انتظار حسین - ہند و پاک کے مابین ایک ادبی پل ٹوٹ گیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2016-02-02

انتظار حسین - ہند و پاک کے مابین ایک ادبی پل ٹوٹ گیا

intizar hussain
(چند سال قبل نئی دہلی کے ایوان غالب میں فکشن رائٹر جناب انتظار حسین کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس کی رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ آج جبکہ ان کا انتقال ہو گیا ہے، اس تحریر سے ان کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملے گا )۔

انتظار حسین کا فن کوئی پیچیدہ سائن بورڈ نہیں ہے۔وہ کسی نظریہ یا کسی فکر کی گرفت میں نہیں ہے۔انتظار حسین نہ تو ترقی پسند ہیں اور نہ ہی غیر ترقی پسند۔وہ چونکہ افسانہ نگار ہیں اس لئے شب و روزان کے لکھنے کا عمل جاری ہے۔جب بھی اردو افسانوں کا ذکر ہوگا، انتظار حسین کا بھی ہوگا۔ وہ ہند و پاک کے مابین ایک پل کا کام کر رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے ادیبوں ،شاعروں اور افسانہ نگاروں کے لئے ایک بہت اہم رابطہ بنے ہوئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار دہلی کے ممتاز ادیبوں نے کیا ہے۔ وہ ایک تقریب میں بول رہے تھے جو ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین کے اعزاز میں ایوان غالب میں منعقد کی گئی۔استقبالیہ کی اس تقریب میں دہلی کے اردو حلقے کی کریم موجود تھی۔مختلف شخصیات نے انتظار حسین کے فن پر اظہار خیال کیا اورآخر میں صاحب تقریب نے اپنا ایک افسانہ سنایا جسے بے حد پسند کیا گیا۔

مقررین کے مطابق انتظار حسین کسی ازم کے حلقہ بگوش نہیں ہیں۔ وہ نہ تو لیفٹسٹ ہیں اور نہ ہی رائٹسٹ۔ خود انہوں نے کہا کہ ان پر ان دونوں نظریات کا حامل ہونے کا الزام عائد کیا گیا لیکن ان کا ان نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انہیں رجعت پسند بھی کہا گیا اور یہ الزام انہوں نے تسلیم کر لیا۔ انتظار حسین ایک غیر جانبدار افسانہ نگار ہیں۔ وہ ایک صاف گو اور صاف دل شخصیت کے مالک بھی ہیں۔ان کے افسانوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بالکل سادہ ہوتے ہیں لیکن اس سادگی میں بھی ایک پرکاری ہوتی ہے جو قاری کو باندھے رکھتی ہے اور اس کی دلچسپی آخر تک قائم رہتی ہے۔انتظار حسین کا بیانیہ بھی بڑا سادہ مگر پر کشش اور دلچسپ ہے۔وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے واقعات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ ان کا ایک خاص اسلوب ہے اور اس اسلوب میں وہ طاق ہیں۔وہ ایک غیر جانبدار ادیب اور قلمکار کا رول بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ان کے افسانے سیاسی موضوعات پر بھی ہیں مگر ان میں سیاست کہیں نظر نہیں آتی۔یہ ان کی بڑی خوبی ہے۔ وہ خود ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے ایک دوست نے یہ شکایت کی کہ’ ان کے افسانوں میں عورت نہیں ہے‘۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ارے! میرے افسانوں میں تو اتنی ساری عورتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں عورتیں ہیں مگر عورت نہیں ہے۔اسی طرح ان کے افسانوں میں سیاسی موضوعات بھی ہیں مگر ان میں کوئی سیاست نہیں ہے۔سیدھی سادی اور سچی باتیں ہیں اور بات کو آگے لے جانے کا خاص انداز ہے۔ہاں وہ اشارے کنائے ضرور دیتے ہیں۔ سمجھنے والا انہیں سمجھ جاتا ہے۔ان کے افسانوں میں بعض اوقات بہت سی متضاد چیزیں بھی اکٹھا ہو جاتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلاں بات بھی ممکن ہے اور فلاں بات کا بھی امکان ہے۔ان کے افسانوں کے تجربات کی مختلف اور متعدد سطحیں ہیں اور ہر سطح بھر پور اور مکمل ہے۔انہوں نے ادب کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں ممکنات واضح ہو جاتے ہیں۔وہ بہت وسیع بھی ہیں جنھیں نقادوں کے ساتھ ساتھ عام قاری بھی محسوس کر لیتا ہے۔

مقررین نے مزید کہا کہ انتظار حسین اتنے صاف گو ہیں اور اپنے بارے میں اس طرح باتیں کرتے ہیں اور ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ وہی باتیں ان کے بارے میں ان کے بدترین ناقد بھی کریں گے۔ناصر کاظمی نے میر تقی میر پر لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ہر بڑا شاعر مرنے کے بعد قبیلے چھوڑ جاتا ہے اور جس کے جو کچھ ہاتھ لگتا ہے وہ اسے لے بھاگتا ہے۔ انتظار حسین کے یہاں بھی بہت سے قبیلے ہیں۔انتظار حسین نے اپنے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ان کا دہلی سے بھی ایک خاص ربط ہے اور اس کا ثبوت ان کی وہ کتاب ہے جس کا نام ہے ’دلی جو ایک شہر تھا‘ اور جو ایک یادگار تصنیف ہے۔
انتظار حسین کے افسانوں میں داستانوی کیفیت ہونے کے باوجود وہ اپنے عہد سے الگ نہیں ہیں اور ان میں ان کا پورا دور نظر آتا ہے۔ وہ اپنے عہد کو اپنے افسانے میں پیش کرتے ہیں۔انہوں نے مکمل طور پر ایک ادیب کی طرح خود کو اور سماج کو اور عہد کو دیکھا ہے اور برتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے افسانے عصر حاضر کا آئینہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔آج کے دور میں کچھ ہی ایسے لکھنے والے ہیں جو روح کو واقعی اپنے قبضے میں کر لینے کا ہنر جانتے ہیں اور انتظار حسین اسی فہرست میں شامل ہیں۔

انہوں نے اردو افسانے کو نئے فنی اور معنیاتی امکانات سے آشنا کرا یا ہے اور اردو افسانے کا رشتہ بیک وقت داستان، حکایت، مدہبی روایات، قدیم اساطیر اور دیو مالا سے ملا دیا ہے۔داستانوں کی فضا کو انہوں نے نئے احساس اور نئی آگہی کے ساتھ کچھ اس طرح برتا ہے کہ افسانے میں ایک نیا فلسفیانہ مزاج اور نئی اساطیری و داستانی جہت سامنے آگئی ہے۔وہ فرد و سماج، حیات و کائنات اور وجود کی نوعت اور ماہیت کے مسائل کو رومانی نظر سے نہیں دیکھتے، نہ ہی ان کا رویہ محض عقلی ہوتا ہے۔بلکہ ان کے فن میں شعور اور لا شعور دونوں کی کارفرمائی ملتی ہے اور ان کا نقطہ نظر بنیادی طور پر روحانی اور ذہنی ہے۔وہ انسان کے باطن میں سفر کرتے ہیں۔روح کے اندرون میں نقب لگاتے ہیں اور زمانے کے مسائل کو ، افسردگی کو اور کشمکش کو تخلیقی انداز میں پیش کر دیتے ہیں۔وہ پیچیدہ سے پیچیدہ خیال اور نازک سے نازک بات کو بھی انتہائی سادگی اور حسن کاری کے ساتھ بیا ن کر دیتے ہیں۔وہ احساسات کے بوجھل پن کو اور بوجھل نہیں بناتے بلکہ اس کو اور سرل اور آسان کر دیتے ہیں۔جب ان کے افسانے دیو مالائی انداز اختیار کرتے ہیں تو ان کی زبان اور لب و لہجہ بھی بدل جاتا ہے جس سے افسانے میں ایک اوریجنلٹی پیدا ہو جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک سچے واقعہ کو اپنے انداز میں بیان کر رہے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا انداز بیان اور طرز نگارش واقعات میں ایک نیا پن پیدا کر دیتا ہے۔جو قاری کو بور ہونے سے نہ صرف بچاتا ہے بلکہ اس کی دلچسپی کو بھی بدرجہ اولی قائم کر دیتا ہے۔

انتظار حسین کے نزدیک آدمی صرف اتنا ہی نہیں ہے جتنا وہ نظر آتا ہے بلکہ اس کے رشتے خارج سے زیادہ اس کے باطن میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان کے زیادہ تر افسانے ان چہروں اور ان لمحوں کو یاد کرنے کے عمل سے وابستہ ہیں جنھیں وقت نے دور کر دیا ہے۔ان کی دانست میں یادداشت انفرادی اور اجتماعی تشخص کی بنیاد ہے یہی وجہ ہے کہ نظروں سے اوجھل لوگوں کو انتظار حسین بلا بلا کر اپنے افسانوں کے شہر خیال میں بساتے چلے جاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ یادداشت نہ ہو تو ماضی بھی نہیں رہتا اور ماضی نہ ہو تو بنیاد اور جڑیں کچھ بھی نہیں رہتا۔وہ خود اپنے کرداروں کے بارے میں کہتے ہیں:’یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب میں نے ابھی ابھی افسانہ لکھنا شروع کیا تھا۔جو لوگ اچانک آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تھے وہ مجھے بے طرح یاد آرہے تھے۔یہ وہ لوگ تھے جنہیں میں نے اپنی بستی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔مگر پھر وہ لوگ بھی یاد آتے تھے جو منوں مٹی میں دبے پڑے تھے۔میں اپنی یادوں کے عمل سے ان سب کو اپنے نئے شہر میں بلا لینا چاہتا تھا کہ وہ پھر اکٹھے ہوں اور میں ان کے واسطے سے اپنے آپ کو محسوس کر سکوں‘۔
اس استقبالیہ تقریب میں اظہار خیال اور شرکت کرنے والوں میں پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،ڈاکٹر کمال احمد صدیقی، ڈاکٹر خلیق انجم، سعودی سفارت خانہ کے کلچرل اٹیچی ابراہیم بن محمد، ضمیر احمد دہلوی، ڈاکٹر شاہد ماہلی، مجتبی حسین، ولی عالم شاہین کناڈا، امیر جعفر امریکہ،ڈاکٹر ارتضی کریم، ڈاکٹر ابن کنول، پروفیسر صادق، ڈاکٹر اسلم جاوید،ڈاکٹر اسلم پرویز، ڈاکٹر رضا حیدر، فصیح اکمل قادری، ڈاکٹر شاہینہ تبسم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اس پروقار تقریب میں انتظار حسین نے اپنا افسانہ ’پچھتاوا‘ سنایا اور خوب داد وصول کی۔ افسانے کا ہیرو گھیسو پیدا ہونا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس نے شکم مادر ہی میں ماں سے گفتگو کے دوران یہ معلوم کر لیا تھا کہ سکھ صرف ماں کے پیٹ میں ہے۔ جیون تو سارا دکھ ہی دکھ ہے۔لیکن باپ کے سوالوں اور ماں کی باتوں کے آگے وہ مجبور ہو گیا اور بقول اس کے اس نے ماں کے بھرّے میں آکرپیدا ہونے کی غلطی کر دی اور جیون بھر دکھ جھیلتا رہا۔تقریب کے صدر معروف ہندی کہانی کار ریوتی شرن شرما تھے۔ جب وہ صدارتی تقریر کرنے آئے تو انہوں نے کہا کہ میں بھی بھرّے میں آگیا اور صدر بن گیا لیکن میں وہ غلطی نہیں کروں گا جو گھیسو نے کیا تھا۔جو زیادہ بولتا ہے وہ زیادہ دکھ سہتا ہے اور میں نہ بولوںگا نہ دکھ سہوں گا۔اور پھر شکریہ کہہ کر ڈائس سے اتر آئے۔

***
Suhail Anjum
sanjumdelhi[@]gmail.com
سہیل انجم

Intezar Husssain, The collapse of a literary bridge between India and Pakistan. Article: Suhail Anjum

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں