی نظم ہے۔
؂ زندگانی ہے کہ شمشیر برہنہ جس کی
دھار پر چلتے ہیں ہم
اور ہر قطرۂ خوں کے دل میں
اپنے قدموں کے نشاں چھوڑتے ہیں
دور تک جاتا ہے قطروں کا جلوس
خواب گل رنگِ بہاراں کی ردا اوڑھے ہوئے۔
اسی لیے تو آنند نرائن ملا نے "پیراہن شبنم" میں کہا تھا کہ "علی سردار جعفری کو میں اندازاً 27 یا 28 سال سے جانتا ہوں۔ آج زندگی کا ہر فن کار سے خالی یہی تقاضا نہیں ہے کہ وہ زندگی کی ناانصافیوں اور غلط نظریوں کی وجہ سے جوانسانی مشکلیں اور محرومیاں ہیں اُن کو سمجھے بلکہ اُن کے خلاف آواز بھی اٹھائے اور جہد بھی کرے۔ سردار ؔ کی زندگی میں ایک مقام ایسا آیا تھا جب مجھے اندیشہ ہونے لگا تھا کہ کہیں سردار ؔ کے دل میں جو شہری ہے وہ شاعر کے ہاتھ سے قلم چھین کر تلوار نہ اٹھالے لیکن شکر ہے کہ یہ نوبت نہیں آئی اور سردار ؔ نے قلم ہی کو تلوار بنالیا۔ سردار ؔ کے ارتقائے فن میں یہ ایک اہم منزل تھی اور اس مقام سے گزرنے کے بعد اس کا شعور جو پہلے ہی بیدار تھا اور زیادہ پختہ ہوا اور اس کے لہجے میں تندی کی جگہ وہ نرمی آگئی جس نے اُسے ساری نوع انسان کے قریب کردیا۔ "پیراہن شرر" تک پہنچتے پہنچتے یہ قلم کی تلوار اب اس کے ہاتھ میں "شاخ گل" بن چکی ہے اور نظریاتی غبار سے ابھر کر کرۂ نور پر پہنچ گیا ہے۔ اب اس کے پیام میں ایک پیمرانہ حلاوت ہے اور اس کی نظر میں زخم انسان کے لیے مرہم۔"
نرائن ملا نے سردار ؔ کا رزم سے بزم کا سفرمضمون کا ارتقا اور لہجہ کی نرمی کا ذکر کرکے یہ بتانے کی بین السطور صحیح کوشش کی ہے کہ ان مقامات پر فیضؔ قیام کرچکے ہیں اگرچہ بعض ناقدین نے فیضؔ کے سفر کو نزم سے رزم کی طرف کوچ بتایا ہے اور فیض کے آخری عمر کے کلام کو جن میں فلسطین کی نظمیں، ہم دیکھیں گے اور غزلیات شامل ہیں حوالوں کی شکل میں پیش کیا ہے۔
؂ ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گراے جائیں گے
جب دھرتی دھڑ دھڑ کے گی
اور اہل حکم کے سراوپر
جب بجلی کڑکڑکڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
"ایک ترانہ مجاہدین فلسطین کے لیے" میں فیضؔ کا لہجہ دیکھیے۔ کیا یہ سردارؔ اور ترقی پسند دوسرے افراد کا لہجہ نہیں معلوم ہوتا۔
؂ ہم جیتیں گے
حقّا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
کیا خوف زیلغار اعداد
ہے سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف زیورش جیش قضا
صف بستہ ہیں ارواحِ الشہداء
ڈر کا ہے کا۔
فیضؔ اور سردار ؔ جعفری میں تخلیقی اصناف کی ایک قدرے مشترک مرثیہ بھی ہے۔ فیضؔ نے اپنی پختہ عمر میں یک بہتّر (72) بند کا "مرثیہ امام" بھی لکھا جو ان کے مجموعۂ شام شہریاراں میں ہے۔ اس مرثیہ کی تصنیف کی بابت انھوں نے کہا تھا کہ مرثیہ کا موضوع اور اس کے مطالب ان کی فکر اورجدوجہد کے ہم آہنگ ہیں۔ اس مرثیے کے کچھ مصرع یہ ہیں:
سطوت نہ حکومت نہ چشم چاہیے ہم کو
اورنگ نہ افسر نہ علم چاہیے ہم کو
زر چاہیے نے مال و درم چاہیے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیے ہم کو
سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اک حرف یقیں، دولت ایماں ہمیں بس ہے
*
جو صاحب دل ہے ہمیں ابرار کہے گا
جو بندۂ حۂ ہے ہمیں احرار کہے گا
جو ظلم پہ اخت نہ کرے آپ یص ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دیں ہے
دوسری طرف سردار ؔ جعفری کی شاعری کا آغاز ہی مرثیے سے ہوا۔ ان کا لہجہ، خطابت اور ادائیگی بچپن سے جذبات سے سرشار تھی۔ سردار ؔ جعفری نے اپنی خود نوشت اور مختلف انٹرویوز میں اس تحصیل، تجربے اور تربیت کا بڑے عمدہ طریقہ سے ذکر کیا ہے۔ 1930ء ؁ کے لگ بھگ جب آپ کی عمر 16۔17 سال تھی پہلا مرثیہ تصنیف کیا جسکا مطلع تھا
؂ آتا ہے کون شمع امامت لیے ہوئے
اپنی جلو میں فوجِ صادقت لیے ہوئے
یہی نہیں بلکہ سردار ؔ کی ایک مصروف نظم کربلاً ہے جو دراصل ایک رجز ہے اور کربلا سے دوسری زمینوں کو جوڑ کر ظلم واستبداد کے خلاف ایک محاذ بنایا گیا۔ اس نسبتاً طویل نظم سے چند مصرع لے کر ہم نے ایک مختصر نظم کا خاکہ یہاں پیش کیا ہے جو دونوں شاعروں کی فکری ہم آہنگی بتانے کے لیے کافی ہے۔
کربلا
پھر الطش کی ہے صدا
جیسے رجز کا زمزمہ
نہر فرات آتش بجاں
راوی و گنگا خونچکاں
کوئی یزید وقت ہو
یا ثمر ہو یا حُرملہ
اُس کو خبر ہو یا نہ ہو
روز حساب آنے کو ہے
نزدیک ہے روز جزا
اے کربلا اے کربلا
گونگی اگر ہے مصلحت
زخموں کو ملتی ہے زباں
یہ سیم و زر کے کبریا
بارود ہے جن کی قبا
آندھی ہے مشرق کی ہوا
شعلہ فلسطیں کی فضا
ہر ذرّۂ پامال میں
دل کے دھڑکنے کی صدا
اے کربلا اے کربلا
اے غم کے فرزندو اٹھو
اے آرزومندو اٹھو
سردار ؔ کے شعروں میں ہے
خون شہیداں کی ضیاء
اے کربلا اے کربلا
فیضؔ اور سردار ؔ کی بابت ایک دوسری بحث جس کو دانا دشمنوں اور نادان دوستوں نے طرح طرح کے رنگ دے کر پیش کیا وہ ڈاکٹر نصرت چودھری کا فیضؔ سے انٹرو تھا۔ اس انٹرویو کے دوسوال من وعن پیش کرکے ہم نتیجہ اخذ کرنے کی کوششیں کریں گے۔
نصرت : سردارؔ جعفری کے بارے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ وہ صرف ایک انقلابی شاعر ہیں۔ ان کی شاعری ماحول کے خلاف ردِ عمل ہے ‘ کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ برے انقلابی شاعر ہیں یاان کی شاعری میں اس کے خلاف بھی کوئی جہت ہے؟
فیض ؔ : نہیں ایسا نہیں ہے، شروع شروع میں تو انھوں نے صرف انقلابی شاعری کی، بعد میں ان کی شاعری میں بہت تبدیلی آئی ہے۔
نصرت : اُن کی آج کی شاعری پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ آپ کے رنگ میں شعر کہہ رہے ہیں؟
فیضؔ : ہمارا رنگ تو اب ایک عام رنگ بن گیا ہے۔ محض ہمارا نہیں رہا۔ دوسرا کوئی بھی رنگ کسی کی ذاتی میراث نہیں ہوتا بلکہ ہوتا یوں ہے کہ وقت کے ساتھ ایک محاورہ ایک خاص قسم کی نہج، ایک خاص قسم کا استعارہ مقبول ہوجاتا ہے جس سے اس عہد کا مزاج بنتا ہے۔ کسی نے اس کو پہلے اختیار کرلیا اور بعد میں وہی رنگ عام ہوگیا۔
یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اس پر تبصرہ کرتے وقت جگن ناتھ آزاد نے ایک لمبی چوڑی بحث کرکے یہ ثابت کرنے کی کوششیں کی کہ فیضؔ نے سردار ؔ کے ساتھ زیادتی کی۔ دراصل ایسی کوئی بات نہ تھی۔ یہاں صرف مسئلہ محاورہ اور کسی تحریک کی وژن اور اس کے اُسلوب کا تھی۔ ہم نے جگن ناتھ آزاد کی پوری گفتگو اپنی کتاب "فیض فہمی" میں درج کی ہے یہاں مضمون کی طوالت کا خیال کرتے ہوئے ہم تکرار سے گریز کرکے اصل مطلب پر پہنچتے ہیں جو خود سردار ؔ جعفری نے ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے سوال کے جواب میں دیا:
"محمد علی صدیقی :۔جعفری صاحب میں آپ کی توجہ فیض صاحب کے ایک انٹرویو کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جو گذشتہ دنوں نصرت نے ان سے لیا تھا۔ اس میں جب فیض صاحب سے دریافت کیا گیا کہ آج کل بیشتر شعراء آپ کے آہنگ میں شاعری کررہے ہیں اور اس ذیل میں کچھ نام بھی لیے گئے تھے۔ اس میں آپ کا نام بھی شامل تھا گویا آپ بھی فیض صاحب کے آہنگ میں شاعری کررہے ہیں حالانکہ میں ایسا نہیں سمجھتا کیونکہ آپ کے ہاں آہنگ کا انفرادی Development اور ارتقاء ملتا ہے۔ اس سوال پر فیض نے جواب دیا تھا کہ "بھائی اب ہمارا آہنگ ہمارے عہد کا آہنگ ہوگیا ہے۔" تو اس پر کوئی تبصرہ کرنا چاہیں گے۔
جعفری صاحب:۔ دیکھیے یہ بات یوں نہیں تھی بلکہ فیض نے جو گفتگو بہت سنبھال کرکرنے کے عادی رہے ہیں محض یہ کہا تھا کہ ہر عہد کا ایک محاورہ ہوتا ہے انہوں نے آہنگ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا بلکہ محاورے کی بات کی تھی۔ اب اس محاورے کو ایک آدمی پہلے استعمال کرلیتا ہے اور دوسرا آدمی بعد میں اور اس طرح سے ہمارا مقبول محاورہ ہمارا محاورہ نہیں ہے بلکہ اس عہد کا محاورہ ہے۔ اب اس بات کی وضاحت میں گھپلا اور کنفیوزن پیدا ہونے کے بڑے امکانات ہوتے ہیں اگر پورے مسئلے کو ذرا احتیاط سے نہ دیکھا جائے تو میں نے ابھی کچھ دیر پہلے جو مثالیں دی تھیں اس میں مخدوم کا مصرع تھا ع
برق پاوہ مرا رہوار کہاں ہے لانا
اور فیض کا مصرع ہے کہ ع
طیش کی آتش جرار کہاں ہے لاؤ
تو اس مثال کو سامنے رکھ کر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فیض نے مخدوم کا مصرع لے لیا ہے۔ یہ غلط بات ہے ہمارے ہاں ہوا یہ ہے کہ بعض ان ناقدینِ کرام نے جو بنیادی طور پر ترقی پسند تحریک کے مخالف ہیں فیض کا استحصال کرنے کی کوشش کی ہے اور فیض کی غزل کے لہجے کو لے کر ترقی پسندشاعری پر حملہ کیا ہے چنانچے وہ فیض کے اس لہجے کو جو بعد میں ان کے ہاں Develop ہوا کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے۔ اب انہوں نے کسی کے ہاں دو چار لفظ پکڑ لیے اور جھٹ فتویٰ صادر کردیا کہ "دیکھیے صاحب یہ فیض ہیں" ۔ یہ بات میں یونہی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ تحریری طور پر موجود ہے، اس سلسلے میں بھی اپنی ہی مثال دیتا ہوں میری کتاب "ایک خواب اور" پر جب شمس الرحمن فاروقی نے تبصرہ لکھا تو اس میں ایک نظم پر انہوں نے فرمایا کہ "یہ نظم فیض کے رنگ میں لکھی گئی ہے" دراصل اس نظم میں ایک لفظ استعمال ہوا تھا نسیم کا اور دوسرا لفظ "قبا" کا اسے بنیاد بناکر شمس الرحمن فاروقی نے پوری نظم کو فیض کا فیضان قرار دے دیا۔ میں نے انھیں خط لکھا اور کہا کہ "آپ نے جو تبصرہ کیا ہے اس کا آپ کو پورا حق ہے، لیکن مجھے گمان ہوتا ہے کہ شاید آپ میری نظم کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں اور محض دو ایک لفظوں میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں"۔ وہ نظم صرف چار پانچ مصرعوں پر مشتمل ہے آپ بھی سنیے ؂
نسیم تیری قبا، پوئے گل ہے پیراہن حیا کا رنگ ردائے بہار اُڑھاتا ہے
ترے بدن کا چمن ایسے جگمگاتا ہے کہ جیسے سیل سحر جیسے نور کا دامن
ستارے ڈوبتے ہیں چاند جھلملاتا ہے
میں نے عرض کیا جناب یہ نیوڈ پنیٹگ ہے۔ نسیم تیری قبا۔ نسیم کیا قبا پہنائے گی، بوئے گل ہے پیراہن، تو جناب بوئے گل کا پیراہن بھلا کیا ہوگا، حیا کا رنگ روائے بہار اڑھاتا ہے، اس طرح پوری نظم ایک برہنہ جسم کو پیش کرتی ہے اس تک شمس الرحمن فاروقی کی رسائی ہو ہی نہیں سکی وجہ یہ تھی کہ وہ چند لفظوں میں اُلجھ کر رہ گئے اور یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ مجّرد لفظ بھی میرے ہاں اس طرح استعمال ہی نہیں ہوئے ہیں جن معنوں میں فیض کے ہاں آئے ہیں "ایک خواب اور" کے دیباچہ میں میں نے جو بات کہی تھی کہ "خواب اور شکستِ خواب اس دور کا مقدر ہے اور نیا خواب دیکھنا انسان کا حق ہوتا ہے جسے کوئی چھین نہیں سکتا۔ میں نے اس کتاب میں تین پیڑن رکھے ہیں خواب، شکستِ خواب اور نیا خواب جو دراصل پیاش، آسودگی اور نئی پیاس، وصال، ہجر اور پھر وصال کی خواش کی تثلیث ہے اور یہ تثلیث انسانی جبلّت کا مقدر ٹھہری ہے۔ اس مجموعے میں اکثر نظمیں اسی احساس کو پیش کرتی ہیں۔ تشنگی، آسودگی اور پھر تشنگی بلکہ شدید تشنگی کہ یہی ہمارے بیشتر تجربوں کا محاصل رہا ہے، لیکن کسی نقاد نے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے اور اپنی ہم عصر شاعری کو اس کے اصل تناظر میں پڑھنے کی کوشش کی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں شعری مجموعوں کو پڑھنے کا جو طریقہ ہے وہ بھی عجیب وغریب ہے ہوتا یہ ہے کہ ہم کتاب اٹھاتے ہیں کہیں سے کسی نظم کو پڑھ لیا، کسی غزل پر داد دے لی اور بس، تن آسان ناقدوں کا بھی یہی احوال ہے، حالانکہ شعری مجموعوں کو بھی مکمل اکائی کیطرح پڑھاجانا چاہیے اور شعراء کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے مجموعۂ کلام کو اس طرح ترتیب دیں جس سے ان کے فکری ارتقاء اور اکائی کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔
ہم یہاں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں کہ فیضؔ کے ڈکشن کی تقلید نہیں ہوئی۔ ایک پورا دبستان اردو ادب کا ان کی تقلید کے ناکام تجربوں سے بھرا ہوا ہے لیکن ع۔ نہ ہوا پَر نہ ہوا فیضؔ کا انداز نصیب۔اس کا شدید احساس فیضؔ کو ہوچکا تھا۔ اسی لیے انھوں نے یہ بھی کہا تھا
؂ ہم نے جو طرز فضاں کی تھی قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
یہ سچ ہے کہ فیضؔ جیسے عظیم اور پسندیدہ شاعر کے اسلوب اور آہنگ سے کامل طور پر گریز ان کے ہم عصر شعرا کے لیے ممکن نہ تھا بلکہ اُسی طرح سے فیضؔ کے لیے بھی اردو کے عظیم شعرا اوران کے بعض ہم عصر شعرا کے اثرات سے محفوظ رہنا ممکن نہ تھا اسی لیے ہم دیکھتے ہیں نہ صرف الفاظ بلکہ بعض اوقات مضامین کی جھلک بھی ایک دوسرے کے پاس نظر آتی ہے۔ سردارؔ جعفری کے چند اشعار جو کامل طور پر کے رنگ کی جھلک پیش کرتے ہیں لیکن مضمون اور معنی آفرینی جدا ہے۔
سردارؔ ؂ شمع کا مئے کا شفق زار کا گلزار کا رنگ
سب میں اور سب سے جدا ہے لبِ دیدار کا رنگ
فیضؔ ؂

سردارؔ ؂ اک اک کرکے پلٹ آئے گریزاں لمحے
اک اک کرکے ہوئے سارے ستارے روشن
فیضؔ ؂ اک اک کرکے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جس دن فیضؔ کا لاہور میں انتقال ہوا اُسی دن سردارؔ جعفری ٹورنٹو کینڈا میں مشاعرہ کی صدارت کررہے تھے۔ پروفیسر ضیا لکھتے ہیں "جمیل الدین عالی کو بذریعہ ٹیلیفون معلوم ہوا کہ فیضؔ احمد فیض کا انتقال ہوگیا۔ یہ سنتے ہی عالی گھبرائے ہوئے آئے اور اس اندوہناک خبر کا انکشاف کیا۔ اس خبر کا سننا تھا سارے ہال پر سناٹا چھاگیا۔ جعفری صاحب کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ وہ فیضؔ صاحب کے دیرینہ ساتھیوں میں سے تھے ان کے پرانے رفیق تھے، ہم ملک تھے، ہم مشرب تھے، ہمدم بھی تھے، دماز بھی تھے۔ جشن کی تقریب وقتی طور پر روک دی گئی۔ تعزیتی جلسے کا اعلان ہوا۔ دو منٹ کی خاموشی فیضؔ صاحب کے احترام میں اختیار کی گئی۔
یہی نہیں بلکہ جب لاہور میں فیضؔ کی یاد میں پہلا بین الاقوامی جلسہ ہوا اور جس میں پروفیسر کرار حسین نے معرکۃ آلآرا تقریر کی اس میں سردارؔ جعفری نے جو خراج عقیدت اپنے مرحوم دوست فیضؔ کو پیش کیا وہ اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ ع ۔ دل راہ دارد۔
ادبی حوالوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب فیضؔ جیل میں تھے تو انھوں نے اپنی چند رومان نما انقلابی نظمیں جو فیضؔ کا خاص اسٹایل بھی تھا رضیہ سجاد ظہیر کو روانہ کرکے اس بات کا بھی طنز کیا کہ ان نظموں کو سردار جعفری کو نہ دکھانا ورنہ وہ مجھ پر قنوطیت کا الزام لگادے گا۔
فیضؔ نے اپنی مختلف تحریروں ‘ تقریروں اور خاص طور پر کئی انٹرویوز میں سردار جعفری کی شاعری اور تقری پسند تحریک سے وابستگی پر مثبت اور پر مضز گفتگو کی ہے۔ ایک آدھ مقام پر یہ بھی بتایا ہے کہ انھوں نے نہ صرف بعض اپنے جونیئر شعرا کے مضامین سے استفادہ کیا بلکہ اپنے ہم عصر شعرا جن میں سردار جعفری، مجاز،جاں نثار اختر، اور جذبیؔ کی شاعری سے بھی اثر لیا ہے۔ ان باتوں کے باوجود ہمیں سردار جعفری کی شخصیت پر فیضؔ کے اشعار نہیں ملتے شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ فیضؔ نے مخدوم، سجاد ظہیر اور بعض احباب اور شعرا پر ان کے انتقال پر اشعار لکھے جو ان کے کلام کا حصہ ہیں۔
سردار جعفری نے ہمیشہ فیضؔ کو گل سرسبد بناکر پیش کیا۔ سردار جعفری کی شاعری کا ایک مصروف مجموعہ "پتھر کی دیوار" اگست 1953ء ؁ میں شائع ہوا جس میں اٹھارہ غزلیں اور (29) انتیس نظمیں شامل ہیں۔ اور اس میں شامل زیادہ تر کلام سردار جعفری نے جیل میں لکھا تھا۔ اس مجموعہ کا نظم فیضؔ کے نام پر بھی ہے۔ اگرچہ نظم طویل ہے اس لیے ہم صرف اس کے چند بند یہاں پیش کرکے سردار جعفری کی قلبی واردات اور فیضؔ سے درد کے رشتے کو کسی حد تک بتانے کی کوشش کریں گے۔
فیض کے نام
کل تھا جب میں جیل میں تنہا
پتھر کے تابوت کے اندر
خاموشی کے سردکفن میں
لپٹے ہوئے تھے نغمے میرے
کالی سلاخوں کے جنگل میں
دوستوں کی اور محبوبوں کی
کھوئی ہوئی تھیں جب آوازیں
تیرے نغمے ساتھ تھے میرے
*
اور تری آواز کی شبنم گھانس کے لب ترکرجاتی تھی
گل کے کٹورے بھرجاتی تھی
شام کی رنگت بن کر اکثر
روئے جہاں پر چھاجاتی تھی
چاندنی کا ملبوس پہن کر
آم اور املی کے پیڑوں پر
تھک کر جیسے سوجاتی تھی
اور میں تیرے نازک میٹھے
*
میرے ہاتھ میں ہاتھ ہے تیرا
تیرے ہاتھ میں ہاتھ ہے میرا
سانس کا زیروبم ہے یکساں
ہم آہنگ ہے چاپ قدم کی
ایک ہی جادہ ایک ہی منزل
ایک ہی لیلےٰ ایک ہی محمل
ایک ہی مقصد ایک ہی حاصل
میٹھا رہے راوی کا پانی
ٹھنڈی رہیں گنگا کی لہریں
گائے کے تھن سے دودھ کی دھاریں
ساون بھادوں بن کر برسیں
*
اپنا مقصد ایک ہے ساتھی
اس مقصد کے آگے سارے
ظالم، دشمن،ڈاکو، قاتل
سہمے ہیں گھبرائے ہوئے ہیں
بستی بستی جنگل جنگ
ظلم کے بادل چھائے ہوئے ہیں
زنجیروں کے کالے حلقے
*
ظلم سے لیکن ڈرنا کیسا!
موت سے پہلے مرنا کیسا!
"بول کہ لب آزاد ہیں تیرے"
"بول زباں اب تک تیری ہے"
بول کہ کس قاتل کا دامن
خونِ بہاراں سے رنگیں ہے
کس کی گردن میں ڈالر کے
سونے کی زنجیر پڑی ہے
کس نے امریکہ کے ہاتھوں
خاکِ وطن کو بیچ دیا ہے
بیٹی اور بہن کے آنچل
ماں کے کفن کو بیچ دیا ہے
پیارے گیتوں کا گلدستہ
اپنے دھڑکتے دل سے لگائے
خواوں کی نیلی وادی میں
آہستہ آہستہ چلتا
جیل سے باہر آجاتا تھا
ظلم کے دل پر چھا جاتا تھا
*
آج مگر تو قید ہے ساتھی
کیسی ہے یہ قید کی دنیا؟
قلب و نظر کی محرومی ہے
تاریکی اور تنہائی میں
پتھر کی خاموش ہنسی ہے)
*
آج ہے جب تو جیل میں تنہا
میں اپنی آواز کا شعلہ
اور اپنی للکار کی بجلی
گیتوں کے ریشم میں رکھ کر
تیری خاطر بھیج رہا ہوں
یہ میری آواز ہے لیکن
صرف مری آواز نہیں ہے
جوشؔ ‘ فراقؔ ‘ آنندؔ اور بیدیؔ
عصمتؔ ‘ ساحرؔ ‘کرشنؔ اور کیفیؔ
میری زبان سے بول رہے ہیں
ہند کے سارے لکھنے والے
ناچنے والے، گانے والے
تیری جانب بھیج رہے ہیں
دل اور روح کے بیچ میں حائل
پھر بھی کوئی دیوار نہیں جو
زخموں کو تقسیم کرے گی

ڈاکٹر تقی عابدی کی ویب سائٹ پر یہی مضمون پ۔ڈ۔ف شکل میں
***
ڈاکٹر سید تقی عابدی، کناڈا
taqiabedi[@]rogers.com
1110 Secretariat Road, Newmarket, ON L3X 1M4, Canada
ڈاکٹر سید تقی عابدی

Faiz & Sardar Jafri, two sides of the coin of Progressive movement. Article: Dr Syed Taqi Abedi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں