عقد نکاح - علماء کرام کی ذرا سی توجہ پر نمایاں تبدیلی کا امکان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-02-15

عقد نکاح - علماء کرام کی ذرا سی توجہ پر نمایاں تبدیلی کا امکان

muslim-marriages
ریاست مہاراشٹرا کے ضلع بلڈانہ کا ایک چھوٹا سا قصبہ دھاڑ جس کی آبادی چار پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جہاں سبھی ذات دھرم کے لوگ بڑے خلوص اور محبت کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے سُکھ دکھ میں شرکت کرنا یہاں کی روایات میں شامل ہے۔ یہاں مسلمان اکثریت میں تو نہیں ہیں لیکن بہت حد تک غالب ہیں۔
عام ہندوستانی مسلمانوں کی طرح یہاں کے مسلمان بھی اُن ہی رسم و رواج کے پابند ہیں جو سماج نے از خود اپنے اوپر لازم قرار دے رکھا ہے۔ خصوصاً شادی بیاہ کے معاملات میں یہاں بھی منگنی کی رسم، تاریخ کی رسم، ہلدی، مہندی، سانچق، جوڑا، گھوڑا، جہیز، لین دین، فرمائشیں، اور باراتیوں کی ضیافت سب کچھ اسی طرح ہوتا آرہا ہے جیسے دیگر مقامات پر ہوتا ہے۔ یہاں بھی کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ رسم کی تقریب میں نوشہ کے رشتہ داروں کی خاطر مدارت میں کمی کا خمیازہ لڑکی کواس طرح بھگتنا پڑا کہ یا تو رشتہ ہی ٹوٹ گیا یا پھر زندگی بھر سُسرال والوں کے طعنے برداشت کرنا پڑے۔
انہی غیر شرعی رسومات کی وجہہ سے کبھی کبھی معاملات اتنے بگڑے کہ تو تو میں میں اور مار پیٹ کی بھی نوبت آگئی۔ شادی بیاہ کے انہی رسم و رواج نے نکاح کو اتنا مشکل بنادیا ہیکہ ان تقاضوں کی عدم تکمیل کی وجہ سے کئی غریب لڑکیاں اپنے ہاتھوں میں مہندی لگانے کے خواب دیکھتے دیکھتے ہی عمر کے آخری پڑاؤ میں داخل ہو رہی ہیں۔ انہی رسومات اور سماجی بندھنوں کی تکمیل میں کئی مفلس و لاچار والدین قرض کے بوجھ میں ایسے دب جاتے ہیں کہ زندگی بھر کبھی اُبھر ہی نہیں سکتے۔
جن کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہے وہ اپنے ارمانوں کی تکمیل، انا کی تسکین، اور واہ واہی کے شوق میں اس قدر اصراف کر رہے ہیں کہ غریب والدین اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، مگر رسم دنیا نبھانے کے لئے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

یہ صورت حال کسی ایک شہر یا علاقہ کی نہیں بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کا حال یہی ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ ہمارے اکابرین کے پاس، قوم کے رہنماؤں کے پاس، دینی اداروں کے پاس، ائمہ اور خطیبوں کے پاس، مفتیان دین کے پاس، سماجی اور فلاحی اداروں کے پاس۔۔۔ اس کا کوئی کوئی حل موجود نہیں، سب کے سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں یا اپنے آپ کو بےبس سمجھنے لگے ہیں۔
اصلاح معاشرہ کے عنوان سے تقریریں کرنے ، اجلاس طلب کرنے سے بڑھ کر کوئی عملی اقدام کرنے کی کسی میں ہمت اور جرات باقی نہیں رہی۔ ہر کوئی اسے انفرادی معاملہ کہہ کر اس سے پیدا ہونے والی سماجی بُرائیوں کو نظر انداز کر رہا ہے۔

ایسے ہی نازک وقت میں دھاڑ کے علماء و اکابرین نے اپنے فرائض منصبی کو محسوس کرتے ہوئے اس بُرائی کے خاتمہ کے لئے جو اقدامات کئے وہ نہ صرف یہ کہ لائق تحسین ہیں بلکہ پورے ملک کے لیے قابل تقلید بھی ہو سکتے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ قاسم العلوم کے ناظم اعلی حافظ مختار خان صاحب کی سرپرستی میں دھاڑ کے اکابرین ، علماء ، حفاظ اور مفتیان نے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے عملی اقدام کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے ایک اجلاس میں کچھ سخت فیصلے کئے اور باضابطہ ایک اعلان کے ذریعہ عوام کو ان کا پابند بنا دیا۔

5/نومبر 2015ء کو جاری کردہ اعلان حسب ذیل ہے۔
(1) آج کی تاریخ سے دھاڑ شہر میں کہیں بھی رسم (منگنی ) نہیں ہوگا، صرف آنے والے مہمانوں کی میزبانی اور ان کا اکرام کیا جائے۔
(2) رسم (منگنی) میں کوئی بھی شخص اپنے محلے کے امام کو یا کسی حافظ، عالم کو رسم کے اعلان کے لئے زبردستی بالکل نہ کرے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس شخص کو پانچ ہزار روپئے جرمانہ ادا کرنا ہوگا، اور اگر کوئی امام یا عالم حافظ بھی جاتا ہے تو اس کو بھی پانچ ہزار روپیے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
(3) شادیوں میں کسی بھی قسم کا کوئی چندہ نہیں ہوگا، نہ گاؤں کا نہ باہر گاؤں کا کوئی اعلان کرے گا۔
(4) شادیوں میں کسی بھی قسم کا کوئی ستکار (استقبال، گل پوشی وغیرہ) نہیں ہوگا۔
(5) شادی کی رات میں جو موسیقی اور گانے وغیرہ بجائے جاتے ہیں وہ مکمل بند ہونا چاہئے ورنہ سخت کاروائی ہوگی، نیز وقت کی پابندی کا پورا پورا خیال رکھا جائے، حتی الامکان نکاح مسجد میں منعقد ہو، اور شادی میں ہونے والی تمام غیر اسلامی رسومات کا خاتمہ کیا جائے اور سنتﷺ کی روشنی میں شادی کی تمام کاروائی انجام دی جائے
(6) شادیوں میں دلہن کے گھر ہونے والے بڑے بڑے پکوانوں کا سلسلہ ختم کیا جائے اور دلہے کے گھر مناسب ولیمہ کی کوشش کی جائے۔
(7) شادیوں میں ویڈیوشوٹنگ بالکل نہ کریں، ہلدی اور نہاری کے نام پر ہونے والی خرافات کا خاتمہ کیا جائے۔
(8) اپنے گھر کی عورتوں کو مارکٹ (بازار) میں جانے سے سختی سے روکا جائے، اگر ضرورت ہو تو اپنے محرم کے ساتھ ہی جائیں۔

مندرجہ بالا قراردادیں جو آپ کے سامنے پیش کی گئی ہیں ان کا مقصد صرف یہ ہیکہ عوام کو خرافات اور فضول خرچی سے بچایا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان تمام اقدام کو قبول کرکے اپنی مدد سے کامیاب بنائے اور ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق و استقامت عطا فرمائے۔
منجانب:
جمیع علماء و حفاظ کرام و ذمہ داران، دھاڑ ضلع بلڈانہ۔

الحمدللہ آج تین ماہ کا عرصہ گزر گیا، اس بیچ شہر میں بے شمار تقاریب کا انعقاد عمل میں آیا لیکن کسی مسلمان نے ان ہدایات کے خلاف عمل کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ آج بھی عوام الناس علماء کی ہدایات پر عمل کرنے کو اپنے لئے لازم سمجھتے ہیں اور انحراف کی صورت میں آخرت کی رسوائی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سوشل بائکاٹ سے خوف زدہ رہتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک سخت فیصلہ اورنگ آباد شہر کے قاضی حضرات نے کیا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں بغیر سہرا، گھوڑا اور بینڈ باجے کے دولہا کی بارات کا تصوربھی نہیں تھا، گھنٹوں بارات شہر کی سڑکوں پر گشت کرتی ہوتیں باجے کی تال پر نوجوان تھرکتے رہتے، اور میزبان دولہا کے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے۔
جب شہر کے قاضیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج کے بعد وہ کسی ایسے شخص کا نکاح نہیں پڑھائیں گے جس کی بارات میں بینڈ باجا ہوگا۔ ابتدائی مرحلہ میں اس فیصلہ کی مخالفت بھی ہوئی لیکن جب عقد پڑھانا ہی مشکل ہو گیا تو دھیرے دھیرے بینڈ باجا ایسے غائب ہوگیا کہ نئی نسل اس سے واقف بھی نہیں ہے۔
یہ تحریک شروع تو ایک جگہ سے ہوئی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پوری اُمّت نے اس کو قبول کر لیا اور ملّت اسلامیہ ایک غیر شرعی فعل کے ارتکاب سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئی۔

آج بھی اگر علماء کرام اور اکابرین اُمّت اپنے اپنے علاقوں میں اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے کی ہمت کریں تو ناممکن نہیں کہ کچھ ہی عرصہ میں ملّت ان تما م خرافات سے چھٹکارا پالے جو دراصل برادران وطن کی روایات ہیں اور تبدیلی مذہب کے باوجود مسلم معاشرہ کا حصہ بنی رہیں۔
"نکاح کو آسان کرو" تحریک کے تحت آج مسلم نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ وہ جوڑا، گھوڑا، لین دین ، جہیز اور دیگر خرافات کو غیر شرعی اور اپنی عزت نفس کے خلاف سمجھنے لگے ہیں چنانچہ آئے دن اخبارات میں یہ خبر زینت بن رہی ہے کہ منگنی کرنے گئے اور شادی کرکے لوٹ آئے۔
جب دکھاوا نہیں ہوگا، شان شوکت کا مظاہرہ نہیں ہوگا، جہیز اور جوڑے کی رقم کا مطالبہ نہیں ہوگا تو پھر شادی میں تاخیر کیوں؟ جب جہاں جس وقت دونوں فریق ایک دوسرے کو پسند کرلیں وہیں چار لوگوں کے بیچ بیٹھ کر عقد نکاح کی تکمیل ہو سکتی ہے۔ اور دین اسلام ہم سے اِسی آسان نکاح کا تقاضہ کرتا ہے۔

اللہ سے دعا ہیکہ وہ ہمارے اکابرین اور علماء کرام کو ایسے سخت فیصلے کرنے کی توفیق اورہمت عطا کرے۔ کیونکہ یہ بات تقریباً طئے ہے کہ آج بھی مسلمانوں میں اگر کوئی انقلابی تبدیلی آسکتی ہے تو صرف اور صرف مسجد کے منبر و محراب سے ہی آسکتی ہے بس ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے ۔
(وما علینا الی البلاغ)

***
ظہیر الدین صدیقی (اورنگ آباد)
موبائل : 09890000552

Muslim marriages needs the attention of Muslim clerics. Article: Zaheeruddin Siddiqui

1 تبصرہ:

  1. مضمون بہت عمدہ ہے۔ جن تجاویز کو یہاں پیش کیا گیا ہے وہ بھی۔ حقیقی بات یہ ہے کہ اگر علماء کرام نکاح پڑھانے کے معاملے میں سختی برتے تو کئی بے جا رسمیں ترک کی جاسکتی ہیں اور اس کا خرچ بھی بچے گا جس کی ضرورت بہر حال ہے۔ لکھنے والے تو بے انتہا ہیں۔ ہر مبتدی سماجی مضمون کی شروعات جہیزسے ہی شروع کرتا ہے۔ جہیز اور بنت حوا پر ہونے والے مظالم کا اس طرح ذکر کیا جاتا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے سماج میں مرد ظالم ہے اور عورت مظلوم۔ جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ جہیز کے اکثر واقعات میں عورتوں کا ہاتھ یا عمل دخل زیادہ رہتا ہے۔ جس کا ثبوت آپ ہونے والے واقعات سے حاصل کر سکتے ہیں۔ دورِ حاضر میں نیک عورت تلاش کرنا بذاتِ خود ایک مسئلہ ہے۔ سادگی سے نکاح کرنے والے مرد اور عورت دونوں ہی ہیں۔ لیکن ڈھونڈنے میں ہی وقت گزر جاتا ہے۔ شادی سے پہلے میں نے ایک بزرگ دوست سے مشورہ کیا تو اُنکا جواب تھا۔ تمہاری جستجو اچھی ہے، اگر تم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم سب دوستوں میں تم بہتر ہوگے۔ عقیدہ کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ میاں عورتوں کا کوئی عقیدہ وقیدہ نہیں ہوتا، میں دادا نانا بن گیا اج تک سمجھ میں نہیں آیا۔
    اب رہی بات معاشرے میں بیوہ اور طلاق شدہ عورتوں کا تو اس سلسلے میں عورت خود اگر قبول کرنے کو تیار ہو جائے تو مرد ایک سے زائد نکاح کرکے اُن عورتوں کو سماج میں عزت دے سکتا ہے۔ لیکن کتنی فیصد عورتیں سوکناپے کو برداشت کر لیں گی؟
    ابھی میں ایک کتاب ’’شادی سے شادیوں تک‘‘ پڑھ رہا ہوں۔ جو دو مسلم امریکی خواتین اُمِّ عبدالرحمن ہرش فیلڈر اور اُمِّ یاسمین رحمن کی لکھی ہے۔ ہمیں نہیں پتا کہ یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی تھی کہ عربی میں لیکن اردو ترجمعہ محمد یحییٰ خان نے کی ہے دارالسلام لاہور کا پتا ہے لیکن ہندوستان میں بھی اس کی کاپی چھپی ہے۔
    اب تک جو میں نے پڑھا ہے اس میں ازواجِ مطہرات کے بارے میں بہت ہی بہتر طریقے سے وضاحت کی گئی ہے۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے سوکن پن کے ساتھ کیسے گزارہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ ساری احادیث میں نے طالب علمی کے زمانہ میں بھی پڑھی تھی لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں احادیث پر کم عمل ہوتا ہے ورنہ آج ہمارا معاشرہ اتنی بے راہ روی کا شکار نہ ہوتا۔
    اب رہی بات عملی قدم کی تو میں ایک اضافی نکاح کرسکتا ہوں ’’ایک بیوہ یا طلاق یافتہ جسے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے طلاق دی گئی ہو۔عمر چالیس سے پچاس سال کے درمیان ہو۔عورتوں اور بچوں کی نفسیات سے واقف ہو تا کہ سماجی کام میں تعاون پیش کر سکے۔ اللہ اور رسول کے فرمان کے مطابق زندگی گزارنے والی ہو یا اب طے کرلے توبھی۔ جو گزر گیا سو گزر گیا۔

    جواب دیںحذف کریں